رپورٹس

طلاق پر فیصلہ: حقوق نسواں کی تنظیموں کی طرف سے خیرمقدم

پاکستان میں حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی خواتین کارکنان نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جس میں عدالت نے کہا ہے کہ مرد کے ظالمانہ، بے رحمانہ اور نا مناسب رویے کی بنیاد پر بھی طلاق لی جا سکتی ہے۔

عدالت نے یہ فیصلہ پشاور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کو رد کرتے ہوئے دیا۔ ٹرائل کورٹ نے بھی سپریم کورٹ کی طرح عورت کو یہ حق دیا تھا لیکن بعد میں اپیلیٹ کورٹ اور ہائی کورٹ نے اس حق کو مسترد کرتے ہوئے، اسے خلع میں تبدیل کردیا تھا۔

کیا مہنگی شادیاں کامیاب ازدواجی زندگی کی ضامن ہیں؟

پاکستان میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کی سربراہی جسٹس سردار طارق محمود نے کی۔ عدالت نے کہا کہ شوہر اپنے ظالمانہ، بے رحمانہ اور نا مناسب رویے کے باوجود از دواجی حقوق کا دعویٰ نہیں کر سکتا اور اس طرح کا دعویٰ محض اس لیے کیا جاتا ہے کہ تاکہ عورت کو نان نفقہ نہ دینا پڑے یا حق مہر ادا نہیں کرنا پڑے۔

بینچ کے ایک دوسرے رکن جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس کیس میں اصل مسئلہ یہ تھا کہ کیا مدعی طیبہ امبرین کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ظلم کی بنیاد پر اپنی شادی کو ختم کروائے۔ اپیلٹ کورٹ نے اس حوالے سے شادی کے خاتمے کو خلع میں تبدیل کیا ہے اور کیا یہ اقدام قانونی طور پر صحیح ہے کہ نہیں ہے۔

جسٹس مظہر نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ہائی کورٹ نے نے اپیلیٹ کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا اور اس بات کو نظر انداز کیا کہ بدسلوکی اور ظالمانہ رویہ کے الزامات مدعی کی طرف سے ٹرائل کورٹ میں ثابت کر دیے گئے تھے۔

پاکستان میں حقوق نسواں کے کارکناناس فیصلے کو بہت مثبت قرار دے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے تشدد کی شکار خواتین کو بھی فائدہ ہوگا اور ان خواتین کو بھی جو طلاق حاصل کرنا چاہتی ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس یعنی 2021 میں خواتین کے خلاف مختلف نوعیت کے تشدد کے تقریبا باون ہزار تین سو سترواقعات ہوئے۔ اس میں صرف آٹھ ہزار سات سو انیس میڈیا کی توجہ حاصل کر سکے۔ خواتین کے خلاف تشدد کے جرائم میں سب سے زیادہ مقدمات پنجاب میں درج ہوئے۔

ناقدین کا خیال ہے کہ جرائم کی تعداد بہت زیادہ ہے اور بہت سے جرائم بالکل رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی حقوق نسوان کی کارکن فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے خواتین کے خلاف جرائمکو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” مرد بے خوف و خطر خواتین کے خلاف تشدد کرتے ہیں اور خواتین کے پاس آسان راستہ صرف خلع کا ہوتا ہے۔ لیکن خلع کی شکل میں خواتین کو اپنے حقوق سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ لیکن اب مردوں کو جب مالی نقصان کا خوف ہوگا تو وہ شاید خواتین پر تشدد کرنے سے پہلے کئی بار سوچیں گے۔‘‘

فرزانہ باری کے مطابق عدالت نے اس بات کا بھی مشاہدہ کیا ہے کہ مرد کا رویہ نامناسب، بے رحمانہ اور ظالمانہ تھا اور اس بنیاد پر طلاق دی جا سکتی ہے۔ ”میرے خیال میں پشاور ہائی کورٹ کو اس بات کا نوٹس لینا چاہیے تھا۔ اگر مرد کا رویہ متشدد ہے تو عدالت کو اپنی طرف سے بھی یہ حکم دینا چاہیے تھا کہ اس مرد کے خلاف الگ سے ایک مقدمہ بنے۔‘‘

ان کے خیال میں قانونی طور پر صرف تشدد سے متاثرہ خاتون ہی عدالت سے رجوع کر سکتی ہے۔ ” لیکن کیونکہ خواتین کے پاس مالی وسائل نہیں ہوتے اس لیے عدالت اور ریاست کو اس میں آگے آنا چاہیے اور انہیں بغیر معاوضے کے قانونی مدد فراہم کرنے چاہیے۔‘‘

 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com