چئیرمین پی سی بی کی تقرری ہمیشہ سیاسی ہی ہوتی ہے، نجم سیٹھی
سینئیر صحافی اور تجزیہ کار نجم سیٹھی کی چیئرمین پی سی بی کے عہدے پر دوسری مرتبہ تقرری کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ سیاسی بھرتیوں سے ملکی کرکٹ متاثر ہوتی ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چئیرمین نجم سیٹھی نے اپنی تقرری کے حوالے سے تنقید کا جواب دیتے ہوئے یہ تسلیم کیا ہے کہ چئیرمین پی سی بی کی تقرری ہمیشہ سے سیاسی بنیادوں پر ہی کی جاتی رہی ہے۔ تاہم ان کے بقول ان سیاسی تقرریوں کے نتیجے میں بعض لوگوں کی کارکردگی بطور چئیرمین اچھی رہی جبکہ کچھ لوگ پرفارم نہیں کر سکے۔
ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی بات چیت کرتے ہوئے نجم سیٹھی کا کہنا تھا، ”احسان مانی سے لے کر رمیز راجہ تک ہر تقرری سیاسی بنیادوں پر ہی کی گئی۔ فوج کے دور میں تو جرنیل بھی پی سی بی کی سربراہی کرتے رہے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ اس دوران کچھ کرکٹر بھی چئیرمین کے عہدے پر رہے لیکن اس بات کی کوئی قانونی پابندی نہیں کہ چئیرمین صرف وہی ہوگا جس نے قومی سطح پر کرکٹ کھیل رکھی ہے۔‘‘
نجم سیٹھی کامزید کہنا تھا، ”یہ ایک انتظامی عہدہ ہے اور بہت سے دوسرے اداروں کی طرح وزیر اعظم اس کا پیٹرن ان چیف ہے، جس کی وجہ سے یہ اس کا اختیار ہے کہ وہ جس کو چاہے اس عہدے پر لگائے۔‘‘
سیٹھی پر تنقید کیوں؟
نجم سیٹھی کو حال ہی میں رمیز راجہ کی جگہ کرکٹ بورڈ کا سربراہ بنایا گیا ہے۔ سیٹھی کی تقرری ایک ایسے وقت میں کی گئی، جب پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ہوم گراؤنڈ پر مہمان انگلش ٹیم کے ہاتھوں وائٹ واش کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کے بعد کرکٹ شائقین اور ناقدین جو پہلے ہی مایوسی کا شکار تھے، اُنہیں نجم سیٹھی کی آمد پر یہ کہنے کا موقع ملا کہ سیاسی بھرتیوں نے پاکستانی کرکٹ کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔
نجم سیٹھی کی زیر صدارت ایک چودہ رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے، جس میں شامل کچھ دیگر ناموں پر بھی اعتراض کیا جا رہا ہے۔ ان میں ایک نام سپریم کورٹ کے وکیل مصطفٰی رمدے کا بھی ہے۔ وہ سپریم کورٹ کے سابق جج خلیل الرحمن رمدے کے صاحبزادے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ سابق وزیر اعظم عمران خلاف کے خلاف ہتک عزت کے دعوے میں وزیر اعظم شہباز شریف کے وکیل بھی ہیں۔
مصطفٰی رمدےکی کمیٹی میں موجودگی کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں نجم سیٹھی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،” جب بھی نئی منیجمنٹ آتی ہے، بہت سے لوگ اٹھ کر اس کے خلاف عدالت پہنچ جاتے ہیں۔ تو ہمارے خیال میں اس طرح کی غیرضروری قانونی چارہ جوئیوں کے خلاف ایک مظبوط دفاع کی ضرورت تھی۔ مصطفی ایک پیشہ ور اور مظبوط وکیل ہے۔ میرے خیال سے اس کے قانونی لڑائیاں سنبھالنے کے بعد ہمیں بورڈ میں اپنی زمہ داریاں سنبھالنے کا بہتر موقع ملےگا۔‘‘
پروفیشنلز کی شمولیت
