چنیوٹ کے کوچہ و بازار میں ان گنت داستانیں بکھری پڑی ہیں جن کے کردار چشم بینا کے لئے کبھی حیرت کبھی عبرت کا سامان ہیں۔ ایسی ہی بے شمار کہانیوں میں سے ایک کہانی کا نام عمر حیات محل ہے۔ اپنے عہد کی اس شاہکار عمارت کو کچھ لوگ چنیوٹ کا تاج محل کہتے ہیں۔ اس لئے کہ تاج محل کی طرح یہ عمارت بھی وقت کے رخسار پہ کسی کے آنسوؤں کا دمکتا ہوا موتی ہے جس کے در و بام سے حیرت و حسرت ٹپکتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ حل دنیا کی بے ثباتی کا افسانہ ہے۔ اس کے درودیوار شکستہ آرزوؤں کا گہوارہ ہیں اور یہاں ہر سو جو حقیقت رقم ہے اسے قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
” کتنے ہی محل کھنڈر بنے ہوئے ہیں کیا یہ لوگ زمین پر چلے پھرے نہیں کہ ان کے دل سمجھ سکتے اور کان سن سکتے”
( سور والج 45)
اس محل کی کہانی کہنا اور سنا ایک دلگر از تجربہ ہے۔ کہتے ہیں کہ اس محل کا خالق سیٹھ عمر حیات و ہرہ چنیوٹ میں اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں آکر آباد ہونے والی * خوجہ برادری کا ایک معمولی شخص تھا لیکن قدرت نے اسے اس قدر دولت سے نوازا کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس کی دولت کے ذرائع اس شہر کی تاریخ کی طرح سر بستہ راز ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ایک کام یاب تاجر تھا اور زندگی اس کے دامن میں ہمیشہ نفع کے سودے ہی بکھیرتی رہی۔ جب کہ بعض لوگوں کے نزدیک اس کی دولت سٹہ کے کاروبار کی مرہون منت تھی ۔ وہ ریس کا بھی رسیا تھا اور ان ذرائع سے اس نے بے پناہ دولت کمائی۔ آج کل یہ جاننا ضروری نہیں سمجھا جاتا کہ کسی خاندان کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ اور دولت کی ریل پیل کے کیا اسباب ہیں لیکن کبھی یہ روایت بھی رہی ہے کہ دولت کی فراوانی کو حسب نسب اور ذریعہ روزگار کے آئینہ میں پرکھا جاتا تھا۔ سیٹھ عمر حیات نے پیسہ تو بہت کمایا لیکن وہ معاشرہ میں کوئی ممتاز اور باوقار مقام حاصل نہ کر سکا۔ اس کی دولت سے وابستہ افسانوں میں اس کی نیک نامی کی خواہش دفن ہوگئی تھی ۔ وہ اکثر کف افسوس ملتا کہ اس کی یہ دولت نہ تو کسی نیک مقصد کے لئے استعمال ہو سکتی ہے اور نہ ہی اس کی خیرات اس کے لئے ذریعہ نجات بن سکتی ہے۔ ایک ہارا مجمن اسلامیہ چنیوٹ ” کی انتظامیہ نے سیٹھ عمر حیات سے رابطہ قائم کیا اور فلاحی سرگرمیوں کے لئے عطیہ کی درخواست کی جس پر عمر حیات نے انھیں اپنی دولت کے ماخذ سے آگاہ کیا تو وہ اصحاب یہ کہتے ہوئے وہاں سے اٹھ کر چلے آئے کہ خدا کی راہ میں اگر انھیں کچھ درکار ہے تو وہ محض رزق حلال ہے۔
سیٹھ عمر حیات عجب وضع کا انسان تھا۔ وہ سونے کے کڑے اور ریشمی کپڑے پہن کر اپنی حویلی کے صدر دروازے پر بیٹھا رہتا۔ کئی بارا سے اپنی بے پناہ دولت کا مصرف سمجھ نہ آتا۔ ایک روز چنیوٹ کے مشہور ترکھان اور منبت کا راہی بخش پر جمعہ کا وہاں سے گزر ہوا۔ وہ اس کی حالت دیکھ کر ہنس پڑا۔ عمر حیات کے پندار پہ یہ مسکراہٹ ایک تازیانہ بن کر برسی۔ اس نے تحقیر آمیز لہجے میں الہی بخش سے مخاطب ہو کر کہا کہ وہ ایک معمولی دستکار ہونے کے باوجود کس زعم پر اترا رہا ہے۔ جوابا الہی بخش نے کہا کہ میں دست کار ضرور ہوں لیکن میرے ہاتھوں میں وہ فن ہے جو ایک عالم کی دولت پہ بھاری ہے ۔ عمر حیات کو ایک اور چر کہ لگا۔ اس نے الہی بخش کو طیش دلاتے ہوئے کہا کہ "جس فن پہ تمہیں اس قدر ناز ہے وہ سرمائے کی دہلیز پر آ کے دم توڑ دیتا ہے۔ اگر اتنا ہی غرور ہے تو تم اپنا فن آزماؤ میں اپنی دولت آزماتا ہوں، دیکھتے ہیں فتح کس کو نصیب ہوتی ہے۔ الہی بخش نے مقابلے کی اس دعوت کو قبول کر لیا۔ یوں دولت اور فنکارانہ صناعی کے امتزاج سے یہ عظیم الشان محل صفحہ ہستی پر نمودار ہوا ۔
دور تعمیر
اس محل کی تعمیر کا سن آغاز 1923ء کے لگ بھگ ہے۔ سیٹھ عمر حیات کا اکلوتا بیٹا گز ارمحمد ابھی ماں کی گود میں ہی تھا کہ اس عالیشان عمارت کی تعمیر شروع ہو گئی۔ کسے خبر تھی کہ جس بیٹے کے لئے یکل تعمیر ہورہا ہے اسے شباب کی مسرتوں سے ہمکنار ہوئے بغیر ایک روز اسی محل کی خاک میں دفن ہوتا ہے۔ اگر وقت کو شب و روز کے پیمانے پر تقسیم کریں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ عمر حیات محل کی تعمیر پر آٹھ سے دس سال کا عرصہ صرف ہوا۔ گو مختلف روایات میں تعمیر کے سن آغاز اور سن اختتام پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ تا ہم ایک بات تھی ہے کہ 1928 ء تک اس کی چنائی اور بیرونی آرایش مکمل ہو چکی تھی کیونکہ 1929ء کے ڈسٹرکٹ جھنگ کے گزیٹر میں اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے :
House built by Sheikh Umer Hayat is a sort of local wonder as it cost more than 2 lakhs of rupees and rises high above all the other buildings
لیکن اندرونی نقاشی اور منبت کاری کا کام بعد میں بھی جاری رہا۔ یہاں تک کہ 1935ء میں جب سیٹھ عمر حیات نے داعی اجل کو لبیک کہا تو بھی یہ کام تکمیل کو نہ پہنچا تھا۔ اس کا ثبوت صدر دروازے کے اوپر اس کھڑکی سے ملتا ہے جو ہنوز نامکمل ہے۔ گویا لاکھوں روپے اور سال ہا سال کی محنت کے باوجود سیٹھ عمر حیات کے خواب کی تکمیل نہ ہو سکی اور اس کی زندگی کا چراغ گل ہوتے ہی دولت اور فن کی اس کش مکش کا بھی اختتام ہو گیا۔
فنکار اور معمار:
سیٹھ عمر حیات نے محل کی تعمیر کی ذمہ داری اور نگرانی سید حسن شاہ نامی شخص کو سونپی تھی ۔ جب کہ کچھ روایات کے مطابق سید حسن شاہ ہی اس تعمیر کا اصل محرک بھی تھا۔ سید حسن شاہ نے نہایت تگ ودو کے بعد دور دراز سے مایہ ناز کاریگروں کو اکٹھا کیا اور بڑے اہتمام سے تعمیر کا آغاز ہوا۔ سیٹھ عمر حیات کی پیشکش تھی کہ کوئی بھی شخص اگر ایک اینٹ کی بھی چنائی کر دے تو سارے دن کی مزدوری حاصل کر سکتا ہے۔ اس دعوت کے پیچھے بھی یہی خواہش موجزن تھی کہ وہ ہر خاص و عام کو اپنی دولت سے نواز کر نام پیدا کرنا چاہتا تھا۔
سیٹھ عمر حیات تو اپنی دولت اور اس تعمیراتی عجوبے کے طفیل امر ہو گیا لیکن جن فنکاروں کی شب و روز محنت سے یہ حمل تکمیل کو پہنچا ان کی یا درفتہ رفتہ طاق نسیاں کی زنیت بن رہی ہے۔ ان افراد میں سب سے اہم کر دار الہی بخش پر چھہ اور رحیم بخش پر جھہ کا ہے جو چازاد بھائی تھے اور منبت کاری کے کام میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ۔ الہی بخش کے والد کا نام میاں اللہ دتہ تھا۔ اس خاندان نے چنیوٹ میں لکڑی اور منبت کاری کے کام کو ایک نئی شان بخشی ہے۔ چنیوٹ میں تعزیہ سازی کی روایت بھی اسی خاندان کے افراد نے مستحکم کی تھی ۔ شادی ملنگ اور رنگریزوں کے مشہور زمانہ تعزیئے میاں الہی بخش اور رحیم بخش کے ہی تیار کردہ ہیں۔ ان کی ندرت فن کا ثبوت اس امر سے ملتا ہے کہ اس دور میں منبت کاری کی کوئی کتب، ڈیزائین یا ماڈل نہ ہوتے تھے۔ یہ سارا کام ان کے اپنے ذہن رسا کی اختراع ہے۔ الہی بخش پر جمعہ کو لکڑی کے کام کے علاوہ کئی اور فنون میں بھی مہارت حاصل تھی۔ ان کی اولاد آج بھی اپنے آباء کے گراں قد رفن کو آگے بڑھا رہی ہے۔
