متفرقات
کالج میگزین”تھل“ کا سفر
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کی عمر جتنی لمبی ہے لگ بھگ اتنی ہی اس کالج سے چھپنے والے میگزین”تھل“کی ہے۔”تھل“میگزین لگ بھگ 58سال سے کبھی باقاعدہ اور کبھی بے قاعدہ اشاعت کے مراحل طے کر تا آرہا ہے۔تھل میگزین کے پہلے شمارے کی سرپرستی سید فضل حسین شاہ(سربراہ ادارہ)نے کی،جبکہ مجلس ادارت میں محمد عبدالعزیز،ملک حسن اختر،محمد شوکت نیازی،ایس اے بخاری الحمزا اور حافظ محمد ادریس تھے۔ یہ میگزین ۸۵سال میں ۵۱بارشایع ہو سکا۔ان ۵۱ میں سے ایک ”اردو ادب نمبر“۱۰۰۲،گولڈن جوبلی نمبر۸۰۰۲،تخلیقی ورثہ نمبر۴۱۰۲ اور تنقیدی و تحقیقی نمبر۵۱۰۲ بھی شامل ہیں جبکہ مذکورہ میگزین کو یہ اعزاز بھی جاتا ہے کہ اس کی ادارت کے فرائض برصغیر کے نامور ترقی پسند اورانقلابی شاعر وادیب ڈاکٹر خیال امروہوی نے ۸۶۹۱میں ادا کئے۔جبکہ دیگر نامور مدیران میں ڈاکٹر ظفر عالم ظفری،محمد نواز صدیقی،پروفیسر مہر اختر وہاب،شفقت بزدار،ڈاکٹر افتخار بیگ شامل ہیں۔
کالج کے ”تھل“ میگزین پر۵۰۰۲ء میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کی ہونہار طالبہ ریحانہ تبسم نے ایم۔اے کا تحقیقی مقالہ پروفیسر ڈاکٹر ظفر عالم ظفری کی نگرانی میں لکھا جس کا عنوان ”گورنمنٹ کالج لیہ میگزین”تھل“کا توضیحی اشاریہ و خدمات“تھا۔اپنے تحقیقی مقالہ میں ریحانہ تبسم لکھتی ہیں:۔
”گورنمنٹ کالج لیہ سے نکلنے والا”تھل“میگزین طلباء و قارئین کے ادبی ذوق بالخصوص طلباء کے ذوق نظر کے لیے اور ان کی ادبی تربیت کے لیے ایک بنیادی پلیٹ فارم کی حیثیت رکھتا ہے“۱
میگزین کی افادیت کا انداز اس میں موجود تخلیقی کاوشوں سے لگایا جاتا ہے۔اگر یہی تخلیقی کاوشیں کسی نامورتخلیق کار کے قلم سے نکلی ہوں تو تخلیق پھرمحض تخلیق نہیں رہتی وہ ایک شاہکار کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور ایسے بے شمار شاہکار کا جب ملاپ وجود میں آتا ہے اسے ہم کالج کے”تھل“میگزین کا نام دیتے ہیں۔ریحانہ تبسم کہتی ہیں:۔
”تھل میگزین کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس رسالے میں چھپنے والوں میں ڈاکٹرفرمان فتح پوری(ستارہ امتیاز)،ڈاکٹر حمید رضا صدیقی،ڈاکٹر روبینہ ترین(صدر شعبہ اردو بہاء الدین یونیورسٹی ملتان)ڈاکٹر خیال امروہوی،پروفیسر ڈاکٹر ظفر عالم ظفری،پروفیسرڈاکٹر علی شیر طور،ڈاکٹر عبدالغفار کوکب،پروفیسر جعفر بلوچ،پروفیسر غلام محمد خان،پروفیسر نواز صدیقی،پروفیسر مہر اختر وہاب،پروفیسر شہباز نقوی،پروفیسر ڈاکٹر افتخار بیگ،پروفیسر اکرم میرانی،پروفیسر شفقت بزدار کے علاوہ نامور شخصیات کی تحریریں بھی اس رسالے کا حصہ بنتی رہی ہیں۔لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ گورنمنٹ کالج لیہ کا ادبی جریدہ ”تھل“علم و ادب کے فروغ میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے“۲
حال ہی میں دو میگزین ”تھل“تخلیقی ورثہ نمبربرائے سال ۴۱۰۲اور”تھل“ تنقیدی و تحقیقی نمبر برائے سال ۵۱۰۲شایع ہو چکے ہیں۔یہ دونوں شمارے لیہ میں ادب کے عظیم مربی ڈاکٹر افتخار بیگ کی ادارت میں اشاعت پذیر ہوئے ہیں۔تھل تخلیقی ورثہ نمبرکی مجلسِ مشاورت وادارت میں ڈاکٹر محمد امیر ملک،ڈاکٹر انور نذیر علوی،ڈاکٹر حمید الفت ملغانی،پروفیسر ریاض راہی،پروفیسر غلام یحییٰ شفقت بزدار،سبحان سہیل خان(لیکچرار) اور صغیرعباس(لیکچرار)شامل ہیں،جبکہ مدیرانِ متعلم میں عشتار کرن(ایم۔اے۔اردو)، اقرا ء اقبال(ایم۔ اے۔ اردو)، رانا عبدالرب(ایم۔ اے۔ اردو)،شمس وہاب(سال اول، میڈیکل گروپ) شامل ہیں۔جبکہ”تھل،تنقیدی و تحقیقی نمبر“۵۱۰۲کی مجلس مشاورت میں ڈاکٹر محمد امیر ملک،ڈاکٹر انور نذیر علوی،ڈاکٹر حمید الفت ملغانی،پروفیسر ریاض راہی،سبحان سہیل خان(لیکچرار) اور صغیرعباس(لیکچرار)شامل ہیں، جبکہ مدیران متعلم میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ شعبہ اردو کے ہونہار طلبا جن میں عمارہ غفار(ایم۔اے اردو)اقراء اسلام(ایم۔اے اردو)راحت رشید(ایم۔اے اردو)فیض الحسن(ایم۔اے اردو)شامل ہیں۔
