سراندیپ (سری لنکا) کے سردار نے سلطنت امویہ کے خلیفہ ولید بن عبدالملک کو خیر سگالی کے لیے تحائف سے بھرے ہوئے آٹھ جہاز بھیجے۔ان جہازوں میں اپنے وطن جانے کے لیے عورتیں اور بچے بھی موجود تھے۔ دیبل کی بندرگاہ کے قریب بحری ڈاکوؤں نے ان جہازوں کو لوٹ کر عورتیں اور بچے بھی اغوا کر لیئے ۔ جب اس کا علم بصرہ کے حاکم حجاج بن یوسف ثقفی کو ہوا تو اس نے راجہ داہر کو خط لکھا کہ بحری ڈاکوؤں سے عورتیں اور بچے آزاد کروا کر میرے پاس بھیج دیں تو راجہ داہر نے جواہا لکھا کہ بحری ڈاکو نہ میری مانتے ہیں اور نہ میرے زیر ہیں میں اس میں آپ کی کچھ بھی مدد نہیں کر سکتا۔ حجاج بن یوسف ، راجہ داہر کے اس بے رُخے جواب پر بھڑک اٹھا اور راجہ داہر کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ حجاج بن یوسف نے سندھ کی طرف مسلح کمک روانہ کر دی ۔ جس کی قیادت سپہ سالار عبیداللہ جہان اسلمی کے سپرد کی۔ یہ سپہ سالار راستے میں قتل ہو گیا ۔۔ جس وجہ سے یہ پہلی مہم منزل تک نہ پہنچ سکی تو دوبارہ سپہ سالار بدیل بن طہفتہ اسمبلی کو مسلح فو میں لشکر دے کر روانہ کیا۔ لیکن یہ سپہ سالار راستے میں گھوڑے سے گر کر جاں بحق ہو گیا۔ جس وجہ سے یہ مہم بھی نا کام ہوگئی۔
711ء میں حجاج بن یوسف ثقفی نے اپنے چازاد بھائی غازی عمادالدین محمد بن قائم کو بارہ ہزار مسلح فوج و ایک قلعہ شکن عروس نامی منجنیق دے کر سندھ پر حملہ کرنے کیلئے روانہ کیا۔ سترہ سالہ نوجوان عرب سپہ سالار محمد بن قاسم فوج کے ساتھ پہاڑوں و دریاؤں کو عبور کرتا ہوا مکران اور لسبیلہ سے ہوتا ہوا ، قزبور ( پنجگور ) وار ما بیل (ارمن بیلہ ) کو زیرنگیں کرتا ہوا د پیل پہنچا۔ غازی محمد بن قاسم نے اپنے فوجی جرنیل جھونہ اسلمی کو قلعہ دیبل پر نصب جھنڈ از مین بوس کرنے کا حکم دیا۔ اس نے منجنیق کے ذریعے سنگ باری کر کے جھنڈا گرا دیا۔ جو نہی جھنڈا گر ا قلعہ داروں نے قلعہ کے دروازے کھول دیئے ۔ محمد بن قاسم کی فوج قلعہ میں داخل ہو گئی۔ محمد بن قاسم نے لوٹ کا سارا مال بازیاب کیا اور مسلمان مردوں، عورتوں، بچوں اور حبشی غلاموں کو آزاد کروا کر حجاج بن یوسف کے پاس بھیج دیئے۔
اس طرح ۱۰رمضان المبارک ۹۳ ہجری بمطابق 711 ء بروز جمعرات قلعہ دیبل فتح ہوا۔ دیبل فتح کرنے کے بعد 712ء کی ابتداء میں محمد بن قاسم نے ریاست نیرون کوٹ (حیدرآباد) کی طرف پیش قدمی کی تو ریاست نیرون کوٹ کے راجہ نے کوئی مزاحمت نہ کرتے ہوئے علاقہ محمد بن قاسم کے سپر د کر دیا۔ اس کے بعد غازی محمد بن قاسم راجہ داہر کی ریاست جے پور کی طرف بڑھے۔ راجہ داہر مقابلہ کیلئے تیار ہو گیا۔ دریائے سندھ کے شرقی کنارے اسلامی سپاہ اور راجہ داہر کی فوج صف آرا ہوئیں۔ گھمسان کا رن پڑا۔ محمد بن قاسم اور راجہ داہر کے درمیان فیصلہ کن جنگ ہوئی۔ محمد بن قاسم کی فوج نے راجہ داہر کی فوج کو گاجر مولی کی طرح کا تا۔ راجہ داہر کو شکست ہوئی اور وہ قتل ہو گیا۔ پورے علاقے پر مسلمان قابض ہو گئے ۔
محمد بن قاسم نے سیوستان (سہون ) کی طرف بڑھنا شروع کیا۔ سیوستان کو فتح کرنے کے بعد ملتان پر چڑھائی کی ۔ ملتان فتح کرنے کے بعد محمد بن قاسم نے ہندوستان پر حملہ کرنے کی خاطر سب سے پہلے دس ہزار فوج قنوج روانہ کی؟۔ دوسری فوج کو دوحصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ کو سپہ سالار ابوالاسود کی زیر قیادت جہلم و خوشاب کی طرف بھیج دیا۔ اور دوسرے حصہ کو اپنی زیر قیادت دریائے جہلم و چناب کے سنگم تک حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔ سپہ سالار ابوالا سود کی فوج نے جہلم و خوشاب کی وادیوں پر حملہ کر دیا اور انہیں فتح کر کے دریائے جہلم و چناب تک قابض ہوگئی۔ ادھر محمد بن قاسم کی فوج نے راوی کے کنارے تک قبضہ کر لیا ہے۔ جب شور کوٹ کا قلعہ فتح ہو گیا تو خود محمد بن قاسم واپس ملتان چلا گیا۔ جب ہندو سرداروں نے سمجھا کہ ہم شکست کھا چکے ہیں تو انہوں نے اپنے غلہ کو آگ لگا دی اور مویشیوں کو کاٹ دیا۔ جب محمد بن قاسم کی فوج مکمل طور پر قابض ہوگئی تو علاقہ میں اتنا قط پڑا کہ لوگ مویشیوں کی کھالیں بھی اُبال اُبال کر کھانے پر مجبور ہو گئے ۔
یہ مسلمانوں کی تیسری اور پہلی مہم تھی جو کامیاب ہوئی۔ اس فتح سے یہ سلطنت ہندوؤں کی غلامی سے آزاد ہوگئی ۔ اس فتح کے بعد محمد بن قاسم نے سکھر کے قریب روہڑی سے پانچ میل دور اروڑ“ نامی بستی کے مقام پر 712ء میں 19ایکڑ رقبہ پرمحیط مسجد تعمیر کروائی جسے ” مسجد باب الاسلام” کہتے ہیں۔ یہ برصغیر میں اسلام کی پہلی مسجد تھی ۔ یہ مسجد بوسیدہ حالت میں اب بھی موجود ہے اور غازی محمد بن قاسم کی فتح کی یاد تازہ کر رہی ہے۔
قائد اعظم محمد علی جنائخ نے فرمایا!
” پاکستان کی عمارت کی پہلی اینٹ اسی روز رکھ دی گئی تھی ، جس روز اس سرزمین یہ پہلا شخص مسلمان ہوا۔ محمد بن قاسم نے یہاں کے مظلوم کو کافرانہ، ظالمانہ اور فرسودہ رویوں سے نجات دلائی۔ آج بھی سندھ کے غیور عوام ان کی خدمات، احسانات اور عادلانہ احکام کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ غازی محمد قائم کی بے مثال مہمات کے ثمرات کے طور پر پاکستان جیسی عظیم اسلامی سلطنت ہمارے پاس موجود ہے۔ جو در حقیقت بر صغیر میں اسلام کی اشاعت کا دیباچہ اور اسلامی ریاست کا سنگ میل ہے“۔
غازی محمد بن قاسم کی روانگی چنیوٹ:
غازی محمد بن قاسم سندھ فتح کرنے کے بعد کشمیر پر حملہ کرنے کے لئے اپنی زیر قیادت پچاس ہزار مسلح فوج لے کر چنیوٹ پہنچاہے۔ اس نے دیکھا کہ چنیوٹ پر ابھی راجہ داہر کا اثر و رسوخ ہے۔ تب اس نے اپنی فوج کو چنیوٹ پر اطراف سے حملہ کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ جو نہیں محمد بن قاسم کی فوج نے دونوں طرف سے حملہ کیا تو راجہ داہر کی فوج نے لڑائی سے پہلے ہی ہتھیار پھینک دیئے۔ چنیوٹ پر محمد بن قاسم نے اسلامی پر چم لہرایا اور اپنی فتح کی یاد میں درخت لگائے ۔ فوج کو ایک سپہ سالار کی زیر قیادت کشمیر روانہ کر دیا اور خود چنیوٹ ہی ٹھہر گیا۔ سندھ سے پنڈی بھٹیاں تک وسیع سلطنت قائم کرنے کے بعد واپس شورکوٹ چلا گیا ۔ تمام سپہ سالاروں اور عمائدین کا اجلاس طلب کیا۔ سپہ سالاروں کو نظام سلطنت چلانے کے بارے سمجھایا اور عمائدین کو اسلام کی تبلیغ کرنے کو کہا جس کی وجہ سے کافی خاندان مشرف بہ اسلام ہوئے ۔
سندھ تا چنیوٹ ریاست کے پانچ صوبے:
محمد بن قاسم نے تمام علاقے فتح کرنے کے بعد سندھ تا چنیوٹ ریاست کے
پانچ صوبے بنا دئیے۔
1 : صوبہ رور (روہڑی)
2 : صوبہ ملتان
3 : صوبہ برہما پور ( شورکوٹ )
4 : صوبہ کبیر کوٹ ( کروڈ کوٹ)
5 : صوبہ جندرور (چنیوٹ)
محمد بن قاسم نے پانچوں صوبوں پر مسلمان گورنروں کو متعین کیا۔
1: صوبہ رور ( روہڑی) کا گورنر عکرمہ بن ریحان شامی کو بنا دیا۔
2 : صوبہ ملتان کا گورنر امیر داؤ دنصر بن ولید یمانی کو بنا دیا۔
3 : صوبہ برہما پور ( شورکوٹ ) کا گورنر جلال الدین محمود غازی کو بنا دیا۔
4 : صوبہ کہیر کوٹ کروڑ کوٹ) کا گورنر احمد بن جزیمہ بن عقبہ مدنی کو بنا دیا جس کے زیر سایه اموانی، لیہ اور منکیرہ کے علاقے بھی تھے۔
5 : صوبہ جندرور ( چنیوٹ) کا گور نخریم بن عبد الملک تمیم کو بنا دیا گیا۔ جس کے زیر سایہ پیر پنجہ سے لیکر شورکوٹ ، چناب و راوی کے سنگم تک کا علاقہ تھا ۔ خریم بن عبدا الملک تمیم کے بعد جنید بن عبد الرحمن تمیم گورنر تعینات ہوا۔
جب شورکوٹ کا گورنر جلال الدین محمود غازی فوت ہو گیا تو اس کی جگہ امیر داؤد طائی گورنر تعینات ہوا۔ مگر یہ دو سال بعد بیمار ہو گیا تو واپس عراق چلا گیا ہے۔
فتح کے بعد چھ کروڑ درہم اور راجہ داہر کا سر:
ملتان کے ایک برہمن نے محمد بن قاسم کو اطلاع دی کہ ملتان کے ایک مندر کے تہہ خانہ میں کافی مقدار میں سونا موجود ہے۔ لہذا محمد بن قاسم نے اس مندر کی تلاشی لی تو کافی مقدار میں سونا برآمد ہوا اس پر محمد قاسم نے حکم دیا کہ پوری سلطنت میں جہاں کہیں بھی مندر ہیں ان کی تلاشی لے کر سونا اکھٹا کر لیا جائے ۔ لہذا سارے مندروں سے سونے ، چاندی کی مورتیاں اکٹھی کر لی گئیں ۔ خفیہ تہہ خانوں کی تلاشیاں لی گئیں تو 20 133 من ( تیرہ ہزار تین صد بیس من ) سوناملا۔ محمد بن قاسم نے اپنے سارے علاقہ کے مال غنیمت کا حساب لگا کر فوج کے ہر سوار کو 400 اور پیدل کو 300 درہم دیئے ۔ باقی بارہ کروڑ درہم اور راجہ داہر کا سر حجاج بن یوسف کو بھجوا دیا۔ حجاج بن یوسف نے یہ دیکھ کر کہا کہ!ہمارا اصل سرمایہ بھی واپس مل گیا مزید چھ کروڑ درہم اور راجہ داہر کا سر منافع میں ملا.