انٹیوں کی چنائی اور تراش خراش کا کام مستری احمد دین ” نے انجام دیا جس کی معاونت کے لئے محلہ راجاں چنیوٹ کے متعدد راج اور مزدور کام کرتے تھے ۔ تھو بے کا کام (Stucco work) جالندھر کے مشہور مستری نیاز احمد جالندھری اور غلام علی جالندھری کی محنت کا ثمر ہے۔ جامعہ مسجد گڑھا اور اسلامیہ کالج چنیوٹ کا بال بھی اسی مستری نیاز احمد نے بنایا تھا۔ نقاشی کا کام اس علاقے کے مشہور نقاش جان محمد نے کیا تھا۔ آج بھی اس کے عزیز واقارب محلہ کمانگراں میں رہائش پذیر ہیں۔ جان محمد کے علاوہ اس کے بھیجے غلام محی الدین نے بھی یہاں کام کیا جس نے 1970ء کی دہائی میں مسجد وزیر خان کی تعمیر نو میں بھی حصہ لیا تھا۔ ان مشہور فنکاروں اور معماروں کے علاوہ بہت سے مزدوروں نے کئی سال اینٹ پتھر اور گارا ڈھو کر عمر حیات کے اس خواب کو حقیقت کا روپ دیا لیکن ان فگار ہاتھوں کا تصور اب کسی کے ذہن میں بھی نہیں۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ہم کسی فنی شاہکار کے حسن میں کھو کر محظوظ تو ہوتے ہیں لیکن اس انسان کو بھول جاتے ہیں جس کی محنت اس شاہکار کو زندگی بخشتی ہے۔
گلزار محمد:
سیٹھ عمر حیات کی وفات کے وقت گلزارمحمد کی عمر تیرہ چودہ سال کی تھی ۔ اسے اور اس کی والدہ کو ترکے میں ان گنت دولت اور مال و اسباب حاصل ہوا۔ لیکن دولت کے اس انبار کے ساتھ بد نصیبی کے سائے بھی ان کی تلاش میں تھے۔ عمر حیات کی بیوہ فاطمہ بی بی کا تعلق چنیوٹ کے نواحی قصبے پنڈی بھٹیاں کے کسی غیر معروف گھرانے سے تھا۔ عمر حیات کے خاندان نے کبھی بھی اس شادی کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہ دیکھا۔ اس کی دولت نے ان کے دلوں میں حسد اور بغض کا بیج بود یا تھا۔ اپنے خاوند کی وفات کے بعد فاطمہ بی بی کو اور بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہ باہمت خاتون نامساعد حالات میں بھی اپنے بیٹے کی پرورش اور تربیت میں مگن رہی۔ اس کی ساری آرزوؤں کا محوراب گلزار محمد ہی تھا۔ فاطمہ بی بی کو اس شہر کے غرباء اور مساکین ایک فیاض اور ہم درد خاتون کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ شہر میں کئی ایک کنویں اور پانی کے نلکے اس کی یادگار ہیں۔ جب گلزار محمد نے سن شعور میں قدم رکھا تو فاطمہ بی بی نے محل کی رونق بحال کرنے کے لئے اپنے نوعمر لختِ جگر کی شادی کا فیصلہ کیا۔ شادی کی رسومات نہایت تزک واحتشام سے منائی گئیں ۔ کئی روز تک جشن کا سا سماں رہا۔ اس محل کے درودیوار اور باسیوں کو خوش دیکھ کر سارا شہر مسرت سے لبریز تھا۔ چنیوٹ کی تاریخ میں اس سے زیادہ رنگارنگ تقریب کی مثال نہیں ملتی۔ فاطمہ بی بی نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیئے۔ لیکن قدرت کو یہ خوشیاں منظور نہ تھیں ۔ کاتب تقدیر نے اس گھر کی مقدر میں تعمیر شادی کی بجائے نوحہ ہم تحریر کر دیا اور خوشیوں کی یہ بارات ایک المناک سانحہ میں ڈھل گئی۔ اس شادی اور اس سے وابستہ المیہ کا چشم دید حال بیان کرتے ہوئے شیخ محمد اسلم * کہتے ہیں:
راقم ان دنوں غالبا ساتویں کلاس میں زیر تعلیم تھا۔ ہمارا مکان گلزار محل کے بالکل قریب تھا۔ بچوں کو اس محل میں جانے کی کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ اس شادی میں جو کچھ ہوا اب بھی چند باتیں ذہن میں پوری طرح محفوظ ہیں۔ شادی کی تاریخ کا تعین ہونے پر فاطمہ بی بی کئی دنوں تک مبارکباد میں وصول کرتی رہی اور مقررہ تاریخ سے دوماہ قبل ہی بچے کی شادی کرنے چنیوٹ منتقل ہوگئی۔ محل کی نچلی منزل میں جہاں کبوتروں اور چڑیوں نے اپنے مسکن بنارکھے تھے صفائی کا کام شروع کر دیا گیا۔ گردو غبار ہٹا کر چھتوں اور دیواروں کو پھر سے زینت بخشی گئی۔ شادی کی تیاری زوروں سے شروع ہو گئی ۔ تمام محلہ میں رونقیں بھر گئیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے گھر گھر شادی ہونے والی ہے ۔ چنیوٹ شہر میں جہاں سر شام ہی تاریکی چھا جاتی تھا اور سٹریٹ لائٹ کا فقدان تھا اب راتیں روشنی کی وجہ سے بقعہ نور بن گئیں۔ پہلی دفعہ چنیوٹ کے ہندو اور مسلمان اجتماعی طور پر اس ہونے والی شادی پر خوش اور شادمان تھے۔ والدہ گلزار کی حالت دیکھنے والی تھی۔ سر پاؤں اور ہاتھوں میں مہندی رچائے خوشی سے پاگل ہو رہی تھی۔ اب اس کی زندگی کے ارمان پورے ہونے والے تھے۔ فاطمہ بی بی کی والہانہ کیفیت اب بھی ذہن میں نقش ہے ۔ جب بھی دولہا گزار محمد والدہ کے پاس سے گزرتا خوش و خرم ماں جھک کر اس کی سر سے پاؤں تک بلائیں لیتی اور دل کی گہرائیوں سے اس کو دعائیں دیتے نہ تھکتی تھی۔ شادی کا دن آپہنچا۔ ڈھولک پیٹے جا رہے تھے اور طوطیاں بجائی جارہی تھیں۔ بینڈ فضا میں خوش کن ساز بکھیر رہا تھا۔ گلزارمحمدکو گھوڑے پر سوار کر کے ایک عظیم الشان بیج کا جلوس نکالا گیا جس کو شہر کی بڑی شاہراہوں پر پھرایا گیا۔ اس جلوس میں لوگ جوق در جوق ڈھولک کی تھاپ پر رقص کر رہے تھے۔ آتش بازی نے آسمان کو اور بھی روشن کر رکھا تھا۔ جلوس میں رقص کے ساتھ ساتھ بلھے شاہ کی کافیاں گائی جارہی تھیں۔ محل کے بالمقابل ریختی کی دیواروں پر رنگ برنگ کے قمقمے لٹک رہے تھے۔ جنھوں نے رات ہوتے ہی روشنی اور نور کی بارش کر دی۔ محلہ میں رات کے وقت اس قدر روشنی تھی کہ دن کا گمان ہوتا تھا۔ بھکاریوں کو فراخ دلی سے خیرات تقسیم کی جارہی تھی۔ رات کے تقریبا دس بجے دلہن کو ڈولی میں بٹھا کر بڑے ارمانوں سے اس خوب صورت منزل میں لایا گیا۔ فاطمہ بی بی کے ہاتھ میں تسبیح تھی اور خوب صورت لباس میں ملبوس تھی اس نے دعاؤں کے ساتھ دلہن کو درود شریف کا ورد کرتے ہوئے ڈولی سے باہر اتار اور سجے ہوئے عروسی کمرہ میں لے گئی۔ جس وقت دولہا اپنے کمرے میں داخل ہوا تو فاطمہ بی بی نے سکھ کا سانس لیا اور خود بھی اپنے کمرہ میں جا کر سو گئی۔ آج کی رات اس نے مدتوں بعد گہری نیند کا مزہ چکھا تھا۔ اس کے دل کا تمام بوجھ اتر گیا تھا اور برسوں سے پالی ہوئی خواہش پوری ہوگئی تھی۔
دوسرے دن سے فاطمہ بی بی نے وسیع پیمانے پر ولیمے کا انتظام کیا ہوا تھا۔ رات بھیگتے ہی چنیوٹ کے نام در نائیوں اور خانساموں نے آگ پر دیگیں رکھنی شروع کر دیں۔ شہر میں ایک روز پہلے منادی کرادی گئی تھی کہ ولیمہ پر ہر فرد کے لئے دعوت عام ہے۔ جہاں تک نظر کام کرتی سڑکوں اور گلیوں میں دیگیں پکتی نظر آتیں۔ ایک روایت کے مطابق دوصد دیگیں پلاؤ کی آگ پر رکھ دی گئی تھیں۔ ان دنوں ولیمہ میں صرف ایک ڈش پلاؤ کی ہی پکائی جاتی تھی ۔ انتظام یہ تھا کہ صبح ہوتے ہی دستر خوان بچھا دیے جائیں اور تمام دن کھانے کا سلسلہ چلتا رہے۔
