ذاتیں
زمانہ قدیم سے مختلف ادوار میں مختلف خاندان خطہ چنیوٹ میں آکر آباد ہوتے رہے۔ اس خطے میں آرین، ڈراوڈ، یونانی النسل اور عربی النسل قبائل داخل ہوئے۔ جن کی اولاد آج بھی کئی ایک ذیلی شاخوں کی صورت میں آباد ہے ۔ سکھوں کے دور حکومت سے قبل چنیوٹ میں آباد قبائل کا مختصر ذکر کیا جاتا ہے۔
آہیر :
آہیر بھی اصل میں جاٹ قوم سے ہیں ۔ ان کے جد امجد کا نام آفیر تھا۔ آہیر قوم اس آخیر کی اولاد ہیں اور اپنے جد کے نام سے مشہور ہوئے ۔ لفظ آہیر، آخیر کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ اس قوم کے کچھ لوگ چنیوٹ کے نزدیک گاؤں ہیراں اور کھائی ہیراں میں آباد ہیں اور کاشتکاری کرتے ہیں۔
آرائیں :
کئی مورخ حضرات نے انہیں جائوں کی شاخ قرار دیا ہے ۔ جاٹ تو مسلم عہد سے قبل برصغیر میں آباد ہیں ۔ جبکہ اس قوم کا ذکر مسلم عہد سے قبل نہ ملتا ہے۔ عرب میں چرواہوں کو الراعی کہتے ہیں ۔ یہ لوگ جب مسلم عہد میں ہندوستان میں داخل ہوئے تو مقامی زبان میں الرائی سے اراکین مشہور ہو گئے۔
پنجاب یونیورسٹی شعبہ صحافت کے پروفیسرمحمد شفیق جالندھری کی تحقیق کے مطابق :- ارا میں عربی النسل ہیں ان کا تعلق قدیم ترین تہذیب و تمدن کے مرکز شہر اریم عراق دیمن سے ہے۔ اریحا کی مناسبت سے یہ عر کائی کہلائے اور یہ نام بدلتے بدلتے ارائیں ہوا ۔ بعض الراعی یا زورعین یا ر عین بھی کہتے ہیں ۔ اریحا کا شہر دمشق سے بیت المقدس جانے والی سڑک پر واقع ہے۔ بنوامیہ کے زمانے میں دمشق کی حفاظت کیلئے اریحا عربوں کی عظیم الشان چھاؤنی تھی ۔ اریحا کی اہمیت کے پیش نظر وہاں ایسے لوگوں کو آباد کیا گیا جو بنو امیہ کے اعلیٰ خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے یا جن کی بنو امیہ سے وفاداری مسلم تھی۔ ان لوگوں کو سارے علاقہ میں جاگیریں عطا کی گئیں۔ جس کی وجہ سے اس کی سر سبزی قابل رشک تھی“
پر و فیسر صاحب کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اربھا چھاؤنی سے 711ء میں محمد بن قاسم کے ساتھ سندھ میں داخل ہوئے اور مستقل طور پر جنوبی سندھ میں قیام پذیر ہو گئے۔
اس خاندان کے لوگوں نے محمد غوری ، پٹھانوں ، مغل بادشاہوں باہر ، ہمایوں ، جلال الدین محمد اکبر اور اور نگ زیب کی فوجوں میں شمولیت اختیار کر کے اہم کارنامے سر انجام دیئے جن کے عوض انہیں جاگیریں عطا ہوئیں۔ پھر آہستہ آہستہ یہ پانچوں دریاؤں پر پھیل گئے اور انہوں نے زراعت کا پیشہ اختیار کر کے زراعت کو بہت فروغ دیا ۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد ارائیں خاندان نے پانی پت سے پاکستان کے مختلف شہروں بالخصوص چنیوٹ کا رخ کیا۔ چنیوٹ میں پانی پتی ارائیں برادری نے زراعت کو صنعت کا درجہ دیا اور قائدانہ کردار ادا کر کے حکومتی سطح پر اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور جفاکشی کا لوہا منوا لیا ۔ ایوب خان کے دور حکومت میں اس برادری کے ایک خاندان کو زرعی شعبہ میں بے مثال کا رہائے نمایاں سرانجام دینے کے اعتراف کے طور پر تمغہ امتیاز شعبہ زراعت اور نقد انعام سے نوازا گیا۔ آج چنیوٹ میں پانی پتی آرائیں جدید زراعت کے بانی سمجھے جاتے ہیں-
الپے :
یہ بھٹی راجپوت قوم کی ذیلی شاخ ہے۔ ان کے جد کا نام راجہ امیال تھا اور یہ اپنے جد کے نام سے ہی مشہور ہوئے ۔ بعد میں لفظ الپیال بگڑ کا مقامی زبان میں, والیے، مشہور ہو گیا۔ یہ لوگ چودھویں صدی عیسوی میں پنڈی گھیب کے علاقہ میں داخل ہوئے اور خانہ بدوش ہو کر خوشاب اور تلہ گنگ کے علاقہ میں پھرنے لگے۔ انہوں نے جرائم پیشہ اختیار کر لیا۔ یہ لوگ بہت بہادر اور جفاکش تھے اور اب ماہر کا شکار ہیں۔ اس خاندان کے کچھ لوگ چنیوٹ کے موضع چک بندی میں آباد ہیں۔