محمد بن قاسم کی گرفتاری:
سلیمان بن عبدالملک نے حجاج بن یوسف سے سخت دشمنی کی وجہ ت اپنی خلافت کا اعلان کر دیا اور جو احکامات حجاج بن یوسف نے جاری کئے تھے ان کو منسوخ کر دیا ۔ محمد بن قائم اس وقت شورکوٹ میں مقیم تھا کہ اسے واپس بلا لیا گیا۔ سلیمان بن عبد الملک نے یزید بن مہاب کو حکم دیا ( جو کہ عراق کا نیا گورنر تھا ) کہ محمد بن قاسم کو جلدی گرفتار کر کے لاؤ۔ اس نے یزید بن ابی کبشہ کو پنجاب اور سندھ کا حاکم مقرر کر دیا۔
یزید بن ابی کبشہ نے محمد بن قاسم کو راوی و چناب کے درمیانی علاقہ سے گرفتار کر کے واسط کی جیل میں بند کر دیا اور اسی جیل میں 714ء کو شہید کر دیا گیا۔
عباسی خلفاء کا سلسلہ:
عمر بن حفص جس کا تعلق فاطمی تحریک سے تھا۔ اموی خلافت کے ختم ہونے کے بعد وہ سندھ تا چنیوٹ کے علاقہ کا گورنر مقرر ہوا۔ اس نے اپنی ریاست میں فاطمی تحریک کو بہت فروغ دیا۔ لیکن عباسی خلیفہ منصور نے عمر بن حفص کو افریقہ بھیج کر اس کی جگہ ہشام بن عمر کو گورنر مقرر کر دیا۔ یہ ایک سخت گیر حاکم تھا۔ سید عبداللہ شاہ (جو کہ فاطمی تحریک کا علمبردار تھا ) کو اس کے بھائی نے قتل کر دیا۔ جس کا مزار اب سہون شریف میں ہے۔ جس پر ملتان کے لوگوں نے بغاوت شروع کر دی۔ تو ہشام بن عمر نے باغیوں کو قتل کروا دیا ۔ جس سے جھنگ ، لیہ ،شورکوٹ اور چنیوٹ تک کے علاقے محفوظ رہے۔ کیونکہ یہاں کے لوگ ابھی فاطمیت سے ناواقف تھے۔
یہی فاطمیت بعد میں شیعیت کی شکل اختیار کر گئی جس کی سب سے زیادہ تعداد ملتان میں تھی ۔ ہارون الرشید عباسی نے ہشام کو ہٹا کر اس کی جگہ محمد بن عدی کو گورنر تعینات کر دیا ۔ اور عباسی حکومت کے زیر قبضہ علاقوں کو مختلف صوبوں میں تقسیم کر کے ہر صوبے پر نیک، بہادر مسلح ، وفادار اور سیاسی اثر ورسوخ والے مقامی صوبیدار مقرر کئے۔ جن کی نگرانی خلافت کا نمائندہ کرتا۔ جو باری باری ہر صوبے میں قیام کرتا ۔ ہارون الرشید عباسی 23 سال تک خلافت پر مامور رہا۔ شطرنج اور تاش اس کی ایجاد ہیں۔
عباسی گورنر محمد بن عدی کی شکست:
روہڑی کے صوبیدار نے ملتان کے لوگوں کو عباسی گورنر محمد بن عدی کے خلاف بغاوت کرنے کیلئے تیار کر لیا کہ جب محمد بن عدی ملتان آئے تو اس کے خلاف بغاوت کر دیں۔ لہذا محمد بن عدی جب ملتان میں داخل ہوا تو انہوں نے روہڑی کے صو بیدار کے کہنے کے مطابق سرکشی کردی۔ محمد بن عدی شور کوٹ اور چنیوٹ کے لوگوں کو خلافت کا وفادار سمجھتے ہوئے شور کوٹ کو پایہ تخت بنا کر بیٹھ گیا اور اردگرد کے صوبوں سے فوجی امداد حاصل کر کے ملتان پر چڑھائی کر دی۔ جس کے نتیجے میں ملتان کے لوگوں نے اسے زبر دست شکست دی اور اس کا مال و دولت لوٹ کر ملک سے باہر بھگا دیا۔ ملتان کے صوبیدار نے کروڑ کوٹ کو اپنے قلمرو میں شامل کر لیا۔
اسی طرح دوسرے صو بیداروں کو بھی موقع مل گیا ۔ انہوں نے اپنے اپنے صوبیدار بنانے شروع کر دیئے جو بالکل آزاد ہوتے تھے ۔ صوبہ شورکوٹ کے حاکم نے لیہ اور منکیرہ کو اپنے قبضہ میں لے لیا اور صوبہ چنیوٹ کے حکمران نے داڑہ کی ریاست کو اپنی قلمرو میں شامل کر لیا۔ جبکہ کھوکھر بڑے ہوشیار اور تیز تر از تھے ۔ انہوں نے موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی حکومت کا اعلان کر دیا اور ساندل بار سے کچھی تک کا علاقہ قبضے میں لے لیا۔ اسی طرح اموانی پر میکن ، جھنگ پر کھوکھر اور چنیوٹ پر جوئیہ قوم نے حکومت قائم کر لی۔ مگر کوہستان سے آئے ہوئے جوئیہ اور جنجوعہ ہندوراجوں نے ان میں ہل چل مچادی۔ اسی ہل چل میں چوتھی بڑی طاقت غزنوی سے امیر سبکتگین اٹھی اور پنجاب پر حملہ آور ہوگئی جس میں پنجاب کو از حد نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
غزنوی کے امیر ستین کا پنجاب پر حملہ:
غزنوی کے امیر سبکتگین نے 986ء میں پنجاب کے حکمران جے پال پر حملہ کر دیا ۔ ملتان کے شیخ حمید سفری نے راجہ جے پال کا ساتھ دے کر امیر سبکتگین کی مخالفت کردی جبکہ چنیوٹ کے صوبیدار نے کسی قسم کی کوئی دخل اندازی نہ دی۔ امیر سبکتگین کو ملتان کے حاکم کی اس حرکت پر از حد غصہ آیا کہ اس نے مسلمانوں کی مخالفت کر کے ایک ہندو راجہ کی حمایت کی ۔ لہذ اس نے ملتان پر حملہ کرنے کے لئے چنیوٹ کے صوبیدار سے راستہ مانگا جس نے بغیر حیل و حجت کے راستہ دے دیا۔ جب شیخ حمید سفری نے شکست ہوتے دیکھی تو ہتھیار ڈال کر ہاتھ کھڑے کر لئے اور سالانہ ٹیکس دینے کے معاہدہ پر دستخط کر دیئے ۔ 11 سال تک یہ علاقہ امن وسکون سے رہا۔ 998ء میں شورکوٹ اور ملتان کے حاکم شیخ حمید سفری کے پوتے داؤد بن نصر نے اپنے دادا کے کئے ہوئے معاہدہ کو منسوخ کر دیا۔ اس وقت غزنوی کے تخت پر امیر سبکتگین کا بیٹا سلطان محمود غزنوی بیٹھا تھا۔ جب اس نے یہ دیکھا تو چپکے سے بلوچستان کے راستے ہندوستان پہنچا اور دریائے سندھ عبور کر کے کوہستان کی وادی میں داخل ہو گیا ہے۔
بھیرہ کے حاکم بجے راؤ پر سلطان محمود غزنوی کا حملہ:
1003ء میں سلطان محمود غزنوی نے مسلح لشکر لے کر اور حاکم چنیوٹ جیون ٹانڈا سے مدد حاصل کر کے لاہور کے زیر نگیں ریاست بھیرہ پر زور دار حملہ کر دیا۔ اس وقت بھیرہ پر بجے راؤ کی حکمرانی تھی ۔ لاہور کے حکمران نے بجے راؤ کی کوئی امداد نہ کی کیونکہ وہ اس سے سخت ناراض تھا۔ سلطان محمود غزنوی کی فوج نے بجے راؤ کی فوج کو کاٹتے ہوئے قلعہ بھیر ہو فتح کر لیا۔ جب بجے راؤ کو یقین ہو گیا کہ میں شکست کھا چکا ہوں تو اس نے خود کشی کر لی ۔ بھیرہ اور چنیوٹ کی سرحدوں پر اکثر جھر میں ہوتی رہتیں کیونکہ حاکم بھیرہ چنیوٹ کو اپنے تابع کرنا چاہتا تھا۔
سلطان محمود غزنوی نے قلعہ بھیرہ فتح کرنے کے بعد حاکم چنیوٹ کے قلمرو میں شامل کر دیا اور خود فوج کے ہمراہ دریائے جہلم کے راستے کشتیوں پر ملتان کی طرف بڑھنے لگا۔ جب تریمو گھاٹ پہنچے تو رات کی تاریکی پوری طرح چھا چکی تھی وہاں آوارہ پھرنے والے بلوچ قبیلہ نے حملہ کر دیا اور تمام مال غنیمت چھین کر جنگلوں میں چھپ گئے ۔ جب سلطان محمود غزنوی کو علم ہوا تو اس نے حاکم ملتان کو لکھ بھیجا کہ ڈاکوؤں کو گر فتار کر کے میرے حوالے کرو ۔ مگر اس نے صاف انکار کر دیا جس سے سلطان محمود غزنوی کو از حد دکھ ہوا اور خاموشی سے ملتان سے گزرتا ہوا واپس غزنوی چلا گیا ۔ وہاں سے دوبارہ ہندوستان پر حملہ کی تیاریاں شروع کر دیں ۔
سلطان محمود غزنوی کا دوسرا حملہ اور راجہ انند پال کی شکست:
1005ء میں پنجاب پر راجہ جے پال کا بیٹا راجہ انند پال حکمران تھا تو سلطان محمود غزنوی نے دوبارہ مسلح فوج لے کر ہندوستان کا رخ کیا ۔ ابھی وہ براستہ خیبر لاہور کی طرف آرہا تھا کہ راجہ انند پال کو بھی علم ہو گیا۔ اس نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ ملتان تا پشاور تک پھیل کر سلطان محمود غزنوی کی فوج کو ہندوستان میں داخل ہونے سے روک دیا جائے۔لہذا اس کی فوج نے سلطان محمود غزنوی کا راستہ روک دیا ۔ ادھر سلطان محمود غزنوی بھی فوج لے کر خیبر کے مقام پر پہنچ گیا۔ جب اس نے دیکھا کہ انند پال نے میرا راستہ روک رکھا ہے تو اس نے اپنی فوج کو جنگ کرنے کا حکم دے دیا۔ راجہ انند پال اور غزنوی کی فوجوں کے درمیان زبر دست جنگ ہوئی۔
جس سے راجہ انند پال کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے دریائے چناب کے ذریعے کشتی میں بیٹھ کر کشمیر کا رخ کیا۔ ادھر سلطان محمود غزنوی نے بھی اسے گرفتار کرنے کیلئے سپہ سالار تاج الدین اٹھارہ ہزاری کی زیر قیادت فوج کو پیچھے بھیج دیا۔ فوج جب تریموں گھاٹ پر پہنچی تو راجہ انند پال کشمیر جا چکا تھا۔ لیکن سپہ سالار تاج الدین اٹھارہ ہزاری اسی جگہ فوت ہو گیا ہے۔
سلطان محمود غزنوی نے تریمو گھاٹ پہنچ کر سپہ سالار کو وہیں دریائے چناب کے غربی کنارے دفن کر دیا اور خود فوج کو ساتھ لے کر ملتان پر چڑھائی کیلئے روانہ ہوا۔ راستے میں شورکوٹ کا قلعہ فتح کرتے ہوئے ملتان پر حملہ کر دیا۔ جب حاکم ملتان داؤد بن نصر ( جو کہ قرامطی فرقہ کا پیروکار تھا) نے شکست ہوتے دیکھی تو سر کردہ اصحاب کے ذریعے سلطان محمود غزنوی سے صلح کر کے 2 کروڑ روپے سالانہ ٹیکس دینے کا معاہدہ کر لیا مگر بعد میں انکاری ہو گیا۔ جس پر سلطان محمود غزنوی نے داؤد بن نصر اور اس کے اہل خانہ کو گرفتار کر کے غزنوی کے قلعہ غور میں قید کر دیا۔ شور کوٹ کو ریاست چنیوٹ کے تابع کر دیا اور سندھ کو ملتان سے علیحدہ کر کے صوبہ بنا دیا اور ملک ایاز کولاہور کا گورنر تعینات کر کے جھنگ بھیرہ اور چنیوٹ اس کی تحویل میں دے دیئے ۔
ملتان اور سندھ پر سومرہ کو حکمران بنایا۔ سندھ کے سومر واسی سومرہ کی اولاد میں سے ہیں 1030ء بمطابق ۴۶۱ ھ میں سلطان محمود غزنوی نے وفات پائی تو اس کا بیٹا سلطان مسعود تخت نشین ہوا جس نے 1040 ء تک حکومت کی۔ اس نے مخدوم تاج الدین اٹھارہ ہزاری کا مزار تعمیر کروایا۔ اس کے بعد 1049 ء تک شاہ مودودپھر باری باری انہوں نے شاہ بہرام تک حکمرانی کی ۔ غزنوی خاندان کی حکومت آہستہ آہستہ ختم ہوتے ہوئے غزنی تک محدود رہ گئی۔
شہاب الدین محمد غوری کا ہندوستان پر حملہ:
ریاست غور کے بہادر جرنیل غیاث الدین غوری نے غزنوی پر زبر دست حملہ کر کے اپنے چھوٹے بھائی شہاب الدین محمد غوری کو اپنا نائب بنا کر تخت پر بٹھا دیا۔ جب محمد غوری کو علم ہوا کہ ہندوستان میں قرامطی فرقہ کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے تو اس نے 1175ء میں ہندوستان پر حملہ کیلئے اپنی فوج روانہ کر دی ۔ اس کی فوج نے ملتان تا لا ہور تک کے علاقے فتح کر لئے اور قرامطی فرقہ کے عقیدت مند لوگوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ اور ملتان کو دار السلطنت بنا کر شورکوٹ اور چنیوٹ کے علاقے اس میں شامل کر دیئے۔ بھیرہ اور شورکوٹ کے علاقے کھوکھروں سے آزاد کروا کر ان پر قطب الدین ایک کو گورنر مقرر کردیا.