جاڑے کے دن تھے صبح سویرے ہی دولہا غسل شادی کے لئے غسل خانہ میں داخل ہوا ۔ غسل خانہ کو گرم رکھنے کے لئے خادمہ نے جلتے ہوئے کوئلوں کا چولہا پہلے ہی غسل خانہ میں رکھ دیا تھا۔ دولہا نے غسل خانہ میں داخل ہوتے ہی اندر سے دروازہ بند کر لیا۔ جب کافی دیر تک گلزار محمد غسل خانہ سے باہر نہ آیا تو تشویش ہونے پر دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ اندر سے کوئی جواب نہ آنے پر دروازہ توڑ دیا گیا۔ گلزار محمد ننگے بدن فرش پر مردہ پڑا تھا۔ اس اندوہناک سانحہ کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ لوگ دیوانہ وار محل کی طرف دوڑ پڑے۔ محل کے اندر اور سامنے لوگوں کا ایک جم غفیر اکٹھا ہو گیا تھا۔ یہ افواہ زوروں پر تھی کہ کسی نے مرحوم کوز ہر بھرا پان کھلا کر ہلاک کر دیا ہے۔ اس قدر ماتم برپا ہوا کہ آج تک چنیوٹ کی سرزمین پر اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس غم میں چنیوٹ کے ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے۔ راقم کو یاد ہے کہ ہندو عورتوں نے بہت بڑا حلقہ بنا کر اس قدر سینہ کوبی کی تھی کہ ان کو دیکھ کر لوگ بھی بری طرح نڈھال ہو رہے تھے۔ قسمت کی ماری فاطمہ بی بی کافی عرصہ بے ہوش رہی ۔ ڈاکٹروں کی مسلسل کوشش سے سکتہ کی حالت ختم ہوئی ۔ اس کی چیخ و پکار سن کر دل لرز جاتا تھا۔ اس نے سر کے بالوں میں انھی کوئلوں کی راکھ ڈال رکھی تھی جن کوئلوں کے دھویں نے اس کے لخت جگر کی جان لے لی تھی۔
چنیوٹ تھانہ کے انچارج شیخ عبدالمجید تھے جو کہ امرتسر کے رہنے والے تھے۔ انھوں نے قتل کی سازش سمجھتے ہوئے اور لوگوں کا جوش و خروش اور نعرہ بازی دیکھتے ہوئے میاں عمر حیات کے وارثین کو شک کی بناء پر تھا نہ طلب کر لیا۔ ڈاکٹروں کی ٹیم بٹھا دی گئی ۔ لائل پور سے ڈاکٹر کرشن سنگھ جو ان دنوں کافی شہرت رکھتے تھے کی خدمات حاصل کی گئیں۔ مردہ لاش کا پوری طرح سروے کیا گیا۔ ڈاکٹروں نے اتفاق رائے سے فیصلہ دیا کہ موت کوئلوں کے دھویں سے دم گھٹنے سے ہوئی ہے۔ چنیوٹ کے سمجھ دار لوگوں نے بھی اس فیصلہ کی تائید کی۔ میاں عمر حیات کے وارثین کو تھانہ سے فارغ کر دیا گیا۔ گلزار محمد کو دفن کرنے کے لئے وارثین کا خیال تھا کہ قبرستان لے جایا جائے لیکن فاطمہ بی بی کے اصرار پر گزارمحل میں ہی دفن کر دیا گیا۔ دکھوں کی ماری اور غمزدہ والدہ نے گلزار محمد کے فراق میں بمشکل ایک سال کا عرصہ سخت ذہنی کوفت میں گزارا۔ ہر وقت روتی رہتی اور بیٹے کی قبر کو بو سے دیتی رہتی۔ ٹھیک ایک سال بعد 1939ء میں وہ اپنے شوہر اور لڑکے سے راہ عدم میں جاملی۔ اس طرح یہ خاندان ایک اندوہناک انجام سے دو چار ہوا۔ فاطمہ بی بی کی وصیت کے مطابق اس کو لڑ کے کے پہلو میں دفن کر دیا گیا اور اس محل پر پھر سے تاریکی چھا گئی۔ چنیوٹ کے مشہور اخبار ہفت روزہ یاد خدا میں اس المناک سانحہ کی خبریوں شائع ہوئی:
چنیوٹ کے مشہور و معروف میاں عمر حیات مرحوم کا اکلوتا بیٹا گلزار محمد مورخہ 27 فروری کو اپنی شادی کے دوسرے روز جب کہ شادی کی خوشی میں ولیمہ پک رہا تھا اور لوگ جوق در جوق کھانے کو آرہے تھے نہانے کے لئے حمام گیا اور وہاں کونکوں کی انگیٹھی سے زہریلی گیس دماغ میں چڑھ جانے کی وجہ سے راہی ملک عدم ہو گیا۔ مرحوم کی والدہ نے جس دھوم دھام کے ساتھ اپنے لخت جگر کی شادی رچائی تھی اس کی مثال چنیوٹ میں ناپید ہے۔ برات کی سواری اس شان و شوکت کے ساتھ آئی کہ لوگ دیکھ کر حیران رہ گئے پھر ولیمہ کی دعوت میں ہر کلمہ گو مسلمان کو شریک ہونے کی دعوت عام دی گئی اور وسیع پیمانے پر زردہ پلاؤ پکوائے جا رہے تھے کہ مرحوم چل بسا۔ یہ اندوہناک واقعہ فاطمہ بی بی کے لئے ناقابل برداشت تھا۔ خاوند کی جدائی کے بعد اس نے جو امیدیں گلزار محمد کی ذات سے وابستہ کی تھیں وہ سب زمین بوس ہو گئیں اور اس دامن میں حسرت و یاس کے کانوں کے سوا اور کچھ نہ بچا۔ اس حادثے کے بعد اس کا سنبھلنا مشکل ہو گیا اور کچھ ہی عرصہ بعد یہ شکستہ حال بیوہ خود بھی اس دنیا کو داغ مفارقت دے گئی۔ اس کی وصیت کے مطابق اسے بھی اپنے بیٹے کے پہلو میں دفنا دیا گیا۔ گلزار محمد کی نو جوان بیوہ تو پہلے ہی کنارہ کر چکی تھی دیگر رشتہ داروں نے عمر حیات کی تمام دولت آپس میں تقسیم کر لی اور اس محل کو منحوس سمجھ کر ہمیشہ کے لئے خیر باد کہ دیا۔
ایک حقیقت سو افسانے:
سیٹھ عمر حیات، اس کے خاندان اور اس محل کی افسوسناک داستان محلہ ریختی کے سینہ میں محفوظ ہے ۔ کتنی ہی بہاریں آئیں اور کتنی ہی خزائیں رخصت ہوئیں، وقت نے بہت سے نقوش دھند لے کر دیئے لیکن اس کہانی کا رنگ و روپ آج بھی برقرار ہے۔ چنیوٹ کے بڑے بوڑھے اس کہانی کا بڑے شوق سے ذکر کرتے ہیں اور اس کے کرداروں کی ناکام حسرتوں پر ان کی آنکھیں بھیگنے لگتی ہیں۔ یہ دل سوز واقعات ان کے قلب و جاں میں رچ بس سے گئے ہیں لیکن بعض افراد نے زیب داستاں کے لئے قطع و برید کر کے اس داستان کو افسانوی رنگ دے دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ صرف ستر سال کے بعد ہی ان بد نصیب افراد کے متعلق متضاد روایات سامنے آرہی ہیں۔ اس ضمن میں چنیوٹ کے ایک بزرگ شیخ محمد اسلم نے جو کہانی بیان کی وہ حقیقت کے قریب تر ہے اور اس شہر کے اکثر معتبر افراد نے ان واقعات کی تائید کی ہے۔ یہ کہانی اس لحاظ سے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ راوی بہت سے واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔ شیخ صاحب سیٹھ عمر حیات کی زندگی کے چند گوشوں کو بے نقاب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
شیخ میاں عمر حیات چنیوٹ شیخ برادری کے ایک معزز اور معروف گھرانے میں اٹھارھویں صدی کے آخر میں پیدا ہوئے ان کے چار بھائی میاں مہر بخش، میاں قادر بخش، میاں احمد یار اور میاں اللہ بخش تھے۔ ایک سوتیلے بھائی شیخ محمد حسین ان کے پانچویں بھائی تھے ۔ شیخ صاحب برادری کے دوسرے افراد کی تقلید میں لڑکپن میں ہی عازم کلکتہ ہوئے اور کاروبار شروع کر دیا۔ غیر معمولی ذہانت کے مالک تھے۔ قدرت بھی پوری طرح مہربان تھی ۔ تھوڑے عرصہ میں کافی روپیہ کما لیا۔ متعدد کاروباروں کے علاوہ ٹرانسپورٹ کے کام میں قابل ذکر ترقی کی ۔ کلکتہ شہر کی بڑی بڑی شاہراہوں پر ان کی پچاس کے قریب ٹیکسیاں چلتی تھیں ۔ آپ چار چھ ماہ بعد چنیوٹ جاتے کمزور اور ناتواں لوگوں کی دل کھول کر امداد کرتے ۔ آپ نے چنیوٹ میں ایک اچھی نسل کی گھوڑی پال رکھی تھی۔ چنیوٹ جانے پر دریا کے ساحل اور مضافات کی سیر کرتے ۔ ایک دفعہ حسب معمول چنیوٹ آئے تو پنڈی بھٹیاں میں مشہور میلہ لگا ہوا تھا۔ اس میلہ میں دوسرے مشاغل کے علاوہ دور دور سے طوائفیں گانے اور ناچنے آتیں۔ آپ گھوڑی پر سوار ہو کر میلہ پر چلے گئے ۔ وہاں طوائفوں نے اپنے اپنے ڈیرے قائم کر رکھے تھے جن میں رقص و سرود کی محفلیں جمی ہوئی تھیں ۔ سب سے بڑا ڈیرہ فاطمہ نامی طوائف کا تھا۔ جب آپ اس ڈیرہ پر پہنچے تو سفید قمیض شلوار اور سر پر کلے دار پگڑی باندھ رکھی تھی ۔ حسن ، جوانی اور دولت کے نشہ نے ان کو دوسروں سے نمایاں کر رکھا تھا۔ آپ جلد ہی طوائف کی توجہ کا مرکز بن گئے ۔ اس غیر معمولی توجہ کی وجہ سے آپ بھی دل و جان سے اس پر فریفتہ ہو گئے ۔ چنیوٹ واپس آئے تو اس کی یاد میں کھوئے کھوئے رہتے ۔