اعوان :
ہرات چونکہ سلطان محمود غزنوی کے قلمرو میں شامل تھا اس لئے اس نے ہرات کا گورنر یعلی بن عوض کو مقرر کیا۔ یعلی بن عوض اور اس کے بیٹے ابو القاسم علی نے سلطان محمود غزنوی کا حملہ ہندوستان میں بھر پور ساتھ دیا۔ تو اس نے اس خاندان کو اعوان“ کا خطاب دیا۔ اعوان فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب مددگار ہے۔ اس کے بعد ابو القاسم علی کا پوتا عون عرف قطب شاہ جو شیخ عبدالقادر جیلانی کا خلیفہ تھا۔ حضرت جیلائی کے حکم پر تبلیغ اسلام کی خاطر ہندوستان میں داخل ہوا۔ مختلف خاندانوں کو مسلمان کر کے انہی خاندانوں میں چار شادیاں کیں۔ اعوان خاندان اس عون عرف قطب شاہ کی اولاد ہیں۔ چنیوٹ میں اس خاندان کے کافی لوگ آباد ہیں۔
بار :
راجہ سالبا ھن کی اولاد میں جیسلمیر کے بھٹی راجپوتوں کی نسل میں سے ایک بڑا نامی شخص پیدا ہوا۔ اس بڑا کے ایک بیٹے کا نام ، بارڈ، تھا جو اس قوم کا جد امجد تھا۔ یہ قوم اپنے جد کے نام سے مشہور ہوئی۔ بعد میں لفظ، ہارڈ ، بگڑ کر مقامی زبان میں بار، مشہور ہو گیا۔ ہندوستان میں پھلکیاں، پٹیالہ، نابھہ ، جنڈ اور فرید کوٹ کے علاقہ جات میں اس قوم کے خاندان آباد ہیں۔ چنیوٹ میں چاہ ہیبت والا کوڑالہ، کوٹ محمد یار مسکین پورہ اور برج چانگو میں بھی آباد ہیں اور کا شیکاری کرتے ہیں۔
بخشی :
بیکانیر کے علاقہ بھائنر کے راجپوتوں سے ایک ڈھیر نامی شخص تھا۔ جو کسی وجہ سے بھائن کو چھوڑ کر نورمحل کے جنگلوں میں پناہ گزیں ہوا۔ اس کے دو بیٹے دار اج اور اور تھے۔ اور کے چار بیٹے ، داد، ریکو مال، تاجو اور لکھر اپیدا ہوئے ۔ وہ اپنے بیٹوں کو لیکر گوجرانوالہ کے مضافات میں رہائش پذیر ہو گیا۔ اس نے اپنے بیٹے تاج کی شادی جاگ قوم کی ایک خاتون سے کی ۔ جس کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام جشی رکھا گیا۔ اسی بخشی کی اولاد ” بخشی اپنے جد کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس قوم کے کچھ لوگ چنیوٹ میں بھی آباد ہیں اور کا شکاری کے پیشہ سے وابستہ ہیں۔ ان میں سردار عبدالمعید خان بخشی پاکستان مسلم لیگ (ق) کے مرکزی رہنما ہیں۔
پہلڑ :
بہل جائوں کی اصل اور قدیم قوم ہے ۔ ان کے جد امجد کا نام بہلان تھا اسی بہلان کی اولا ویہلر اور پھر پہلا مشہور ہوئی۔
باجوہ :
راجپوتوں کی سورج بنسی شاخ سے ایک شلیپ نامی شخص ہوا ۔ جس کے دو بیٹے کلاس اور ر یاس تھے۔ ان کو باز کا شکار کھیلنے کا از حد شوق تھا۔ جس وجہ سے لوگ ان کو باز پھر باج کہنے لگے۔ ان کی اولاد باج سے باجو اور بالآخر باجو سے باجوہ مشہور ہوئی۔ ان میں ما نیک اور مانگا نامی شخص پیدا ہوئے ماتک کی اولا د پسرور اور مانگا کی اولاد چونڈہ اور اس کے نواحی گاؤں منیالہ شریف میں آباد ہے۔
بدھڑ :
گجر قوم میں ایک راجہ دھڑ ہوا، جو سندھ کا حکمران رہا۔ اسی راجہ دھڑ کی اولا و بدھڑ مشہور ہوگئی۔
بانٹھ :
ہاتھ، گجر قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ گجر قوم میں ایک راجہ دل ہوا جس کے بیٹے کا نام ہاتھ تھا۔ جس سے یہ قوم ظہور پذیر ہوئی۔ یہ قوم بھی کا شیکاری کرتی ہے۔
بٹ :
رانہ سالباحن کی اولاد میں ایک بڑا نامی شخص ہوا، اس بیٹرا کی اولاد بٹ کہلائی۔
بلوچ :
تاریخ تمدن عرب کا مورخ لکھتا ہے کہ!
