آدھی رات کو نیند سے بےحال ہونے کے باوجود جب مائیک اٹھائے دریائے چناب کے اس ٹوٹے بند پر پہنچا جہاں سے سیلابی پانی جھنگ شہر کی جانب جا رہا ہے تو وہاں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ملی جو ابھی براہ راست سیلاب کے متاثر تو نہیں تھے لیکن متاثرین ہونے کی لائن میں لگے تھے۔
مطلب یہ کہ انھیں خطرہ تھا کہ وہ پانی کسی بھی وقت جھنگ شہر میں داخل ہو سکتا ہے۔
یہ لوگ یہ جائزہ لینے آئےتھے کہ پانی چڑھ رہا ہے، اتر رہا ہے یا وہیں کھڑا ہے۔
جھنگ شہر کے لوگ سیلاب کے خوف سے دو راتوں سے سو نہیں پائے اور سارا دن بھی سیلاب کی باتیں کرتے ہیں۔
ایسے ہی ایک شہری محمد عمران نے بتایا کہ انھوں نے اور ان کے بچوں نے ساری رات جاگ کر گزاری۔
محمد عمران نے کہا کہ انھیں یہ دیکھ کر تسلی ہوئی ہے کہ دوپہر کے مقابلے میں علی آباد کے اس بند پر پانی تقریباً دو فٹ نیچے ہوگیا ہے اور آگے کی جانب چلنا بھی شروع ہوا ہے۔
دریا کے کنارے رہنے والے لوگوں کی دریا کو پہچاننے کی اپنی صلاحیت ہوتی ہے۔ انھوں نے سمجھایا کہ دوپہر کو پانی چل نہیں رہا تھا، پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ اس کی سطح بلند ہورہی تھی جو خطرناک بات تھی۔
یہ تو میں نے بھی دیکھ لیا تھا کہ پانی بند کے کناروں سے دو فٹ نیچے ہو چکا ہے اور وہ مکان جس کے دروازے نظر نہیں آرہے تھے اب دکھائی دینے لگا تھا۔
یہ حالت اس لیے بہتر ہوئی کہ دریائے چناب کے دوسری جانب کی آبادی ڈبو دی گئی یعنی اٹھارہ ہزاری کے بند کو یکے بعد دیگر تین مقامات پر بارود لگا کر اڑا دیا گیا تاکہ جھنگ شہر کو بچایا جا سکے۔
حکومت جہاں بھی بند توڑتی ہے ڈوبنے والے الزام لگاتے ہیں کہ ایسا جاگیرداروں اور وڈیروں کے کہنے پر کیا گیا یا خود حکمران طبقہ اس میں شامل ہے۔ان الزامات کی تصدیق تردید ایک الگ کام ہے لیکن عام شہریوں میں یہ تاثر عام پایا جاتا ہے۔
ایک رات پہلے جب اٹھارہ ہزاری بند نہیں توڑا گیا تھا تو پورے شہر میں یہ بات گردش کررہی تھی کہ سیاسی دباؤ ہے اور وہاں کے متاثرین بھکر روڈ پر مظاہرہ کر رہے ہیں اس لیے بند نہیں توڑا جا رہا اور جب توڑ دیا گیا تو اب اٹھارہ ہزاری کے لوگ سراپا احتجاج ہیں۔
دریائے چناب میں سیلاب کا بڑا ریلا وسطی پنجاب میں حفاظتی بندوں کو توڑتا، انسانی بستیوں کو غرق کرتا جنوبی پنجاب کی جانب بڑھ رہا ہے۔
صرف ضلع جھنگ اور اس کے گرد و نواح میں بدھ کو چند گھنٹوں میں سات لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
ہیڈ تریموں پر سیلاب انتہائی اونچے درجے کا ہے، حفاظتی بندوں کے شگاف بڑے ہوتے جا رہے ہیں اور ہرگزرتے لمحے کوئی نہ کوئی بستی غرق ہو رہی ہے۔
وہ مقامات جو آفت زدہ ہوں ان کے شہریوں پر کیا گزرتی ہے اس کا اندازہ سیلاب کے پانی کے باہر کھڑے ہو کر نہیں لگایا جا سکتا۔
جھنگ کے نواحی علاقے علی آباد کے رہائشی حافظ عبدالمجید جھنگ کے ان لاکھوں شہریوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے رات آنکھوں میں کاٹی۔
انھوں نے کہا کہ وہ سامان باندھے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ پانی کے چڑھنے کا انتظار کرتے رہے لیکن پانی نہیں آیا اور اب ان کی اگلی رات بھی اس ذہنی کشمکش اور خوف و اذیت میں گزرے گی۔
جھنگ کے شہری ابہام کا شکار بھی ہیں۔ محمد افضل کا شکوہ ہے کہ حکومت صحیح معلومات فراہم نہیں کر رہی جبکہ ٹی وی چینلوں کی معلومات بھی متضاد ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ چینل تریموں پر پانی کا لیول الگ الگ بتاتے ہیں جس سے خوف میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
جھنگ شہر سے کئی خاندان نقل مکانی کر چکے ہیں اور کئی نے گھر کا سامان بالائی منزلوں میں پہنچا دیا ہے۔ لڑکے بالے نیکر اور بنیان پہن کر ساری رات گلیوں میں پھرتے ہیں کہ جب سیلاب آئے گا تو بھاگنے میں آسانی ہوگی۔
میری بھانجی جس حویلی میں رہتی ہے اس کی دیواروں پر سیلابی پانی کے دس فٹ اونچے نشان آج بھی ملتے ہیں جو 50 برس پہلے جھنگ شہر میں آنے والے سیلاب کی یاد دلاتے ہیں۔
ان نشانوں نے بھی اس کی جان عذاب کر رکھی ہے۔ علی آباد بند پر پانی کم ہونے کی اطلاع بی بی سی ریڈیو کے علاوہ اس کو بھی دی اور خود بھی سکھ کا سانس لیا۔
اب نسبتاً سکون کی نیند سو سکوں گا کیونکہ نیند کی حالت میں آدھی رات کو ایسے ہی دریا تک نہیں گیا تھا۔
بی بی سی کی رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ اپنا اطمینان بھی ضروری تھا۔ آخر میں بھی تو اس آفت زدہ شہر کا حصہ ہوں، چاہے دو راتوں کے لیے ہی سہی۔
بہ شکریہ بی بی سی اردو