تاریخی عمارات
شاہی مسجد :
چنیوٹ کے وسط میں واقع شاہی مسجد نواب سعد اللہ خان تصمیم وزیر اعظم ہندوستان دور شاہ جہاں کی عالی ہمتی کی ابھی تک یاد تازہ کر رہی ہے۔ جنہیں ہندوستان کا سب سے پہلا مقامی وزیر اعظم ہونے کا شرف حاصل تھا۔ 1645ء میں جب نواب سعد اللہ خان وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے تو 130 کھ روپے کی کثیر رقم و دیگر انعامات سے نوازے گئے ۔ انہوں نے شکر خداوندی بجالانے کی خاطر اپنے آبائی وطن چنیوٹ میں ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کروانے کا ارادہ کیا ۔ لہذ انہوں نے اپنے اس ارادہ کو تکیمل تک پہنچانے کیلئے قامعہ ریاتی کے سامنے اس بلند جگہ کا انتخاب کیا جو آج بھی ماسوائے پہاڑی کے سارے شہر سے بلند ہے۔ ان کا خیال تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ آبادی میں اضافہ بھی ہوتا گیا تب بھی خداوند تعالیٰ کا گھر اونچی جگہ ہی رہے گا اور دور دور تک نظر بھی آئے گا۔ 1646ء کو اس عظیم الشان مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا ۔ جس کی تعمیر میں چنیوٹ کی مقامی پہاڑیوں سے پتھر لا کر استعمال کیا گیا۔ اس مسجد کی تعمیر کا کام چنیوٹ ہی کے ہنر مندوں نذر حسین محمد یعقوب اور استاد خیر محمد کے سپرد کر دیا گیا۔ جنہوں نے نہایت عرقریزی سے کام لیتے ہوئے اس مسجد کی تعمیر کی ۔ یہ وہی کاریگر تھے جنہوں نے تاج محل آگرہ ، بنارس کے کاشی رام مندر اور مسجد وزیر خان کی تعمیر کی ۔ اس مسجد پر نقاشوں نے نقش نگاری کر کے اسکی بناوٹ و سجاوٹ کو دوبالا کیا۔ 9 سال کے عرصہ میں 1655 ء تک مکمل ہو گئی۔ اس مسجد میں ہر داخل ہونے والا اس کی شان و شوکت نقش و نگاری کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔ مسجد کا رقبہ شرق فر با 108 فٹ 6 انچ اور شمال جنو ب 7 9فٹ 112- 19انچ بیرونی سیڑھیوں کے بغیر ہے ۔ مشرق کی طرف واقع سیڑھیوں کا رقبہ 13×20 فٹ ہے۔ شمال کی طرف واقع سیڑھیوں کا رقبہ 112-12 x 22-1/2 فٹ ہے ۔ مسجد کے اندرونی صحن کا رقبہ x 71-1/2 "5 70 ہے۔ مسجد کے صدر دروازے کے ساتھ ایک باغ ہے جسے حضوری باغ کہتے ہیں مسجد کے صحن میں نمازیوں کے وضو کیلئے "18.8 مربع فٹ حوض بنایا گیا ہے۔ جس کے درمیان میں فوارہ لگا ہوا۔ ہے مسجد کے جنوب مغربی کونے میں ایک کنواں ہے جس کے ذریعے حوض میں نمازیوں کے وضو کیلئے پانی لایا جاتا تھا۔ یہ کنواں اب بند ہو گیا تو اس جگہ موٹر پمپ لگا دیا گیا ہے۔ مسجد سے پانی کا نکاس کا ایسا کامیاب زمین روز بندو بست کیا گیا جو تقریبا ساڑھے تین صدیاں گزرنے کے باوجود تا حال چل رہا ہے۔ ساری مسجد اور سیٹرھیوں میں استعمال ہونے والا پتھر سیاہ رنگ کا اور دروازوں پر گنبد نما محرابی ڈیوڑھیاں ہیں ۔ مسجد کی خوبصورت چھت 21 ستونوں پر کھڑی کی گئی ہے۔ پتھر کے ستونوں پر خوبصورت نقش نگاری کی گئی ہے۔ اس کے مناروں کو کمال ہنر مندی سے کام لیتے ہوئے جوڑا گیا۔ مسجد کا اندرونی صحن پتھر کی سلوں اور بیرونی صحن پختہ اینٹوں سے بنایا گیا۔ اس مسجد کے ستونوں والی طرز تعمیر دہلی کی خرقہ مسجد کے مطابق ہے۔ اس مسجد اور مسجد سے ملحقہ ساڑھے بارہ ایکڑ ( تقریباً 100 کنال ) رقبہ تھا ۔ جو بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ مختلف اطراف سے مختلف لوگوں نے اپنے استعمال میں لے لیا۔ 1816ء کو رنجیت سنگھ کے زمانہ میں اس مسجد کو بطور اصطبل استعمال کر کے از حد بے حرمتی کی گئی۔ مسجد کا انتظام قاضی مولا بخش کے سپرد کیا گیا۔ جب کہ ان کی وفات کے بعد قاضی غلام مرتضی کے ذمہ ہوا۔ 1956ء میں مسجد کی منتظمہ کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ جس میں قاضی صفدر علی چیر مین ، شیخ فضل الہی اور شیخ محمد امین ممبر تھے۔ اس کمیٹی کے ذمہ مسجد کی دیکھ بھال اور اس مسجد سے ملحقہ دکانوں سے حاصل ہونے والے کرایہ جات کی رقم سے مسجد کے مختلف حصوں کی مرمت، امام مسجد اور اس کی تنخواہ کا بندو بست وغیرہ شامل تھا۔ یکم اپریل 1960ء کونوٹیفکیشن نمبر 1153/60 کے تحت اس مسجد کو حکمہ اوقاف پنجاب کے سپرد کیا گیا۔ جس کا 25 اپریل 1960ء کو محکمہ اوقاف نے انتظام سنبھال لیا۔ 1963ء میں محکمہ اوقاف نے 1,85,000 روپے کی لاگت سے مسجد کی مرمت کا منصوبہ بنایا۔ مگر کاریگر نہ ملنے کی وجہ سے مرمت نہ ہو سکی۔ 1964ء میں محکمہ اوقاف نے ریجس پر پرز کمیٹی ( آرپی سی) بنائی۔ جس میں اس وقت کے ریزیڈنٹ مجسٹریٹ چوہدری عزیز الدین چیر مین اور قاضی صفدر علی ممبر تھے۔ اس کمیٹی نے مسجد کے رقبہ میں تعمیر کردہ اسلامیہ ہائی سکول کی جگہ کو خالی کرنے یا اس کا کرایہ ادا کرنے کیلئے انجمن اسلامیہ سے کہا جس پر -/800 روپے ماہوار کرا بیہ دینا طے ہوا۔ جو تقریباً ڈیڑھ سال تک دیا گیا۔ بالآخر انجمن اسلامیہ نے کرایہ دینا بند کر دیا جس پر آرپی کمیٹی کے اراکین نے عدالت سے رجوع کیا۔ کچھ عرصہ تک یہ مقدمہ زیر سماعت رہنے کے بعد انجمن اسلامیہ کے حق میں ہو گیا اور مقدمہ خارج ہو گیا۔
13 اپریل 1968ء کو تیسری مرتبہ تعمیراتی کمیٹی بنا کر 5لاکھ روپے سے از سرنو مرمت کا منصوبہ بنایا گیا مگر یہ منصوبہ بھی تکمیل تک نہ پہنچ پایا۔ ڈائر یکٹر آثار قدیمہ جناب ولی اللہ خان نے 1972ء تا 1977ء تک پانچ سال کے عرصہ میں 1076110 روپے کی لاگت سے اس مسجد کی تعمیر نو کروائی ۔ اس مسجد کی از سر نو مرمت میں ظہور احمد معمار، غلام محی الدین کمانگر نقاش، اور ٹیکسلا کے گلاب خان سنگتراش سمیت بیالیس افراد نے حصہ لیا۔ جنہوں نے ابتدائی ساخت ونقوش کی پیروی کرتے ہوئے بغیر کسی تبدیلی کے اس مسجد کی مرمت کی۔ 152 دکانیں اس مسجد کی جائیداد میں شامل تھیں جن میں سے 12 کا نہیں ختم ہو چکی ہیں اور اب 140 باقی ہیں ۔ جن سے 90-1989ء میں 231500 روپے سالانہ کرایہ وصول ہوتا تھا ۔ اور 04-2003 ء میں گیارہ لاکھ روپے وصول ہوتا ہے۔ مگر باوجود اس کے بھی یہ مسجد محکمہ اوقاف کی غفلت کا شکار ہے ۔ حضوری باغ اجڑ رہا ہے ۔ جس میں نہ مالی کا انتظام ہے اور نہ ہی مسجد کی دیکھ بھال ہورہی ہے۔ اب پھر سے یہ مسجد کسی ولی اللہ خان جیسے مسیحا کی منتظر ہے۔
حکومت پنجاب بالخصوص محکمہ آثار قدیمہ کی شدید غفلت سے یہ تاریخی مقام اب پس پشت جارہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ! اس مسجد کی جتنی آمدنی ہے زیادہ نہیں تو اس سے نصف ہی اس کی دیکھ بھال تعمیر و مرمت پہ خرچ ہوتی ۔ مگر یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ لاکھوں روپے کا ریونیو یہاں سے اکٹھا کر کے چند شہروں کو ماڈل سٹی وغیرہ کا نام دے کر سجایا جارہا ہے اور قوم کے اس اثاثہ کو جس پر ہم اہلیان شہر کو فخر ہے اور آنے والی نسلیں بھی اس پر فخر کرتی رہیں گی۔ اس کی طرف بالکل توجہ نہ ہے۔ یہ چند الفاظ دکھی دل کے ساتھ اس تاریخ کا حصہ بنا رہا ہوں تا کہ شاید کبھی کسی وقت یہ آواز ایوان حکومت تک جا پہنچے اور اس مسجد اور اس سے ملحقہ باغ، اراضی وغیرہ دوبارہ اپنی ایک نئی زینت لیکر سامنے آئیں۔
مسجد مہتر حسین :
محلہ راجاں میں واقع یہ مسجد مغل فن تعمیر کا نادر نمونہ ہے ۔ یہ مسجد مغل شہنشاہ شاہجہاں کے وزیر اعظم نواب سعد اللہ خان تصمیم کی تحریک پر تعمیر ہوئی۔ مسجد کے بال کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ درمیان والے حصہ پر گنبد بنایا گیا ہے جبکہ باقی دو حصے بغیر گنبد کے ہیں۔ اسکی چھت اور دیواروں کو خوبصورت نکاشی سے منقش کیا گیا ہے جو صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہیں ۔ مسجد سے متصل کنواں اور باغ تھا جواب زمانے کی نذر ہو چکا ہے۔ سکھ عہد میں برصغیر کی دوسری مساجد کی طرح اس مسجد کو بھی نقصان پہنچا اور اسکو بھی اصطبل میں تبدیل کر دیا گیا۔ اسکا بہت سارا حصہ گرا دیا گیا۔ جس کو بعد میں مستری غلام حسین چینیوں ، مستری خدا بخش اور مستری سلطان محمود نے تعمیر کیا۔
گلزار منزل ( عمر حیات محل)