اس قوم کا تعلق عراق کے علاقہ طلب میں آباد مشہور بلوس "قبیلہ سے ہے۔ یہ لوگ مسلم عہد میں ہندوستان میں آئے اور یہاں لفظ بلوس مقامی زبان میں بلوچ مشہور ہو گیا کیونکہ عرب "چ” کی جگہ "س” یا "ص” بولتے ہیں جیسا کہ عربی میں چین کو ”حسین“ لکھا اور بولا جاتا ہے۔ عراق کے بلوس قبیلہ کی عادات و خصائل بلوچوں سے ملتی جلتی ہیں
۔ بلوچ قبیلہ کی درج ذیل شاخیں ہیں۔
جتوئی ، ہوت ، لشاری ، مزاری ، لغاری ، زرداری ، لوڑی ، رند ، کھوسہ، جمالی ، بوزدار، ڈومیکی بگسی، عمرانی بحرانی۔ اس قوم کے کچھ خاندان چنیوٹ کے گرد و نواح جھوک کالڑے میں آباد ہیں۔
بھوڑ :
یہ گجر قوم کی ذیلی شاخ ہیں۔ اس قوم کے جد امجد جو گراج نے 806ء تا 842 تک 35 سال گجرات پر حکمرانی کی۔ اس کی وفات کے بعد اس کے بیٹے راجہ بھیم راج نے 842ء تا878 ء تک 36 سال حکمرانی کی۔ اس کی وفات کے بعد اس کا بیٹا راجہ بھوڑ 878ء تا 930 ء تک 52 سال گجرات کا حکمران رہا۔ بھوڑ قوم اسی راجہ بھوڑ کی اولاد ہیں ۔ اور اپنے جد کے نام سے مشہور ہوئے ۔ اس خاندان کے لوگ چنیوٹ میں مسکین پورہ ، چاہ بدھیانہ، چاو کنجری والا اور کوٹ محمد یار میں آباد ہیں اور کاشتکاری کرتے ہیں۔
بھٹی :
راجہ سا لباھن کی اولاد میں سے ایک بلند نامی شخص ہوا ۔ بلند کے بیٹے کا نام بھٹی تھا۔ اس بھٹی کی اولاد اپنے جد کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس قوم کے کچھ خاندان چنیوٹ کے گرد و نواح اور علاقہ بڑا نہ میں آباد ہیں اور بنیادی طور پر کاشتکاری کے پیشہ سے منسلک ہیں۔
بھوچره :
اس قوم کا تعلق سورج بنسی راجپوتوں کی بھٹی شاخ سے ہے۔ ان کے بعد امجد کا نام بھور جہ تھا۔ اس بھورجہ کی اولا دہی بھوچھہ مشہور ہوئی۔
بھٹہ :
راجپوتوں کی ایک شاخ سورج بنسی میں ایک بھٹہ نامی شخص ہوا ، جو اس قوم کا جد امجد تھا۔ اس کے نام سے یہ قوم مشہور ہوئی۔
ترک :
یافث بن حضرت نوح ،، کے بیٹے کا نام, ترک، تھا۔ جس کی اولا د اپنے جد کے نام سے ترک مشہور ہوئی اور ترک کی اولاد نے ہی,, ترکستان، آباد کیا۔
تکلیر :
تکلیر مشہور بادشاہ غیاث الدین تعلق کی اولاد میں سے ہیں ۔ لفظ تعلق کثرت استعمال کی وجہ سے تکلیر مشہور ہو گیا۔ چنیوٹ کا قلعہ ریختی غیاث الدین تغلق نے ہی 1326ء میں تعمیر کروایا تھا۔
تھہیم :
اس خاندان کا تعلق عرب کے مشہور قبیلہ بن تمیم” سے ہے۔ 711ء میں جب محمد من قائم نے سندھ پر حملہ کر کے راجہ داہر کو شکست دی تو یہ قبیلہ اس وقت محمد بن قاسم کے ساتھ ملتان آیا تھا ۔ محمد بن قاسم کے حملہ سندھ سے پہلے اس قبیلہ کا یہاں کوئی وجود نہ تھا۔ پنجاب کے جانوں کی تاریخ کے مصنف غلام اکبر ملک اور ہندی تمدن کے مشہور ماہر کرتل ٹوڈ کے خیالات درست نہیں اور انہیں بحیثیت موئر غ علم ہونا چاہیے کہ الحض خیالات سے بات نہیں بنتی کوئی ٹھوس ثبوت پیش کریں۔
محمد بن قاسم نے سندھ فتح کر کے سندھ تا چنیوٹ تک ریاست کے پانچ صوبے بنائے اور صوبہ جندرور ( چنیوٹ) پر پہلا مسلمان گورنر خریم بن عبد الملک تمیم کو تعینات کیا۔ اس کے بعد جنید بن عبد الرحمن تمیم گورنر چنیوٹ تعینات ہوئے۔ انہیں سے چنیوٹ کے تھہیم خاندان کی نسل چلی اور لفظ ” تمیم ، بگڑ کر مقامی زبان میں تھہیم مشہور ہو گیا۔ جب اس خاندان کا جد اعلیٰ نواب سعد اللہ خان تصمیم ہندوستان کا وز یر اعظم تھاتو شہنشاہ شاہ جہان نے اس خاندان کو چنیوٹ میں جاگیر عطا کی۔ اس خاندان کے لوگ اب بھی چنیوٹ اور اس کے گرد و نواح موضع پترا کی ، موضع عزیز ، چاہ چرا، کوٹ عدنان (چاہ رتھا نوالہ ) چاہ ابو و والہ، اور چاہ جھلانوالہ تھہیماں میں آباد ہیں اور کاشتکاری کرتے ہیں۔