اگر ہم موجودہ تھل میگزین تخلیقی ورثہ نمبر پر بات کریں تو ”تھل“کالج میگزین ”تخلیقی ورثہ نمبر۴۱۰۲“تصاویر سے مزین ۲۹۱صفحات پر مشتمل ہے۔اداریہ،حمد و نعت کے علاوہ اسے ۹حصوں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر حصہ ایک خوبصورت عنوان کے طور پر دیا گیا ہے۔پیغام سربراہ ادارہ پروفیسر مہر اختر وہاب صاحب نے تحریر کیا جبکہ حمد و نعت ریاض راہی صاحب کی لکھی ہوئی ہیں۔کالج میگزین میں پہلا حصہ ”روشنی“کے نام سے ہے۔جس میں ”حقیقت انسان بنظر ِ اسلام“ شمائلہ مصطفی،”معاشرہ،عورت اور اسلام“محمداکمل رؤف،”فاروق اعظمؓ“اقلیم کوثر صراطی،”فلسفہ شہادت“قاریہ آسیہ کنول اور ”عورت اور اسلام“محمد آصف تھند شامل ہیں۔ جبکہ دوسرے حصہ میں ”یاد رفتگاں“ میں ماضی کے اوراق کو اتھل پتھل کرکے نامور لوگوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔
پروفیسر مہر اختر وہاب، پروفیسر شبیر نیئراور پروفیسر محمد اکبر ساقی نے یادرفتگاں میں معروف انگریزی دان”پروفیسر غلام محمد خان“کی یادیں تازہ کی ہیں۔جبکہ پروفیسر ریاض راہی نے پاک و ہند کے نامور شاعر ڈاکٹر خیال امروہوی کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔یہی نہیں انہوں نے ڈاکٹر خیال امروہوی کی فارسی غزل کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے:۔
”ڈاکٹر خیال امروہوی زبان و ادبیات فارسی کے ماہر استاد تھے۔ان کے فکر بلند کو جولانیاں،گہرے جذبات و احساسات اور تخیل کی بلند پروازیاں جس طرح فارسی زبان میں اظہار پا گئیں شاید ہی اردو زبان میں وہ جامعیت اور فصاحت و بلاغت کے ساتھ بیان کی گئی ہوں۔تاہم افسوس ہے کہ انہوں نے مستقل طور پر فارسی زبان کو اپنا ذریعہ اظہار نہ بنایا“۳
ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب یادرفتگاں میں ڈاکٹر خیال امروہوی کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
”ایک سائیکل۔۔۔تن کے تین کپڑے۔۔۔شہر سے دورایک کلی۔۔۔عشق کی مستی۔۔۔خود اپنی ہستی بھول گیا۔۔۔پانچ مرلہ سکیم کبھی شہر سے باہرتھی۔۔۔سڑک کنارے کنارے چلتے۔۔۔کبھی اس پنواڑی کی دکان پر کبھی اس ڈھابے والے کے پاس۔۔۔ہر وقت ہر جگہ۔۔۔انسانی عزوقارکا قصہ بیان کرنا“
ایک اورجگہ فرماتے ہیں:۔
”وہ مشعل بھی تھا اور مشعل بردار بھی۔جانے کتنے لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ اس نے تن تنہاسر انجام دیا اور اس فریضہ کی ادائیگی میں اس نے کبھی نہ تو کوتاہی کی اور نہ ہی ذاتی مجبوریوں کو آڑے آنے دیا۔اپنی تمام تر محرومیوں،مجبوریوں کے باوجود ایک ایسا شخص تھا جس نے لیہ والوں کو فکرونظر سے آشنا کرایا۔تب میں بہت رویا۔۔۔اور اب اہل ِ شہر نے جانے کتنے عرصے رونا ہے کہ خیال کہیں صدیوں بعد جنم لیتا ہے“
استاد ِ محترم ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب ”پروفیسرملک اللہ یار کی یاد میں“محبت میں ڈوب کر ان سے گلے شکوے کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
