گوادر میں صورت حال کشیدہ ہوگی ،حکومت تنقید کے نشانے پر
بلوچستان کے علاقے گوادر میں گزشتہ کچھ دنوں سے صورتحال بہت ہی زیادہ کشیدہ ہو گئی ہے اور سیاستدان اس کی ذمہ داری حکومت پر ڈال رہے ہیں۔ اسی تناظر میں گرفتاریاں بھی کی گئی ہیں۔
حکومت نے صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کیا ہے جبکہ دفعہ 144 لگا کر ہر طرح کے مجمع پر پابندی لگا دی ہے۔ واضح رہے کہ کچھ دنوں پہلے حق بچاؤ تحریک نے حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے اور پورے گوادر میں اس حوالے سے دوبارہ احتجاج کا اعلان کیا تھا۔ گزشتہ کچھ مہینوں سے وہاں اکا دکا جلوس نکل رہے تھے لیکن اس میں شدت حالیہ کچھ دنوں میں۔
صوبائی وزیر داخلہ ضیا لانگو نے واضح کیا کہ حکومت کسی کو بھی ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
گوادر اور ساحلی علاقوں میں جمعرات کے دن کاروباری زندگی تقریبا معطل رہا جب کہ دوسرے ساحلی علاقوں میں بھی صورتحال کوئی بہت زیادہ خوشگوار نہیں تھی۔
کیا مسائل حل کیے جا سکتے ہیں
سیاستدان اور سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ حکومت اس صورت حال کی ذمہ دار ہے۔ بلوچستان حکومت کے سابق ترجمان اور نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل جان محمد بلیدی کانے بتایا کہ مظاہرین کے دو مطالبات ہیں جنہیں آسانی سے تسلیم کیا جا سکتا ہے اور مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’مظاہرین کا ایک مطالبہ یہ ہے کہ حکام پیسے لے کر ایسی گاڑیوں کو ایران سے تیل اور دوسری اشیا لانے کی اجازت دے رہے ہیں، جنہیں قانونی طور پر اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ سندھ سے کشتیاں آکر بلوچستان کی حدود میں مچھلیاں پکڑ رہی ہیں اور وہ انتہائی ماحول دشمن انداز میں مچھلیاں پکڑ رہے ہیں، جس میں وہ چھوٹی چھوٹی مچھلیاں اور یہاں تک کے انڈے بھی لے جاتے ہیں۔‘‘
جان محمد بلیدی کےنے اپنے بیان میں بتایا کہ مسائل اتنے گھمبیر نہیں ہیں لیکن حکومت کی ہٹ دھرمی اور مقامی حکام کی نااہلی کی وجہ سے صورتحال خراب ہو رہی ہے۔
پچیس لاکھ لوگوں کا روزگار
گوادر میں ماہی گیروں کی تنظیم کے سربراہ خداداد واجو کا کہنا ہے کہ ماہی گیر کئی برسوں سے حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ سندھ سے آنے والے ٹرالرز پر پابندی لگائے لیکن حکومت نے ان کی بات نہیں سنی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” یہ ٹرالرز آکر نہ صرف مقامی ماہی گیروں کا معاشی قتل عام کر رہے ہیں بلکہ یہ مچھلیوں کی بھی نسل کشی کر رہے ہیں۔ جس طریقے سے سندھ کے ٹرالرز مچھلیاں پکڑتے ہیں، اس طریقے پر دنیا میں پابندی ہے۔‘‘
خداداد واجو کا دعویٰ ہے کہ کیونکہ ٹرالرز والوں کے تعلقات بااثر شخصیات سے ہیں۔ اسی لیے حکومت ان کے خلاف کچھ نہیں کرتی۔ ”حکام رشوت لے کر ان ٹرالرز کو بلوچستان کے پانی میں مچھلیاں پکڑنے کی اجازت دیتے ہیں، جس سے 25 لاکھ سے زائد ماہی گیروں کا روزگار خطرے کا شکار ہو گیا ہے۔‘‘
بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی اختر حسین لانگو بھی اپنی توپوں کا رخ حکومت کی طرف کرتے ہیں۔ تاہم وہ مولانا ہدایت الرحمن کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ اختر حسین لانگو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” پہلے مولانا کو لا کر بٹھایا گیا اور اب اسے منانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن انہوں نے بات چیت کرنے سے انکار کر دیا اور انہوں نے ہتھیار بھی لہرائے، جو غیر ذمہ دارانہ رویہ تھا۔‘‘
حکومت پر اس طرح کے الزامات صرف مخالف سیاسی جماعتوں کی طرف سے ہی نہیں آرہے تھے بلکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے ایک سینیٹر نے بھی حکومت کو ہدف تنقید بنایا۔ اس سینیٹر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”بدقسمتی سے ہماری ہماری ہی پارٹی بلوچستان پر حکومت کر رہی ہے لیکن یہ لوگوں کے جائز مطالبات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، جس کی وجہ سے نہ صرف گوادر بلکہ پوری ساحلی پٹی میں کشیدگی ہے اور اس کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔‘‘
رٹ چیلنج کرنے کی اجازت نہیں
بلوچستان کی حکمراں جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر برائے کمیونیکیشن و تعمیرات سردار عبدالرحمان کھیتران کا کہنا ہے کہ حکومت کسی کو بھی ریاستی رٹ کو چیلنج نہیں کرنے دے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”یہ ملا ہدایت ا لرحمان کسی کا ایجںٹ لگتا ہے۔ گوادر میں بندرگاہ کام کر رہی ہے۔ آئل ریفائنری کے حوالے سے بات چیت ہو رہی ہے اور وہاں پر یہ انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے، جسے کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ریاستی رٹ کو چاہے ہدایت الرحمان چیلنج کرے یا سرمچاری، دونوں سے سختی سے نمٹا جائےگا۔‘‘
سردار عبدالرحمان کھیتران کا عوامی مسائل کے حوالے سے کہنا تھا کہ حکومت انہیں حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کھلے سمندر میں دنیا بھر میں غیر قانونی کام ہوتے ہیں۔ حکومت غیر قانونی کاموں کو روکنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس کے علاوہ سرحدی تجارت کے مسئلے پر بھی حکومت کی نظر ہے اور ان کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
شکریہ ڈی ڈبلیو نیوز