تارڑ :
تارڑ ، جانوں کے سورج جنسی خاندان کی ذیلی شاخ ہیں اور اپنے جد کے نام سے
مشہور ہیں۔
تر گڑ :
ان کا تعلق بھٹی قوم سے ہے۔ بیکانیر میں ان کے گاؤں کا نام تر گڑ تھا۔ جب یہ پنجاب میں آئے تو اسی اپنے گاؤں کے نام سے مشہور ہو گئے۔ چنیوٹ میں اس قوم کے کچھ خاندان پھر والا ، بہادری والا ، چک نمبر 135 ج۔ب کھچیاں ، رجوعہ ، پٹھان کوٹ ، اور موضع برخوردار میں آباد ہیں اور کاشتکاری کرتے ہیں۔
ٹوانے :
رائے شکر کے ایک بیٹے کا نام ٹیو تھا، جو کہ رائے سیال اور گیسٹو کا حقیقی بھائی تھا ۔ اس ٹیو کی اولا دٹو ا نے مشہور ہوئی۔
جوتے :
جو تے راجپوتوں کی منہاس قوم سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا مسکن کشمیر تھا۔ جہاں سے ان کو نواب ولی داد خان سیال نے لا کر جھنگ میں آباد کیا۔
جوئیہ :
بھٹی خاندان میں راجہ سالبا ھن کی اولاد سے ایک جو دھار نامی شخص پیدا ہوا ، جس کی اولاد جوئیہ کہلائی ۔ جو دھار سے جودھ اور جودھ سے جودھیہ اور پھر جو دھیہ سے جوئیہ مشہور ہوئے۔
جپے:
اصل میں راجپوت قوم کی ذیلی شاخ ہیں اور چدھڑ کے بھائی بند ہیں۔ یہ قوم اپنے جد کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ بہت بہادر قوم مانی جاتی ہے۔ اس قوم کے کافی خاندان بھوآنہ عدلا نہ اور گھوڑیانوالہ میں آباد ہیں۔ اور کاشتکاری کرتے ہیں۔
جھکڑ :
جھکڑ اصلی میں بھٹی ہیں۔ کلیار ، اتھرا اور کانوں کے بھائی بند ہیں۔ یہ اپنے جد کے نام سے مشہور ہیں۔
جھینڈر :
جھینڈ پر گجر قوم سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کے جد امجد کا نام چھینڈ رتھا۔ جس کی اولا د چھینڈر سے چھینڈ پر مشہور ہوئی۔
چیمه :
چیمہ، جانوں کی سب سے بڑی شاخ راجہ پرتھوی کی اولاد میں سے ایک شخص چیمہ ہوا ۔ چیمہ، دھول اور کنگ قوم کا بھی جد شمار ہوتا ہے۔ چیمہ قوم اپنے جد کے نام سے مشہور ہے
چٹھہ :
چٹھہ بھی جاٹوں کی ذیلی شاخ ہے۔ اس قوم کے جد امجد کا نام گوگا تھا۔ جس نے سولہویں صدی عیسوی میں اسلام قبول کیا۔ یہ بہت جفاکش و بہادر قوم ہے۔
چدھڑ :
تنوار راجپوتوں میں راجہ طور کی اولاد میں سے ایک چدھڑ نامی شخص ہوا ۔ جس کی اولاد اپنے جد کے نام سے چدھڑ مشہور ہوگئی۔ اس قوم کے لوگ سب سے پہلے محمد غوری کے دور میں راجپوتانہ سے بہاولپور آئے اور پھر وہاں سے شیر شاہ آف اُچ نے انہیں لا کر جھنگ میں آباد کیا ۔ یہ بہت دلیر اور بہادر قوم ہے۔ اس قوم کے کچھ خاندان چنیوٹ کے نزدیک علاقہ موضع مسکینی ٹھٹھہ جھانب اور موضع سانگرے میں آباد ہیں اور کاشتکاری کرتے ہیں۔
چدھڑ قوم کی ذیلی شاخیں :
چدھڑ قوم کی دیگر ذیلی شاخیں یہ ہیں۔ سجن کے ، کنگر، کلو کے، کھلے پٹھر کے، کوڑے ہونے، دھمرائے ، یہ علیحدہ علیحدہ اپنے جد کے نام سے مشہور ہیں۔
چغتائی :
چغتائی خان، چنگیز خان کا بیٹا اور ہلاکو خان کا بچا تھا۔ اس چغتائی خان کی اولاد چغتائی کہلائی ۔ چغتائی خان کے دو بیٹے میسو منکو خان اور مورتو خان تھے ۔ غیاث الدین براق خان اسی مور تو خان کا پوتا تھا۔ اس خاندان کے کافی لوگ چنیوٹ میں آباد ہیں۔
چوہان :