کھوکھروں کا قبول اسلام:
محمد غوری کا ایک سپاہی اتفاقاً کھوکھروں کے علاقہ سے گزرا تو کھوکھروں نے اسے گرفتار کر لیا۔ وہ سپاہی پابند صوم وصلوٰۃ تھا۔ جب کھوکھروں نے اس کی عبادت کے طور طریقے دیکھے تو متاثر ہوئے ان کے سردار نے سپاہی سے پوچھا اگر میں بھی مسلمان ہو جاؤں تو تمہارا بادشاہ مجھ سے کیا سلوک کرے گا۔ اس نے کہا جو بادشاہ، بادشاہ سے کرتا ہے۔ مسلمان سپاہی نے محمد غوری کو کھو کھر سردار کی بات لکھ بھیجی تو اس نے دونوں کو اپنے پاس بلا لیا۔ محمد غوری نے کھو کھر سردار کو مسلمان کر کے کبھی کا علاقہ اس کے نام کر دیا جس پر کچھی پر کھوکھروں کی حکومت برقرار رہی ۔
کھوکھروں کا اسلام سے انحراف اور محمد غوری کی دور بارہ فتح:
1204ء میں خوارزم شاہ نے مسلح فوج لے کر ہندوستان پر حملہ کر دیا جس میں محمد خوری کو شکست ہوئی اور وہ واپس علاقہ غور چلا گیا۔ کھوکھروں نے اس وقت سرکشی کر کے اپنے تمام علاقے واپس لے لئے اس طرح وسیع علاقہ پر حکمران بن بیٹھے ۔ کھوکھروں کا خیال تھا کہ اب کبھی بھی حمد غفوری ہندوستان کا رخ نہ کرے گا جس کی وجہ سے اسلام سے بھی محرف ہو گئے ۔ لہذاوہ بارہ محمد غوری نے 1206ء میں مکمل تیاری کے ساتھ ہندوستان پر چڑھائی کر دی ۔ متان فتح کر کے کر جاخ نامی گورنر تعینات کر دیا اور سندھ، ملتان، کوہستان، شورکوٹ ، جھنگ اور چنیوٹ کے علاقے اس کی نگرانی میں دے دیئے اور جھنگ دوبارہ کھوکھروں سے آزاد کروا کر سردار ٹو ڈورنول کے سپرد کر دیا۔ یہ نول خاندان کی پہلی حکومت تھی۔
شہاب الدین محمد غوری کا قتل اور قطب الدین ایک کی حکومت:
شہاب الدین محمد غوری نے جب یہ تمام علاقہ دوبارہ فتح کر لیا تو دریائے جہلم کے کنارے نئے شہر آباد کئے اور ایک قلعہ بھی تعمیر کروایا ، اور 1206ء میں واپس جارہا تھا کہ دریائے جہلم کے کنارے کھو کھروں نے گکھڑ قوم سے ساز باز ہو کر رات کو مد غوری کو سوتے ہوئے قتل کر دیا۔ اس قلعہ کی دیوار میں کھنڈرات کی شکل میں دریائے جہلم کے کنارے اب بھی باقی ہیں ۔ شہاب الدین محمد غوری کے قتل ہونے کے بعد ہندوستان کی حکومت قطب الدین ایک نے سنبھال لی۔ کیونکہ محمد غفوری بے اولا د تھا ۔ قطب الدین کو اس نے پہلے اپنا غلام اور پھر ریاست لاہور کا گورنر مقرر کر رکھا تھا۔
ناصر الدین قباچہ کا ہندوستان پر حملہ:
1207ء میں ناصر الدین قباچہ نے ہندوستان پر حملہ کر دیا ۔ ملتان تا چنیوٹ حکومت قائم کر کے قطب الدین ایک کی حکومت کے خلاف بغاوت کروادی۔ جہلم و چناب کے تمام علاقے چھین کر ملتان میں شامل کر دیئے ۔ ملتان کو پایہ تخت بنا کر خود مختار حکمران بن بیٹھا ۔ 1210ء میں جب قطب الدین ایبک وفات پا گیا تو اسے لاہور، انار کلی بازار کے قریب دفن کر دیا گیا اس کا مقبرہ ایک روڈ پر واقع ہے۔ اس کی وفات کے بعد اس کے بیٹے آرام شاہ نے تخت نشینی کیلئے تگ و دو شروع کر دی ، مگر سلطنت کی باگ ڈور سلطان شمس الدین التمش کے ہاتھ میں تھمادی گئی۔ جس نے 1218ء میں ناصر الدین قباچہ سے جہلم اور چناب کے تمام علاقے چھین کر دہلی تک اپنی سلطنت کو وسیع کر لیا۔ لاہور کو دار السلطنت بنا دیا۔ انتش نے جھنگ کے سربراہ سردار ٹو ڈرنول کو با قاعدہ شور کوٹ تا چنیوٹ تک کے علاقے کی حکومت کے اختیارات سونپ دیئے۔
جلال الدین کا حملہ ء ملتان:
1220ء میں چنگیز خان نے کثیر التعداد فوج لے کر خوارزم کے بادشاہ محمد خوارزم شاہ پر حملہ کر دیا۔ چنگیز خان اور حمد خوارزم شاہ کی فوجوں کے درمیان زبردست جنگ ہوئی۔ جس کے نتیجے میں محمد خوارزم شاہ نے بری طرح شکست کھائی۔ اس کا بیٹا جلال الدین وہاں سے بھاگ نکلا تو چنگیز خان نے اس کا تعاقب شروع کر دیا۔ جب جلال الدین دریائے سندھ عبور کر کے ہندوستان میں داخل ہو گیا تو چنگیز خان دریائے سندھ سے واپس چلا گیا۔ جلال الدین نے لاہور کے حکمران سلطان شمس الدین التمش اور حاکم ملتان ناصر الدین قباچہ سے چنگیز خان کے خلاف جنگ کرنے کے لئے فوجی امداد کی درخواست کی ۔ جسے
دونوں حکمرانوں نے مسترد کرتے ہوئے فوجی امداد دینے سے صاف انکار کر دیا۔ جس پر جلال الدین کو از حد دکھ ہوا تو اس نے ملتان پر حملہ کرنے کے لئے پیش قدمی کی۔ جب جہلم اور چناب کے سنگم میں پہنچے تو کھو کھروں نے بھی ساتھ دینے کا اعلان کر دیا۔
لہذا جلال الدین نے فوج جرنیل از بک بائی کی زیر قیادت ملتان کی طرف روانہ کر دی ۔ اور خود کھوکھروں کی فوج کو ساتھ لے کر اچ پر حملہ کر دیا۔ ادھر جرنیل از یک بائی نے ملتان پر زور دار حملہ کر دیا۔ جب ناصر الدین قباچہ نے شکست ہوتے دیکھی تو وہ بھکر کی طرف بھاگ نکلا جرنیل از یک بائی نے ترمیمو گھاٹ تک اس کا تعاقب کیا جب ناصر الدین کو علم ہوا کہ جلال الدین ملتان کی طرف آرہا ہے تو اس سے پہلے ملتان کے قلعہ میں پہنچ کر قلعہ بند ہو گیا۔ جرنیل از بک ہائی نے قلعہ کو گھیر لیا۔ جب ناصر الدین نے شکست ہوتے دیکھی تو حضرت بہاؤ الدین ذکریا سے درخواست کی کہ جلال الدین سے صلح کروا دیں تو انہوں نے دونوں کے درمیان صلح کروادی۔ تب جرنیل از بک بائی نے محاصرہ اٹھالیا اور جلال الدین اپنی فوج لے کر براستہ سیوستان واپس چلا گیا۔
سلطان شمس الدین التمش کی فتح:
1224ء میں تاج الدین پنجاب پر حملہ کرنے کے لئے غزنوی سے فوجیں لے کر طوفان کی طرح اٹھا اور دریائے سندھ عبور کرتے ہوئے پنجاب میں داخل ہو گیا۔ جب سلطان شمس الدین التمش کو علم ہوا تو وہ بھی جنجوعے میکن کھوکھر اقوام اور پنڈی بھٹیاں و بھیرہ کے قبائل کو اکٹھا کر کے تھل پہنچ گیا جہاں دونوں فوجوں کے درمیان زبر دست جنگ ہوئی۔ سلطان شمس الدین انتش نے تاج الدین کو شکست دے کر گرفتار کر لیا اور جھنگ پر نول دریاست اموانی پر ممکن کوہستان پر جنجوعہ اور خوشاب پر کھو کھر اقوام کو حکمران بنادیا اورچنیوٹ کو ان ریاستوں کا دارالسلطنت بنا دیا۔
سلطان ناصر الدین قباچہ کی شکست اور موت:
ملتان پر ابھی سلطان ناصرالدین قباچہ ہی حکمران تھا کہ 1228ء میں سلطان شمس الدین التمش نے فوج لے کر ملتان پر زور دار حملہ کر دیا۔ دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہو گیا۔ جس میں سلطان ناصر الدین قباچہ کو شکست ہوئی تو وہ رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اہل خانہ سمیت بھکر کی طرف بھاگ نکلا ۔ وہ کشتی کے ذریعے ابھی دریائے سندھ عبور کر ہی رہا تھا کہ کشتی ڈوب گئی۔ ادھر سلطان شمس الدین اتش کی فوج اس کے تعاقب میں تھی جب دریائے سندھ پر پہنچی تو انہیں علم ہوا کہ سلطان ناصر الدین قباچہ معہ اہل خانہ دریاء میں غرق ہو گیا ہے تو وہ واپس ملتان چلے گئے ۔ سلطان شمس الدین التمش نے حکومت اپنے ہاتھ میں لے کر 175 گرین وزنی چاندی وسونے کے سکے جاری کئے۔ اسے سلطنت دہلی کا بانی بھی کہا جاتا تھا۔ سات سال ملتان پر حکومت کرنے کے بعد سلطان شمس الدین التمش 1236ء میں وفات پا گیا تو اسکے بیٹے سلطان رکن الدین نے حکومتسنبھال لی۔
سلطان رکن الدین سے ناصر الدین محمود تک:
سلطان شمس الدین التمش کی وفات کے بعد 1236ء میں اس کا بڑا بیٹا سلطان رکن الدین تخت کا وارث بنا۔ تین سال حکمرانی کرنے کے بعد 1239ء کو خالق حقیقی سے جا ملا۔ اس کی بہن رضیہ سلطانہ نے تخت سنبھال لیا۔ یہ ایک ذہین اور بہادر عورت تھی ۔ یہ خاتون شہزادی جھنگ کے ساتھ خصوصی محبت رکھتی تھی ۔ جب قرامطیوں نے دہلی پر حملہ کیا تو رضیہ سلطانہ نے جھنگ سے کبیر خان نول کو بلایا اور اس کی قیادت میں فوج دے کر قرامطیوں کے مقابلہ میں کھڑا کر دیا۔ دونوں فوجوں کے درمیان زبردست جنگ ہوئی۔ جس میں قرامطیوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اس جنگ کے فورا بعد کبیر خان نول نے رضیہ سلطانہ کے خلاف بغاوت کر دی۔ جس پر اس نے جنگ کر کے کبیر خان کو شکست دی ۔ کچھ عرصہ بعد بہرام شاہ نے اپنی بہن رضیہ سلطانہ کوگرفتار کر کے قتل کر دیا اور خود تخت پر بیٹھ گیا۔ 1246ء میں وہ بھی قتل ہو گیا تو اس کا چھوٹا بھائی ناصر الدین محمود تخت نشین ہوا۔ وہ ایک بہت نیک حکمران تھا۔ اس نے الخ خان کو وزیراعظم بنا کر ہندوستان کی حکومت اسے سونپ دی۔