”ملک جی! تم مشرقی تہذیب و اقدار کے بڑے پاس دار تھے۔ان تہذیبی اقدار کے ٹوٹتے اور تڑخنے کی آواز تمہیں سنائی نہ دیتی تھی۔آج دیکھ لیا۔۔۔اسی مشرق کے شاگردوں نے اپنے استادکو بے بس پڑا پایا تو پلٹ کر کسی نے سہارانہ دیا۔کندھا تک دینے کوئی نہ آیا۔ملک!اگرمیں تمہارا شاگردہوتا،تمہاری جوتیاں سیدھی کرتا اور برسر محفل اعلان کرتا کہ میں شاگرد ہوں۔فخر کرتا کہ تم جیسا شخص میرا استاد تھا۔مگر ایسا نہیں ہے تمہارے شاگردنئے دور کے نئے تقاضوں سے آشنا کچھ اور لوگ ہیں جوتہذیب حاضر کے قتل میں شریک ہیں۔میں تمہیں کہا کرتا تھا کہ تہذیب حاضر مر رہی ہے۔مگرتم مانتے ہی نہ تھے،تمہارا ایمان اس تہذیب پر بڑا راسخ تھا۔آج دیکھ لیا نا!اپنی خوش گمانیوں کا نتیجہ“
ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب کا پروفیسر ملک اللہ یار کی یاد سے جو مکالمہ ہے اس میں بہت سے باتیں عیاں اور بہت سی پوشیدہ ہیں جنہیں کھوجنے کی ضرورت ہے۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو ایک ایک کر کے تہذیب کی سبھی دیواروں میں دراڑیں پڑتی جائیں گی اور ایک دن ایسا آئے گا کہ تہذیب بھی قصہ پارینہ بن جائے گی اور ہم دیکھتے ہی رہ جائیں گے۔
یاد پڑتا ہے کہ کالج میں ہمارا پہلا دن تھا۔سب اجنبی تھا۔لوگ اجنبی۔دوست اجنبی۔یہاں تک کہ کپڑے بھی۔کہاں جائیں۔کدھر کو جائیں۔اتنے میں ایک آواز کانوں سے یوں ٹکرائی کہ اپنائیت کا سا گمان تھا،مڑ کے دیکھا تو استاد ِ محترم پروفیسر سید ثقلین شاہ کاظمی کھڑے تھے۔مجھے گلے لگایا اور کہا”کیا تم نے بناوٹی لباس پہنا ہوا ہے۔کل سے وہی اپنا روایتی لباس پہن کر آنا“وہ دن اور آج کا دن اسی روایتی لباس میں زندگی کا سفرجاری رکھے ہوئے ہوں۔استاد محترم ہر روز شام کو کچھ طلباء کو اپنے گھربلاتے اور تاریخ پر گھنٹوں گفت گو فرماتے۔ہم سے انسیت کی ایک وجہ شاید علاقہ تھا کیوں کہ استاد محترم شاہ پور اور جبکہ میراتعلق رانا نگر سے ہے۔مجھے آج بھی یاد پڑتا ہے وہ اکثر دہرایا کرتے تھے ”بہا چاون آئی ہئی۔چلہے دی سین بن بیٹھی ہے“،”ہوتا رہا مذاق مری زندگی کے ساتھ“،”جیو اور جینے دو“۔خیران سی یادوں پر تو شاید کتاب بھی لکھی جائے کم ہے۔اس عظیم ہستی کا ذکر ڈاکٹر افتخار بیگ کچھ اس انداز میں فرماتے ہیں:۔
”لیہ سے آٹھ دس میل شمال میں واقع شاہ پور ایسی ہی ایک بستی ہے۔کبھی ایسا وقت بھی تھا کہ کسی کی پوری شخصیت کا پورا تعارف ایک جملے میں سمایا کرتا تھا”یہ شاہ پوری ہے“سمجھنے والے خود ہی سمجھ جاتے تھے۔اس بستی کے مزاج سے پہلی بغاوت کس نے کی مجھے نہیں معلوم مگر مجھے یہ پتا ہے کہ سماجی رویوں سے بغاوت کا مرتکب ہونے والوں میں ایک سید ثقلین شاہ کاظمی بھی تھے جو اپنی بستی کی پہچان بن گئے“
یاد رفتگاں میں جہاں ادب پہ گفتگو ہو گی وہاں اردو،سرائیکی اور پنجابی کے معروف شاعر پروفیسر شہباز نقوی کا ذکر نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے؟پروفیسر شہباز نقوی کی یادوں کے گلدان سے ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب نے چند مہکاروں کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
”شہباز نقوی ایک محبت کرنے والا شخص تھا۔ایک ایسا شخص جو اپنے خوابوں کو حقیقت اور حقیقت کو خواب سمجھ بیٹھا تھا۔اس کی ذات میں ایک خاص طرح کی درویشی تھی“
کالج میگزین”تھل“کے ”بوئے گل“میں غزلیات شامل ہیں۔جن میں پروفیسر ریاض راہی،حمید الفت ملغانی،محمد علی احسان گرمانی،شاہین اور مونا کی غزلیات شامل ہیں۔جبکہ”نالہ دل“میں ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب کی ”نیلاب کا افسوں“سلیم آکاش کی”سچائی“اور ”ایک ادھوری نظم“عشتار کرن کی ”خوابوں کی بستی میں“ اور”ایک تمنا“نزہت رضا کی ”تم کتنے کٹھور ہو“اور ”نظم“لالہ رخ کی ”ایک نظم جو نامکمل رہے گی“صائمہ عباس کی ”کچھ کہنا تھا“محمد بابر احسان منتظر کی ”مرے لفظوں پہ اعتبار کرو“عصمت صدیق کی ”زندگی“ اور ”دسمبر“ جبکہ عبدالغفور کی ”پروین کی الیکٹرانک لو“نظمیں شامل ہیں۔