ویلی کے مشہور راجہ پرتھوی راج کی اولاد میں سے ہیں۔
خوجے:
جونا گڑھ اور اجمیر کی تجارت پر خوجوں کا قبضہ تھا۔محمود غزنوی کے زمانہ حکمرانی میں یہ لوگ مسلمان ہوئے تھے تو ان نئے مسلم تاجروں کو اسماعیلی مسلک کے سردار نے خوجہ” کا نام دیا جو اس خاندان کی پہچان بن گیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ہندو تاجران سے کنارہ کش ہو گئے تو یہ لوگ بمبئی ، کلکتہ، مدراس، آسام، برما، دہلی اور پنجاب کے علاقوں میں پھیل گئے ۔ واڑہ سلیمان ان کا پہلا مسکن تھا ۔ وہاں سے چنیوٹ میں داخل ہوئے اور ہندوؤں سے تجارت آہستہ آہستہ اپنے قبضہ میں کرتے ہوئے بالآخر 1820 تک چنیوٹ کی تجارت پر مکمل طور پر خوبے قابض ہو گئے۔ ان کی درج ذیل شاخیں ہیں۔ پوری ، مگوں، ودھاون، سہگل، سکے، بھر اڑے، کھیتے، باہل، اور دہرے، ان شاخوں کی الگ الگ خصوصیات ہیں اس قوم کی قدر مشترک دولت اور سرمایہ ہے۔
درانی :
درانی اصل میں سروز کی پٹھان ہیں ۔ اس خاندان کا جد امجد مقصود خان درانی 1764ء میں احمد شاہ ابدالی کے ساتھ ہندوستان میں داخل ہوا ۔ جسے احمد شاہ ابدالی نے چنیوٹ کی حکومت کی نگرانی پر مامور کیا۔ جس نے پہاڑی کے دامن میں مقصود آباد نامی قصبہ آباد کر کے رہائش اختیار کی۔ مقصود خان کے ہاں عنایت اللہ خان درانی اور جمشیر خان دورانی دو بیٹے پیدا ہوئے۔ جن کی اولا داب بھی چنیوٹ میں وزانی خاندان سے مشہور ہے اور اپنے جدا مجد کی طرف سے ملی ہوئی جاگیر میں آباد ہیں۔
دیو کے :
یہ راجپوتوں کی ایک قوم چدھڑ کی ذیلی شاخ ہے اور اپنے جد کے نام سے مشہور
ہیں۔ اس قوم کے افراد بنیادی طور پر کاشتکاری کے پیشہ سے وابستہ ہیں اور سیاست میں بھی د لچسپی رکھتے ہیں۔
دھول :
یہ جانوں کی چیمہ قوم کی ذیلی شاخ ہیں۔ اور کنگ کے بھائی بند ہیں۔ؔ
دھپ :
ڈھڈی قوم کی ذیلی شاخ ہے اور یہ اپنے جد کے نام سے مشہور ہے۔ اس قوم کے کچھ خاندان چنیوٹ میں رجوعہ سادات کے گرد و نواح میں آباد ہیں ۔ یہ بڑے بہادر اور جفاکش ہیں اور کاشتکاری کے پیشہ سے وابستہ ہیں۔
ڈانگرے :
ڈانگرے جاٹ قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا قدیم مسکن ڈنگر تپہ بالا تھا جہاں سے نقل مکانی کر کے پنجاب میں داخل ہوئے۔ اسی مسکن ڈانگر کے نام سے ڈانگرے مشہور ہوئے ۔ اس خاندان کے کچھ لوگ چک نمبر 468 ج۔ب میں آباد ہیں اور کاشتکاری
کرتے ہیں۔
ڈھلوں :
ڈھلوں سوم بنسی راجپوتوں کی شاخ ہیں۔ ان کے جد امجد کا نام ڈھلو تھا۔ اور ڈھلو
ڈھلوں کے نام سے مشہور ہوئے۔
ڈھینڈہ :
ڈھینڈ وراجپوتوں کی منہاس قوم کی ذیلی شاخ ہیں اور اپنے جد کے نام سے مشہور
ہیں۔
ڈھڑی :
ڈھڈی راجپوت قوم کی ذیلی شاخ ہے اور اپنے جد کے نام سے مشہور ہے۔
راؤ کے :
اصل میں یہ قوم سیتھین جانوں کی شاخ ہے۔ اور یہ بدھ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس قوم کے لوگ 98 قبل مسیح میں درہ ٹوچی ، درہ گول اور بلوچستان کے راستوں سے ہندوستان پر حملہ آور ہو گئے اور اپنے بھائی بند پورو جائوں کو شکست دے کر ہندوستان کے بعض علاقوں پر قابض ہو گئے۔
راجپوت :
راجپوت قوم کی دوشاخیں ہیں جن میں سے ایک شاخ کا تعلق کھشتریوں سے ہے اور دوسرے راجھستان سے اُٹھ کر آنے والے راجپوت کہلاتے ہیں۔
ریحان :