ایک روز فاطمہ کے پاس بھائی محمد حسین کو چند شرائط کے ساتھ شادی کا پیغام ارسال کیا جو کہ اس نے فوراً منظور کر لیا ۔ شیخ صاحب کی طرف سے سب سے بڑی اور اہم شرط یہ تھی کہ شادی کے بعد فاطمہ ہمیشہ کے لئے نہ کبھی اپنے میکہ جائے گی اور نہ ہی اس کا کوئی رشتہ دار یہاں آکر اس کو ملنے کی جرات کرے گا۔ نکاح کی تاریخ مقرر ہو گئی ۔ میاں عمر حیات کے بیش تر رشتہ دار اس رشتہ کے سخت خلاف تھے۔ ان کی عدم شرکت کے باوجود نکاح کی رسم سر انجام پائی۔ شادی کے بعد دونوں نے نہایت ہی پاکیزگی سے زندگی بسر کی۔ اس خاتون نے اپنے عہد کی ایمانداری سے پاسداری کی اور عمر بھر اپنے کسی عزیز اور رشتہ دار کو اپنی دہلیز تک پھٹکنے نہ دیا۔ شادی کے بعد دونوں میاں بیوی کلکتہ چلے گئے اور وہیں پر مستقل قیام کر لیا۔پہلے ان کے ہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کے جوان ہونے پر اپنے حقیقی بھیجے محمد صدیق مرحوم کے عقد میں دے دی گئی یہ لڑکی کچھ عرصہ کے بعد وفات پاگئی۔ کافی عرصہ کے بعد 21 – 1920ء کے لگ بھگ ان کے ہاں ایک چاند سا لڑکا پیدا ہوا۔ اس کی پیدائش پر والدین نے جی بھر کر خوشیاں منائیں ۔ والدہ پھولے نہ سماتی تھی۔ کہتی تھی کہ اس نو نہال کی پیدائش نے میرے دل کو شاداب اور گلزار بنادیا ہے چنانچہ اسی احساس پر اس کا نام ”گلزار محمد تجویز ہوا۔
میاں عمر حیات کے پاس دولت کی فراوانی تھی ۔ اکثر سوچتے کہ کوئی ایسا کام کرنا چاہئے جس سے میرے شہر کے لوگوں کو روز گار میسر آجائے ۔ کافی سوچ بچار کے بعد انھوں نے ایک وسیع پیمانے پر عمارت تعمیر کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اس کے لئے زمین بھی حاصل کر لی ۔ 1924ء کے اوائل میں تعمیر شروع کر دی گئی ۔ اس مکان کی تعمیر مکمل ہونے پر دس لاکھ روپے خرچ ہوئے جو کہ موجودہ حساب سے دس کروڑ سے بھی زائد بنتے ہیں ۔ 1932ء میں میاں عمر حیات اس فانی دنیا سے رخصت ہوئے اور اپنی چہیتی بیوی اور اکلوتے بیٹے کے ساتھ ساتھ اس خوب صورت محل کو بھی لاوارث چھوڑ گئے۔
ساندل بار * کے مصنف احمد غزالی نے اس کہانی کے کچھ نئے پہلو اجاگر کئے ہیں۔ لیکن ان میں حقیقت سے زیادہ لوک رنگ کا غلبہ ہے۔ دیگر حالات و واقعات اور عینی شواہد کی جانب سے اس کی تصدیق نہیں
ہو سکی۔ انھی کے الفاظ میں:
چنیوٹ کا یہ حل اپنی زبانِ حال سے ماضی کی داستان زار سنا رہا ہے کبھی اس جگہ پر سرسبز باغ تھا۔ عمر حیات کا بیٹا گلزار محمد ایک چاند رات کو جب ادھر سے گزرا تو ایک دوشیزہ کوئی کے ناچ میں مگن پایا۔ دوشیزہ اتنی خوش شکل تھی کہ گزار محمد ود ہیں اس پر فدا ہو گیا۔ گو دوشیزہ غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی مگر تھی بڑی خود دار۔ جب ایک عورت گلزار محمد کا پیغام لے کر اس کے پاس پہنچی تو مارے غصے کے آپے سے باہر ہوگئی۔ بولی ” گلزار محمد کیسا مرد ہے چھپ چھپ کرنا محرموں کو دیکھتا ہے، مگر گلزار کی چاہت پر مبنی پے در پے کوششیں آخر رنگ لائیں ۔ دونوں کی منگنی ٹھیر گئی۔ گلزار محمدکا والد عمر حیات تاجر تھا۔ منگنی کے فورا بعد اسے ایک لاکھ کا نقصان ہو گیا۔ اسے براشگوان سمجھا گیا۔ باپ نے بیٹے کو قائل کرنا چاہا کہ اس کی منگیتر خاندان کے لئے گردش لائے گی مگر بیٹے نے اسے وہم قرار دے کر بات کو ٹال دیا۔ چنانچہ شادی کی تاریخ طے ہوگئی۔ اس دوران گلزار محمد کے والد کا انتقال ہو گیا۔ شادی کی رات جب باہر مہمانوں کا انبوہِ کثیر ثقافتی پروگراموں سے محظوظ ہورہا تھا کسی کو خبر نہ تھی کہ حجلہ عروسی میں کیا المیہ جنم لینے کو ہے۔ سہاگ رات ختم ہوئی تو گلزار محمد بیدار ہوا اور سیدھا غسل خانے میں چلا گیا۔ جب تادیر غسل خانے کے بند در نہ کھلے تو دلہن تشویش میں ڈوب گئی اور دوسری طرف ماں کے دل میں ہول اٹھنے لگے۔
ماں نے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر کمرہ عروسی کے دروازے پر دستک دی۔ دلہن نے دروازہ کھولا اور ماجرا سنایا۔ ماں نے کہا ” میرا دل بے چین ہے غسل خانے کے باہر سے آوازیں دی گئیں۔ زور زور سے دروازے کو پیٹا گیا مگر جواب ندارد۔ آخر تنگ آکر مردوں نے دروازہ توڑا تو گلزار محمد مردہ حالت میں فرش پر پڑا ہوا ملا۔ ماں شدت کرب سے تڑپ کر فرش پر گری اور وہیں اللہ کو پیاری ہوگئی۔ نئی نویلی دلہن بیوہ ہو گئی۔ ماں بیٹے کی قبر اس محل میں بنادی گئی۔ بیوہ نے اس محل سے کچھ فاصلہ پر ایک قلعہ نما مکان میں سکونت اختیار کر لی اور تارک الدنیا ہو کر اپنی زندگی بتائی۔ میں برس پہلے جب راوی چنیوٹ میں گھوم پھر کر یہ روایات جمع کر رہا تھا تو وہ بیوہ حیات تھی مگر کوئی اس کو دیکھ نہ سکتا تھا۔ دستور کے مطابق کئی دنوں بعد اس قلعہ نما مکان سے ایک بوڑھی خادمہ خوردونوش کا سامان لینے برآمد ہوتی۔ بازار سے یہ سامان خریدا جاتا اور وہ لوٹ جاتی۔ پھر کئی دنوں تک دروازے بند رہتے ہیں۔ اس خادمہ نے راوی کو بتایا تھا کہ اس کی مالکہ کی آنکھیں ہر دم کھلی رہتی ہیں۔ وہ خلاؤں میں گھورتی رہتی ہے۔ کبھی کبھی رونے لگتی ہے۔ کسی سے کلام نہیں کرتی ۔ اس کے مکان میں مرد تو کیا کوئی دوسری عورت بھی داخل نہیں ہوسکتی“
لوک پنجاب کے مصنف مظہر الاسلام نے بھی شیخ عمر حیات کا ذکر کیا ہے لیکن وہ بھی حقیقت سے
بہت دور ہٹ گئے ہیں:
” کہتے ہیں شیخ عمر حیات والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ باپ وفات پا گیا تو وہ ماں کا زیور بیچ کر کاروبار کے لئے کلکتہ چلا گیا اور سٹہ کھیلنا شروع کر دیا ۔ چمڑے کے جہاز آتے وہ ان کی بولی دیتا مگر گھانا پڑتا گیا۔ آہستہ آہستہ اس نے شراب نوشی کا نشہ بھی شروع کر دیا۔ کلکتہ کی ہیرا منڈی میں اسے ایک گانے والی پسند آ گئی۔ وہ ہر روز ہیں روپے کے عوض اس کے پاس جاتا اور صبح اٹھ کر چلا آتا۔ ان روپوں کے عوض وہ صرف اس کے گھر سوتا اور کچھ نہ کرتا۔ گانے والی اکساتی تو سر درد کا بہانہ کر کے سو جاتا ۔ آہستہ آہستہ دونوں کو ایک دوسرے سے پیار ہو گیا۔ گانے والی نے اسے کاروبار کے لئے پیسہ دیا جس سے اس کا چمڑے کا کاروبار چمک اٹھا۔ وہ امیر آدمی بن گیا اور گانے والی سے شادی کر کے واپس چنیوٹ آیا مگر خاندان کے لوگوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ضد میں آکر اس نے میل تعمیر کرایا۔ بڑی مشکل سے تھوڑی سی زمین ملی لیکن اس نے اونچا محل بنا کر اپنی خواہش پوری کر لی۔ اس کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا۔ جس کی شادی بڑی مشکل سے خاندان کے ہاں کی لیکن پہلی رات کی صبح وہ نہانے کے لئے گیا تو غسل خانے میں مردہ پایا گیا۔ اس صدمے نے عمر حیات کی جان لے لی۔ بیٹے کی قبر اس نے محل کے اندر بنوائی تھی لیکن خود اسے خاندان کے لوگوں نے قبرستان میں دفن کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد اس کی بیوہ بھی چل بسی اور بیٹے کے پہلو میں دفن کی گئی جہاں اس نے پہلے سے اپنی قبر تیار کر وار کھی تھی ۔ آج کل اس محل میں عمر حیات کے نوکروں کی اولا در ہائش پذیر ہے”