الخ خان ( غیاث الدین بلبن ) کی تخت نشینی:
الخ خان، سلطان ناصر الدین محمود کا بہت ہی چھوٹے قد اور سیاہ رنگت والا بے وارث غلام تھا۔ جسے سلطان شمس الدین انتمش نے خواجہ جمال الدین بصری سے خریدا تھا۔ سلطان ناصر الدین محمود نے اسے اپنا وزیر اعظم بنالیا اور سلطنت کے کام اس کے سپرد کر کے خود قرآن مجید کی کتابت کرنے میں مشغول ہو گیا۔ کیونکہ سلطان ناصر الدین محمود قرآن مجید کی کتابت کرتا اور اسے فروخت کر کے اہل خانہ کی کفالت کرتا۔ 1266ء میں سلطان ناصر الدین محمود فوت ہو گیا تو الخ خان غیاث الدین بلبن کے نام سے ہندوستان کے تخت پہ بیٹھا.
رائے سیال کا پنجاب میں آکر مشرف بہ اسلام ہونا:
راجپوتوں میں راجہ بھوج کی اولاد کو آئندہ چل کر سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ دھاری نگر دارالسلطنت تھا جوالہ آباد اور نور پور کے وسط میں واقع ہے۔ سلطنت نہایت ہی وسیع تھی۔ ادھر خداوند تعالی نے انہیں اولاد جیسی نعمت سے نواز اتو ہر ایک بیٹے کے ہاں پورا کنبہ بن گیا ۔ جب ان کو بادشاہت کرنے اور حکمران بننے کی دھن سائی تو رائے شنکر کی قیادت و رہنمائی میں دارالحکومت دھاری نگر سے جو نپور کا راستہ لیا جو پورکا علاقہ سرسبز وشاداب تھا آب و ہوا معتدل و موسم خوشگوار ہر ایک چیز کوطبیعت کے موافق پا کرو ہیں ڈیرے ڈال دیئے ۔ 1230ء میں رائے شنکر کے ہاں رائے سیال پیدا ہوا رائے شکر کے تین بیٹے تھے رائے ٹیو، گھی ہو اور رائے سیال ۔ اس وقت سلطان شمس الدین انتش ہندوستان کے تخت پہ جلوہ افروز تھا۔
راجپوت پنوار قوم کے چند رؤساء نے باہمی مشورہ کیا کہ سلطان شمس الدین التمش کے مقبوضہ ملک میں رہ کر ہم سے اباؤ اجداد کے کارناموں پر ثابت قدم رہنا دشوار بلکہ محال ہے۔ فطرت نے جس شجاعت کو ہمارے اجسام میں ودیعت رکھا ہے اس کا اظہار ناممکن ہے۔ چنانچہ چند امراء ورؤساء بہادروں نے ایک بے بسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے کو عار سمجھ کر وہاں سے کوچ کی ٹھانی ۔ رائے سیال اپنے اہل وعیال و دیگر لواحقین کو ساتھ لے کر چل پڑا اور پنجاب کا رخ کیا۔ اس وقت الح خان غیاث الدین بلبن کے نام پہ ہندوستان کے تخت پر جلوہ افروز تھا۔ محرم 1275ء میں رائے سیال نے بلبن کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ۔ جب رائے سیال نے سمجھا کہ مجھے شکست ہورہی ہے تو حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کی خدمت میں حاضر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوا ۔ جس پر حضرت با با فرید الدین گنج شکر نے رائے سیال اور بلبن کے درمیان صلح کر وادی اور رائے سیال کو اپنے پاس ٹھہرالیا۔
حضرت بابا صاحب نے رائے سیال سے فرمایا کہ وہ وقت قریب ہے کہ ایک نجیب الطرفین ،شریف النسل کی خوبرو دوشیزہ سے تیری شادی ہوگی ۔ جس کے بطن سے ایسے نام ور شجاع پیدا ہونگے جو یکتائے زمانہ شمار ہونگے اور پنجاب کی سرزمین میں پرگنہ جھنگ میں ان کی حکمرانی ہو گی ۔ خداوند تعالیٰ کی رحمت نے جوش مارا اور بابا صاحب کی دعائے خیر نے اپنے آثار ظاہر کرنے شروع کئے۔ ان ایام میں ماہیوال ضلع سرگودھا میں بہاؤ خان میکن مشہور ومعروف زمیندار نے رائے سیال کے اخلاق حسنہ کا مطالعہ کیا تو رائے سیال کو نہایت شرافت اور شجاعت کا مجسمہ پایا۔ رائے سیال کی شجاعت دیکھ کر اپنی دختر فرخندہ اختر مسماۃ سہاگ کا نکاح رائے سیال سے کر دیا۔ خدا تعالٰی کے فضل و کرم سے سہاگ جیسی نیک فطرت بیوی سے تین دلیر شجاع اور وحید الزمان لڑکے پیدا ہوئے جو بعد میں کو ہلی بھرمی اور مانی کے ناموں سے یاد کیئے جانے لگے۔
سردار سائے نوئین کا ملتان پر حملہ :
1247ء میں مغل خاندان کے سردار سائے نوکین نے سلطنت ہرات کے حکمران سلطان شمس الدین سے پنجاب پر حملہ کرنے کی خاطر فوجی امداد کے لیئے درخواست گزاری ۔ جس پر اس نے اسے فوجی امداد دے دی۔ ماہ ذوالج کے اول ایام میں وہ کثیر فوج لے کر ملتان پر حملہ آور ہو گیا تو حاکم ملتان نے حضرت بہاؤ الدین ذکریا سے عرض کیا کہ اسے کسی ذریعے ٹالا جائے۔ حضرت صاحب نے اپنی جیب سے ایک لاکھ اشرفیاں دے کر سردار کو واپس بھیج دیا۔ جس کی وجہ سے یہ علاقہ تباہ و برباد ہونے سے بچ گیا ۳۲۔
الفوخان کا حملہ، پنجاب و مشرف بہ اسلام ہونا:
دہلی کے تخت پر جلال الدین خلجی جلوہ افروز تھا تو چنگیز خان کا نواسہ الفوخان ہندوستان کی طرف للچائی ہوئی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ آخر 1294ء میں الفوخان مسلح فوج لے کر براستہ دریائے سندھ پنجاب پر حملہ آور ہو گیا۔ جس کے نتیجے میں پنجاب کے علاقوں کو از حد نقصان ہوا۔ وہ پنجاب کے علاقے فتح کرتا ہوا دہلی کی طرف پیش قدمی کرنے لگا۔ جب بھیرہ اور چنیوٹ سے گز رہا تھا تو جلال الدین خلجی کو بھی علم ہوگیا کہ الفوخان دہلی فتح کرنے کے لیے آرہا ہے تو اس نے اسی وقت صلح کر لی تو الفوخان خلوص دلی سے حلقہ بگوش
اسلام ہو گیا۔
سردار دواخان کا پنجاب پر حملہ:
1297ء میں تخت سلطنت پر علاؤ الدین خلجی بیٹا تھا کہ مغل سردار دوا خان ایک لاکھ فوج لے کر طوفان کی طرح اٹھا اور پنجاب میں داخل ہو گیا۔ وہ تر یمو گھاٹ سے گزر رہا تھا کہ علاؤ الدین خلیجی کو بھی علم ہو گیا۔ وہ بھی اپنی فوج لے کر بھیرہ کے مقام پر پہنچ گیا۔ جہاں دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی ۔اس جنگ میں جھنگ، چنیوٹ اور بھیرہ کی اقوام نے علاؤالدین خلجی کی بھر پور حمایت کی جس کی وجہ سے سردار دوا خان کو بری طرح شکست ہوئی۔ برصغیر پاک و ہند میں پہلی مرتبہ 1298ء میں علاؤ الدین خلجی نے ہی زمین کی پیمائش کروائی۔
قتلخ خواجہ کا حملہء پنجاب:
جب سردار دوا خان شکست کھا کر واپس پہنچا تو اسکے لیے قتلع خواجہ کو باپ کی شکست کا از حد دکھ ہوا۔ اس کا خون جوش مارنے لگا کہ جھنگ، بھیرہ اور چنیوٹ کی عوام نے علاؤ الدین خلجی کا ساتھ دیا ہے۔ جس وجہ سے اس کے باپ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نے ان سے انتقام لینے کیلئے 1298ء میں فوج لے کر ان علاقوں پر حملہ کر دیا۔ اس نے سیالوں ، کھوکھروں اور جنجوعوں کے قتل عام کا حکم دے دیا۔ جس پر اس کی فوج نے ان قبائل کے افراد کو گا جر مولی کی طرح کاٹا۔ ادھر علاؤ الدین خلجی کو علم ہوا تو وہ بھی فوج لے کر پہنچ گیا۔ دونوں فوجوں کے درمیان زبر دست جنگ ہوئی ۔ شاہی فوج نے تقلع خواجہ کو شکست دے کر بھگا دیا۔
سردارتر تاک کا حملہء پنجاب:
1307ء میں سردار تر تاک فوج لے کر پنجاب میں داخل ہو گیا۔ جب دریائے چناب کے مغربی کنارے پر پہنچا تو ادھر سلطان تغلق بیگ کو بھی علم ہو گیا۔ وہ بھی اپنی فوج لے کر پہنچ گیا۔ دونوں فوجوں کے درمیان چنیوٹ کے مقام پر زبر دست لڑائی ہوئی۔ جس میں سردار تر تاک شکست کھا کر واپس چلا گیا۔
کبک کا حملہ ء پنجاب:
سردار تر تاک کے بیٹے کبک کو اپنے باپ کی شکست کا بہت زیادہ دکھ ہوا تو وہ خوب تیاری کر کے ٹھیک ایک سال بعد 1306ء میں کثیر التعداد فوج لے کر پنجاب میں داخل ہو گیا۔ اور دریائے جہلم کے کنارے خوشاب کی طرف پیش قدمی کرنے لگا۔ اس کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے علاؤ الدین خلجی نے دیپالپور کے گورنر ملک غازی تغلق کی زیر قیادت فوجی دستہ روانہ کیا۔ خوشاب کے مقام پر دونوں فوجوں کے درمیان زبر دست جنگ ہوئی۔ ملک غازی تغلق نے کبک کو شکست دے کر قتل کر دیا۔
سردارا قبال مند کا پنجاب پر حملہ:
سردار اقبال مند 1307ء میں مسلح فوج لے کر طوفان کی طرح اُٹھا اور پنجاب پر حملہ آور ہو گیا ۔ تریم گھاٹ گزر کر قتل عام کرتا ہوا اور بستیاں جلاتا ہوا بھیرہ کی طرف پیش قدمی کرنے لگا۔ لوگ خوف و ہراس کی وجہ سے گھنے جنگلات میں چھپ گئے اور کئی دن بھوکے وپیاسے رہنے کی وجہ سے مر گئے ۔ آخر بھیرہ کے قریب سردارا قبال مند اور شاہی فوج کا آمنا سامنا ہو گیا۔ دونوں فوجوں کے درمیان زبر دست جنگ ہوئی۔ جس کے نتیجے میں سردارا قبال مند کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
سردار تیموشین کا حملہء پنجاب:
پنجاب پر سلطان محمد تغلق حکمران تھا کہ 1330ء میں سردار تیموشین پنجاب پر حملہ آور ہو گیا۔ اس کے مقابلہ کے لئے سلطان محمد تعلق بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ ہر دو فوجوں کے درمیان زبر دست لڑائی ہوئی۔ جب سلطان محمد تغلق نے سمجھا کہ مجھے شکست ہورہی ہے تو فور اسردار تیموشین سے مصالحت کر لی۔
امیر تیمور کا حملہ پنجاب:
امیر تیمور برلاس ترکوں کی ایک شاخ گر کان میں 1336ء کو پیدا ہوا۔ محمد بلبن ملتان کا گورنر تھا کہ 1398ء میں امیر تیمور 30 ہزار فوج لے کر براستہ لاہور پنجاب میں داخل ہو گیا۔ اس نے شورکوٹ کی طرف پیش قدمی شروع کر دی ہے۔ ادھر محمد بلین کو سلم ہوا کہ امیر تیمور صرف 3 ہزار فوج لے کر آرہا ہے تو وہ بھی 10 ہزار فوج لے کر اسکی طرف بڑھا ۔ دریائے راوی کے کنارے دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی ۔ محمد بلین قتل ہو گیا اور امیر تیمور نے شورکوٹ پر قبضہ کر لیا۔
غیاث الدین بلبن کی وفات اور اقتداری تبدیلیاں:
غیاث الدین بلبن اقتدارمحمد بلبن کے حوالے کرنا چاہتا تھا۔ مگر وہ امیر تیمور کے مقابلہ میں قتل ہو گیا۔ غیاث الدین اپنے بستر مرگ پر پڑا تھا۔ تو اس نے اپنے بیٹے بغراخان کو بلا بھیجا جو بنگال کا حکمران تھا۔ اسے اقتدار سنبھالنے کو کہا تو اس نے صاف انکار کر دیا۔ جس وجہ سے غیاث الدین بلبن نے مجبور اسلطان محمد کے بیٹے لیسر و کی تاج پوشی کر دی۔1287ء میں جب غیاث الدین بلبن کی وفات ہوئی تو فوراً ہی وزیراعظم ملک نظام الدین نے لیسر و کو ہٹا کر اس کے بیٹے کیقباد کو تخت پر بٹھا دیا ۔ وزیر اعظم ملک نظام الدین بہت ہو شیار اور چالاک تھا۔ اس نے باپ بیٹے میں اختلاف پیدا کر دیا اور کیقباد کو باپ کے خلاف بھڑکا کر لیخسرو کوقتل کروا دیا۔ کچھ عرصہ بعد کیقباد بھی مر گیا تو تخت سلطنت جلال الدین فیروز کے ہاتھ آگیا ۔ تو اس نے جھنگ ، شورکوٹ اور چنیوٹ کے علاقوں کو ملتان کے زیر کر کے ارکلی کو ملتان کا گورنر تعینات کر دیا۔
علاؤالدین خلجی کا دور حکومت:
1296ء میں علاؤ الدین خلجی نے اپنے چچا جلال الدین فیروز کو قتل کروا کر حکومت خود سنبھال لی۔ دہلی کے تخت پر بیٹھتے ہی اس نے الماس بیگ اور مظفر خان کی زیر قیادت ملتان پر حملہ کرنے کے لئے چالیس ہزار فوج کا دستہ روانہ کیا اور انہیں حکم دیا کہ اس کے چارکلی کو گر فتار کر کے قتل کر دیا جائے ۔ علاؤ الدین خلجی کی فوجیں ابھی ملتان کی طرف پیش قدمی کر رہی تھیں کہ ارکلی کو بھی علم ہو گیا تو وہ قلعہ بند ہو گیا۔ الماس بیگ اور مظفر خان نے قلعہ کو گھیر لیا۔ جب ارکلی نے کثیر فوجی تعداد دیکھی تو شاہ رکن عالم کے ذریعے صلح کر کے ہتھیار ڈال دیئے ۔ جس پر ار کلی کو بمعہ اہل خانہ قلعہ ہانس پہنچا دیا گیا۔
علاؤ الدین خلجی نے نصرت خان ( جو قلعہ کا کو تو ال تھا) کو حکم دیا کہ ارکلی معہ اہل خانہ کی آنکھیں نکال کر قید خانے میں بند کر دو تو اس نے ایسا ہی کیا۔ علاقہ بھیرہ بھی ملتان میں شامل کر کے نصرت خان کو گورنر ملتان تعینات کر دیا۔ علاؤ الدین خلجی کی اولاد میں کوئی باقی نہ تھا۔ تو اس کی موت کے بعد اس کا وزیر ملک غازی تعلق 1320ء میں سلطان غیاث الدین تعلق کے نام سے دہلی کے تخت پر ممکن ہوا۔
تعلق خاندان کا دور حکومت:
وزیر اعظم جو نا خان نے 1325ء میں تعلق خاندان کے بانی سلطان غیاث الدین تغلق کی وفات کے بعد حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی ۔ اور سلطان محمد معلق کے نام سے دہلی کے تخت پر متمکن ہوا۔ اس نے سلطنت کو دوحصوں میں تقسیم کیا۔ ایک حصہ کا پایہ تخت دہلی بنایا اور دوسرے حصہ کا پایہ تخت دولت آباد بنایا۔ اس نے چنیوٹ کے دیو کے، بچے اور چدھڑ قبائل کے بہادر جوانوں کو اپنی فوج میں شامل کر لیا اور دولت آباد لے گیا۔ اس فوج کا سپہ سالار حضرت شاہ بہلول کا دادا بہاول خان تھا۔ اور سلطان محمد تغلق نے 1326ء میں چنیوٹ کا قلعہ تعمیر کروایا ہے قلعہ ریختی کہتے ہیں ۔ 1327ء میں اس نے نئے سکتے جاری کئے ۔
اسی زمانہ میں بنگال کے حکمران ملک غیاث کو سلطان محمد تغلق نے قتل کر واد یا اور خود بنگال پر قابض ہو گیا اور اس کی کھال میں بھس بھر کر ملتان بھیج دیا۔ ان دنوں خسروخان گورنر مان تھا ۔ اور خسرو خان کو حکم دیا کہ اس کی تشہیر کی جائے۔ خسرو خان نے تشہیر کو مناسب نہ مجھتے ہوئے اسے دفن کر دیا۔ جب سلطان محمد تغلق کو علم ہوا کہ خسرو خان نے میری ا حکم عدولی کی ہے تو اسے سخت غصہ آیا اس نے علی خان کو تصدیق کیلئے بھیجا جسے خسروخان نے قتل کر دیا۔ جس پر سلطان محمد تغلق نے فوج نے نرملزمان پر حملہ کرنے کیلئے پیش قدمی شروع کر دی ۔ ادھر خسرو خان کو علم ہوا تو وہ بھی فوج لے کر نکلا ابو ہر کے مقام پر دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی جس میں خسرو خان قتل ہو گیا۔ سلطان محمد تغلق نے اس کا سر ملتان کے دروازہ پر لٹکا دیا اور قتل عام کا حکم دے دیا جس میں تعلق کی فوج نے خون کی ندیاں بہادیں ہے۔ ملتان فتح کر کے خضر خان کو گورنر مقرر کر دیا۔ خسرو خان کے ہمراہیوں کی تمام جائیداد میں ضبط کر لیں اور دو سال بعد انہیں معاف کر دیا۔
20 مارچ 1351ء کو سلطان محمد تغلق وفات پا گیا تو اس کا بیٹا فیروز شاہ تغلق تخت کا وارث بنا اس نے 1354ء میں نئے سکے جاری کئے جن کے نام ادھا، یخ “ تھے ۔ سب سے پہلے فیروز شاہ تغلق نے ہی 1356ء میں نہری نظام متعارف کرایا اور بیٹی سرہندی اس کے نہری نظام کا بانی تھا۔ 23 اکتوبر 1388ء کو وہ بھی وفات پا گیا تو اس کا بیٹا غیاث الدین تغلق تخت پر متمکن ہوا 53 روز بعد وہ بھی قتل ہو گیا۔ تو اس کا پوتا ابو بکر شاہ تغلق تخت پر بیٹھا۔ ڈیڑھ سال بعد وہ بھی قتل ہو گیا۔ اس کے بعد سلطان محمد شاہ تغلق نے 1394 ء تک سلطنت سنبھالی پھر بالترتیب محمد شاہ ، سکندر شاہ محمودشاہ ، نصرت شاہ اور محمود شاہ ثانی نے 1412ء تک حکومت کی بالآخر اس خاندان کا ہندوستان سے ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو گیا۔
چتی کا حملہ:
چنیوٹ پر مغلوں سے پہلے تاتاری ترکوں کا قبضہ تھا۔ ان میں سے ایک شخص ماچھی خان بھی گزرا ہے۔ جو بڑا شجاع اور بہادر تھا۔ جو کہ بھیرہ اور خوشاب پر حکمرانی کرتا تھا ۔ چنیوٹ پر تاتاری سردار مغلی حکمران تھا۔ سردار مغلی نے سوچا کہ آس پاس کی دوسری ریاستیں بھی اپنے زیر اثر کر لوں۔ چنانچہ 1389ء میں مسلح فوج لے کر خوشاب پر حملہ آور ہو گیا۔ نائب حاکم اجیاس کھوکھر قلعہ بند ہو گیا۔ ادھر بھیرہ میں ماچھی خان کو بھی سردار مغلی کے حملہ کی خبر ہوئی تو وہ بھی فوج لے کر خوشاب پہنچا جہاں دونوں فوجوں کے درمیان زبر دست جنگ ہوئی ۔ جس میں ماچھی خان کو شکست ہوئی اور قتل ہو گیا۔ سردار مغلی نے خوشاب کو ریاست چنیوٹ سے ملالیا ہ۳۔ دو سال بعد 1391ء میں ماچھی خان کی بہن چینی اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے اٹھی ۔ اس نے حاکم ملتان سے فوجی امداد لے کر چنیوٹ کی طرف پیش قدمی شروع کی۔ دریائے چناب کے غربی کنارے کی چھوٹی چھوٹی آبادیوں کو تباہ و برباد کرتی اور جلاتی ہوئی چناب کے ساحل پر پہنچ گئی۔ ادھر سردار علی کو علم ہو گیا تو وہ بھی اپنی فوج لے کر مقابلہ کیلئے نکلا ۔ چینی اور سردار مغلی کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی۔ جس میں سردار مغلی کو شکست ہوئی اور وہ قتل ہو گیا۔ چنی نے قلعہ پر قبضہ کر لیا اور دریا عبور کر کے شہر کو آگ لگا کر تباہ کر دیا۔