ریحان مغل قوم کی ذیلی شاخ ہیں۔ جو چنگیز خان کی پندرہویں پشت میں سے تھا ای ریحان کی اولاد اپنے جد امجد کے نام پر مشہور ہوئی ۔ اس خاندان کے لوگ چنیوٹ میں کا لوال، چنگڑانوالہ اور گردو نواح میں آباد ہیں۔ اور بنیادی طور پر کاشتکاری کے پیشہ سے منسلک ہیں۔
رندھاوا :
بھٹی خاندان کی یا دو قوم سے ایک رندھاوا نامی شخص پیدا ہوا جو اس قوم کا جدا مجد بھہرا۔ اس کی اولا داپنے جد کے نام سے رندھاوا مشہور ہوگئی۔
سندھو :
یہ جاٹ قوم سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے جد کے نام سے مشہور ہیں۔ راجہ جگد یو کی نسل میں سے ایک شخص رائے ڈاکر پیدا ہوا جس کے چار بیٹے تھے، سندھو، نارو، ڈھلوں اور تکوجر ۔ اس قوم کے جد امجد کو سلطان محمود غزنوی نے غزنی سے لا کر ہندوستان میں آباد کیا تھا ۔ اس قوم کے کچھ خاندان ، شاہ پور ، سرگود با ، ملتان ، گجرات ، ساہیوال ، مظفر گڑھ، بہاولپور، ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں میں بھی آباد ہیں۔ اس قوم کے جو خاندان 1947ء سے قبل ہندوستان کے غربی علاقوں میں آباد تھے وہ سدھو کہلاتے ہیں ۔ جو خاندان 1947ء کے بعد پاکستان میں داخل ہوئے وہ سندھو کہلاتے ہیں ۔ جبکہ سدھو اور سندھو ایک ہی ہیں ۔ اس قوم کے کچھ خاندان چنیوٹ اور چنیوٹ کے گردونواح چک نمبر 11 ج۔ب سندھواں والا اور چک نمبر 127 ج۔ب بھٹی والا میں آباد ہیں اور کاشتکاری کرتے ہیں۔
سپراء :
سپر او راجپوت قوم کی ایک شاخ ہے، اور اپنے جد کے نام سے مشہور ہے۔ جبکہ پنجاب کی ذاتوں کا مصنف سر ڈینزل ایبٹسن انہیں جائوں کی ایک شاخ , گل کی گوت. لکھتا ہے۔ چنیوٹ میں اس قوم کے لوگ گاؤں سپراواں ہل سپرا اور جانگلو سپرا میں آباد ہیں اور کاشتکاری کرتے ہیں۔
سنگرانہ :
سنگرانہ تنوار راجپوتوں کی شاخ ہے اور یہ قوم اپنے جد کے نام سے مشہور ہے۔
سانگرے :
سانگرے بھی گجر قوم کی ذیلی شاخ ہیں۔ راجہ سانگا ان کا جد امجد تھا۔ اسی راجہ سانگا کی اولاد بعد میں سانگا سے سانگرہ یا سانگرے مشہور ہوئی۔
سودهن :
اس خاندان کا تعلق بھٹی راجپوت قوم سے ہے۔سالباھن کی اولاد سے پانچویں پشت میں ایک سودھار نامی شخص پیدا ہوا۔ سودھن اسی سودھار کی اولاد ہیں اور اپنے جد کے نام سے مشہور ہوئے۔ لفظ سودھار کثرت استعمال سے شکل تبدیل کر کے سودھن کہلایا۔ چنیوٹ میں اس خاندان کے لوگ کوڑالہ کوٹلی والا اور رائے چند میں آباد ہیں اور کا شکاری کرتے ہیں۔
سنگرا :
سنگر ابھی اصل میں بھٹی راجپوت ہیں۔ ان کے جد امجد کا نام سنگر ا تھا جو بھٹہ کا بیٹا تھا۔ اس نگرا کی اولاد اپنے جد کے نام سے مشہور ہوئی ۔ سنگر ا کے ایک بیٹے کا نام اور تھا جس سے لدور قوم ظہور پذیر ہوئی۔ اس خاندان کے کچھ لوگ موضع حویلی سنگر میں آباد ہیں اور زمیندارہ کرتے ہیں۔
سیال :
سیال راجپوت قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ رائے شنکر کے ایک بیٹے کا نام رائے سیال تھا۔ جس کی اولا د اپنے جد کے نام سے مشہور ہوئی رائے سیال کے تین بیٹے اور تیرہ پوتے تھے۔ تیرہ پوتوں میں سے پانچ لاولد اور آٹھ صاحب اولاد تھے۔ جن سے علیحدہ علیحدہ خاندان چلے ۔ جھنگ اور شور وکوٹ کے علاوہ اس خاندان کے کچھ لوگ چنیوٹ میں بھی آباد ہیں۔
ساہمل :
ساہمل رندھاوا راجپوتوں کی ذیلی شاخ ہیں ۔ ان کے جد امجد کا نام ساہول تھا۔ اس ساہول کی اولا د ا جمل مشہور ہوئی۔ اس قوم کے کچھ خاندان موضع طاہر و اور موضع
ساہمل میں آباد ہیں اور زمیندارہ کرتے ہیں۔
شیخ سلمانے سید :