دودِ چراغ محفل میں افسانے شامل ہیں۔پہلا افسانہ ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب کا”آوازوں کے سہارے جیتا آدمی“ جس میں ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب نے زندگی کے آلام ومسائل کو چند ایک علامتوں کے ذریعے واضح کرنے کیا ہے:۔
”میرے شہر کی ہمکتی گلیوں میں کتنی صدائیں بھر گئیں مگر ہر شام ان نیم تاریک گلیوں میں آوازوں کے تین بھنور اٹھتے ہیں اور معدوم ہو جاتے ہیں۔”گھوم۔۔۔گھوم۔۔۔گھوم۔۔۔رُک گیا تو مرگیا“وہ پگلی آج نہیں ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ وہ زمانوں سے اسی طرح پاگل پن کا ڈھونگ رچائے ایک ہی صدا بلند کررہی ہے۔دور کہیں بابا بگو کامستانہ رقص اور پاکوبی کی آواز اور پیٹرومیکس لیمپ روشن کرنے والے بابا کے قدموں کی چاپ یہ تینوں آوازیں قصبے کی گلیوں میں بکھری پڑی ہیں،مگر مجھ سمیت پوری بستی مرچکی ہے“
ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب کا میگزین میں شامل دوسرا افسانہ”جاہل“ ہے جس میں کئی سوال اٹھائے گئے ہیں اور معاشرے کے ہر فرد پر کڑی تنقید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
”ماسٹر نے پوری کلاس کو مخاطب کیا۔۔۔اوئے دیکھو،بالکل جاٹ ہے،دیہاتی گنوار اور چلاآیا ہے سائنس پڑھنے۔شکل دیکھو اس کی۔۔۔منہ دھویا تھا صبح تو نے۔۔۔لڑکے کے جسم پر طاری لرزہ اب مزید بڑھ گیا تھا۔اس کی قمیض کا پلو جیسے کپکپا رہا تھا۔اس کی زبان سے ایک لفظ بھی ادا نہ ہوا۔وہ خاموش کھڑا رہا۔اچھاااا،ماسٹر پھر گویا ہوا۔اچھا یہ بتا جانی حرامی۔۔۔مڈل میں تیرے کتنے نمبر ہیں؟لڑکے کے چہرے پر جیسے رنگ سا امڈ آیا۔اس لڑکے نے لرزیدہ لہجے میں کہا”سات سو بیس“یہ لفظ کسی بم کی طرح پھٹے تھے۔سائنس ماسٹر ایک لمحے کو گنگ ہو گیا“۔
عدیلہ یوسفی کا ”محبت کیوں نہیں ملتی“میں جھوٹی انانیت کے خول کی وجہ سے نئی زندگیاں کس طرح بربادی کی دہانے پر پہنچتی ہیں:۔
”مسکان نے اپنا وعدہ پورا کیا کہ اگر وہ سوید کی نہیں تو کسی کی بھی نہیں اور آج وہ اپنے گھر سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئی۔وہ مولوی جوسفرجاری رکھے ہوئے ہوں۔استاد محترم ہر روز شام کو کچھ طلباء کو اپنے گھر مسکان کا نکاح کروانے آیا تھا وہی اس کا جنازہ پڑھائے گا“
”محبت“میں کمیل عباس نے محبت کی حقیقت بیان کی ہے۔
”آرام سے۔۔۔ابھی آپ کو آرام کی ضرورت ہے آپ کو بچانے کے لیے ہی اس نے اپنی جان دی۔وہ آپ سے پہلے ہوش میں آگئی تھی۔لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ آپ کے لیے خون کا بندوبست نہیں ہو رہا ہے تو وہ اپنا خون دینے کے لیے تیار ہوگئی۔انہوں نے کہا کہ ان کے جسم سے خون کا آخری قطرہ نچوڑ لیں ”غالبا وہ آپ سے بہت محبت کرتی تھی“
رودادِ چمن اور اہل چمن میں نامور لوگوں پر لکھے گئے خاکے،آپ بیتی اور سفرناموں کا تذکرہ ملتا ہے۔ڈاکٹر انور نذیر علوی صاحب کا ”خادم الکثیر یا خادم الکبیر(پروفیسر خادم اعوان کی ریٹائرمنٹ کے موقع پرلکھا گیا)،تاریخ کے نقوش(ظہیر الدین بابر)”لوآج ہم بھی ریٹائر ہو گئے“،پانچواں درویش(غلام محمد خان،خورشید احمد درانی،ملک بہادر مہر اختر وہاب پر)خاکے لکھے ہیں۔جبکہ محمد حسنین نے ”سکاؤٹنگ کیمپ مری کی روداد“شمائلہ قیصر کا سفر نامہ”تونسہ بیراج کا مطالعاتی دورہ“اور حبیب احمد کا ”چکر ڈیرہ بورڈ“جبکہ اقراء اقبال کی روداد”میں اپنے کالج میں“ شامل ہیں۔
کالج میگزین ”تھل کے کشت ِ زعفران میں پروفیسرخالد بلال میتلا کا مضمون”جدید دور کے جدید طلباء(طنزو مزاح)“نزہت رضا کا”مرزا غالب گورنمنٹ کالج میں“شامل ہیں جبکہ کالج تھل میگزین میں مختلف سوالوں پر اساتذہ اور طلباء کی رائے لی گئی ہے۔