چنیوٹ کی تباہ شدہ عمارات کو صاف کر کے دریاء کے اس پار قلعہ کے پاس نیا شہر آباد کیا اور چنیوٹ تا خوشاب تک کا علاقہ سنبھال لیا ۔ اور چنیوٹ کا نام ” چنی اوٹ رکھا اوٹ کا مطلب ” پناہ “ اور ”چنی اوٹ سے مراد چینی کی پناہ) جو بعد میں ”چنی اوٹ سے بگڑ کر مقامی زبان میں چنیوٹ مشہور ہو گیا۔
سردار طر طائی سے لنگاہ قوم تک کا دور حکومت:
1398ء میں چنی کی حکومت کے دوران ہی مغل سردار طبر طائی نے چنیوٹ پر حملہ کر دیا اور خوب تباہی مچائی۔ اس دوسرے بڑے حملے میں چنیوٹ کا کافی علاقہ تباہ و برباد ہو گیا۔ 1430ء میں چنیوٹ پر سلطان شاہ لودھی کی حکومت تھی تو شاہ رخ مرزا حملہ آور ہو گیا اور پنڈی بھٹیاں سے تریمو گھاٹ تک کے علاقہ پر قابض ہو گیا۔
1431ء میں مغلوں کی طرف سے پیدا ہونے والی افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کھو کھروں نے بغاوت کر دی اور چند ماہ کیلئے حکومت پر قبضہ کر لیا۔ مگر شکست کھا بیٹھے ۔ ان کے بعد ملتان کی لنگاہ قوم نے 1522ء تک حکمرانی کی لیکن مغلوں نے حملہ کر کے ان کے قدم اکھاڑ دیئے۔
مغلوں کا دورحکومت:
جب دہلی کے تخت پر ابراہیم لودھی جلوہ افروز تھا تو 1526ء میں کابل کے مغل حکمران ظہیر الدین محمد بابر نے فوج لے کر پنجاب پر حملہ کر دیا۔ اس نے پنجاب کی ریاستوں ملتان ،شورکوٹ، بھیرہ ، خوشاب، دیپالپور، چنیوٹ اور لاہور فتح کر کے دہلی کی طرف پیش قدمی شروع کی ۔ ادھر ابراہیم لودھی کو بھی علم ہو گیا کہ مغل حکمران پنجاب فتح کر کے دہلی کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے۔ وہ بھی اپنی فوج لے کر نکل کھڑا ہوا۔ دونوں فوجوں کے درمیان پانی پت کے مقام پر زبردست جنگ ہوئی۔ جس میں ابراہیم لودھی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ظہیر الدین محمد بابر نے دہلی پر قبضہ کر لیا اور ریاست چنیوٹ کو لاہور کے زیر کر کے مرزا یونس علی کو حاکم مقرر کر دیا ہے۔ جس کے بعد مرزا کامران 1540ء تک حکمران رہا۔
سوری خاندان کا دور حکومت:
1530ء میں مغل شہنشاہ ظہیر الدین محمد بابر کی وفات کے بعد اس کا بیٹا نصیر الدین محمد ہمایوں تخت کا وارث بنا۔ حسن خان کے بیٹے فرید خان نے نصیر الدین محمد ہمایوں کے خلاف زبر دست بغاوت شروع کر دی ۔ جس سے وہ ازحد پریشان ہوا ۔ اور اکتوبر 1541ء میں تخت چھوڑ کر براستہ بلوچستان ایران چلا گیا۔ اسکے جانے کے بعد فرید خان” شیر شاہ سوری کے نام سے ہندوستان کے تخت پہ ممکن ہوا۔ سلطنت سنبھالنے کے بعد شیر شاہ سوری نے خوشاب اور بھیرہ کے حکمرانوں سے تعاون کیلئے کہا تو انہوں نے بھر پور تعاون کا یقین دلایا۔ اس نے راجہ ٹوڈرمل کو وزیر مال مقرر کیا۔ خوشاب کے قریب دریائے جہلم پر تیل تعمیر کروایا جو آج بھی "شیر شاہیل” کے نام سے مشہور ہے۔
شیر شاہ سوری خوشاب سے سیدھا چنیوٹ پہنچا۔ یہاں اس نے قریب قریب ریاستوں کے امراء کو بلا کر مراعات سے نوازا۔ چنیوٹ سے شاہراہ اعظم تک ایک پختہ سڑک تعمیر کروائی۔ یہاں سے شیر شاہ سوری ملتان کی طرف بڑھا اور راستے میں چوکیاں اور قلعے تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ دریائے جہلم کے غربی کنارے وچین سے بھیرہ اور کچھی سے کو ہستان تک سڑکیں بنوائیں ۔ ان سڑکوں پر ہر دس میل پر چوکیاں اور اصطبل بنوائے اور ان پر سنگ میل نصب کئے ۔ اور اپنے چچا زاد بھائی تاج الدین سوری کو گورنر مقرر کیا کہ ان ریاستوں اور تعمیرات کی نگرانی کرے۔ جس نے تمام علاقوں پر نگاہ رکھنے کیلئے شورکوٹ میں رہائش رکھی ۔ کچھ ہی عرصہ بعد شیر شاہ سوری بیمار پڑ گیا تو اس نے اپنے بیٹے سلیم شاہ سوری کو بلا یا اور وصیت لکھ دی جس میں اس نے لکھا۔ قدرت نے مجھے اقتدار حکومت اس وقت میں عطا کیا جبکہ میری زندگی کا عرصہ مختصر رہ گیا۔ اس وجہ سے میرے دل کی دو خواہشات پوری نہ ہوئیں جن کی حسرت لئے اس جہان فانی سے کوچ کر رہا ہوں“۔
1 : میری پہلی خواہش یہ تھی کہ شاہراہ اعظم کو مکہ مکرمہ تک لے جاؤں۔
2 : دوسری خواہش یہ تھی کہ خطہء پنجاب کے تمام مردوزن کو قتل کر کے ان کی جگہ نئی نسل آباد کروں۔ کیونکہ اہل پنجاب ہر آنے والے حکمران کا استقبال اور ہر جانے والے کی برائی کرتے ہیں۔ شیر شاہ سوری کا یہ نفسیاتی تجزیہ خواہ اہل پنجاب کیلئے کتنا ہی کڑوا کسیلا ہو مگر یہ حقیقت کے قریب تر ہے ۔ اور تاریخ اس کی شاہد ہے کہ بحیثیت مجموعی پنجاب پر ماسوائے رنجیت سنگھ کے کسی پنجابی نے حکومت نہیں کی۔ ہمیشہ دوسروں کے ہی غلام و دست نگر ر ہے۔ یہ کیفیت آج تک موجود ہے۔
شیر شاہ سوری کی وفات کے بعد اس کا بیٹا سلیم شاہ سوری تخت کا وارث بنا۔ و سال حکمرانی کرنے کے بعد 1552ء میں وفات پا گیا تو اس کا نوعمرلڑ کا فیروز خان تخت پر بیٹھ گیا۔
سلطان محمد عادل شاه:
سلیم شاہ سوری کی وفات کے بعد اس کا نو عمر بیٹا فیروز خان تخت سلطنت پر جلوہ افروز ہوا تو 1554ء میں اس کے سگے ماموں مبارز خان نے اسے قتل کردیا اور خود سلطان محمد عادل کے نام سے ہندوستان کا بادشاہ بنا۔ شیر شاہ سوری کے داماد احمد خان کو بہت زیادہ دکھ ہوا کہ مبارز خان اپنے کم سن بھانجے کوقتل کر کے تخت سلطنت پر قابض ہو گیا ہے۔ اس نے کئی ریاستی امراء کو ساتھ لے کر سلطان محمد عادل شاہ کے خلاف زبردست بغاوت کر دی
اور سندھ، ملتان ، شورکوٹ اور چنیوٹ پر اپنی الگ حکومت قائم کرلی۔
سوری خاندان کی حکومت کا خاتمہ
جب ہندوستان میں بغاوت کی خبریں مغل شہنشاہ نصیر الدین ہمایوں تک پہنچیں تو اس نے ایران کے بادشاہ سے فوجی امداد لے کر 1555ء میں ہندوستان پر زور دار حملہ کر دیا اورسوری خاندان کو بری طرح شکست دے کر ہندوستان پر قابض ہو گیا۔ 1556ء میں شہنشاہ نصیر الدین محمد ہمایوں فوت ہو گیا تو اس کا تیرہ سالہ بیٹا جلال الدین محمد اکبر تخت کا وارث بنا۔ جس نے دیپالپور، کمالیہ، چنیوٹ، جھنگ اور خوشاب کے علاقے ملتان کی حدود میں شامل کر کے ریاستی امراء کو حکم نامہ جاری کیا کہ گورنر ملتان کو مال گزاری ادا کرتے رہیں ۔ اس وقت صوبہ ملتان میں 1186966 ایکڑ اراضی اور 88 ریاستیں شامل تھیں ۔ جن ے 151403619 روپے سالانہ آمدنی وصول ہوتی تھی۔ اموانی ،شورکوٹ ، جھنگ، کروڑ کوٹ ، چنیوٹ اور سیت پور کی ریاستوں کی سالانہ آمدنی 95لاکھ روپے تھی ۔ جو ملتان کے خزانہ میں داخل کروائی جاتی تھی ۳۸۔ شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے 1582ء میں دین الہی کی بنیاد رکھی تو ملا یزدانی نے ان کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کر دیا۔شہنشاہ محمد اکبر نے 1584ء میں زمین کی پیمائش کیلئے الہی گزر پیمانہ جاری کیا۔
راجہ ٹوڈرمل:
راجہ ٹوڈرمل کھتری خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور چنیوٹ کا باشندہ تھا۔ بہت ذہین اور لائق تھا۔ اس کی ذہانت کا چر چاسن کر شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے اسے اپنے دربار میں بلا کر اپنے درباری امراء میں شامل کر لیا۔ راجہ ٹوڈرمل نے شہنشاہ کو اہم سیاسی مشورے دیئے۔ نظام سلطنت و نظام مالگزاری کو سنوارا ۔ اس نے نظام زراعت کی بنیاد شیر شاہ سوری کے نظام زراعت پر رکھی ۔ جو کہ ملک کیلئے سود مند ثابت ہوئی۔ اس نے زمین کی چار اقسام (پولج ، پر اوتی، چاچر اور بنجر ) قرار دیں۔ بہت جلد ہی اپنی قابلیت کو اجا گر کر کے شہنشاہ اکبر کے قابل ترین امراء میں ایک خاص مقام پیدا کرلیا۔
شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کے خلاف شہزادہ سلیم کی بغاوت:
شہزادہ سلیم نے باپ کے خلاف بغاوت شروع کر دی۔جس سے تنگ آکر شہنشاہ محمد اکبر آگرہ چلا گیا۔ جب شہزادے کو سیدھے رستے پر لانے کیلئے ہر بہتر منصوبہ ناکام ہو گیا تو شہنشاہ محمد اکبر زبردست فوج لے کر آگرہ سے چل نکلا۔ رستے میں اسے ماں کی بیماری کا پتہ چلا تو اس نے خرم اور حکیم علی کو بھیجا کہ تصدیق کریں کہ واقع ہی علیل ہیں یا کوئی داؤ لگ رہا ہے۔ شہزادہ خرم نے پہنچ کر پردادی کو دیکھا تو وہ زندگی کی آخری سانسیں پوری کر رہی تھی ۔ چنانچہ چند ہی لمحوں بعد وہ خالق حقیقی سے جامی ۔