حضرت شیخ اسماعیل بخاری کی اولا د شیخ سلمانے سید کہلاتی ہے۔ یہ دھیمے مزاج کے مالک ہیں مگر سیاست میں بھی ان کا حصہ رہا ہے۔ اس خاندان کے افراد محلہ مضمٹی شرقی ، موضع کوڑالہ، اور ہست کھیوہ میں آباد ہیں اور کاشتکاری کرتے ہیں۔
شاہ دولتا نے سید :
حضرت شاہ دولت بخاری کی اولا دشاہ دولتا نے سید کہلاتی ہے۔ رجوعہ سادات
ان کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ 1880ء میں اس خاندان سے حیدرشاہ اور بہادر شاہ بڑے با اثر افراد ہوئے۔ سید شہابل شاہ بڑے بہادر انسان و عالی ہمت بزرگ تھے۔
عاصی :
عاصی بھی راجپوت چدھڑ قوم سے تعلق رکھتے ہیں اور چدھڑ قوم کی ذیلی شاخ ہیں ۔ یہ قوم اپنے جد کے نام سے مشہور ہے۔ اس قوم کے کچھ خاندان قلعہ عاصیاں میں آباد ہیں اور کاشتکاری کے پیشہ سے وابستہ ہیں۔
قاضی :
اصل میں قریشی النسل ہیں اور عرب کے مشہور قبیلہ بنوقریش سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس خاندان کا شجرہ نسب حضرت ایوب انصاری سے ملتا ہے۔ اس خاندان کے لوگ مسلم عہد میں ہندوستان میں داخل ہوئے ۔ قاضی خاندان کے جد امجد نواب وزیر خان شاہ جہاں کے عہد حکومت میں گورنر لاہور کے عہدہ پر فائز ہوئے اور اس خاندان کے قاضی محمد یوسف,, قاضی القضاۃ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ جو بڑے عادل ترین قاضی تھے۔ ۔ مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے انہیں چنیوٹ میں جاگیر عطا کی ۔ یہ خاندان بنیادی طور پر کاشتکاری کے پیشہ سے وابستہ ہے۔
کولی :
راجہ بکرماجیت کی اولاد میں سے ایک راجہ کو ٹل نامی شخص ہوا۔ جو اس قوم کا مورث اعلیٰ تھا۔ اس راجہ کوبل کی اولاد بعد میں کوئل سے کو بلی اور پھر کوہلی سے کوئی مشہور ہو گئے۔ اس قوم کے لوگ چنیوٹ کے قصبہ ٹھٹھہ کولیاں میں آباد ہیں اور کاشتکاری کرتے ہیں۔
کلس :
اس قوم کے لوگ اپنے آپ کو گجر کہلاتے ہیں۔ جبکہ یہ قوم اصل میں راجپوتوں کی ذیلی شاخ ہے۔ سلطان مسعود غزنوی نے ان کے جد امجد راجہ ہم کو دکن سے اپنے ساتھ لا کر مسلمان کیا۔ اس راجہ ہدم کی اولاد میں سے ایک کلسان نامی شخص ہوا جس سے یہ قوم پہلے کالس اور پھر کالس سے کس مشہور ہو گئی۔
کانجو :
کا نجو بھٹی قوم کی شاخ ہیں۔ بھٹی قوم میں ایک جائس نامی شخص ہوا جس کے چار بیٹے کانجوں، کلیار، اتھرا اور جھکڑ تھے ۔ جائس کے بیٹے کانجوں سے ” کا نجو قوم ظہور پذیر ہوئی ۔ اس قوم کے کچھ لوگ چنیوٹ کے نزدیک ٹھٹھہ کا نجواں میں آباد ہیں اور کاشتکاری کے پیشہ سے وابستہ ہیں۔
کلیار :
اصل میں یہ بھٹی قوم ہے اور اپنے جد کے نام سے مشہور ہیں
کنگ :
کنگ جانوں کی چیمہ قوم کی ذیلی شاخ ہے۔ دہلی کا مشہور راجہ پرتھوی اس قوم کاجد امجد ہے ۔ جسے شہاب الدین غوری نے شکست دے کر نکال دیا ۔ راجہ پرتھوی نے دریائے بیاس کے کنارے رہائش التیار کر لی۔ چیمہ (جو راجہ پرتھوی کی اولاد میں سے تھا) کے دو پوتے تھے دھول اور کنگ۔ یہ قوم اپنے جد کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس قوم کے کچھ لوگ چنیوٹ کے مضافات میں چک نمبر 468 ج۔ب کے لیے اور کن گا نوالہ میں آباد ہیں اور بنیادی طور پر کاشتکاری کے پیشہ سے منسلک ہیں۔
کوروٹانہ :
کو روٹا نہ بھٹی راجپوتوں کی شاخ ہے اور اپنے جد کے نام سے مشہور ہے۔
کاٹھیہ :