جھنگ کی رومانی داستانوں” کے مصنف بلال زبیری نے جو داستان رقم کی ہے اس کے مطابق عمر حیات کے والد کا نام نور بخش تھا۔ عمر حیات تجارت کے غرض سے کلکتہ پہنچا اور وہاں اس نے بے پناہ دولت کمائی۔ گلزار محمد کے علاوہ اس کی ایک بیٹی بھی تھی جو عالم شباب میں شادی کے دو سال بعد تپ دق کا شکار ہوگئی ۔ عمر حیات نے اپنے بیٹے کے لئے یہ حل تعمیر کروایا اور اس کا نام گلزار منزل رکھا لیکن وہ اس محل کے مکمل ہونے سے قبل ہی چل بسا۔ اس کی بیوہ نے گلزار محمد کی شادی اپنے دیور محمد سعید کی لڑکی سے ملے کردی ۔ شادی کے اگلے ہی روز گلزار محمد غسل خانہ میں مردہ حالت میں پایا گیا۔ اس کی تجہیز و تکفین اسی محل میں عمل میں لائی گئی۔ کچھ عرصہ بعد اس کی بیوہ کی شادی ایک رشتہ دار سے کر کے اسے کلکتہ بھجوادیا گیا لیکن وہ اولاد کی نعمت سے محروم رہی۔ گلزار محمد کی والدہ اپنے بیٹے کے غم میں گھل کر چار سال بعد خود بھی اس جہان فانی سے رخصت ہو گئی۔ ان روایات میں بہت تضاد ہے ان کی اصل حقیقت چاہے کچھ ہولیکن ایک امر پہ یہ سب روایات متفق ہیں کہ عمر حیات کا گھرانہ نظر بد کا شکار ہو کر خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھر کے رہ گیا اور بیکل اس گھرانے کی یادوں کی مہک سمیٹے آنسو بہاتا رہا۔ آنسوؤں کی یہ کہانی چنیوٹ کے محلہ ریختی میں آج بھی سنائی دیتی ہے۔
زوال:
سیٹھ عمر حیات اور اس کے خاندان کا خاتمہ اس محل کے زوال کا پیش خیمہ تھا۔ عمر حیات کے بقیہ وارثان کی عدم دل چسپی کی بناء پر اس خاندان کے ملازموں نے یہاں رہائش اختیار کر لی اور فن تعمیر کا یہ خوب صورت شہ پارہ اپنے باذوق مکینوں سے محروم ہو کر شکست وریخت کا شکار ہونے لگا۔ 1940ء کے لگ بھگ انجمن اسلامیہ چنیوٹ نے اس محل کی عمارت ایک تعلیمی ادارے، مدرستہ البنات کے لئے حاصل کرنا چاہی لیکن یہ تجویز پروان نہ چڑھ سکی۔ کچھ ہی عرصہ بعد اسی فلاحی ادارے کے زیر انتظام گلزار منزل کو یتیم خانہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ فیصلہ اس کے حسن و جمال پہ بہت بھاری ثابت ہوا۔ نئے مکینوں کو اس عمارت سے کوئی ذہنی یا قلبی لگاؤ نہ تھا۔ منتظم بھی ذوق سلیم سے محروم تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عمارت میں جا بجا تبدیلیاں عمل میں لائی گئیں اور اس شاہکار کی خوب صورتی گہنا نے لگی ۔ 1970ء کی دہائی میں بلدیہ چنیوٹ نے ایک اور ستم ڈھایا اور عمارت کی بلند ترین منزل کو خطرناک قرار دے کر منہدم کر دیا۔ عینی شاہدوں کے بیان کے مطابق یہ فیصلہ انتہائی نامناسب اور بلا جواز تھا۔ عمارت کی مضبوطی کو کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہ تھا۔ محض قرب و جوار کے گھروں کے مکین اس بات پر معترض ہوتے تھے کہ یہاں کے بلند جھروکوں پر کھڑے ہو کر ان کے گھر کا منظر دکھائی دیتا ہے اس لئے انھوں نے اس لاوارث محل کی سب سے خوب صورت منزل کو صفحہ ہستی سے ہی مٹاڈالا۔ کچھ ستم ظریف اس منزل پر نصب لکڑی کا خوب صورت در یچه، الماریاں کھڑکیاں اور چند دروازے جو منبت کاری کا شاہکار تھے چرا کے لے گئے۔ ان میں سے کچھ کے متعلق سنا گیا کہ وہ اسلام آباد کے خوب صورت گھروں کی زینت بن گئے ہیں۔ پرانے گھروں کے اجڑنے پر ہی نئی بستیاں آباد ہوتی ہیں۔ اس ناروا سلوک اور عمارت کے تحفظ سے غفلت پر شہری حلقوں نے کئی بار صدائے احتجاج بلند کی لیکن کسی ادارے نے کوئی مثبت قدم نہ اٹھایا اور اس محل میں بربادی نے ڈیرے جمائے رکھے۔
تزئین نو:
1990ء میں عمر حیات محل کی زندگی کے دوسرے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب یہاں ہر سو خاک اڑتی تھی ۔ گردو غبار ہٹی ، دیمک نمی اور عدم توجہی کی بدولت چنیوٹ کا یہ عظیم تاریخی اور ثقافتی ورثہ تباہ ہو رہا تھا۔ چمگادڑوں اور پرندوں نے یہاں آشیانے بنالئے اور لوگوں نے اس جگہ کو آسیب زدہ مشہور کر دیا۔ وقت کے اس بے رحم سلوک کے بعد یہ خدشات جنم لینے لگے کہ بہت جلد یہ محل اپنے اصل مکینوں کی طرح بدنصیبی کا شکار ہو کر زمین بوس ہو جائے گا۔ اس کی حالت زار دیکھ کر کانوں میں کسی شاعر کی یہ صدائے دردناک گونجنے لگتی کہ ۔
دیوار خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگا
میں گر پڑوں گا دیکھ مجھے آسرا نہ دے
(اسلم انصاری)
بہت سے صاحبانِ نظر اس محل کی شہرت سن کر اسے دیکھنے آئے لیکن ان کی آمد اس کی بقاء کا سامان نہ بن سکی ۔ اس عمارت کو کسی جاں بہ لب مریض کی طرح ایک ایسے مسیحا کی تلاش تھی جو اس کی شکستگی اور بربادی کا مداوا کر سکے اور اس کی ویرانی کو پھر سے آباد کر دے۔ میں ان دنوں چنیوٹ میں اسٹنٹ کمشنر تعینات تھا ۔ میر درخواست پر محمد اطہر طاہر ڈپٹی کمشنر جھنگ نے اس نادر عمارت کو وقت کی دستبرد سے بچانے اور ایک گرانقدر قومی ورثہ کے تحفظ کے لئے 7 جون 1990ء کو ایک تاریخی فیصلہ کیا ۔ گلزار منزل کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا اور یہاں ایک عظیم الشان لائبریری تحقیقی اور ثقافتی مرکز قائم کرنے کا فیصلہ ہوا”۔ محمد اطہر طاہر کی رہ نمائی میں ہی ایک جامع منصوبہ بندی کی گئی اور 14 اگست 1990ء کو اس عمارت کی تعمیر نو اور تزئین و آرایش کا با قاعدہ آغاز ہوا۔ تعمیر کی یہ ذمہ داری اسسٹنٹ کمشنر چنیوٹ کی حیثیت سے راقم کے سر باندھی گئی ۔ عمر حیات کی اس یادگار کو نا جائز قابضین سے خالی کروانے کے بعد سب سے اہم مرحلہ عمارت کے سامنے موجود جگہ کا حصول تھا۔ 55*50 فٹ کی اس جگہ پر لوگوں نے ورکشاپ اور دکانیں تعمیر کی ہوئی تھیں۔ ان دکانوں کی وجہ سے محل کا بیرونی منظر چھپارہتا اور سورج کی شعائیں بھی اس تک نہ پہنچ پاتیں جس کی وجہ سے نمی اور سل نے دیواروں پر یلغار کر رکھی تھی۔ کہتے کہ اول اول یہ جگہ سیٹھ عمر حیات کی برادری ہی کے چند افراد کی ملکیت تھی لیکن انھوں نے ضد کی وجہ سے یہ جگہ محل میں شامل نہ ہونے دی۔ مشہور ہے کہ عمر حیات نے انھیں یہ پیش کش کی تھی کہ وہ اس زمین پر ساتھ ساتھ جوڑ کر چاندی کے روپے بکھیر دیتا ہے، جس کا جی چاہے وہ رقم اٹھا لے اور اتنی ہی زمین محل کے نام کر دے لیکن لوگوں نے اس پیش کش کو ٹھکرادیا۔ ستر سال بعد عمر حیات کی یہ خواہش بھی تکمیل کو پہنچی اور مالکان کو اس جگہ کے متبادل رقبہ دے کر اسے محل کے بیرونی صحن میں تبدیل کر دیا گیا۔ محل کی تعمیر نو اور آرائیش کے لئے مقامی کاریگروں کا انتخاب ہوا اور اس امر کا خاص خیال رکھا گیا کہ اس کی Originality متاثر نہ ہو۔ صرف اٹھی حصوں کی مرمت کی جائے جو از حد ضروری ہے اور اس میں بھی و ہی انداز پیش نظر ہو جو دوران تعمیر اختیار کیا گیا تھا۔
