چنیوٹ:قدیمی آثار
1: جانی شاہ سے مغرب کی طرف دو میل دور تین ایکڑ پرمشتمل بھڑ موجود ہے۔ جسے ماڑی امین طیبہ کہتے ہیں جو کہ سطح زمین سے 15/20 فٹ بلند ہے۔ جہاں بعد از وقت ٹپہ . مضافات کے لوگوں نے قبرستان بنا دیا۔ وہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں سے قبروں کی کھدائی کے وقت لوگوں کو پیتل و تانبے کے چھوٹے چھوٹے برتن ملے ہیں ، جنہیں مقامی زبان میں مونگر کہتے ہیں۔ ٹھیکریاں اور اینٹوں کے ٹکڑے بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ مگر کوئی ایسا نشان نہیں ملا جس سے انداز ولگایا جا سکے کہ یہ قصبہ کسی زمانے میں تباہ و برباد ہوا۔
2: چنیوٹ سے جنوب مشرق کی سمت 7/8 میل دور فیصل آباد روڈ پر جھوک موڑ کے قریب بھڑ موجود ہے۔ جس کا رقبہ 18/9ایکڑ ہے۔ جسے ماڑی یا مبہ جتی جمال“ کہتے ہیں۔ یہاں چنیوٹ شہر آباد تھا جو کہ دریائے چناب کے اس پار تھا اور اس پار (جہاں موجودہ شہر آباد ہے ) قلعہ تھا۔ جب چنی نے ماچھی خان کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے چنیوٹ شہر پر حملہ کیا تو پہلے قلعہ فتح کیا اور پھر دریا عبور کر کے شہر کو آگ لگا دی اور اس چلے ہوئے شہر کے ملبہ کو صاف کر کے قلعہ کے پاس نیا شہر آباد کیا۔ اس بھر کی بلندی 45/50 فٹ ہے۔ اور اس پر ایک بزرگ جتی جمال کا مزار ہے جس وجہ سے اسے شبہ جنتی جمال ،، کہتے ہیں۔ اس جگہ کے مضافات کے لوگوں نے یہ اونچی جگہ دیکھ کر اس پر قبرستان بنا دیا۔ بعض جگہوں سے قبریں کھودتے وقت جلی ہوئی مٹی اور کو نکلے بھی نکلتے ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ دہی شہر ہے جسے چینی نے جلا کر تباہ کر دیا تھا۔
3: چنیوٹ سے تقریب پانچ کلو میٹر دور مشرق کی طرف پنڈی بھٹیاں روڈ پر واقع قصبہ راد باغ مل کے جنوب مشرق کی طرف بھڑ موجود ہے۔ جو کہ 18 ایکڑ رقبہ پر مشتمل ہے۔ یہ سلح زمین سے 50/55 فٹ بلند ہے ۔ اس کے شمال مشرق کی طرف ایک بزرگ, سخی اسماعیل ،، کا دربار ہے اور جنوب کی طرف,, سوہنے شاہ کا مزار ہے۔ مضافات کے لوگوں نے اس پر قبرستان بنا دیا ہے۔ یہاں ٹھیکریوں کے علاوہ ایسی کوئی چیز دیکھنے میں نہیں آئی جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ یہ شہر یا قصبہ کس زمانے میں تباہ و برباد ہوا۔
4: موجودہ کا لووال سے جنوب کی طرف ایک میل کے فاصلے پر موضع چنگڑانوالہ سے جانب مغرب کا لوال کا بھڑ موجود ہے۔ جو کہ کھوکھر خاندان کے مشہور ومعروف سردار کالے خان نے آباد کیا تھا اور اس کے نام کی نسبت سے کالو وال مشہور ہوا ۔ کالے خان کی ریاست دریائے چناب و جہلم کے درمیان واقع تھی جو شمال کی طرف موجودہ قصبہ دھول راجھہ تک اور جنوب میں دارا پتھر نزد چناب نگر تک تھی ۔ کالے خان کا بیٹا نواب جسرت خان تھا۔ جس کی حکومت دیپالپور تک تھی۔ جس کے نام کی نسبت اب بھی چنیوٹ سے پانچ میل دور جانب مغرب قصبہ حسرت موجود ہے۔
کالوال ریاست کا خاتمہ رنجیت سنگھ کے دور میں ہوا۔ جس نے یہاں ایک قلعہ بھی تعمیر کروایا جس کے آثار کالو وال سے مشرق کی جانب اب بھی موجود ہیں۔
5: بھوانہ کے قریب قصبہ بیری والا میں اڑھائی ایکڑ رقبہ پرمشتمل 25 فٹ بلند بھر
موجود ہے۔
موضع برخوردار کے قریب 14/5 یکٹر پرمشتمل بھڑ موجود ہے۔ جس کی بلندی تقریباً 25/30 فٹ ہے۔
بھوانہ سے تقریباً 3 میل دور جانب مشرق بھڑ موجود ہے۔ جس کا رقبہ تقریباً
718ایکڑ ہے اس جگہ کو فصل پور کہتے ہیں۔
چک نمبر ۲۲۵ ج ب کے جنوب کی طرف 15/20 فٹ بلند تقریباً 14 کنال پر مشتمل بھڑ موجود ہے۔ مذکورہ بھڑ سے ماسوائے ٹھیکریوں کے کوئی چیز نہ ملی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا نشان ملا ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ یہ شہر یا قلعہ کب اور کس دور میں تباہ و برباد ہوا۔
4: چک نمبر 240 کے قریب تقریباً 112/13ایکڑ رقبہ پر مشتمل بھڑ کو اگر بغور دیکھا جائے تو سڑکوں اور گلیوں کے نشانات معلوم ہوتے ہیں اور کچھ فاصلے پر دو چھوٹے چھوٹے ٹیلے ہیں ۔ جو اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ یہ کوئی شہر یا قلعہ تھا اور یہ ٹیلے اس کی حفاظتی چوکیاں تھیں ۔
5: چک نمبر 227 ج ب کے قریب بھڑ موجود ہے۔ جس کا رقبہ تقریباً دو، اڑھائی ایکڑ ہے۔ اور اس پر بے شمار پرانی ٹھیکریاں بکھری ہوئی ہیں اور اس سے کچھ ہی دور دو ٹیلے ہیں ۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی قلعہ تھا اور یہ اس کی حفاظتی چوکیاں تھیں اور وہاں اینٹوں کے ٹکڑے بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ جن سے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سکندر اعظم کے زمانے کا قلعہ ہوسکتا ہے۔ جو بعد میں تباہ و برباد ہو گیا ۔ کیونکہ اس قسم کی اینٹیں سکندر اعظم کے زمانہ میں ملتی ہیں۔
6: پنڈی فتح شاہ میں ایک بھڑ ہے جس کی بلندی بعض مقامات سے 25/30 فٹ اور بعض مقامات سے 80/90 فٹ ہے۔ اس کا رقبہ تقریباً 110/11 ایکڑ ہے۔ اسے بعض مقامات سے کھودنے پر جلی ہوئی مٹی اور آگ کے نشانات پائے گئے اور لوہے کے ذرات بھی ملے ہیں۔ جس سے گمان غالب ہے کہ یہاں کوئی اسلحہ سازی کا کارخانہ تھا، جو بعد میں تباہ و برباد ہو گیا۔ مگر یہاں سے کوئی ایسی چیز دستیاب نہیں ہوئی جس سے انداز ولگایا جا سکے کہ یہ کسی زمانے میں تھا۔
نوٹ:یہ مضمون ڈاکٹر ارشاد احمد تھیم کی کتاب (تاریخ چنیوٹ) سے لیا گیا ہے۔