دادی کے انتقال کے بعد شہزادہ سلیم نے اپنی خدمات باپ کے سپرد کر دیں۔ شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر شہزادہ سلیم کو شیخو بابا کے نام سے پکارتا تھا۔ شہنشاہ محمد اکبر کی صحت اب تیزی سے خراب ہونے لگی۔ بخار کا حملہ ہوا اور ساتھ ہی اسہال نے بیماری کو پیچد و بنادیا۔ درباریوں کو سازشی منصوبے تیار کرنے کا موقع مل گیا۔ انہوں نے جانشینی کا طریقہ بدلنے اور خسرو کو تخت پر لانے کی کوشش کی ۔ اس میں کامیابی کیلئے انہوں نے منصوبہ بنایا کہ سلیم جب باپ کی عیادت کو آئے تو اسے روکا جائے ۔ مگر بر وقت اطلاع نے اس کو دشمنوں سے بچالیا ہے۔
شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کی وفات اور شہزادہ سلیم کی تخت نشینی جب دشمنوں کی کوئی کوشش کار گر ثابت نہ ہوئی تو شہزادہ سلیم باپ کی آخری عیادت کے لئے گیا۔ شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے مصاحبوں کو اشارہ کیا کہ شہزادہ سلیم کے سر پر میری پگڑی رکھ دی جائے اور میری تلوار اس کے ہاتھ میں تھمادی جائے ۔ یہ کہہ کر شہنشاہ محمد اکبر اس جہان فانی سے کوچ کر گیا۔
باپ کی وفات سے ایک ہفتہ بعد 24اکتوبر 1605ء بروز جمعرات شہزادہ سلیم شہنشاہ نورالدین جہانگیر کے نام سے تخت سلطنت پر جلوہ گر ہوا۔ اس نے شیخو پورہ شہر اپنے نام پر بسایا اور وہاں اپنے پیارے ہرن کی یاد میں ہرن مینار بھی تعمیر کرایا۔
شہزادہ خسرو کی بغاوت:
شہنشاہ جہانگیر کے تخت سلطنت سنبھالتے ہی شہزادہ خسرو نے بغاوت کر دی جس سے حکومت میں افراتفری پھیل گئی۔ 6 اپریل 1606ء کی شام کو شہزادہ خسرو شہنشاہ محمد اکبر کی قبر پر جانے کے بہانے نکلا اور پنجاب کی طرف چل پڑا۔ راستے میں اسے حسین بیگ بدخشی اور عبدالرحمن ملے۔ انہوں نے شہنشاہ جہانگیر کو خبر دی جس سے جہانگیر بہت پریشان ہوا اور شیخ فرید بخاری کو حکم دیا کہ باغی کا تعاقب کرو اور خود جہانگیر بھی ایک انجمن بنا کر مرزا غیاث الدین بیگ تہرانی ، دوست محمد خواجہ جہان ، شیخ علاؤ الدین بنیر ہ ، شیخ سلیم (جو بعد میں اسلام خان کے نام سے مشہور ہوا اور بنگال کا گورنر بنا) اور راجہ راؤ سنگھی بھرتیا شامل تھے، شہزادہ خرم کو صدر بنا کر سلطنت کے تحفظ کا انتظام ان کے سپرد کر کے کابل روانہ ہو گیا۔ تقریباً ایک ماہ کے عرصہ تک شہزادہ خسرو کی بغاوت ختم ہو گئی اور 9 مئی 1606ء کو شہنشاہ جہانگیر واپس لاہور پہنچ گیا۔
لاہور میں گیارہ ماہ قیام کرنے کے بعد 21 مارچ 1607ء کو ارجمند بانو بیگم بنت اعتقاد خان سے شہزادہ خرم کا نکاح کر دیا گیا۔ ٹھیک 5 دن بعد 26 مارچ 1607ء کو دوبارہ شہنشاہ جہانگیر چنیوٹ سے گزرتا ہوا جھنگ پہنچا اور تریمو گھاٹ سے دریائے چناب عبور کر کے چاندی سونا بکھیرتا ہوا 10 ہفتہ کی مسافت طے کرتے ہوئے 4 جون 1607ء کو کابل پہنچا۔
شہزادہ خسرو کی شہنشاہ جہانگیر کوقتل کرنے کی سازش:
شہزادہ خسرو بھی شاہی جلوس کے ساتھ کابل پہنچ گیا۔ شہنشاہ جہانگیر نے اس کی طرف کم خیال کیا ۔ جس سے وہ بے چین ہو گیا اور شریف ابن اعتماد الدولہ ، نورالدین برادر زادہ ، آصف خان اور اعتبار خان کو ساتھ ملا کر مزید چار صد آدمیوں کو اپنے ساتھ ملالیا اور شہنشاہ کوقتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ انہوں نے سوچا کہ اس وقت قتل کیا جائے جب آگرہ کا کوئی محافظ نہ ہو اور شہزادہ خرم کو چھوڑ دیا جائے ۔ بہت ممکن تھا کہ یہ سازش کامیاب ہو جاتی لیکن کسی شخص نے شہزادہ خرم کو تمام کچھ صاف صاف بیان کر دیا۔ جس سے شہزادہ خرم گھر دیا ہوا باپ کے پاس پہنچا اور تمام سازش بیان کر دی۔ جس پر شہنشاہ جہانگیر نے سازش کے تمام سرغنہ کو گر فتار کر کے سخت سزادی اور حکم دیا کہ شہزادہ خسرو کو اندھا کر دیا جائے ۔ اس طرح باپ کی نظر میں شہزادہ خرم کا وقار ہمیشہ کیلئے بڑھ گیا۔
شہزادہ خرم کی تخت نشینی:
29 اکتوبر 1628 بروز اتوار شہنشاہ نورالدین جہانگیر نے را جوڑی کے مقام پر وفات پائی ۔ شہزادہ خرم بھی کابل سے واپس روانہ ہوا ۔ 28 جنوری 1629ء بروز بدھ شہزادہ خرم آگرہ پہنچ گیا۔ سلطنت میں داخل ہونے کیلئے نیک ساعت کے انتظار میں اٹھارہ دن یہیں ٹھہرا رہا ۔ آخر 14 فروری 1629ء بروز اتوار شہزادہ خرم کی تاجپوشی کی گئی اور شاہجہان کے نام سے ہندوستان کا بادشاہ بنا۔ تیز رفتار ہر کارے دور دراز کے علاقوں میں تخت نشینی کی خبر دے کر بھیجے گئے ۔ ایوان خاص سے اٹھ کر بادشاہ حرم میں داخل ہوا۔ وہاں از جمند با نوبیگم جہاں آراء اور دوسری مستورات نے مبار کہاد کیلئے اسے گھیر لیا۔ بیگمات نے سونے ، چاندی کی بارش کر دی۔ یہ جوش و مسرت کا اظہار شاہ جہاں کو پسند آیا۔ اس نے جواب میں کشادہ دلی سے مستورات کو تحائف دیئے ۔
بیوی ملکہ ممتاز حل کو 2 لاکھ اشرفی اور 6لاکھ روپیہ تحفہ میں دیا۔ اور 10 لاکھ روپے سالانہ وظیفہ مقرر کیا۔ جہاں آرا بیگم کو ایک لاکھ اشرفیاں اور چار لاکھ روپیہ سالانہ وظیفہ مقرر کر دیا۔ اس کا نصف شاہی خزانہ سے نقد ملے اور دوسرے نصف کیلئے مساوی جاگیریں عطا کی گئیں ۔ وظائف و تحائف دوسرے شہزادوں اور شہزادیوں کیلئے مخصوص کر دیئے گئے ۔ شہنشاہ نے 8لاکھ روپے اپنی بیوی کو دیئے جس میں سے چار لاکھ روپے داراشکوہ ، شجاع اور محی الدین محمد اور نگ زیب کیلئے مخصوص تھے ۔ بقیہ روپیہ مراد، روشن آرا بیگم اور ثریا میں تقسیم کرنا تھا۔ شاہ جہان نے درباریوں کو ترقیاں دیں۔ ان افسروں میں سب سے پہلا شخص آصف خان تھا۔ اس کو ہشت ہزاری ذات اور ہشت ہزاری سوار دو اسپہ دس اسپنہ کے منصب کے علاوہ سلطنت میں اس کو چچا کا خطاب اور سلطنت کا اعلیٰ ترین منصب دار بنایا گیا۔
اس کے بعد مہابت خان کو سات ہزاری ذات اور سات ہزار سوار دو اسپہ دس اسپہ کا منصب دار بنایا گیا ۔حکیم علیم الدین انصاری چنیوٹی کو لاہور کا گورنر مقرر کر کے نواب وزیر خان کا خطاب دیا۔ چنیوٹ کے قاضی خاندان کے فرد قاضی محمد یوسف کو قاضی القضاة ” کا عہدہ سونیا گیا اور بعد میں چنیوٹ کے تھہیم خاندان کے فر سعد اللہ خان کو وز یر اعظم کا عہدہ سونپ کر نواب کا خطاب دیا۔ منصب پانے والے اشخاص میں سید مظفر بارہ، دلاور خان، بہادر خان ، سردار خان ، راجہ شکل داس ، اور خدمت پرست خان قابل ذکر ہیں۔ اور آخرالذکر کو میر تو زک کا عہدہ دیا گیا۔
نادرشاہ کا حملہ ہندوستان:
1721ء میں روشن اختر محمد شاہ رنگیلا نے ہندوستان کی حکومت سنبھالی۔
1739ء میں ایران کا بادشاہ نادر شاہ مسلح افواج لے کر طوفان کی طرح اٹھا اور ہندوستان پر برس پڑا۔ اس نے ہندوستان میں داخل ہوتے ہی لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا۔ جب محمد شاہ رنگیلا نے اس کی زبر دست یلغار کو دیکھا تو پسپا ہو گیا اور نادرشاہ سے معاہدہ کر کے سندھ کے غربی کنارہ تک کا علاقہ اس کے حوالے کر دیا۔ جسے نادرشاہ نے ایران میں شامل کر لیا۔ پندرہ کروڑ روپیہ نقد ، کوہ نور ہیرا اور تخت طاؤس لوٹ کر نادرشاہ واپس ایران چلا گیا۔سندھ کے علاوہ باقی ہندوستان معاہدہ کے مطابق محمد شاہ رنگیلا کے پاس ہی رہا ۔ محمد شاہ رنگیلا نے بھیرہ، چنیوٹ، جھنگ،خوشاب ،شورکوٹ اور کوہستان کیلئے نواب سعد اللہ خان تھہیم (وزیر اعظم شاہ جہان ) کے پڑپوتے حفظ اللہ خان عرف میاں خان کے پوتے طالب خان کے بیٹے کی الدین بہادر حسن خان مہیم کو گورنر مقر ر کیا ہے۔
گورنر محی الدین بہادر حسن خان تھہیم نے چنیوٹ کی تاریخی عمارات کی مرمت کروائی۔ جپہ ، سپراء ، رجو کہ اور چدھڑ قبائل کو جاگیریں عطا کیں کیونکہ نواب سعد اللہ خان تھہیم ان قبائل سے مراسم رکھتا تھا۔
سیالوں کا دور حکومت:
1739ء سے جھنگ پر نواب ولی داد خان سیال کی حکومت رہی۔ جس نے چنیوٹ انگر مخدوم ، کمالیہ اور ماڑی کے علاقوں پر قبضہ کر کے اپنی سلطنت کو وسیع کر لیا۔ اور پھر ریاست رجوعہ پر حملہ کرنے کیلئے بڑھا تو سید شہابل شاہ نے ہرل اور گلوتر قبائل کے بہادر جوانوں کو اکٹھا کر کے زبردست مقابلہ کیا۔ جس میں ولی داد خان سیال شکست کھا کر واپس بھاگ گیا۔ یوں رجوعہ پر سادات کا ہی قبضہ رہا۔ 1757ء میں ولی داد خان حاکم لاہور کو مال گزاری کی رقم ادا کرنے کے لئے لاہور گیا ہوا تھا۔ واپسی پر وزیر آباد کے قریب قصبہ سوہدرہ میں پیار ہونے کی وجہ سے وفات پا گیا۔ اس کی نعش کشتی کے ذریعے جھنگ لائی گئی نواب ولی داد خان اولا دنرینہ سے محروم تھا۔ اس کی صرف ایک بیٹی تھی۔ جس کا نکاح اس نے اپنے بھتیجے عنایت اللہ خان سیال سے کر دیا تھا۔ جس کے بطن سے صرف دولڑ کے پیدا ہوئے ۔ ان دونوں میں اقتدار کی جنگ چھڑ گئی ۔ جس کے نتیجے میں عنایت اللہ خان نے 1763ء میں حکومت کا انتظام خودسنبھال لیا۔
احمد شاہ ابدالی کا حملہ:
نادر شاہ درانی کے بعد احمد شاہ ابدالی 1748ء کو افغانستان کے تخت پر متمکن ہوا۔ اس نے افغانوں کو ایک پر چم تلے اکٹھا کیا اس وقت متحدہ ہندوستان میں مرہٹوں اور سکھوں کا دور تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے احمد شاہ ابدالی کو خط لکھا کہ مرہٹوں اور سکھوں کے ظلم و ستم سے مسلمانوں کو نجات دلائی جائے۔ چنانچہ احمد شاہ ابدالی نے محدث دہلوی کے پیغام کے مطابق فوجیں لے کر ہندوستان پر حملے کرنا شروع کر دیئے۔ 1761ء میں پانی پت کے میدان میں تیسری فیصلہ کن لڑائی لڑنے کے بعد احمد شاہ ابدالی نے 1764ء کو چنیوٹ کا رخ کیا۔ راستے میں لاہور، فیروز پور اور سوہدرہ کو فتح کرتے ہوئے چنیوٹ پہنچا ۔ احمد شاہ ابدالی نے درانی فوجوں کو چنیوٹ کے قلعہ کا محاصرہ کرنے کا حکم دیا۔
ادھر عنایت اللہ خان سیال بھی مقابلہ کیلئے تیار ہو گیا۔ جونہی اس نے وزانی فوجوں کا زور دیکھا تو ہتھیار پھینک کر احمد شاہ ابدالی سے صلح کرنے کیلئے آمادہ ہو گیا۔ لہذا احمد شاہ ابدالی نے 10 ہزار روپے سالانہ خراج ادا کرنے کی شرط پر اسے چنیوٹ کی حکومت سونپ دی۔ اس کی نگرانی کیلئے ظریف خان اور مقصود خان دزانی سالاروں کو ڈیڑھ سو سپاہیوں کا دستہ دے کر خود ملتان کی طرف پیش قدمی کرنے لگا۔
احمد شاہ ابدالی کے جانے کے فورا بعد عنایت اللہ خان سیال نے دونوں سالاروں کو رشید پور کے سالوں کے خلاف اکسایا کہ وہ لوگ باقی ہیں ان کی سرکوبی کی جائے ۔ لہذا ظریف خان درانی نے اپنے نائب مقصود خان درانی کو پچاس سیاہی دے کر چنیوٹ میں چھوڑا اور خود 100 سپاہی لے کر رشید پور کی طرف پیش قدمی کی۔ لہذ ا مقصود خان درانی نے چنیوٹ کی حکومت کی نگرانی کے ساتھ ساتھ آباد کاری کا سلسلہ شروع کیا اور پہاڑی کے دامن میں ایک قصبہ بنام مقصود آباد” کی بنیاد ڈالی جو کہ اب بھی اسی کے نام سے موجود ہے۔ اسی دوران سکھوں نے چنیوٹ پر حملے کرنا شروع کر دیئے۔
سکھوں کا حملہ:
چنیوٹ پر ابھی عنایت اللہ خان سیال اور مقصود خان درانی کی حکومت تھی کہ سردار گنڈا سنگھ اور سردار سوسنگھ کے خاندان نے قلعہ چنیوٹ پر حملہ کر دیا۔ قلعہ کا انچارج انوپ سنگھ تھا ۔ اس نے سکھوں سے سازش کر رکھی تھی۔ جس بنا پر اس نے قلعے کا دروازہ کھول کر انہیں اندر داخل کر دیا۔ ادھر عنایت اللہ خان سیال نے مقصود خان درانی سے فوجی امداد کی درخواست کی۔ جس پر مقصود خان درانی نے اپنی فوج اس کے حوالے کر دی۔ درانی اور سیال فوجوں نے سکھوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ جو معافی مانگتا اسے معاف کر دیا جاتا اور باقی تمام کو قتل کر دیا۔ اس طرح چنیوٹ پر سیالوں کی حکومت برقرار رہی۔ 1797ء میں عنایت اللہ خان سیال بیمار ہو گیا تو اس نے اپنے بڑے بیٹے محمود خان کو جانشین مقرر کر دیا۔
جب کہ اس کا دوسرا بیٹا صاحب خان یہ نہ چاہتا تھا کہ اقتدار میرے بڑے بھائی محمود خان کو ملے ۔ مقصود خان درانی اور سیالوں کا ایک ہونے کی وجہ سے اس کا بس نہ چلتا تھا۔ لیکن وہ موقع کی تلاش میں رہا۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد محمود خان سیال نے اپنے باپ اور احمد شاہ ابدالی کے درمیان طے شدہ خراج کا معاہدہ منسوخ کر دیا۔ جس وجہ سے مقصود خان درانی اور محمود خان سیال کے درمیان پھوٹ پڑ گئی۔
جو نہی صاحب خان سیال کو اس پھوٹ کا علم ہوا تو اس نے رنجیت سنگھ کے باپ مہان سنگھ کو ساتھ ملا کر چنیوٹ پر زبر دست حملہ کر دیا۔ اپنے بھائی کو قتل کر کے حکومت کا انتظام خود سنبھال لیا ۔ 1801ء میں پانی سیالوں کے سربراہ کبیر خان سیال نے حملہ کر کے صاحب خان کو قتل کر دیا اور حکومت پر قابض ہو گیا۔ کبیر خان کے بیٹے احمد خان نے باپ کے خلاف بغاوت کر دی اس نے کئی مرتبہ حملے کئے مگر نا کام رہا۔ بالآخر 1812ء میں کبیر خان وفات پا گیا تو اس کے اس بیٹے احمد خان نے حکومت سنبھال لی۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کا حملہ:
مہاراجہ رنجیت سنگھ لاہور سے پنڈی بھٹیاں پہنچا تو فتح سنگھ نے اپنے پورے دربار کے ساتھ اور توپوں کی سلامی دے کر اس کا شاہانہ استقبال کیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پنڈی بھٹیاں کے مسلمان زمینداروں کی طرف اپنے قاصد بھیجے کہ میرے ساتھ مکمل حمایت کا اعلان کریں۔ جس پر انہوں نے نہ صرف حمایت کا اعلان کیا بلکہ اعلی نسل کے چار سوگھوڑے بھی اس کو بطور تحفہ پیش کئے ۔ پھر اس نے وہاں سے اپنی فوجوں کے ساتھ مغربی علاقوں کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ دریائے جہلم عبور کرتے ہوئے دھنی پوٹھوہار ( راولپنڈی اور کیمبل پور کے اضلاع) کے علاقوں میں پہنچا۔ رنجیت سنگھ نے یہ علاقے فتح کر کے فتح سنگھ کے سپرد کر دیئے۔ اور خود چنیوٹ کی طرف پیش قدمی کرتا ہوا 1816ء میں چناب کے ساحل پر پہنچا ہے۔ اس وقت چنیوٹ گلاب سنگھ، کرم سنگھ اور جسا سنگھ بھنگی سکھوں کے قبضہ میں تھا۔ چنیوٹ کا تاریخی مندر بھی گلاب سنگھ بھنگی نے ہی تعمیر کروایا تھا۔ رنجیت سنگھ نے قلعہ کا محاصرہ کر لیا۔ جسا سنگھ نے پہلے تو بڑی مغروری اور تکبیر کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنے کا سوچا۔ مگر رنجیت سنگھ کی فوج دیکھ کر ہمت ہار گیا۔ جس سنگھ بھنگی نے رنجیت سنگھ کی طرف صلح کے لئے اپنا وکیل بھیجا۔
جس پر اس نے بڑی خوشی کا اظہار کیا۔ لہذا جسا سنگھ نے قلعہ سے باہر آکر رنجیت سنگھ سے ملاقات کی اور قلعہ اس کے حوالے کر دیا۔ باوجود اس کے قلعہ کی فوجوں کے سردار میاں سلطان محمود خوجہ نے اس وقت تک قلعہ کا دروازہ نہ کھولا جب تک کہ اسکے آقا نے اسے حکم نہ دے دیا۔ اس کی وفاداری سے متاثر ہو کر رنجیت سنگھ نے اسے چنگڑانوالہ کی جاگیر عطا کی جو پہلے ریحانوں کی ملکیت تھی ہے۔ اس کے بعد رنجیت سنگھ جنگ کی طرف بڑھا۔ جھنگ پہنچ کر اس نے اپنے امراء کو جنات کے زمینداروں کی طرف اس غرض کیلئے بھیجا کہ وہ میری حکومت کے ساتھ الحاق کریں۔ جس پر انہوں نے یہ بہانہ لگاتے ہوئے جواب دیا کہ ہمارا الحاق افغانستان کے ساتھ ہے یا ہم لاہور دربار میں ریونیو
ادا نہ کر سکتے ہیں ۔
پھر رنجیت سنگھ نے احمد خان سیال کی طرف امیر چند کو بھیجا کہ جھنگ کا قلعہ میرے حوالے کر دے جس پر ایک طرف تو احمد خان سیال نے اس کے ساتھ صلح کی بات چلائے رکھی اور دوسری طرف مقابلہ کیلئے فوج اکٹھی کرنا شروع کر دی۔ جو نہی رنجیت سنگھ کو احمد خان سیال کی اس چالا کی کا علم ہوا تو وہ بھڑک اُٹھا اور قلعہ پر حملہ آور ہو گیا۔ احمد خان سیال نے قلعہ کے دروازے بند کر دیئے اور خود دیوار کے ساتھ چھپ گیا۔ مگر رنجیت سنگھ کے مست ہاتھی قلعہ کے دروازوں کو کچلتے ہوئے اندر داخل ہو گئے احمد خان سیال رات کی تاریکی میں بھاگ کر حاکم مامتان نواب مظفر خان سدوزئی کے پاس پہنچ گیا۔
نوٹ:یہ مضمون ڈاکٹر ارشاد احمد تھیم کی کتاب (تاریخ چنیوٹ) سے لیا گیا ہے۔