”اے وہ ذات کون ہے تو جس کے سوا اور کوئی نہیں”
یہ الفاظ مقبرہ حضرت شاہ برہان کے صدر دروازے پر رقم ہیں ۔ تین سو سال گزرنے کے باوجود ان الفاظ کی روشنائی میں کمی نہیں آئی۔ ہزاروں لوگ صدہا برس سے ان الفاظ کو دہرارہے ہیں۔ ان کی معنوی گہرائی تو کوئی شناسا ہی جان سکتا ہے لیکن ان الفاظ کو محض پڑھنے سے جو لذت بیدار ہوتی ہے اس کا بھی کوئی شمار نہیں ۔ حضرت شاہ برہان کا نام یقیناً ان چند بزرگوں میں شامل ہے جو ان الفاظ میں چھپے راز سے آشنا تھے لیکن اس آگہی کے باوجود وہ تمام عمر خود سے بار بار یہی سوال کرتے رہے ۔ ”اے وہ ذات کون ہے تو جس کے سوا کوئی اور نہیں ۔ ان کے نزدیک یہی سوال حقیقت تک پہنچنے کا راستہ تھا۔ یہی نفی کا نقش ثبت کرتا ہے اور یہی قطرے کو کل سے ملاتا ہے۔
میں نے جب پہلی بار اس مقبرہ کے احاطہ میں قدم رکھا تو یہاں ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ ٹوٹی پھوٹی اینٹیں، شکستہ آثار اور ارد گرد کوڑا کرکٹ کے انبار ۔ شاہجہاں کے وزیر اعظم سعد اللہ خان نے اپنے مرشد کی یاد میں جب یہ عالیشان مقبرہ تعمیر کروایا تو یہاں کیا کچھ نہ ہو گا۔ باغ سبزہ زار، تالاب، فوارے۔ لیکن وقت نے اس سارے حسن و جمال پر سیاہی پھیر دی۔ نہ باغ رہا نہ سبزہ زار، نہ وہ رنگت ہے نہ شان و شوکت ۔ محکمہ آثار قدیمہ کی عدم توجہی قدم قدم پہ بھری نظر آتی ہے ۔ ویرانی کے اس عالم میں صدر دروازے پر لکھی عبارت کی گونج شامل ہونے لگے تو کم مائیگی کا نقش اور گہرا ہونے لگتا ہے اے وہ ذات! کون ہے تو جس کے سوا اور کوئی نہیں“۔
حضرت شاہ برہان 981 ہجری بمطابق 1573 عیسوی میں پیدا ہوئے اور 1041 ہجری میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کے والد گرامی کا نام محب اللہ یا محب علی شاہ تھا۔ ان کے خاندان اور حسب نسب کے بارے میں مختلف روایات مشہور ہیں۔ کہیں انہیں بخاری اور کہیں ہاشمی قریشی لکھا گیا۔ نور احمد چشتی کے مطابق وہ بخارا سے ہندوستان تشریف لائے اور اکبر کے عہد میں وفات پائی۔ نقوش لاہور نمبر کے مطابق وہ بی بی یا کد امن کے عہد میں لاہور تشریف لائے اور ان کا وصال بھی یہیں ہوا اور پھر چند سالوں کے بعد چنیوٹ میں دوبارہ ظاہر ہوئے اور وہیں وفات پائی۔ گویا آپ کی ایک قبر لاہور میں ہے تو دوسری چنیوٹ میں ۔ ان مختلف روایات کی بناء پر کہا جاسکتا ہے کہ غالباً اس نام کے دو بزرگ ہو گزرے ہیں جن کے حالات کو روایات نے گڈمڈ کر دیا۔ آپ کی زندگی کے بارے میں دیگر تفصیلات اور کہیں میسر نہیں۔ ایک تاریخی واقعہ کا تذکرہ البتہ کئی جگہ ملتا ہے جس کے مطابق آپ نے سعد اللہ خان نامی ایک بے سہارا بچے کو اپنی آغوش میں لیا اور اس کی اس طرح تربیت فرمائی کہ وہ عہد مغلیہ کا ایک نامور وزیر ثابت ہوا۔