عمارت کی تفصیل:
عمر حیات محل کے نقشہ کے متعلق تفصیلات میسر نہیں آسکیں کہ یہ کس نے بنایا اور اس میں سیٹھ عمر حیات کی ذاتی پسند کا کس حد تک عمل دخل تھا۔ لیکن روایات کے مطابق سید حسن شاہ ہی وہ اہم فرد ہے جس کے ذوق جمال کا عکس عمارت کے درودیوار سے جھلکتا ہے ۔ برصغیر کے دور دراز علاقوں کے علاوہ برما اور رنگون سے عمارتی لکڑی منگوائی گئی۔ ٹائلیں، شیشے اور رنگ یورپ سے درآمد ہوئے جب کہ کاریگر اور فنکار اسی شہر اور قرب وجوار کے منتخب افراد تھے۔ محل کی عمارت کو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا کہ اس میں اس دور کی تمام ممکنہ سہولتیں موجود تھیں ۔ مسلم ، یورپی اور مقامی طرز تعمیر کی جھلک کے علاوہ پھل کے جھروکوں سے ہند و طرز تعمیر کی نمائندگی بھی ہوتی ہے۔ سورج کی روشنی اور ہوا کی آمد و رفت کا اتنا خیال رکھا گیا کہ گرم موسم میں جب چلچلاتی دھوپ پڑتی ہے تو ہوا کے جھونکے نجانے کہاں سے پھڑ پھڑاتے ہوئے کھڑکیوں سے در آتے ہیں۔ بیرونی دیواروں اور متصل گھروں سے ٹکرا کر آنے والی یہ ہوا اس قدر تیزی سے اندر داخل ہوتی ہے کہ دستار اور آنچل سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ابتدا میں بہ شکل چار منزلوں پر مشتمل تھا۔ بلند ترین منزل دو کمروں راہداری اور ایک چوبی نشست گاہ پر مشتمل تھی۔ باہر کی اطراف میں 16 – 13 x 6 – 13 کے دو کمرے تھے جن کو آپس میں تینتیس فٹ لمبی آہنی بار سے جوڑ کر درمیان میں ایک گزرگاہ بنائی گئی تھی جس کی تعمیر میں صرف لکڑی استعمال ہوئی تھی۔ مغربی کمرے سے متصل لکڑی کی نہایت خوب صورت نشست گاہ تھی جہاں بیٹھ کر سارا شہر قدموں
میں سمٹا ہوا محسوس ہوتا اور دور سے دریائے چناب کی بے قرار لہریں گنگناتی ہوئی گزرتی رہتیں۔
محل کا تعمیر شدہ رقبہ 6 – 58 x 6 – 59 پرمشتمل ہے۔ فرشی منزل پر سات کمرے باورچی خانہ اور ایک ڈیوڑھی ہے۔ محل کے اندر داخل ہونے کے لئے ایک نہایت عالیشان اور مرصع دروازے یا پھر اس ڈیوڑھی سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس ڈیوڑھی کی تعمیر اور زیبائش میں ہر قسم کے فن کا امتزاج نظر آتا ہے۔ نقاشی، تھو بہ، منبت کاری ، چی کاری اور اینٹوں کی تراش میں غضب کی مہارت پائی جاتی ہے۔ دوسری منزل کا نقشہ بھی کم و بیش یہی ہے جب کہ تیسری منزل میں صرف بیرونی جانب کمرے بنائے گئے ہیں۔ جب بالائی منزل کو خطرناک قرار دے کر گرایا گیا تو اس کی تکنیکی ساخت کو کسی نے مدنظر نہ رکھا۔
ان دو کمروں کو گرانے اور انھیں باہم ملانے والے آہنی بار کو اتارنے سے پہلی منازل کی مضبوطی میں بھی کمی آگئی اور دیوار میں کئی جگہ سے کھل گئیں جنھیں اب اپنی سلاخوں اور کیلوں سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس عمارت کو اصل نقصان آندھی، بارش ، زلزلوں یا دیگر مظاہر فطرت سے نہیں بل کہ بالائی منزل کو گرانے سے پہنچا۔ یہاں موجود کمروں، راہداریوں اور چوبی نشست گاہ کو منہدم تو کر دیا گیا لیکن اس کا سارا ملبہ یہیں پڑا رہ گیا۔ اس عظیم تہذیبی ورثہ کی بربادی کا الزام اٹھانے والوں سے سنگ وخشت کا یہ بو جھ نہ اٹھایا جاسکا۔ اینٹیں ، ٹوٹا پھوٹا پلستر ، چونا اور لکڑی کے ناکارہ شہتیر اور ٹکڑے چھت پر ہی چھوڑ دیئے گئے۔ جس کی وجہ سے بارش کا پانی چھتوں پہ تا دیر کھڑا رہتا۔ آہستہ آہستہ یہ پانی ان چھتوں سے رسنے لگا اور ان کی ساری آرایش گل سڑ کر نا کارہ ہوگئی محل کی تمام چھتیں نہایت نفیس اور دل کشی تھیں ۔ چونے اور حج میں مختلف ڈیزائین کے Stucco blocks بنا کر اپنی بیچوں سے پھتوں میں نصب کئے گئے تھے۔ اوپر سے رستے ہوئے پانی نے نہ صرف ان اپنی پیچوں کو نم کر کے زنگ آلود کر دیا بل کہ ان blocks کو بی نقصان پہنچایا جس کی وجہ سے اکثر چھتیں ادھر کر نیچے گر گئیں۔ ہر چھت کا ڈیزائین دوسری چھت سے مختلف ہے۔ بعض جگہ اس قدر خوب صورت آئینہ کاری کی گئی ہے کہ انسان پلکیں جھپکتے بھول کر انھیں دیکھنے میں جو ہو جاتا ہے۔ بعض آئینے سالہا سال کی گرد پڑنے کے باوجود چمک اور آب و تاب سے محروم نہیں ہوئے۔ ان Stucco blocks پر نہایت خوب صورت ، شوخ اور دیدہ زیب رنگوں سے نقش و نگار بھارے گئے ہیں۔
باورچی خانہ اور سیڑھیوں کی چھت میں صرف لکڑی استعمال ہوئی ہے ۔ عقبی بغلی کمروں کے نیچے دو تہہ خانے بھی موجود ہیں جہاں سے نہایت دل چسپ اشیاء برآمد ہوئیں ۔ جھیں اب محفوظ کر لیا گیا ہے۔ اوپر کی منزلوں پر جانے کے لئے لکڑی کا ایک نہایت مضبوط زمینہ ہے۔ ہر منزل میں یہ زینہ 24 عدد سیڑھیوں پر مشتمل ہے۔ اس چوبی زینے کو مضبوط بنانے کے لئے دیگی لوہے کو دل کش ڈیزائین میں ڈھال کر استعمال کیا گیا ہے۔ کثرت آمد و رفت کی وجہ سے اس زینے کی لکڑی گھس کر اب ناکارہ ہو رہی ہے۔ زینے کے ساتھ ساتھ ہر منزل پر غسل خانے اور باورچی خانے موجود ہیں جہاں پانی کی فراہمی کا مکمل انتظام تھا۔ پہلی منزل میں موجود کنوئیں سے پانی، ایک چرخی کے ذریعے ہر منزل تک پہنچایا جاتا تھا جہاں چرمی بوکے سے یہ پانی متصل مینکی یا حوض میں انڈیل کر مختلف مقاصد کے لئے استعمال ہوتا۔ ہر منزل پر پانی گرم کرنے کے لئے مخصوص چولہے اور حمام بھی موجود تھے جہاں کو مکوں سے کام لیا جاتا۔ جب یہ عمارت یتیم خانہ بی تو حفاظتی نکتہ نگاہ سے اس کنویں کو ختم کر دیا گیا۔ صحن میں پانی کی فراہمی کے لئے ایک نلکہ نصب ہوا جس سے یہ سارا نظام ہی تبدیل ہو گیا۔ نکاسی آب کے لئے عمارت کے چاروں جانب ایک کھلی نالی تھی جس کے ذریعے چھتوں کمروں اور غسل خانوں سے بہہ کر آتا ہوا پانی باہر نکل جاتا۔ یتیم خانہ بنے کے بعد مکینوں کی تعداد میں اضافہ کی بناء پر تیسری منزل پر آٹھ عدد بیت الخلاء تعمیر ہوئے جن سے بالائی صحن کی ساری خوب صورتی زائل ہوگئی اور گندگی کے ڈھیر لگنے شروع ہو گئے۔
