چنیوٹ کا ایک تاریخی محل جو مکینوں کا مدفن بن گیا!
یہ دنیا عجائبات اور اتفاقات کا کارخانہ ہے۔ انسان کے لیے جا بہ جا حیرت اور عبرت کا سامان موجود ہے۔
اس دنیا کی بے ثباتی اور اپنی ہستی کی حقیقت کا ادراک ہو جانے کے باوجود بھی ہم اپنے رہنے بسنے کو پختہ اور مضبوط ٹھکانے بناتے اور محلات تعمیر کر کے اپنی امارت کا چرچا کرتے ہیں۔ یہاں ہم ایک ایسا ہی درد ناک اور عبرت انگیز واقعہ ںقل کر رہے ہیں جس کا تعلق دنیا کی بے ثباتی اور فریبِ ہستی سے ہے۔
کبھی پاکستان کے مشہور شہر چنیوٹ جائیں تو کسی سے وہاں کے ’’تاج محل‘‘ کے بارے میں ضرور پوچھیے گا۔ یہ عمارت اپنے طرزِ تعمیر میں منفرد اور آرائش کے اعتبار سے نہایت خوب صورت تھی۔ کلکتہ کے ایک کام یاب تاجر شیخ عمر حیات نے ہجرت کے بعد اسے اپنے بیٹے کے لیے تعمیر کروایا تھا۔ اس کا نام گل زار حیات تھا۔ اسی لیے یہ عمارت گل زار منزل بھی کہلاتی ہے۔
کہتے ہیں 1935 میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ چودہ مرلے پر محیط یہ محل تہ خانوں سمیت پانچ منزلوں پر مشتمل تھا۔ محل کی انفرادیت اور خاص بات اس میں لکڑی کا کام تھا۔ یہ سارا کام اس زمانے کے مشہور کاری گر استاد الٰہی بخش پرجھا اور رحیم بخش پرجھا نے انجام دیا تھا۔ لکڑی اور کندہ کاری کے کام کے حوالے سے ان کا چرچا انگلستان تک ہوتا تھا۔
مرکزی گلی سے محل کے احاطے میں داخل ہوں گے تو آپ کی نظر سامنے کی انتہائی خوب صورت دیواروں پر پڑے گی۔ داخلی دروازے کے ساتھ نصب دو میں سے ایک تختی پر استاد الٰہی بخش پرجھا سمیت ساتھی مستریوں اور کاری گروں کے نام درج ہیں جب کہ دوسری تختی پر ان حضرات کے نام کندہ ہیں جنہوں نے مرمت کے ذریعے اسے تباہی سے بچایا۔ خم دار لکڑی سے بنے دروازوں، کھڑکیوں اور جھروکوں کی دل کشی منفرد ہے۔
دوسری طرف بالکونی، چھتیوں، ٹیرس اور سیڑھیوں پر لکڑی کے کام نے اسے وہ خوب صورتی بخشی ہے جو شاید ہی کسی اور فنِ تعمیر کو نصیب ہوئی ہو۔ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ شیخ عمر حیات محل کی 1937 میں تعمیر مکمل ہونے سے دو سال قبل ہی انتقال کر گئے تھے، لیکن تعمیر مکمل ہونے کے بعد تو گویا یہ محل مقبرہ ہی بن گیا۔
شیخ عمر حیات تو دنیا میں نہیں رہے تھے، مگر ان کا خاندان یہاں آبسا تھا۔ گل زار کی والدہ فاطمہ بی بی نے اپنے بیٹے کی شادی بڑی شان و شوکت کے ساتھ کی، مگر شادی کی اگلی ہی صبح بیٹا دنیا سے کوچ کر گیا۔ یہ ایک پُراسرار واقعہ تھا۔ ماں نے اپنے بیٹے کو محل کے صحن میں دفن کروایا اور خود بھی دنیا سے رخصت ہو گئی۔
وصیت کے مطابق انھیں بھی بیٹے کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ یوں یہ محل اپنے ہی مکینوں کا مقبرہ بن گیا۔ اس کے بعد ان کے ورثا نے محل کو منحوس تصور کرتے ہوئے ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا لیکن گل زار اپنی ماں کے ساتھ آج بھی اسی محل میں آسودۂ خاک ہے۔
عمر حیات کے ورثا کے محل چھوڑنے کے بعد اگلے چند سال تک اس خاندان کے نوکر یہاں کے مکین رہے۔ بعد ازاں اس عمارت کو یتیم خانے میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہاں کے ایک ہال کو لائبریری میں بھی تبدیل کیا گیا مگر مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے عمارت زبوں حالی کا شکار ہوگئی۔