سعد اللہ خان نے اپنی عقیدت کے اظہار کے لئے بعد ان کی یاد میں چنیوٹ میں یہ یادگار مقبرہ تعمیر کروایا۔ دس کنال کے رقبہ پر پھیلی ہوئی اس بارگاہ میں ابھی بھی عظمت رفتہ کے کچھ نشان باقی ہیں۔ اس قدیم مزار کی تعمیر ۱۰۶۳ اور ۱۰۶۵ ہجری کے دوران عمل میں آئی۔ یہ تاریخ مزار کے دو مرکزی دروازوں پہ آج بھی رقم ہے۔ ایک دروازے سے اس کے آثار مٹ رہے ہیں جبکہ دوسرے دروازے پہ یہ تاریخ ابھی صاف پڑھی جاتی ہے۔ مزار کے اندرونی صحن میں داخل ہونے کے لئے دوسیٹرھیاں بنائی گئی ہیں۔ عقبی سیڑھیوں پر ٹائیں اور سامنے سے آنے والی سیڑھیوں پر مقامی پتھر نصب ہے۔ صحن کے ارد گرد مقامی اینٹوں اور ٹائیلوں سے چار دیواری بنائی گئی ہے۔ اس چاردیواری میں ٹائلیں اس طرح نصب ہیں کہ ان کی ترتیب سے ایک جالی سی بن گئی ہے۔ اس جالی کو مقامی زبان میں پنجرہ کہا جاتا ہے۔ اس چار دیواری پر نہایت خوبصورت گل کاری ہے ۔ باہر کی جانب تو صرف خوبصورت نقوش اور بیلیں ہیں جبکہ اندرونی جانب مختلف پھولوں اور پھلوں کی تصاویر بھی ہیں۔ ان پھلوں کے درمیان خوبصورت صراحیاں پیالے اور ظروف بنائے گئے ہیں۔ دروازوں اور محرابوں کے اوپر رسول اللہ اور خلفائے راشدین کے نام رقم ہیں۔ یہ تحریریں خطاطی کا خوبصورت شاہکار ہیں۔ بیل بوٹوں اور ان تحریروں میں گہرا نیلا آسمانی جامنی سبز پیلا اور سفید رنگ استعمال ہوئے ہیں۔ صحن کے عین وسط میں حضرت شاہ برہان کی قبر ہے جس پر تعمیر بلند و بالا کمرہ اور گنبد مقامی چنیوٹی پتھر سے بنے ہیں ۔ مقبرہ کی اندرونی آرائش نہایت سادہ ہے۔ فرش اور قبر سنگ مرمر سے بنائے گئے ہیں۔ مزار کے رو برو خوبصورت تالاب اور اس میں جڑی ہوئی ہشت پہلوا اینٹیں اور ٹائلیں ابھی بھی دل کو لبھاتے ہیں۔ اس تالاب میں پانی کی فراہمی کے لئے شاہی مسجد کی طرز کا ایک کنواں تھا۔
جسے آسمانی کنواں کہہ کے پکارا جاتا تھا۔ اس کنویں سے نکالا گیا پانی زیر زمین نالیوں سے گزر کر تالاب کی تہہ تک پہنچتا اور پھر دلکش فواروں سے باہر نکلتا۔ تالاب کی شکستگی کی وجہ سے اب یہ کنواں بند ہو چکا ہے۔ مزار پہ ہونے والے سالانہ عرس کے دنوں میں یہ کنواں چلایا جاتا تھا۔ قرب وجوار میں مشہور تھا کہ اس موقعہ پر پانی نکالنے کے لئے استعمال ہونے والے بیل سارا سال بیماری سے محفوظ رہتے ہیں۔ ارد گرد دیہاتوں کے رہنے والے کسان اپنے بیلوں کو رنگدار چادروں اور ریشمی رو مالوں سے سجا کر یہاں لاتے اور کنویں پر جوت دیتے۔ جب کوئی کسان اپنے بیل کو تین یا چار سے زیادہ چکر لگواتا تو شور مچ جاتا۔ پچھلے دس پندرہ سال سے بیل جو تنے کا یہ سلسلہ اب ناپید ہے ۔ اس مزار سے اور بھی کئی دلچسپ کہانیاں اور روایتیں منسوب ہیں۔ زور عقیدت نے ان کہانیوں کو عام کر دیا ہے۔ ایک کہانی کے مطابق محلہ گڑھا چنیوٹ کا ایک ہندو ایک روز حضرت شاہ برہان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ اپنی تنگدستی اور غربت کی وجہ سے بے حد غم زدہ تھا۔ اس کو اس حالت میں دیکھ کر آپ نے تسلی دی اور فرمایا کہ غربت سے نکلنا ہے تو سرسوں کے تیل کا کاروبار کرو۔ اللہ تعالیٰ برکت سے نوازے گا۔ اس نے حضرت کے ارشاد پر عمل کیا اور تیل کا کاروبار شروع کر دیا۔ خدا کے فضل سے جلد ہی اس کے دن پھر گئے اور وہ حضرت کا غلام بن گیا۔ حضرت شاہ برہان کی وفات کے بعد وہ اور اس خاندان کے لوگ جمعرات کے روز ان کے مزار پر سرسوں کا تیل پیش کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ اس رسم میں یہ تبدیلی ہوئی کہ خادم مزار جمعرات کو ایک بڑا برتن لے کر تیل اکٹھا کرنے کے لئے چل نکلتا اور پھر سارا ہفتہ اس تیل سے مزار پر چراغ روشن رہتے۔ تیل جمع کرنے کی اس رسم کو چرا کی لا نا کہا جاتا تھا جو دراصل چراغ یا چراغی کی بگڑی ہوئی شکل ہے ( روایت مرزا الطاف بیگ) بجلی آئی تو پرانے چراغ گل ہو گئے ۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ہندو خاندان بھی چنیوٹ سے مراجعت کر گیا۔ یوں چرا کی لانے کی رسم بھی باقی نہیں رہی۔ وہ پرانا چراغ دان جس میں چراغ روشن کیا جاتا تھا البتہ اب گلزار منزل میں بنائے گئے میوزیم کی زینت بن چکا ہے۔
مقبرے سے ملحق آسمانی کنویں کے علاوہ ایک اور کنواں بھی بنایا گیا تھا۔ اس کنویں کے اندر بھی چنیوٹی پتھر نصب ہے۔ مشہور ہے کہ جلدی امراض کے لئے اس پانی میں تاثیر شفا ہے۔ آج بھی بڑی تعداد میں مستورات چھوٹے بچوں کو اس پانی سے نہلانے کے لئے یہاں لاتی ہیں۔ کنویں کے ساتھ ایک چھوٹا سا چبوترا ہے۔ حضرت شاہ برہان اس چبوترے پر بیٹھ کر تبلیغ فرماتے تھے ۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ وصال کے بعد آپ کے ذاتی استعمال کی تمام اشیاء یہیں دفتادی گئیں اور اس چبوترے پر آپ کو غسل دیا گیا۔ مرزار کے متولی کے مطابق مزار کا رقبہ دن بدن کم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ ناجائز قابضین ہیں جنہیں روکنے والا کوئی نہیں ۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو جو تھوڑا بہت احاطہ باقی ہے وہ بھی جاتا رہے گا۔ شاید صرف قبر ہی بچ پائے محمد بوٹا یہ کہتے ہوئے آگ بگولہ ہو رہا تھا۔ نہ جانے اسے مزار کی حرمت کا خیال تھا یا اپنے روزگار کی فکر تھی ۔ تاہم یہ امر قابل تشویش ضرور ہے کہ تین سو سال میں یہ وسیع و عریض باغ اور مقبرہ مختصر ہو کر صرف دس کنال تک رہ گیا ہے ۔ سب کچھ فنا ہونے کو ہے۔ دوام تو صرف اس کو حاصل ہے جس کا نام صدر دروازے پہ ثبت ہے ۔
نوٹ: یہ مضمون ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتاب (شہرِ لبِ دریا) سے لیا گیا ہے۔