عمر حیات چنیوٹ کے خوجہ خاندان میں نور بخش کے ہاں تقریباً 1892ء میں پیدا ہوا۔ آپ کے والد محترم نے دو شادیاں کر رکھی تھیں۔ پہلی بیوی کے بطن سے عمر حیات اور ان کے چار بھائی قادر بخش ، مہر بخش ، اللہ یار اور احمد یار تھے ۔ جبکہ دوسری بیوی کے بطن سے صرف ایک بیٹا محمد حسین تھا۔ عمر حیات لڑکپن ہی سے کاروبار کے سلسلہ میں کلکتہ چلے گئے جہاں انہوں نے مختلف کاروبار شروع کیے جن میں کافی منافع پہنچا۔ کلکتہ میں انہیں گھڑ سواری کا شوق پیدا ہوا۔ انہوں نے وہاں سے اپنے جگری دوست محمد کھمولہ قصاب سے پاس ایک اعلیٰ نسل کی گھوڑی پہنچائی جو اس کی دیکھ بھال کرتا ۔ عمر حیات جب کبھی اپنے آبائی وطن آتا تو صبح گھوڑی پر سوار ہو کر دریائے چناب کے کنارے سیر کو نکل جاتا۔ اور مختلف دیہات میں اپنے دوسرے دوستوں کو ملنے کے بعد شام کو واپس لوٹ آتا ۔ کچھ عرصہ چنیوٹ میں رہنے کے بعد واپس چلے جاتے۔ ایک دن آپ کو علم ہوا کہ فلاں روز پنڈی بھٹیاں میں ایک مشہور میلہ لگتا ہے جہاں گھوڑ ناچ اور نیزہ بازی ہوتی ہے۔ لہذا آپ میلے کے دن چنیوٹ پہنچے ۔ گھوڑی پر سوار ہو کر اپنے دوست محمد کھمولہ کے ساتھ میلہ پر چلے گئے۔ نیزہ بازی اور گھوڑ ناچ دیکھنے کے بعد آپ طوائفوں کے ڈیروں کی طرف گئے جہاں ایک خوبصورت فاطمہ نامی طوائف کو دیکھتے ہی دل و جان سے اس پر فریفتہ ہو گئے۔ چنانچہ طوائف بھی آپ کے لباس و شخصیت سے متاثر ہو کر ان میں دلچسپی لینے لگی۔ آپ نے اسی وقت اس سے شادی کرنے کا ارادہ کر لیا اور اس کی طرف شادی کا پیغام بھیجا۔ ساتھ ہی اسے اس کے رشتہ داروں سے دور رہنے کی شرط عائد کی جسے اس نے بخوشی قبول کر لیا۔ لہذا عمر حیات نے اس فاطمہ نامی طوائف سے شادی کر لی جس کی وجہ سے اس کے رشتہ دار ناراض ہو گئے ۔ فاطمہ نے بھی عمر حیات کے عقد میں آکر اپنی زندگی کو بدل لیا۔ رشتہ داروں سے قطع تعلق ہوگئی۔ چند دن چنیوٹ میں رہنے کے بعد دونوں میاں بیوی کلکتہ چلے گئے۔ وہاں ان کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نکاح عمر حیات کے بھتیجے محمد صدیق سے ہوا۔ 1920ء میں آپ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام محمد گزار رکھا گیا۔ بیٹے کی عمر ابھی چار سال تھی کہ عمر حیات واپس اپنے آبائی وطن پہنچے۔ ان کے پاس دولت کی فراوانی تھی۔ انہوں نے چنیوٹ میں اپنی رہائش کیلئے ایک محل تعمیر کرنے کا ارادہ کیا۔ 1924ء میں انہوں نے 14 مرلہ رقبہ پر مشتمل محل کی بنیاد رکھی ۔ جس کی چنائی کیلئے جالندھر سے مستری نیاز احمد اور مستری غلام نبی کی خدمات حاصل کی گئیں ۔ لکڑی کا کام چنیوٹ کے مشہور پر جمعہ خاندان کے میاں الہی بخش و میاں رحیم بخش پر جمعہ اور نقاشی کا کام مشہور نقاش غلام محی الدین کمانگر کے ذمہ لگایا گیا ۔ باقی مزدور بھی چنیوٹ ہی سے حاصل کئے گئے۔ محل کی تعمیر سید حسن شاہ کے زیر نگرانی شروع ہوئی ۔ خوبصورت ٹائلیں اور ساگوان کی لکڑی کلکتہ سے منگوائی گئی۔ یہ پانچ منزلہ مل پانچ سال کے عرصہ میں 1929ء میں مکمل ہوا محل کی تعمیر پہ دس لاکھ روپیہ جو فی الوقت دس کروڑ روپیہ جنتا ہے، خرچ ہوا۔ جب اس پانچ منزلہ محل کی تکمیل ہوئی تو دور دراز علاقوں سے لوگ دیکھنے آتے ۔ یہ خوبصورت محل چنیوٹ کی نشاندہی کرتا ۔ محل کی تعمیر سے دو سال بعد 1932ء میں عمر حیات اللہ کو پیارے ہو گئے۔ شوہر کی وفات کے بعد فاطمہ اپنے بیٹے محد گزار کو ساتھ لے کر کلکتہ چلی گئی محل با کفل رہا جس وجہ سے چڑیوں اور کبوتروں کا مسکن بنا گیا۔ جب محمد گلزار کی عمر 18 سال ہوئی تو فاطمہ نے اپنے لخت جگر کیلئے اپنے شوہر کے بھتیجے محمد سعید سے اس کی نیک وصالح بیٹی کا رشتہ طلب کیا جو اسے با آسانی مل گیا۔شادی کی تاریخ مقرر ہوئی۔ فاطمہ بی بی بیٹے کی شادی سے دو ماہ قبل چنیوٹ آگئی محل کی صفائی کروا کر شادی کی تیاری شروع کی۔ رات کو بازاروں میں لیمپ جلا کر روشنی کی گئی۔ دولہا محمد گلزار کو گھوڑے پر سوار کر کے عظیم الشان بنج کا جلوس نکالا گیا۔ اس قدر آتش بازی چلائی گئی کہ آسمان روشن ہو گیا۔ بیج کے جلوس کو بازاروں میں پھر ایا گیا۔ لوگوں نے علاقائی رقص کیا۔ دس بجے رات دلہن کو ڈولی میں بٹھا کر محل میں لایا گیا۔ فاطمہ بی بی نے دلہن کو دعاؤں کے ساتھ ڈولی سے باہر نکال کر سجے ہوئے عروسی کمرے میں بٹھایا۔ جب دولہامحمد گلزار کمرے میں داخل ہو گیا تو فاطمہ بی بی نے سکھ کر سانس لیا اور اپنے کمرے میں جا کر سوگئی۔ آج رات اس نے گہری نیند کا مزہ چکھا تھا اگلے روز کیلئے وسیع پیمانے پر ولیمہ کا انتظام کیا گیا۔ رات گزرتے ہی چنیوٹ کے نامورنائیوں نے دیگیں آگ پر رکھنا شروع کر دیں۔ بازاروں میں جہاں تک نظر جاتی دیکھیں ہی دیکھیں نظر آتیں ۔ فاطمہ بی بی نے ایک روز قبل ہی منادی کرادی گئی تھی کہ جہاں تک دیگوں کا دھواں نظر آئے وہ لوگ بھی اپنے آپ کو شادی میں شریک سمجھیں اور ویسے میں شمولیت اختیار کریں۔ مگر اسے کیا معلوم تھا کہ اس کے ساتھ وہ کونسا بڑا سانحہ ہونے والے ہے۔ فاطمہ بی بی کے دل میں کچھ اور تھا مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ دولہا صبح سویرے اُٹھ کر فسل شادی کیلئے غسل خانے میں داخل ہوا۔ نوکرانی نے غسل خانے میں پانی گرم کرنے کیلئے دیکھتے کوئلوں کی انگیٹھی رکھ دی۔ محمد گزار نے غسل خانے میں داخل ہوتے ہی اندر سے درواز ہ بند کر لیا۔ جب کافی دیر تک وہ باہر نہ آیا تو دروازہ کھٹکھٹایا گیا مگر جواب ندارد۔ بالآخر دروازہ توڑا گیا تو محمد گلزار ننگے بدن مردہ حالت میں فرش پر پڑا تھا۔ اس سانحہ کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل گئی۔ لوگ جوق در جوق محل کی طرف روڑے۔ چہ مگوئیاں ہونے لگیں کہ محمدگلزار کو کسی نے زہر پلا کر ماردیا ہے۔ خوشیوں بھرائل ماتم کدہ بن گیا۔ ہندو و مسلم عورتوں نے اس قدر سینہ کوبی کی کہ جس کی مثال زمین چنیوٹ پر آج تک نہیں ملتی ۔ بد قسمت فاطمہ کچھ عرصہ تک بے ہوش رہی ۔ ہوش آنے پر اس کی شیخ و پکار آسمان تک پہنچتی تھی۔ اس نے سر میں کوئلوں کی راکھ ڈال رکھی تھی ۔ تھانہ صدر چنیوٹ کے ایس ایچ او شیخ عبدالمجید نے قتل کی سازش سمجھتے ہوئے عمر حیات کے وارثین کو گرفتار کر لیا۔ میڈیکل بورڈ بٹھایا گیا لائلپور (فیصل آباد ) سے ڈاکٹر کشن سنگھ و دیگر ماہر ڈاکٹروں کی ( خدمات حاصل کی گئیں۔ جنہوں نے محمد گلزار کی نعش کا مکمل معائنہ کر کے میڈیکل رپورٹ جاری کی کہ محمد گزار کی موت کوئلوں کے گیس کی وجہ سے دم گھٹنے سے واقع ہوئی۔ تھانہ صدر کی پولیس نے طبی معائنہ کی رپورٹ پر اور معززین علاقہ کی تائید پر الزام علیہان کو بری الذمہ قرار دے دیا۔
محمد گلزار کے جسد خاکی کو اسی محل میں ہی سپر د خاک کر دیا گیا۔ ایک سال بعد والدہ محمد گلزار بھی اللہ کو پیاری ہو گئی تو اسے بھی اس کی وصیت کے مطابق اس محل میں اپنے بیٹے کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔ میل دوبارہ تاریکی میں ڈوب گیا۔
یہ مقبرہ نہیں فاطمہ بی بی کی خواہش پر دو قبریں وجود میں آئیں۔ محمد گلزار کے رشتہ دسروں نے اس محل کو منحوس سمجھ کر چھوڑ دیا۔
کراچی میں ٹیکسٹائل ملز والے میاں محمد امین سہگل جو کہ اولاد جیسی نعمت سے محروم تھے۔ انہوں نے کچھ عرصہ کیلئے اس محل میں یتیم خانے کی بنیاد ڈالی محل کی تیسری اور چوتھی منزل پر دو صد یتیم بچوں کے ظہرانے کا بندوبست کیا گیا۔ ان کی تعلیم کیلئے چار پانچی اساتذہ کا گروپ تشکیل دیا گیا۔ کھانے کے لئے معقول انتظام کیا گیا۔ دو سال تک اس محل میں زندگی کے کچھ آثار نظر آئے۔ یہ یتیم خانہ دو سال بعد اپنی نئی عمارت میں منتقل ہو گیا۔ ان کے جانے کے بعد اس محل میں پہلے کی طرح سکوت طاری ہو گیا۔ شروع میں یہ حل پانچ منزلوں پر مشتمل تھا۔ جس کے اوپر نہایت ہی خوبصورت گنبد تھا۔ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے خوشنما اور مختلف رنگوں میں مزین مور کے سر پر قلفی جڑی ہو۔ 1970ء میں نہ جانے بلد یہ چنیوٹ نے کس کے کہنے پر نہایت ہی بے دردی سے اس کا قتل ناحق کر دیا۔ اس کی اوپر والی دونوں منزلیں مسمار کر دی گئیں ۔ وجہ نہایت ہی غیر تسلی بخش تھی کہ اوپر والی منزلوں سے قرب و جوار کی عمارتوں کی بے پردگی ہوتی ہے۔ دوسری وجہ یہ بتائی گئی کہ ان منزلوں کا کسی بھی وقت گرنا ممکن ہو سکتا ہے۔ دونوں وجوہات عقل سے بعید ہیں۔ اب تیسری منزل سے بھی اس طرح بے پردگی ہوتی ہے جس طرح سے کہ پانچویں منزل سے ہوتی تھی ۔ یہ عمارت اب بھی نہایت مستحکم تھی چونے کی چنائی تھی از خود کرنے کا کوئی احتمال نہ تھا۔ بلد یہ چنیوٹ کو کسی آنے والے مسیحا کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔ ابھی تو اس محل پر عالم شباب تھا جس کی جوانی کو آندھیوں، بارشوں اور غاصبوں کی یلغار نے عارضی طور پر مانند کر رکھا تھا ۔۔ 1990ء میں اسٹنٹ کمشنر چنیوٹ جناب ڈاکٹر محمد امجد ثاقب نے ڈپٹی کمشنر جھنگ جناب محمد اطہر طاہر کی توجہ اس محل کی طرف دلائی تو انہوں نے 7 جون 1990 کو نوٹیفکیشن نمبری D.C/6592-94-913 جاری کر کے اس محل کو سرکاری تحویل میں لے لیا اور اس کی مرمت وغیرہ کا کام شروع کروایا اور اس میں عمر حیات لائبریری کے نام پر ایک لائبریری قائم کی ۔ اس کی دوبارہ مرمت میں معماری کا کام شہباز حسین ، محمد جہانگیر، مختار احمداور محمد سلیم نے کیا۔ اور پالش کا کام محمد اقبال غلام شبیر محمد ذوالفقار اور حمد عباس رنگ سازوں نے کیا۔ پلاسٹر اور شیشہ کی نقاشی حاجی مختار احمد اور مقصود وارث نے کی۔
سبز محل :
چنیوٹ میں شیخ عبدالرحیم وہرہ ایک بہت بڑا چڑے کا تاجر تھا۔ جس کا کاروبار کلکته، مدراس اور ہندوستان کے دوسرے بڑے شہروں تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کے پاس دولت کی فراوانی تھی، اس نے سوچا کہ چنیوٹ میں اپنی رہائش کیلئے ایک عظیم الشان محل تعمیر کیا جائے۔ لہذا اس نے چودہ مرلہ رقبہ پر مشتمل 1901ء میں اس محل کی بنیاد رکھی جس کی تعمیر کا کام اس وقت کے مشہور معمار و کاریگروں کے سپرد کیا گیا۔ جنہوں نے بڑی عرق ریزی سے کام لیتے ہوئے اس کی تعمیر کی محل کی چنائی چونا گچ سے کی گئی محل کی تمین منزلیں تھیں ہر منزل میں بارہ کمرے اور آخری منزل کی چھت پر دو ماڑیاں بھی تھیں ، منزلوں کی سیڑھیوں ، کمروں کی اندرونی دیواروں ، کمروں اور صحن کے فرش پہ دلکش پتھر لگائے گئے ۔ کمروں کی چھتوں ، دروازوں کھڑکیوں اور کل کے سامنے والے بیرونی حصے یہ چنیوٹ کے کاریگروں نے لکڑی کی مینا کاری کر کے محل کی زینت کو دوبالا کر دیا۔ محل کا صدر دروازہ لکڑی کا بنا ہوا تھا جس کی اونچائی تقریباً 16 فٹ اور چوڑائی تقریباً 12 فٹ تھی ۔ جس پر لکڑی کے دلکش بیل بوٹے بنائے گئے۔ محل میں ایک کنواں تعمیر تھا۔ جس سے پورے محل میں پانی سپلائی کا انتظام تھا۔ محل کی کھڑکیوں اور دروازوں کو سبز رنگ کیا گیا جس وجہ سے ” سبز محل، مشہور ہو گیا۔ اس وقت یہ حل تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار لاگت سے مکمل ہوا۔ شاہی مسجد چنیوٹ اور کشمیر حل کے بعد یہ پہلی قابل دید عمارت تھی۔ اس وقت چونکہ آبادی بہت کم تھی۔ جس وجہ سے یہ کل دور دور تک نظر آتا تھا۔ جب اس محل پر سورج کی کرنیں پڑتیں تو لوگ اسے دور سے دیکھ کر بہت محظوظ ہوتے تھے ۔ اس محل کو قریب سے دیکھنے والے کی حیرت گم ہو جاتی ۔ بالآخر محل کے مالکان کا روبار کے سلسلہ میں کراچی ، لاہور اور فیصل آباد رہائش پذیر ہو گئے تو انہوں نے چنیوٹ چھوڑنے کے ساتھ اس عظیم الشان محل کو بھی خیر آباد کہہ دیا۔ 1980ء میں اس محل کو چوہدری محمد صادق، چوہدری غلام حسین ، اور چوہدری محمد رفیق عاربی برادران جو کہ دھاگے اور کپڑے کی امپورٹ وایکسپورٹ کا کاروبار کرتے تھے انے ساڑھے چھ لاکھ روپے میں خرید لیا۔ دس سال کے بعد ان تینوں بھائیوں کے درمیان اس محل کی تقسیم کا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ لہذا انہوں نے 1990ء میں اسے گرا کر ملبہ ورقبہ تین حصوں میں بانٹ کر اس کی جگہ دکانیں ونئے مکان تعمیر کر لئے ۔ اب اس جگہ اس عظیم الشان محل کا نام باقی ہے نشان نہیں۔
کشمیر محل :
محل حسین خان درانی جو مقصود خان درانی کی چوتھی پشت میں سے تھا، نے 1904ء میں تعمیر کروایا۔ سیکل تقریباً 10 مرلہ رقبہ پر مشتمل ہے جس کی دومنزلیں تھیں۔ ہر منزل میں چار کمرے تھے۔ اس محل کی اوپر والی منزل ختم ہو چکی ہے اور نچلی منزل کی خستہ حال دیوار میں اب بھی موجود ہیں ۔ جن کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اپنے وقت کا عالیشان محل تھا۔ جو کہ شاہی مسجد چنیوٹ اور سبز محل کے بعد قابل دید عمارت تھی جواب بھی درانیوں کے عہد رفتہ کی یاد تازہ کر رہا ہے۔
قلعه ریختی :
یہ قلعہ شہر کے وسط میں عمر حیات محل کے بالمقابل واقع ہے۔ جو کہ تنگ و تاریک گلیوں میں گھرا ہوا ہے۔ یہ قلعہ سب سے پہلے 1326ء میں سلطان محمد تغلق نے تعمیر کروایا ۔ اس کے بعد جب بھیرہ کا حاکم ماچھی خان قتل ہوا تو اس کا انتقام لینے کیلئے اس کی بہن چینی نے 1391ء میں حملہ کر کے قلعہ و شہر کو تباہ و برباد کر دیا۔ اس وقت شہر دریاء کے اس پار تھا اور قلعہ اس پار۔ پھر اس نے نیا شہر اس قلعہ کے پاس آباد کیا اور قلعہ کی تعمیر نو کروائی۔ دوبارہ اس قلعہ کی تعمیر نومغل شہنشاہ شاہ جہاں کے عہد حکومت میں قاضی خاندان کے جد امجد نواب وزیر خان گورنر لاہور نے کروائی۔ ایک راویت کے مطابق سکندر اعظم یونانی کے زمانے میں بھی یہاں قلعہ موجود تھا ۔ جسے غیر مسلم مورخین نے ” قلعہ چین آؤٹ اور مسلم مورخین نے ” قلعہ چند روز کے نام سے موسوم کیا ہے۔ مختلف حکمرانوں کے حملوں میں اس قلعہ نے شدید چوٹیں کھائیں جس وجہ سے خستہ حال ہو گیا ۔ لوگوں نے اس قلعہ کو ہموار کر کے رہائشی مکانات تعمیر کر لئے ۔ اب اس قلعہ کا نشان محض ایک خستہ حال دیوار باقی ہے۔ ریختی کا مطلب پرانا اور کھنڈر ہے۔ چونکہ یہ بہت قدیمی اور پرانا قلعہ ہے اس لئے اسے قلعہ ریختی کیا جاتا ہے۔
یہ مضمون داکٹر ارشاداحمد تھیم کی کتاب ” تاریخ چینیوٹ "سے لیا گیا ہے