کا ٹھیہ قوم کا تعلق راجپوتوں کی سورج بنسی شاخ سے ہے۔ ان کے جد امجد کا نام راجہ کرنا تھا جو بریکا نیر کا رہنے والا تھا۔ اور بریکا نیر سے یہ لوگ نقل مکانی کر کے کاٹھیا وار پہنچے جو ان کا دارالخلافہ تھا۔ پہلے انہیں کھوئی کہا جاتا تھا، جو بعد میں کٹھوئی سے کا ٹھیہ مشہور ہوئے۔ کاٹھیہ وار سے یہ بہاولپور پہنچے اور پھر ڈیرہ دین پناہ میں رہائش اختیار کر لی۔ یہ بہت بہادر اور دلیر قوم ہے اور بنیادی طور پر کاشتکاری کرتے ہیں۔
کھرل:
کھرل، جانوں کی ایک مشہور معروف شاخ ہے۔ یہ راجہ کرن کی اولاد میں ان کی پانچ شاخیں ہیں ۔ لکھیرے کھرل ، رو پیرے کھرل، را بیرے کھرل ، گوگیرے کھرل ، راؤ سٹھ کھرل اور ساہی کھرل۔ اس قوم کے لوگ بہت دلیر ہیں اور بنیادی طور پر کاشتکاری کے
پیشہ سے منسلک ہیں ۔
کیمو کے :
اس قوم کا تعلق بھی راجپوتوں سے ہے۔ اور چدھڑ قوم کے بھائی بند ہیں۔ یہا اپنے جد کے نام سے مشہور ہیں ۔ اس قوم کے کچھ لوگ ٹھٹھہ کیمبو کا میں آباد ہیں اور کا شیکاری کرتے ہیں۔
کمانگر :
اصل میں یہ چوہان راجپوت ہیں ۔ یہ راجہ پرتھوی راج کی اولاد میں سے ہیں۔ یہ قبیلہ تقریبا پانچ صد سال قبل سے یہاں آباد ہے۔ اس خاندان کے کچھ لوگ کو چہ کمانگراں لاہور اور حرم گیٹ ملتان میں آباد ہوئے۔ مگر اکثریت چنیوٹ میں ہے۔ یہ نقاشی تیر و کمان کی جڑائی کے ماہر تھے جس وجہ سے کمانگر مشہور ہو گئے ۔ حالانکہ بنیادی طور پر یہ کاشتکاری سے وابستہ ہیں ۔ قلعہ آگرہ ، امرتسر گوردوارہ ، شاہی قلعہ لاہور ، مسجد وزیر خان اور شاہی مسجد چنیوٹ میں نقاشی کا کام اس خاندان کے ماہر نقاش عبدالوحدت کمانگر نے کیا اور گلزار منزل کی نقاشی کا کام ماہر نقاش غلام محی الدین کمانگر نے کیا۔
کھوکھر :
کھو کھر راجپوت قوم کی ذیلی شاخ ہیں۔ ان کے جد امجد کا نام راجہ کھکھ تھا۔ جس راجہ کے دو بیٹے راجہ نگی اور راجہ منگی تھے۔ راجہ منگی کی اولاد پنجاب میں آباد ہوئی اور اپنے جد کے نام سے کھکھ سے کھو کھر مشہور ہوئے ۔ چنیوٹ میں اس خاندان کے کچھ افراد کرک محمدی روڈہ ، موضع طالب، جسرت، رشیدہ ، موضع جھانب شریف اور کل سنا نوالہ میں آباد ہیں اور بنیادی طور پر کاشتکاری کے پیشہ سے وابستہ ہیں۔
کھچی :
کچھی چوہان راجپوتوں کی ذیلی شاخ ہیں اور اپنے جد کے نام سے مشہور ہیں۔
گورایہ :
چندر بنسی راجپوتوں کی ایک شاخ سرو ہا سے ایک شخص گورایہ ہوا۔ جو اس قوم کا جد امجد تھا ۔ اس کے نام سے یہ قوم مشہور ہوئی ۔ اس قوم کے لوگ کاشتکاری کے پیشہ سے منسلک ہیں
گھمن :
گھمن راجپوتوں کی ایک شاخ ہے ۔ چندر بنسی راجپوتوں کے راجہ دلیپ کے ہوتے راجہ ملکیر کی اولاد میں سے ایک سنیال نامی شخص ہوا۔ جس کی اولاد میں سے گھمن نامی راجہ پیدا ہوا۔ اس گھمن کی اولا داپنے جد کے نام سے گھمن مشہور ہوگئی ۔
گھلو :
یہ بھٹی راجپوتوں کی ذیلی شاخ ہے اور اپنے جد کے نام سے مشہور ہیں۔
گجر :
گجر، ان کشانوں کی اولاد ہیں جنہوں نے پہلی صدی قبل از مسیح میں ہندوستان پر حملہ کیا۔ گندھارا ان کی راجدھانی تھا۔ ان کے جد امجد کا نام گرج تھا۔ اس گرج کی اولاد گر جو مشہور ہوئی اور پھر گرجر سے گوجر اور گوجر سے گجر مشہور ہو گئے۔ اس قوم کے کچھ خاندان چنیوٹ میں چک نمبر 10 ج۔ب راؤ باغ مل، غفور آباد اور موضع طالب میں آباد ہیں۔ اور بنیادی طور پر کاشتکاری کے پیشہ سے وابستہ ہیں۔
یہ مضمون ڈاکٹر ارشاداحمد تھیم کی کتاب ” تاریخ چینیوٹ "سے لیا گیا ہے