آخر میں نقطہ نظر کے عنوان سے گروپ سروے”کیا آج کا نوجوان پاکستان کا مستقبل بدل سکتا ہے“کیا گیا جب کہ اس کے علاوہ ثمینہ نذر کا لکھا گیا مضمون”آرٹس کے طلبا“عظمت گل کا”آنکھوں دیکھا حال“سعدیہ اشرف کا”طبقہ نسواں:ہمت و جرات کا نشان“احسان الہی کا ”مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ“ اور محمد ارشاد علی کا”میڈیا کا کردار مثبت یا منفی“شامل ہیں۔جبکہ اختتام پر پاکستانی زبانوں میں سرائیکی کے نامور شاعر پروفیسر شفقت بزدار اورڈاکٹر حمید الفت کا کلام شامل ہے۔
128صفحات پر مشتمل ”تھل“ تنقیدی و تحقیقی نمبرمیں سربراہ ادارہ کے پیغام اور مدیر کے اداریہ کے علاوہ 17مضامین میں نامور ادبی شخصیات اورادب کے اہم موضوعات زیر بحث لائے گئے ہیں۔”تھل میگزین میں نامور قلم کاروں نے صفحہ قرطاس پر موتی بکھیرے ہیں جن میں ڈاکٹر افتخار بیگ،پروفیسر مہر اختر وہاب،ریاض راہی،صغیر عباس جسکانی،ڈاکٹرحمید الفت ملغانی،پروفیسررانا غلام یٰسین،محمد سبحان سہیل،اعجاز حسین،محمد افضل صفی،پروفیسر مختیار حسین بلوچ،نسرین کوثر،عدیلہ یوسفی،شاہد بخاری اور محمد فاروق شامل ہیں۔
ڈاکٹر افتخار بیگ نے اداریہ میں ”چند باتیں“کے عنوان سے چند باتیں زیر بحث لائیں ہیں:۔
”روایت کا تعلق ماضی سے ہوا کرتا ہے اور یہ بھی طے ہے کہ وقت کے چلن،سماجی ثقافتی تبدیلی اور معاشرتی جبر کی وجہ سے روایت کبھی ٹوٹتی ہے تو کبھی نئی صورت اختیار کر لیا کرتی ہے،مگر یہ کہ روایتیں کسی سماج کے رہنے والے لوگوں کی فکری تربیت بھی کرتی ہیں اور خاص طرح کی خوابناکیاں بھی پیدا کرتی ہیں۔کالجوں میں ایسی ہی ایک روایت میگزین کی اشاعت تھی۔یہ میگزین طلبا کی علمی فکری تربیت کا باعث بنا کرتے تھے اور طلباء میں تخلیقی جذبے کو مہمیز بھی کیا کرتے تھے،مگر۔۔۔مجموعی صورت حال میں یہ روایت تعطل کا شکار ہو گئی۔وجہ۔۔۔عمومی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ اساتذہ کام نہیں کرنا چاہتے۔۔۔مگر حقیقت ِ احوال کچھ اور ہے۔آج کا طالب علم نمبروں کے حصول کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔آج کا طالب علم عمومی معاشرتی صورت حال کی وجہ سے تخلیقی سوچ سے عاری ہوتا جا رہا ہے۔آج کا طالب علم سوال کرنا اور بحث اٹھانا نہیں چاہتا،نتیجہ یہ ہے کہ کالج میگزین کے لیے وہ مواد میسر نہیں آتا جو ایک میگزین کی اشاعت کے لیے ضروری ہوتا ہے“
پروفیسر مہر اختر وہاب، پروفیسر شبیر نیئراور پروفیسر محمد اکبر ساقی نے یادرفتگاں میں معروف انگریزی دان”پروفیسر غلام محمد خان“کی یادیں تازہ کی ہیں۔جبکہ پروفیسر ریاض راہی نے پاک و ہند کے نامور شاعر ڈاکٹر خیال امروہوی کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔یہی نہیں انہوں نے ڈاکٹر خیال امروہوی کی فارسی غزل کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے:۔
”ڈاکٹر خیال امروہوی زبان و ادبیات فارسی کے ماہر استاد تھے۔ان کے فکر بلند کو جولانیاں،گہرے جذبات و احساسات اور تخیل کی بلند پروازیاں جس طرح فارسی زبان میں اظہار پا گئیں شاید ہی اردو زبان میں وہ جامعیت اور فصاحت و بلاغت کے ساتھ بیان کی گئی ہوں۔تاہم افسوس ہے کہ انہوں نے مستقل طور پر فارسی زبان کو اپنا ذریعہ اظہار نہ بنایا“۳
ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب یادرفتگاں میں ڈاکٹر خیال امروہوی کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
”ایک سائیکل۔۔۔تن کے تین کپڑے۔۔۔شہر سے دورایک کلی۔۔۔عشق کی مستی۔۔۔خود اپنی ہستی بھول گیا۔۔۔پانچ مرلہ سکیم کبھی شہر سے باہرتھی۔۔۔سڑک کنارے کنارے چلتے۔۔۔کبھی اس پنواڑی کی دکان پر کبھی اس ڈھابے والے کے پاس۔۔۔ہر وقت ہر جگہ۔۔۔انسانی عزوقارکا قصہ بیان کرنا“