یہاں استعمال ہونے والا پانی بھی کھلی نالیوں کے ذریعے باہر نکلتا تھا۔ نالیوں کے ٹوٹنے پھوٹنے سے یہ پانی زمین میں جذب ہوتا رہا۔ جس کی وجہ سے دیواروں میں نمی کے آثار نمودار ہونے لگے ہیں۔ تیسری منزل میں بیرونی جانب 15 – 9 – 8 – 45 کی ایک نہایت خوب صورت بالکونی نصب ہے جس کی تعمیر میں شیشم ، دیار اور ساگوان کی لکڑی استعمال ہوئی ہے۔ اس بالکونی کے نیچے لکڑی کے نہایت خوب صورت پھول بنائے گئے ہیں۔ بالکونی پر کی جانے والی کا رونگ اور منبت کاری اب شکستہ ہو کر مدھم ہو چکی ہے بارش، گرد و غبار اور سورج کی شعاعوں نے اسے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ بالائی منزل کے گرنے سے بھی اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچا تھا۔ تمام عمارت کے فرش رنگین اور منقش ٹائیلوں سے بنائے گئے ہیں۔ اندرونی صحن سیمنٹ کی ہشت پہلو، مربع اور مستطیل ٹائیلوں کا خوب صورت مرقع ہے۔ جس کی وجہ سے دروازوں اور روشندانوں میں آویزاں رنگین شیشے اور نمایاں ہو جاتے ہیں ۔ گویا نظر کو دروازوں کی اس خوب صورتی اور منبت کاری پہ مرکوز رکھنے کے لئے یہ اہتمام دانستہ طور پر کیا گیا ہے۔ محل کے اندر اور باہر ہونے والی نقاشی بھی قابلِ دید ہے۔ اس کی اصل خوب صورتی تو مٹ چکی ہے البتہ کہیں کہیں کچھ نشان بکھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ بیرونی کام موسمی اثرات کی بدولت اب باقی نہیں رہا لیکن اندرونی نقاشی اور منظر کشی ابھی بھی دل کشی کو دوبالا کرتی ہے۔ یہ مناظر اور تصویریں زیادہ تر تخیلاتی ہیں اور ان سے فنکار کی اپنی جدت طبع کا اظہار ہوتا ہے۔ دوسری منزل میں راہداریوں کے نیچے لکڑی کے تختوں پر بنائی گئی چند تصویر میں اس بات کی غماز ہیں کہ یہ فنکا رفن مصوری کے رموز سے بھی خوب آشنا تھے۔ دروازوں اور کھڑکیوں کے لئے رنگین شیشوں کے انتخاب سے ذوق نظر کا اظہار ہوتا ہے۔ باہر سے چھن چھن کر آنے والی سورج کی کرنیں اور رات کو چراغوں اور قندیلوں کی روشنی جب ان شیشوں سے گزرتیں تو قوس قزح کے سارے رنگ پھیلنے لگتے ۔
طرز تعمیر کا اہم وصف محل میں کئے جانے والے اینٹوں کے کام ، منبت کاری، تھوبے کے کام اور نقاشی میں حیرت انگیز مماثلت کا پایا جانا ہے۔ یہ سب کام مختلف کاریگروں نے انجام دیے لیکن ان سب کے مجموعی تاثر میں مکمل یکسانیت ہے۔ یوں لگتا ہے کہ مختلف فنون کے ان ماہرین کو ایک ہی استاد نے فن کی یکساں میراث تقسیم کی تھی ۔ صرف ان کے میلان طبع کے مطابق اوزار بدل دیئے۔ یہی اس محل کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے۔ تناسب، توازن اور ہم آہنگی نے اس عمارت کی بو قلمونی کو ایک اکائی میں ڈھال بو دیا ہے۔ تراشیدہ اینٹوں کی چنائی جہاں ختم ہوتی ہے وہیں سے اسی انداز میں لکڑی کے کام کا آغاز ہو جاتا ہے اور جب لکڑی کے کام کا خاتمہ ہوتا ہے تو Stucco Work اور نقاشی کا کام شروع ہو جاتا ہے۔
چنیوٹ میں لکڑی کے کام کی تاریخ صدہا برس پہ پھیلی ہوئی ہے۔ سینہ در سینہ منتقل ہوتا ہوا یہ فن یہاں کا امتیازی وصف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمر حیات محل میں لکڑی کے کام کے نادر نمونے نظر آتے ہیں۔ لکڑی کے اس کام کی کثرت کی بناء پر کچھ لوگ اس محل کو چوبی محل بھی کہتے ہیں۔ یہاں کا ایک ایک دروازہ الماری اور کھڑ کی منبت کاری کی نادر مثال ہے۔ سالم لکڑی کو کھود کر بنائے گئے یہ نقش و نگار فنکاروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کا ریگر نے اوزار پکڑ کر دنیا کو فراموش کر دیا تھا۔ کہیں بھی اس نے آنکھ نہیں چھپکی اور لکڑی کی کھدائی کر کے نزاکت فن کر چار چاند لگا دیئے۔
لکڑی کے کام کا حاصل وہ عظیم الشان جھرو کہ ہے جو ڈیوڑھی میں دوسری منزل کے ساتھ منسلک ہے۔ یہ جھرو کہ حیرت و استجاب اور تعریف و ستائیش کے ملے جلے جذبات کو جنم دیتا ہے۔ رہائیشی حویلیوں اور محلات میں ایسا دل کش چوبی جھرو کہ شاید ملک بھر میں نہیں نظر نہ آئے۔ اس کا ایک ایک پھول اور ایک ایک پتی تار عنکبوت کی طرح ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ سارے کام میں غضب کی بار یکی اور نفاست موجزن ہے۔ لکڑی کی ہر رگ اور نس میں کاریگر کا دل دھڑکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس کی تعریف میں شاید اتنا کہنا ہی کافی ہو کہ یہ جھروکہ اور صدر دروازه روز آخرت مستری الہی بخش پر جھہ کی بخشش کے لئے کافی ہیں۔ اندرونی صحن کو اس عمارت میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ پہلی منزل کے سارے کمرے اسی صحن میں کھلتے ہیں۔ یہاں کھڑے ہو کر ہر منزل پر کئے گئے کام کی ایک جھلک بھی نظر آتی ہے۔ گویا جدھر بھی دیکھیں خوب صورتی کی ایک پھوار برسنے لگتی ہے۔ یہیں پر گلزار محمد اور اس کی والدہ ابدی نیند سور ہے ہیں۔ ان قبروں کی وجہ سے صحن کو آزادانہ طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا لیکن ان قبروں کو دیکھ کر قلب و جاں میں اس مشہور آیت قرآنی کی گونج ضرور سنائی دیتی ہے۔
” ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے”
(سوره البقره 156 )
گویا جہاں سیکل فنی اور تعمیراتی محاسن کا شاہکار ہے وہیں اس کی جھلک سے دنیا کی نا پائیداری کے نقوش بھی ذہن پر مرتسم ہونے لگتے ہیں۔ عمر حیات نے تو یہ حل بنا کر شاید اپنی دولت کی نمائش چاہی تھی مگر قدرت نے اس میں انسان کے لئے بہت سے سبق بھی پوشیدہ کر رکھے ہیں۔
"حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو
سینوں میں ہیں”
(سورہ الحج 46)
مستقبل:
عمر حیات محل کی بازیابی تعمیر نو اور پھر اسے لائبریری اور تحقیقی مرکز میں منتقل کرنے کے فیصلہ کو ہر طبقہ فکر میں بنظر استحسان دیکھا گیا۔ لاکھوں روپیہ صرف کر کے اس کی ضروری تزئین و آرایش کا کام مکمل ہوا اور میاں محمد اظہر گورنر پنجاب نے 16 اپریل 1991ء کو مرحلہء اول کی تکمیل پر اس کا افتتاح فرمایا۔ لیکن کارِ جہاں دراز ہے کے مصداق ابھی بہت سا کام باقی ہے۔ دوسری اور تیسری منزلیں ابھی تک اپنے حسن پارینہ کی بحالی کی منتظر ہیں لیکن اس راہ میں چند انتظامی مشکلات حائل ہیں۔ امید واثق ہے کہ اہلیان چنیوٹ اپنے اس عظیم ورثہ کے تحفظ کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں گے۔
تاثرات:
اس محل کی مرمت اور آرائیش کے دوران جب اس کی خوب صورتی کی کہانی پھیلنا شروع ہوئی تو کئی ایک مشہور و معروف اور علم دوست شخصیات نے اسے دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ چند ایک ہستیاں جو اپنی مصروفیات کے باوجود یہاں پہنچیں یہ عمارت دیکھ کرنا قابل بیان مسرت سے ہمکنار ہوئیں۔ کسی نے اس عمارت کو تاج محل سے تعبیر کیا اور کسی نے عظیم تہذیبی اور ثقافتی ورثہ قرار دیا۔ مختلف شعبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والی ان منتخب شخصیات کی یہ تحریریں جہاں اس محل کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں وہیں اس کی حیات نو کے ضمن میں کی گئی جدوجہد کا اعتراف بھی ہیں۔ یہ الفاظ اس محل کی پیشانی پر آویزاں ہو کر ہر اس شخص کو امر کر گئے جس نے سیٹھ عمر حیات کی اس اجڑی ہوئی جنت کو پھر سے آباد کرنے کی کاوش میں ہاتھ بٹایا۔ چند اقتباسات حسب ذیل ہیں:
ثقافتی شاہکار: اس یاد گار عمارت کے ایک نہایت مثبت استعمال کو دیکھ کر بے حد آسودگی کا احساس ہوا۔ اب اس لایبریری کو چنیوٹ کی ثقافتی زندگی کا ایک شاہکار ہونا چاہیے۔
احمد ندیم قاسمی
کمال فن : یہ عمارت کمال کی ہے۔ اسے اگر جدید بنانے کی کوشش نہ کی جائے تو بہتر ہے۔
شہزاد احمد
یادگار: عمر حیات کا بیحل ماضی کی خوب صورت یاد گار ہے اور لائبریری میں تبدیل ہو کر اسے مزید قیمتی بنا
