تاریخ چنیوٹ:قصبات
یہ قصبہ چنیوٹ سے جنوب کی سمت فیصل آباد روڈ پر مغرب کی طرف آباد ہے۔ حضرت شاہ دولت بخاری جب ۶۴۰ ھ میں اُچ بہاولپور سے تبلیغ اسلام کی خاطر چنیوٹ تشریف لائے تو انہوں نے اس قصبہ میں رہائش اختیار کی۔ ایک روایت کے مطابق اس قصبہ میں سب سے پہلے رجو کہ قوم آباد تھی ، جس وجہ سے اس قصبہ کا نام,, رجوعہ ،مشہور ہوا۔ علاقہ رجوعہ ریاست جھنگ کے زیر نگیں تھا۔ جب جھنگ پر غازی خان سیال کی حکومت تھی تو اس نے علاقہ رجوعہ کا نظام سردار راجن قتال بخاری ( جو کہ حضرت شا دولت بخاری کی اولاد میں سے تھے ) کے سپر د کر دیا۔ اس وقت علاقہ رجوعہ کی حدود ادھر قلعہ کنگراں سے چک جھمرہ تک اور ادھر پنڈی بھٹیاں اور طالب والا سے ملتی تھی۔ مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے 1580ء میں رجوعہ کی جاگیر سردار راجن شمل قتال بخاری کو عطا کر دی۔ رجوعہ بحیثیت جا گیر ہے جواب تک قائم ہے۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق اس قصبہ کی آبادی 11260 نفوس پر ہے۔
11234 نفوس مسلمان اور 26 غیر مسلم ہیں ۔ پختہ 782 اور کچے 944 کل 1726 مکان ہیں۔ سادات کے محلات کی عمارات قابل دید ہیں۔ ایک ہائی سکول، تین ندی مدارس ، جامعہ مسجد اور ایک سرکاری ڈسپنسری ہے ۔ رجوعہ کا کل رقبہ 16824 ایکڑ ہے۔
کڑک محمدی:
یہ قصبہ چنیوٹ سے مغرب کی طرف 26 کلو میٹر دور جھنگ روڈ پر واقع ہے۔ اس قصبہ کی بنیاد تقریبا ۱۰۰۵ ھ میں حضرت امام الدین نے رکھی۔ اس سے قبل یہ محمد سلطان کنگر کی ملکیت تھا۔ حضرت امام الدین ایک عالی ہمت بزرگ اور ولی اللہ کامل تھے۔ اس علاقہ کے کنگر ، چدھڑ اور جے قبائل آپ کے عقیدت مند اور مریدین خاص میں شامل تھے۔ جب آپ کا وصال ہوا تو آپ کو اسی جگہ دفن کیا گیا ۔ جس وجہ سے یہ جگہ پہلے ” کڑک امام الدین (محکمہ مال کے قدیم ریکارڈ میں بھی یہی نام ملتا ہے ) مشہور ہوئی پھر مقامی زبان میں کڑک امام الدین سے کڑک مادی اور پھر کڑک مامدی“ سے ”کٹرک محمدی محکمہ مال کے موجود ور ریکارڈ میں بھی یہی نام ہے ) مشہور ہوا۔
،،
مولانا محمد ذاکر کے والد محترم میاں عبدالغفور ( جو حضرت امام الدین کی اولاد میں سے تھے ) نے اس قصبہ میں مدرسہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی اس مدرسہ کو بعد میں علیہ اسلامیہ انٹر کالج کا درجہ حاصل ہو گیا۔
اس قصبہ میں ایک بہت بڑا دینی دار العلوم، یتیم خانه عظیم الشان مسجد، انٹر کالج اور ہائی سکول موجود ہیں۔
1998ء کی مردم شماری کے مطابق اس قصبہ کی آبادی 7222 نفوس پر مشتمل
ہے ۔ 7201 افراد مسلمان اور 21 افراد غیر مسلم ہیں ۔ 457 پختہ اور 683 کچے کل 1140 مکان ہیں۔ اس موضع کا رقبہ 16087ایکڑر ہے۔
بھوآنہ:
چنیوٹ جھنگ روڈ پر ایک قدیمی قصبہ بھوآنہ ہے۔ بھوآنہ قلعہ تھا جس پر چہ قوم کا قبضہ تھا۔ اس قلعہ کو سردار جسا سنگھ بھنگی نے اپنے قبضہ میں لے لیا۔ جب جھنگ پر احمد خان سیال کی حکومت تھی تو سردار جسا سنگھ بھنگی ، جبہ قوم کے لوگوں کو جھنگ میں لوٹ مار کیلئے بھیجتا۔ جس کی وجہ سے جھنگ کے لوگ بڑے پریشان تھے تو احمد خان سیال مسلح فوج لے کر بھوانہ پر حملہ آور ہو گیا۔ احمد خان سیال کی فوج نے سردار جسا سنگھ کی فوج کو شکست دے کر چنیوٹ کی طرف بھگا دیا۔ جہ خاندان نے احمد خان سیال سے صلح کرلی اور علاقہ بھوانہ پر قابض رہے۔ بھوانہ ٹاؤن کمیٹی ہے اور 16 مواضعات ہیں۔ اس میں 9 پٹوار سرکل، ایک دیہی مرکز صحت ، ایک ڈگری کالج ، ہائی سکول اور ایک پولیس تھا نہ ہے۔
1998ء کی مردم شماری کے مطابق اس قصبہ کی کل آبادی 5527 نفوس پر مشتمل ہے۔ 5511 نفوس مسلمان اور 16 افراد غیر مسلم ہیں ۔ 450 پختہ اور 413 کچے ۔ کل 863 مکان ہیں۔ اس قصبہ کا رقبہ 13488ایکڑ ہے۔
لالیاں:
یہ قصبہ چنیوٹ سرگودہا روڈ پر ریلوے لائن کے ساتھ آباد ہے۔ احمد شاہ ابدالی کے زمانہ حکمرانی میں اس قصبہ کی بنیاد 1772ء میں حافظ محمد صدیق لائی نے رکھی ، حافظ محمد صدیق لالی ولی اللہ تھے۔ انہوں نے جنگل میں جھونپڑی بنا کر رہائش اختیار کی۔ جب ان کے علم وعمل کا چرچا ہوا تو عقیدت مندوں کا اس طرف رخ ہو گیا ۔ آہستہ آہستہ پاس ہی جھونپڑیاں بنا کر رہائش پذیر ہوتے گئے۔ اس قصبہ میں درجہ سوم میونسپل کمیٹی قائم ہو گئی ۔ جس کی سالانہ آمدنی 1117 روپے تھی اور اس قصبہ کی آبادی 3096 نفوس تھی۔ یہ آبادی بڑھ کر 1972 ء میں 10558 نفوس ہو گئی قیام پاکستان سے قبل اس قصبہ میں 11 مساجد، تین جامعہ مساجد، ایک عید گاہ، تین مندر، ایک گوشانه، ایک گوردوارہ، دوٹھا کر دوارے، تین غیر مسلموں کے مذہبی مدارس اور پانچ مسلمانوں کے مانی مدارس جاری ہوئے ۔ اس قصبہ میں زیادہ آبادی لالی اور نسو آنہ قبائل کی ہے۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق اس قصبہ کی آبادی 8424 نفوس پر مشتمل ہے ۔ 8392 افراد مسلمان اور 32 افراد غیر مسلم ہیں۔ 827 پختہ اور 526 کچے ۔ کل 1353 مکان ہیں۔ اس قصبہ کا رقبہ 7217ایکڑ ہے۔
چناب نگر:
یہ قصبہ چنیوٹ سرگودہا روڈ پر دریائے چناب کے غربی کنارے پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہے ۔ اس قصبہ کا پہلا نام "چک ڈھگیاں تھا جو محکمہ مال بندوبست میں درج تھا۔ اور اس قصبہ کا نام ” چناب نگر ، ، رکھنے پر پہلا نام محکمہ مال سے ختم کر کے ” چناب نگر لکھ دیا گیا۔