ایک اورجگہ فرماتے ہیں:۔
”وہ مشعل بھی تھا اور مشعل بردار بھی۔جانے کتنے لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ اس نے تن تنہاسر انجام دیا اور اس فریضہ کی ادائیگی میں اس نے کبھی نہ تو کوتاہی کی اور نہ ہی ذاتی مجبوریوں کو آڑے آنے دیا۔اپنی تمام تر محرومیوں،مجبوریوں کے باوجود ایک ایسا شخص تھا جس نے لیہ والوں کو فکرونظر سے آشنا کرایا۔تب میں بہت رویا۔۔۔اور اب اہل ِ شہر نے جانے کتنے عرصے رونا ہے کہ خیال کہیں صدیوں بعد جنم لیتا ہے“
استاد ِ محترم ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب ”پروفیسرملک اللہ یار کی یاد میں“محبت میں ڈوب کر ان سے گلے شکوے کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
”ملک جی! تم مشرقی تہذیب و اقدار کے بڑے پاس دار تھے۔ان تہذیبی اقدار کے ٹوٹتے اور تڑخنے کی آواز تمہیں سنائی نہ دیتی تھی۔آج دیکھ لیا۔۔۔اسی مشرق کے شاگردوں نے اپنے استادکو بے بس پڑا پایا تو پلٹ کر کسی نے سہارانہ دیا۔کندھا تک دینے کوئی نہ آیا۔ملک!اگرمیں تمہارا شاگردہوتا،تمہاری جوتیاں سیدھی کرتا اور برسر محفل اعلان کرتا کہ میں شاگرد ہوں۔فخر کرتا کہ تم جیسا شخص میرا استاد تھا۔مگر ایسا نہیں ہے تمہارے شاگردنئے دور کے نئے تقاضوں سے آشنا کچھ اور لوگ ہیں جوتہذیب حاضر کے قتل میں شریک ہیں۔میں تمہیں کہا کرتا تھا کہ تہذیب حاضر مر رہی ہے۔مگرتم مانتے ہی نہ تھے،تمہارا ایمان اس تہذیب پر بڑا راسخ تھا۔آج دیکھ لیا نا!اپنی خوش گمانیوں کا نتیجہ“
ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب کا پروفیسر ملک اللہ یار کی یاد سے جو مکالمہ ہے اس میں بہت سے باتیں عیاں اور بہت سی پوشیدہ ہیں جنہیں کھوجنے کی ضرورت ہے۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو ایک ایک کر کے تہذیب کی سبھی دیواروں میں دراڑیں پڑتی جائیں گی اور ایک دن ایسا آئے گا کہ تہذیب بھی قصہ پارینہ بن جائے گی اور ہم دیکھتے ہی رہ جائیں گے۔
یاد پڑتا ہے کہ کالج میں ہمارا پہلا دن تھا۔سب اجنبی تھا۔لوگ اجنبی۔دوست اجنبی۔یہاں تک کہ کپڑے بھی۔کہاں جائیں۔کدھر کو جائیں۔اتنے میں ایک آواز کانوں سے یوں ٹکرائی کہ اپنائیت کا سا گمان تھا،مڑ کے دیکھا تو استاد ِ محترم پروفیسر سید ثقلین شاہ کاظمی کھڑے تھے۔مجھے گلے لگایا اور کہا”کیا تم نے بناوٹی لباس پہنا ہوا ہے۔کل سے وہی اپنا روایتی لباس پہن کر آنا“وہ دن اور آج کا دن اسی روایتی لباس میں زندگی کا سفرجاری رکھے ہوئے ہوں۔استاد محترم ہر روز شام کو کچھ طلباء کو اپنے گھربلاتے اور تاریخ پر گھنٹوں گفت گو فرماتے۔ہم سے انسیت کی ایک وجہ شاید علاقہ تھا کیوں کہ استاد محترم شاہ پور اور جبکہ میراتعلق رانا نگر سے ہے۔مجھے آج بھی یاد پڑتا ہے وہ اکثر دہرایا کرتے تھے ”بہا چاون آئی ہئی۔چلہے دی سین بن بیٹھی ہے“،”ہوتا رہا مذاق مری زندگی کے ساتھ“،”جیو اور جینے دو“۔خیران سی یادوں پر تو شاید کتاب بھی لکھی جائے کم ہے۔اس عظیم ہستی کا ذکر ڈاکٹر افتخار بیگ کچھ اس انداز میں فرماتے ہیں:۔
”لیہ سے آٹھ دس میل شمال میں واقع شاہ پور ایسی ہی ایک بستی ہے۔کبھی ایسا وقت بھی تھا کہ کسی کی پوری شخصیت کا پورا تعارف ایک جملے میں سمایا کرتا تھا”یہ شاہ پوری ہے“سمجھنے والے خود ہی سمجھ جاتے تھے۔اس بستی کے مزاج سے پہلی بغاوت کس نے کی مجھے نہیں معلوم مگر مجھے یہ پتا ہے کہ سماجی رویوں سے بغاوت کا مرتکب ہونے والوں میں ایک سید ثقلین شاہ کاظمی بھی تھے جو اپنی بستی کی پہچان بن گئے“
