عمر حیات محل: چنیوٹ کا ’مقامی عجوبہ‘
دریائے چناب کے کنارے واقع پنجاب کا شہر چنیوٹ لکڑی کے پیچیدہ فرنیچر، فن تعمیرات اور مساجد کے لیے مشہور ہے اور عمر حیات محل اس شہر کا خاصا سمجھا جاتا ہے۔ چنیوٹ فیصل آباد-سرگودھا اور لاہور-جھنگ سڑکوں کے چوراہے پر ہے۔ یہ لاہور سے شمال مغرب میں 158 کلومیٹر اور فیصل آباد سے 38 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔
عمر حیات محل، جسے گلزار منزل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، 20 ویں صدی کے اوائل میں لکڑی کے خوبصورت کام سے مزین حویلی ہے جو چنیوٹ کے رختی محلہ میں واقع ہے۔
اس حویلی کی تعمیر 1923 میں شروع کی گئی تھی اور 1935 تک اسے مکمل کر لیا گیا۔ حویلی کی اصل عمارت پانچ منزلہ تھی، جسے شیخ عمر حیات نے تعمیر کروایا تھا۔ وہ ایک چنیوٹی تاجر تھے۔ اس عمارت میں چنیوٹ کے مقامی لکڑی کے کام کی نمایاں مثال ہے، اور اس کے اندرونی حصے میں خوبصورت لکڑی کا کام اس عمارت کو اس عہد کی دیگر تعمیرات سے نمایاں بناتا ہے۔
تاریخ
شیخ عمر 19 ویں صدی کے آخر میں چنیوٹ سے کلکتہ ہجرت کر کے اپنے خاندان کی مرضی کے خلاف شادی کرنے پر بے دخل ہوئے تھے۔ شیخ عمر کے بیٹے گلزار کی پیدائش 1920 میں ہوئی تھی، جب شیخ عمر نے اپنے آبائی شہر واپس جانے کا فیصلہ کیا اور جہاں انہوں نے ایک ایسا شاندار محل تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا جس میں چنیوٹ کی بہترین کاریگری نظرآئی۔
سید حسن شاہ کو محل کی تعمیر کا کام سونپا گیا تھا۔ انہوں نے مختلف مقامات سے چنیوٹ کے بہترین کاریگر اکٹھے کیے جو دس سال تک دن رات کام کرتے رہے۔ رحیم بخش پیرجھا اور الٰہی بخش پیرجھا لکڑی کی نقش نگاری کی منابت کاری انداز کے ماہر تھے، انہوں نے حویلی کی لکڑی کا بہت کام انجام دیا۔ احمد دین نے اینٹ کا کام مکمل کیا، جبکہ مشہور فنکار نیاز احمد جالندھری نے بھی کام کیا۔ ایک اور مشہور فنکار جان محمد نے نقش ونگار سے سجا دیا۔
یہ حویلی 1930 تک رہائش گاہ تھی، اور اسے جھنگ کے ضلع گزٹیئر کے برطانوی مصنفین نے ’لوکل ونڈر‘ (مقامی عجوبہ) کے طور پر بیان کیا تھا۔ یہ محل 1935 میں دو لاکھ روپے کی لاگت سے مکمل ہوا۔ شیخ عمر کا انتقال 1935 میں ہوا۔
شیخ عمر حیات کے اکلوتے بیٹے گلزار کی شادی 1937 میں ایک غیر معمولی تقریب میں حویلی میں ہوئی تھی۔ شیخ گلزار اس کی شادی کے بعد اگلی صبح پراسرار طور پر انتقال کر گئے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ انہیں زہر دیا گیا تھا جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ باتھ روم میں کوئلے کی آگ سے دھواں آنے کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوئی۔ انہیں محل کے زیریں منزل کے صحن میں دفن کیا گیا، جہاں ان کی والدہ بھی مدفون ہیں جو بعد میں گزر گئیں۔
عمر حیات کے رشتہ داروں نے بری روایات حویلی کے ساتھ منسلک کرکے حویلی چھوڑ دی۔ ملازم کچھ سال تک حویلی میں رہے، اگرچہ خاندان کے کسی فرد نے اس عمارت کا دعویٰ نہیں کیا۔ 1940 میں انجمن اسلامیہ تنظیم نے عمارت میں ایک سکول کھولا۔ ایک یتیم خانہ 1948 میں میں قائم کیا گیا تھا، حالانکہ اسے 1950 میں منتقل کردیا گیا اور عمارت کو ایک بار پھر خالی چھوڑ دیا گیا۔ مقامی لوگوں نے حویلی کے کچھ آرائشی سامان کو حویلی سے چُرا کر دوسرے شہروں میں فروخت کردیا۔
فن تعمیر
غالباً اس محل کی تعمیر کو مغلیہ طرز کی آخری تعمیرات میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ دروازوں، کھڑکیوں پر نقش و نگار کی انوکھی کٹائیوں اور ان کے اپنے رنگ کی عکاسی کرتی ہے۔ چھتیں، بالکونیاں، زینے، چھت اور سٹکو (خاص طرز کا کام) ڈیزائن محل کے اندرونی حصے پر نمایاں ہیں۔ عمارت کا سامنے کا حصہ اینٹوں کے عمدہ جڑ سے سجا ہوا ہے، سنگ مرمر اور دلکش رنگوں کی چمک اس کو مغل عہد کے عظیم محلات میں شامل کرتی ہے۔
سنہ 1990 میں ڈسٹرکٹ مینجمنٹ بورڈ نے اس محل کی بحالی اور اسے عوامی لائبریری میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا، جسے عمر حیات لائبریری کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔ اس خوبصورت عمارت کو فروغ دینے کے لیے ڈائریکٹوریٹ جنرل آثار قدیمہ توجہ مرکوز کررہا ہے۔