1947ء میں جب گورداسپور کا ضلع قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کے باعث ہندوستان میں شامل ہو گیا۔ پنجاب میں ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے ۔ ہندؤوں اور سکھوں نے مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کیا تو مسلمان وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ تاہم قادیانیوں کو انہوں نے کچھ نہ کہا اور وہ بالکل محفوظ تھے۔ لیکن انگریز سیاست کا یہ تقاضا تھا کہ قادیانیوں کو پاکستان بھیج کر مسلمانوں کے لئے مسائل پیدا کئے جائیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود نے اپنے ان سفید فام آقاؤں کی اسی سیاست کو پروان چڑھانے کیلئے اپنی جماعت کو لے کر پاکستان میں داخل ہو گیا۔ جگہ کی تلاش کے لئے ایک سروے ٹیم مقرر کی گئی جنہیں تین ضلعوں کے نام دیئے گئے ۔ضلع سیالکوٹ ضلع شیخو پورہ اور ضلع جھنگ کہ ان تینوں ضلعوں میں کہیں مناسب جگہ تلاش کریں۔ ضلع سیالکوٹ اس لئے کہا گیا کہ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ قادیانی کا تعلق بھی اسی ضلع سے تھا تا که امداد اچھی ملے گی اور بوقت ضرورت کام آئے گا اور باڈر بھی نزدیک ہے ۔ تخریب کاری میں بھی آسانی ہوگی ضلع شیخو پورہ کا اس لئے کہا گیا کہ شیخو پورہ میں نکانہ صاحب میں سکھا کثریت ہے اگر سکھ اپنا علاقہ چھوڑ کر بھارت چلے گئے تو ہم ان کی جگہ ریاست قائم کر لیں گے۔ ضلع جھنگ کا انتخاب اس نظریہ سے تھا کہ یہ انتہائی پسماندہ ضلع اور اس میں ان پڑھ لوگ زیادہ ہیں ان کو ہم آسانی سے شکار بنا لیں گے۔
سروے ٹیم نے تینوں اضلاع کا سروے کیا۔ انہیں چنیوٹ کے قریب دریائے چناب کے غربی کنارے حکومت کی خالی پڑی ہوئی جگہ سب سے زیادہ پسند آئی ۔ کیونکہ دفاعی اعتبار سے بھی یہ جگہ ان کیلئے انتہائی موزوں تھی۔ مرزا محمود نے بھی اس سے اتفاق کیا انجمن قادیانی پاکستان کی طرف سے سرکاری رقبہ حاصل کرنے کے لئے درخواست دی گئی تو اس وقت کے وزیر مال سردار شوکت حیات نے اسے مستر د کر دیا۔ بعد میں جب مبارک علی وزیر مال بنے تو انہوں نے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ قادیانی اور گورنر پنجاب انگریز فرانس موڈی کے کہنے پر ایک ہزار چونتیس (1034) ایکڑ زمین کا وسیع قطعہ دینے کی اجازت دے دی۔ جون 1948ء میں ڈپٹی کمشنر جھنگ عبد العزیز خاں نے یہ وسیع علاقہ برائے نام قیمت دس روپے فی ایکڑ کے حساب سے انہیں فروخت کر دیا ہے۔
اس رقبہ پر 20 ستمبر 1948ء کو نئے قصبہ کی بنیاد رکھی گئی اور قادیان میں مرزا قادیانی کی مسجد، مسجد مبارک جو وہاں سکھوں ، ہندؤوں کیلئے چھوڑ آئے تھے اس نام سے موسوم مسجد کی بنیاد رکھی ۔ اب اس نئی بستی کا نام زیر غور آیا۔ مختلف لوگوں نے مختلف نام تجویز کئے کسی نے دارالہجرت کسی نے محمود آباد کسی نے ناصر آباد کی تجویز دی۔ مولوی جلال الدین شمس نے تجویز دی کہ اس کا نام . ربوہ ، رکھیں ۔ کیونکہ ربوہ کا لفظ پارہ نمبر 18 سورہ مومنون آیت نمبر 50 میں سید نائیٹی اور ان کی والدہ محترمہ کی ہجرت کے ضمن میں آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ !
(ترجمه)
"ہم نے عیسی اور ان کی والدہ کو جب وہ ہجرت کر کے آئے تو انہیں ایک اونچی
جگہ ( ربوہ ) میں جو قرار والی اور چشموں والی تھی پناہ دی“
ربوہ کسی جگہ کا نام نہ تھا۔ یہ اس جگہ کی حقیقت تھی کہ وہ اونچی تھی مفسرین کرام نے ربوہ سے مراد فلسطین لیا ہے کہ وہ اونچی جگہ پر واقع ہے۔
مولوی جلال الدین شمس نے کہا کہ ! ہم بھی مسیح موعود ( مرزا غلام احمد قادیانی) کی اُمت ہیں اور ہجرت کر کے آئے ہیں تو اس شہر کا نام ربوہ رکھیں جو حضرت عیسی کے تذکرہ میں آیا ہے۔ ربوہ نام کا شہر دنیا میں کہیں موجود نہیں جب اس شہر کا نام دنیا میں مشہور ہو جا ئے گا تو آئندہ چل کر ہر قرآن پڑھنے والا شخص یہی سمجھے گا کہ قرآن کریم میں جو , ربوہ کا لفظ آیا ہے اس سے مراد یہی ربوہ شہر ہے جو پاکستان میں موجود ہے ۔ یہی مسیح موعود کا مقدس شہر سمجھا جائے گا۔ اس میں مرزا کی یہ پیشین گوئی بھی پوری ہو جائے گی کہ قرآن مجید میں تین شہروں کا نام بڑے اعزاز سے ذکر کیا گیا ہے، مکہ، مدینہ اور قادیان۔
کیونکہ ربوہ دوسرے لفظوں میں نیا قادیان ہی تو ہو گا۔ اس گہری سازش کے ساتھ قرآن کریم میں ایک خطر ناک قسم کی تحریف کی گئی کہ لفظ تو یہی رہے لیکن اس کا محل اور مصداق بدل جائے۔ ربوہ اُردو میں ٹیلہ اور پنجابی میں بہ“ کہتے ہیں۔ مولانا منظور احمد چنیوٹی سابق ممبر صوبائی اسمبلی وسیکرٹری جنرل انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ نے ”ربوہ“ کے نام کی تبدیلی کے لئے تحریک کا آغاز کیا اور دو ورقی پمفلٹ ”ربوہ کا نام تبدیل کر شائع کیا اور پورے ملک میں پھیلا یا رسائل و جرائد میں مضمون چھپوائے سنکر تیار کروا کر مختلف عوامی جگہوں پر لگوائے ۔ عام جلسوں اور کانفرنسوں میں اسے مطالبہ کی شکل میں منظور کرایا۔ موانا منظور احمد چنیوٹی نے 1985ء میں مدینہ منورہ کے شرائن ہوٹل 1میں پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق سے ون ٹو ون ملاقات کی اور ربوہ کے نام کی تبدیلی کا مطالبہ کیا تو انہوں نے بھی یقین دلایا ۔ پھر انہوں نے 1991ء میں ٹاؤن کمیٹی ربوہ سے تبدیلی نام کی قرار داد بالا تفاق منظور کروادی ۔
پھر وز یر اعظم سیکرٹریٹ سے چیف سیکرٹری پنجاب کو چٹھی نمبر 89062641 JS (imp)/mis / m جاری کروائی ۔ مو چنیوٹی نے 1997ء کے الیکشن میں کامیابی کے بعد دوبارہ قرارداد پیش کی تو 23 دسمبر 1997ء کو صوبائی وزیر مال چوہدری شوکت داؤ دنے ”نواں قادیان کا نوٹیفکیشن نمبر 36/81.ch/034.99 جاری کیا۔ مگر لوگوں نے اس نام کو پسند نہ کیا آخر دوبارہ اس نوٹیفکیشن کو منسوخ کروا کر 4 فروری 1999ء کو چناب نگر کا با قاعدہ نوٹیفکیشن جاری کروایا اور محکمہ مال کے کا ریکارڈ میں چک ڈھگیاں کی بجائے ، چناب نگر ، لکھوایا۔ ربوہ کی تمام سرکاری عمارتوں تھانہ، ریلوے اسٹیشن ، بلد یہ اور تعلیمی اداروں پر چناب نگر ، لکھا دو گیا۔ 26 فروری 1999ء بروز جمعتہ المبارک کو چناب محمر ، نام کی تختی کی نقاب کشائی ڈپٹی سپیکر پنجاب جناب سردار حسن اختر موکل صاحب نے اپنے دست مبارک سے فرمائی۔
1950ء میں یہاں ٹاؤن کمیٹی بنائی گئی تو اس وقت اس قصبہ کی آبادی 5 ہزار نفوس تھی ۔ 1972ء کی مردم شماری کے مطابق اس قصبہ کی آبادی 15897 نفوس پر مشتمل تھی ۔ اس قصبہ میں ایک مردانہ اور ایک زنانہ کالج ، دو ہائی سکول ،متعدد پرائمری سکول اور کچھ قادیانیوں کے مذہبی مدارس ہیں ۔ یہاں زمانہ قبل از مسیح میں سنسکرت کی ایک درسگاہ بھی تھی جس کا نام انہین ، تھا جو بعد میں تباہ و برباد ہوگئی۔
نوٹ:یہ مضمون ڈاکٹر ارشاد احمد تھیم کی کتاب (تاریخ چنیوٹ) سے لیا گیا ہے۔