یاد رفتگاں میں جہاں ادب پہ گفتگو ہو گی وہاں اردو،سرائیکی اور پنجابی کے معروف شاعر پروفیسر شہباز نقوی کا ذکر نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے؟پروفیسر شہباز نقوی کی یادوں کے گلدان سے ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب نے چند مہکاروں کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
”شہباز نقوی ایک محبت کرنے والا شخص تھا۔ایک ایسا شخص جو اپنے خوابوں کو حقیقت اور حقیقت کو خواب سمجھ بیٹھا تھا۔اس کی ذات میں ایک خاص طرح کی درویشی تھی“
کالج میگزین”تھل“کے ”بوئے گل“میں غزلیات شامل ہیں۔جن میں پروفیسر ریاض راہی،حمید الفت ملغانی،محمد علی احسان گرمانی،شاہین اور مونا کی غزلیات شامل ہیں۔جبکہ”نالہ دل“میں ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب کی ”نیلاب کا افسوں“سلیم آکاش کی”سچائی“اور ”ایک ادھوری نظم“عشتار کرن کی ”خوابوں کی بستی میں“ اور”ایک تمنا“نزہت رضا کی ”تم کتنے کٹھور ہو“اور ”نظم“لالہ رخ کی ”ایک نظم جو نامکمل رہے گی“صائمہ عباس کی ”کچھ کہنا تھا“محمد بابر احسان منتظر کی ”مرے لفظوں پہ اعتبار کرو“عصمت صدیق کی ”زندگی“ اور ”دسمبر“ جبکہ عبدالغفور کی ”پروین کی الیکٹرانک لو“نظمیں شامل ہیں۔
دودِ چراغ محفل میں افسانے شامل ہیں۔پہلا افسانہ ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب کا”آوازوں کے سہارے جیتا آدمی“ جس میں ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب نے زندگی کے آلام ومسائل کو چند ایک علامتوں کے ذریعے واضح کرنے کیا ہے:۔
”میرے شہر کی ہمکتی گلیوں میں کتنی صدائیں بھر گئیں مگر ہر شام ان نیم تاریک گلیوں میں آوازوں کے تین بھنور اٹھتے ہیں اور معدوم ہو جاتے ہیں۔”گھوم۔۔۔گھوم۔۔۔گھوم۔۔۔رُک گیا تو مرگیا“وہ پگلی آج نہیں ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ وہ زمانوں سے اسی طرح پاگل پن کا ڈھونگ رچائے ایک ہی صدا بلند کررہی ہے۔دور کہیں بابا بگو کامستانہ رقص اور پاکوبی کی آواز اور پیٹرومیکس لیمپ روشن کرنے والے بابا کے قدموں کی چاپ یہ تینوں آوازیں قصبے کی گلیوں میں بکھری پڑی ہیں،مگر مجھ سمیت پوری بستی مرچکی ہے“
ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب کا میگزین میں شامل دوسرا افسانہ”جاہل“ ہے جس میں کئی سوال اٹھائے گئے ہیں اور معاشرے کے ہر فرد پر کڑی تنقید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
”ماسٹر نے پوری کلاس کو مخاطب کیا۔۔۔اوئے دیکھو،بالکل جاٹ ہے،دیہاتی گنوار اور چلاآیا ہے سائنس پڑھنے۔شکل دیکھو اس کی۔۔۔منہ دھویا تھا صبح تو نے۔۔۔لڑکے کے جسم پر طاری لرزہ اب مزید بڑھ گیا تھا۔اس کی قمیض کا پلو جیسے کپکپا رہا تھا۔اس کی زبان سے ایک لفظ بھی ادا نہ ہوا۔وہ خاموش کھڑا رہا۔اچھاااا،ماسٹر پھر گویا ہوا۔اچھا یہ بتا جانی حرامی۔۔۔مڈل میں تیرے کتنے نمبر ہیں؟لڑکے کے چہرے پر جیسے رنگ سا امڈ آیا۔اس لڑکے نے لرزیدہ لہجے میں کہا”سات سو بیس“یہ لفظ کسی بم کی طرح پھٹے تھے۔سائنس ماسٹر ایک لمحے کو گنگ ہو گیا“۔
عدیلہ یوسفی کا ”محبت کیوں نہیں ملتی“میں جھوٹی انانیت کے خول کی وجہ سے نئی زندگیاں کس طرح بربادی کی دہانے پر پہنچتی ہیں:۔
”مسکان نے اپنا وعدہ پورا کیا کہ اگر وہ سوید کی نہیں تو کسی کی بھی نہیں اور آج وہ اپنے گھر سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئی۔وہ مولوی جوسفرجاری رکھے ہوئے ہوں۔استاد محترم ہر روز شام کو کچھ طلباء کو اپنے گھر مسکان کا نکاح کروانے آیا تھا وہی اس کا جنازہ پڑھائے گا“
”محبت“میں کمیل عباس نے محبت کی حقیقت بیان کی ہے۔