دیا گیا ہے۔
مظفر وارثی
ورثہ: چنیوٹ میں آمد ایک ایسی خوشی کا موجب بنی جو کبھی کبھی حاصل ہوتی ہے۔ یہ خوشی اس میوزیم کی دید ہے جو عمر حیات محل تھا اور جسے امجد ثاقب صاحب نے محفوظ کر کے چنیوٹ کا ثقافتی ورثہ بنا دیا ہے۔ یہ ایک خوب صورت اور بے پناہ ذوق کی حامل عمارت ہے۔ میں اس ثقافتی وابستگی پر اہل چنیوٹ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔
عطا الحق قاسمی
بازیافت : عمر حیات محل دیکھ کر میرے جی میں پتہ نہیں کیوں یہ خیال آرہا ہے کہ اگر ہماری قوم اسی طرح اپنے ماضی کے ورثے کی بازیافت کرتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب ہم مستقبل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کے قابل ہوسکیں گے۔
امجد اسلام امجد
افسانوی تعمیر: چنیوٹ کا یہ عمر حیات محل افسانوی تعمیر اور ذوق جمال کی مثال ہے ۔ ڈاکٹر محمد امجد ثاقب اور محمد اطہر صاحب اس لئے خاص طور پر قابل مبارکباد ہیں کہ ان کی وجہ سے یہ کل آج ہم جیسوں کے لئے قابل دید ہوا۔
ایوب خاور
کتاب محل: عمر حیات محل میں کتابوں کی موجودگی نہ صرف اس محل کی بل کہ چنیوٹ کی گلیوں میں خوب صورتی کی لہر بکھیر دے گی۔
نجیب احمد
کارلازوال: عمر حیات محل 1930ء میں دو لاکھ روپے سے تعمیر ہوا اور اجڑ گیا۔ عمر حیات محل 1990ء میں دو آدمیوں نے دوبارہ بسایا ہے اور تاحیات انسانی یہ برقرار و از کار رہے گا۔ آنے والی نسلیں عمر حیات کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر محمد امجد ثاقب اور محمد اطہر طاہر کی بھی مرہون منت رہیں گی ۔ وہ محل جو عمر حیات کو کچھ نہ دے سکا اب اس کی نجات کا سبب بن گیا ہے اور یہ دونوں مرد کار اس نجات کے سبب۔ اللہ تبارک تعالیٰ اپنے حبیب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ان دونوں کو ایسے کارہائے مردانہ سرانجام دیتے چلے جانے کی توفیق فرماتا چلا جائے۔
خالد احمد
پہچان : کتا میں گھروں کی طرح ہوتی ہیں ان میں رہنا چاہیے۔ کتابوں کی وجہ سے ایک اجڑا ہوا امل علم و ادب کا ذوق رکھنے والوں کا محلہ بن گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ چنیوٹ اب اس مقام کی وجہ سے پورے ملک میں ایک پہچان پائے گا۔
ڈاکٹر اجمل نیازی
ہمارے ماضی کا مظہر : عمر حیات محل محفوظ اور دریافت کرنے والے یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں کیونکہ اتنا عظیم کارنامہ سرانجام دینا غیر معمولی کام ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس محل کو دیکھ کر اپنا خوب صورت ماضی سامنے آگیا ہے۔
روحی کنجاہی
پاکستان کا تاج محل : واہ واہ سبحان اللہ! عمر حیات محل چنیوٹ کا ہی نہیں پورے پاکستان کا تاج محل ہے۔
توفیق بٹ امید: اطہر طاہر اور ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے دو چار اہل علم اور اہل ذوق پیدا ہو جائیں تو شاید یہ قوم جہالت کے اندھیروں سے نکل آئے ۔
ایاز علی
مقدس کام : مجھے فخر ہے کہ یہ مقدس کام میرے دوست جناب اطہر صاحب کے ہاتھوں انجام پا رہا ہے۔
پروفیسر ذوالقرنین حیدر
نقش لافانی: مسلمانوں نے علوم وفنون کی اقلیم ہفت رنگ میں کیسے کیسے نقش ہائے رنگا رنگ ترتیب دیئے ہیں۔ ان کے خونِ جگر سے نمو پانے والا یہ نقش بھی ایک لافانی نمونہ ہے۔ مقام مسرت ہے کہ محمد اطہر طاہر صاحب نے اپنے خلاقانہ ذہن سے اس تاریخی عمارت کی تزئین نوکی۔
پروفیسر عبدالجبار شاکر
کارنامہ: گزارمحل کو عمر حیات لائبریری میں تبدیل کر کے ضلع جھنگ کے ڈپٹی کمشن محمد اطہر طاہر اور چنیوٹ کے اسٹنٹ کمشنر ڈاکٹر محمد امجد ثاقب نے بلاشبہ ایک بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔
احمد کمال نظامی
عظمت رفته: گزار منزل کی عظمت رفتہ کی بحالی اور اس میں عمر حیات لایبریری کا قیام بلاشبہ ڈپٹی کمشنر جھنگ اور ان کے رفقائے کار کا بہت بڑا کارنامہ ہے جسے مدتوں یا درکھا جائے گا۔
ظهیر قریشی
Congratulations on adding an historic building to folk heritage and also to the expanding phenomenon
of libraries and book-reading. It will indeed earn a distinctive position in the world of letters.
Prof. Jellani Kamran. (Tamgha-e-Imtiaz)
*If Architecture is frozen music, then Gulzar Manzil in Chiniot with its breathtakingly beautiful Jharokas and exquisitely engraved arches is like an ecstatic yet melancholic symphony immortalizing the artisans, super human in their patience and precision, yet reflecting upon the futility of life and the fickleness of fate. In this world of tasteless uniformity Gulzar Mahal is yet another reminder of the creativity of human spirit.
Amna Hassan
Tha Nation April 26, 1991
The Pakistan Times, May 3, 1991.
‘Well done.
Mian Muhammad Azhar
Grovernor Punjab
"My congratulations to Dr. Muhammad Amjad Saqib A.C. and his colleagues for rescuing Omer Hayat’s
Haveli. The workmanship and conception are unique and peerless.
Richard K. Mckee
U.S. Council General
I am so pleased to see that our cultural heritage is being preserved. It is refreshing to learn that this
is being done through official and public cooperation. My heartiest congratulations.
S. R. Pooniger
Former Chief Secreatary
Government of Baluchistan
In such a depressing scenario there are only two names who provide some respite to the lovers of antiquarian pursuits. One is Muhammad Athar Tahir, the former Deputy Commissioner of Jhang and the other Dr. Muhammad Amjad Saquib, former Assistant Commissioner of Chiniot. Both of them, through their untiring efforts have laid the foundation for the restoration of historic monument, the Umar Hayat Mahal in Chiniot
-Restoring Chiniot’s Splendour-
Prof. Dr. Shaukat Mehmood (Maxim)
عمر حیات محل کی کہانی ختم ہوتی ہے لیکن نہیں، کہانی ختم نہیں ہوتی کہانی تو زندہ رہتی ہے۔ کہانی کہنے والے رخصت ہو جاتے ہیں۔ چو ہمیں برس قبل (1991) کچھ لوگوں نے چاہا کہ یہ خوب صورت محل کہیں کھنڈر نہ بن جائے۔ اس کی مرت اور تزئین و آرائیش کا کام ہونا چاہیے۔ پھر ایسا ہی ہوا لیکن آج چوبیں برس گذرنے کے بعد (2015) شکستگی نے پھر سے یہاں ڈیرے جما لیے ہیں۔ اس محل کو پھر سے توجہ کی ضرورت ہے۔ شہر کے لوگ چنیوٹی شیخ ، مقامی انتظامیہ اور محکمہ آثار قدیمہ کوئی تو ہو جو طرز تعمیر کے اس شاہ کار کو محفوظ کر سکے ۔
دائم آبادرہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
نوٹ: یہ مضمون ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتاب (شہرِ لبِ دریا) سے لیا گیا ہے۔