تاہم اس کے ساتھ ساتھ کمیٹی میں کچھ پروفیشنل کرکٹرز جیسے کہ سابق کپتان شاہد آفریدی اور خواتین کی قومی ٹیم کی سابقہ کپتان ثنا میر کی تقرریوں کو کو سراہا بھی جا رہا ہے۔کرکٹ کے امور پر مہارت رکھنے والے ڈاکٹر نعمان نیاز کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیٹھی صاحب نے بین الاقوامی کرکٹ پاکستان واپس لانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ڈاکٹر نسیم اشرف اور ذکا اشرف بھی کرکٹ واپس لانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن سوچ میں جو جدت نجم سیٹھی کے پاس تھی، وہ شاید دوسروں کے پاس نہیں تھی۔‘‘
ڈاکٹر نعمان نیاز کے مطابق سیٹھی نے بڑی ہی مہارت سے زمبابوے کو قائل کیا کہ وہ پاکستان آئے، ”اس کے بعد جنوبی افریقہ کی بھی ایک ٹیم آئی اور پھر پی ایس ایل ایک اچھا آئیڈیا تھا۔ اس کے لیے کھلاڑیوں کو اچھا معاوضہ دیا گیا۔ میں یہ بھی کہنے چاہوں گا کہ جنرل باجوہ، وسیم خان اور دوسرے لوگوں نے بھی کرکٹ کی بحالی میں ایک کردار ادا کیا۔ بحیثیت مجموعی نجم سیٹھی کامیاب چیئرمین پی سی بی رہے۔‘‘
کرکٹ کی بحالی کے ذمے دار کرکٹر
پاکستان ٹیلی وژن کی طرف سے کئی برسوں تک اسپورٹس کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی عصمت اللہ نیازی کے خیال میں پی سی بی کا چیئرمین کسی کرکٹر کو ہی ہونا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”صحافیوں کے حوالے سے یہ تاثر ہے کہ وہ اپنی صحافت کے ذریعے حکومتی عہدوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور کئی صحافیوں نے ایسا کیا بھی، جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ میرے خیال میں پی سی بی کا چیئرمین کسی پروفیشنل کرکٹر کو ہونا چاہیے۔ رمیز راجہ کو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے کرکٹ کے لیے کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے بہترین پچیں بنوائی اور اسٹیڈیموں کی تزئین و آرائش کرائی۔‘‘
عصمت اللہ نیازی کے مطابق اگر کسی کو یہ مسئلہ ہے کہ رمیز راجہ عمران خان کے قریب تھا، تو پاکستان میں بہت سارے تجربے کار کرکٹرز ہیں، جنہیں چیئرمین بنایا جا سکتا ہے اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، ”بار بار ایک ہی شخص کو چیئرمین بنانا باصلاحیت کرکٹرز کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔‘‘
نجم سیٹھی کون ہیں؟
کہا جاتا ہے کہ زمانہ طالب علمی میں نجم سیٹھی مارکسی خیالات سے متاثر ہوئے اور انہوں نے ستر کی دہائی میں بلوچستان میں چلنے والے فوجی آپریشن کی مخالفت کی۔ نجم سیٹھی نے بعد میں ایک پبلشنگ ادارہ بھی شروع کیا اور 1989 میں دی فرائیڈے ٹائمز کے نام ایک میگزین بھی شروع کیا، جو اب نیا دور میڈیا کے ساتھ انضمام کر چکا ہے۔
سیٹھی اور تنازعات
نجم سیٹھی وفاقی وزیر اور قائم مقام وزیر اعلی پنجاب کے طورپر بھی اپنے فرائض انجام دے چکے ہیں اور اس دوران وہ کچھ تنازعات کا شکار بھی ہوئے۔ سب سے بڑا تنازع اس وقت پیدا ہوا، جب پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان نے ان پر یہ الزام لگایا کہ سیٹھی 2013ء کے الیکشن میں 35 نشستوں پر دھاندلی کے ذمہ دار ہیں۔ عمران خان نے اس کے لیے پینتیس پنکچرز کی اصلاح استعمال کی۔ یہ الزامات بعد میں غلط ثابت ہوئے اور عمران خان نے انہیں سیاسی بیان کہہ کر ٹال دیا کیا۔