”آرام سے۔۔۔ابھی آپ کو آرام کی ضرورت ہے آپ کو بچانے کے لیے ہی اس نے اپنی جان دی۔وہ آپ سے پہلے ہوش میں آگئی تھی۔لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ آپ کے لیے خون کا بندوبست نہیں ہو رہا ہے تو وہ اپنا خون دینے کے لیے تیار ہوگئی۔انہوں نے کہا کہ ان کے جسم سے خون کا آخری قطرہ نچوڑ لیں ”غالبا وہ آپ سے بہت محبت کرتی تھی“
رودادِ چمن اور اہل چمن میں نامور لوگوں پر لکھے گئے خاکے،آپ بیتی اور سفرناموں کا تذکرہ ملتا ہے۔ڈاکٹر انور نذیر علوی صاحب کا ”خادم الکثیر یا خادم الکبیر(پروفیسر خادم اعوان کی ریٹائرمنٹ کے موقع پرلکھا گیا)،تاریخ کے نقوش(ظہیر الدین بابر)”لوآج ہم بھی ریٹائر ہو گئے“،پانچواں درویش(غلام محمد خان،خورشید احمد درانی،ملک بہادر مہر اختر وہاب پر)خاکے لکھے ہیں۔جبکہ محمد حسنین نے ”سکاؤٹنگ کیمپ مری کی روداد“شمائلہ قیصر کا سفر نامہ”تونسہ بیراج کا مطالعاتی دورہ“اور حبیب احمد کا ”چکر ڈیرہ بورڈ“جبکہ اقراء اقبال کی روداد”میں اپنے کالج میں“ شامل ہیں۔
کالج میگزین ”تھل کے کشت ِ زعفران میں پروفیسرخالد بلال میتلا کا مضمون”جدید دور کے جدید طلباء(طنزو مزاح)“نزہت رضا کا”مرزا غالب گورنمنٹ کالج میں“شامل ہیں جبکہ کالج تھل میگزین میں مختلف سوالوں پر اساتذہ اور طلباء کی رائے لی گئی ہے۔
آخر میں نقطہ نظر کے عنوان سے گروپ سروے”کیا آج کا نوجوان پاکستان کا مستقبل بدل سکتا ہے“کیا گیا جب کہ اس کے علاوہ ثمینہ نذر کا لکھا گیا مضمون”آرٹس کے طلبا“عظمت گل کا”آنکھوں دیکھا حال“سعدیہ اشرف کا”طبقہ نسواں:ہمت و جرات کا نشان“احسان الہی کا ”مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ“ اور محمد ارشاد علی کا”میڈیا کا کردار مثبت یا منفی“شامل ہیں۔جبکہ اختتام پر پاکستانی زبانوں میں سرائیکی کے نامور شاعر پروفیسر شفقت بزدار اورڈاکٹر حمید الفت کا کلام شامل ہے۔
128صفحات پر مشتمل ”تھل“ تنقیدی و تحقیقی نمبرمیں سربراہ ادارہ کے پیغام اور مدیر کے اداریہ کے علاوہ 17مضامین میں نامور ادبی شخصیات اورادب کے اہم موضوعات زیر بحث لائے گئے ہیں۔”تھل میگزین میں نامور قلم کاروں نے صفحہ قرطاس پر موتی بکھیرے ہیں جن میں ڈاکٹر افتخار بیگ،پروفیسر مہر اختر وہاب،ریاض راہی،صغیر عباس جسکانی،ڈاکٹرحمید الفت ملغانی،پروفیسررانا غلام یٰسین،محمد سبحان سہیل،اعجاز حسین،محمد افضل صفی،پروفیسر مختیار حسین بلوچ،نسرین کوثر،عدیلہ یوسفی،شاہد بخاری اور محمد فاروق شامل ہیں۔
ڈاکٹر افتخار بیگ نے اداریہ میں ”چند باتیں“کے عنوان سے چند باتیں زیر بحث لائیں ہیں:۔
”روایت کا تعلق ماضی سے ہوا کرتا ہے اور یہ بھی طے ہے کہ وقت کے چلن،سماجی ثقافتی تبدیلی اور معاشرتی جبر کی وجہ سے روایت کبھی ٹوٹتی ہے تو کبھی نئی صورت اختیار کر لیا کرتی ہے،مگر یہ کہ روایتیں کسی سماج کے رہنے والے لوگوں کی فکری تربیت بھی کرتی ہیں اور خاص طرح کی خوابناکیاں بھی پیدا کرتی ہیں۔کالجوں میں ایسی ہی ایک روایت میگزین کی اشاعت تھی۔یہ میگزین طلبا کی علمی فکری تربیت کا باعث بنا کرتے تھے اور طلباء میں تخلیقی جذبے کو مہمیز بھی کیا کرتے تھے،مگر۔۔۔مجموعی صورت حال میں یہ روایت تعطل کا شکار ہو گئی۔وجہ۔۔۔عمومی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ اساتذہ کام نہیں کرنا چاہتے۔۔۔مگر حقیقت ِ احوال کچھ اور ہے۔آج کا طالب علم نمبروں کے حصول کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔آج کا طالب علم عمومی معاشرتی صورت حال کی وجہ سے تخلیقی سوچ سے عاری ہوتا جا رہا ہے۔آج کا طالب علم سوال کرنا اور بحث اٹھانا نہیں چاہتا،نتیجہ یہ ہے کہ کالج میگزین کے لیے وہ مواد میسر نہیں آتا جو ایک میگزین کی اشاعت کے لیے ضروری ہوتا ہے“