چینیوٹ

تاریخ چنیوٹ

چنیوٹ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک شہر ہے، یہ ضلع چنیوٹ کا مرکزی شہر بھی ہے، یہ دریائے چناب کے کنارے واقع ہے، یہ اپنے اعلیٰ پائے کے فرنیچر کی وجہ سے پورے ملک میں مشہور ہے…..

وسطی پنجاب میں واقع شہر چنیوٹ اپنے چوبی فرنیچر(لکڑی سے بنا فرنیچر)، حویلیوں اور مساجد کی وجہ سے مشہور ہے۔ تاریخ سے وابستہ کچھ لوگوںکا ماننا ہے کہ لفظ چنیوٹ دو الفاظ”چن” یعنی چاند اور “اوٹ” یعنی “کسی چیز کے پیچھے ” کا مجموعہ ہے۔ دریائے چناب اور پہاڑوں کے سنگم میں جب چاند پہاڑوںکی اوٹ سے نکل کر سامنے آتا ہے تو دریا میں چاند کی پرچھائی دلکش منظر پیش کرتی ہے۔ اسی نسبت سے شہر کا نام چنیوٹ رکھا گیا۔ تا ہم چند سال پہلے چنیوٹ میں ایک قلعہ نما سرائے کی دریافت سے شہر کا تاریخی منظر نامہ یکسر تبدیل ہوتا دیکھائی دیتا ہے۔ اس سرائے کے بارے میں خیال ہےکہ یہ 326قبل مسیح میں راجا چند رگپت موریا کی رانی نے ہندو شاہی دور میں تعمیر کروائی تھی۔ کتاب “چنیوٹ کی تاریخ” میں مورخ لکشمی نارائن لکھتے ہیں کہ رانی چندن شکار کی غرض سے مردوں کے بھیس میں چنیوٹ آیا کرتی تھیں۔ شکار کے لیے پہاڑوں اور دریائے چناب کا سنگم اس کی پسندیدہ جگہیں تھیں مگر یہاں رہائش کے لیے کوئی مقام نہ ہونے کے باعث اُسے مشکلات در پیش آتی تھیں۔ تبھی اُس نے دریائے چناب کے بائیںکنارے پر پہاڑوں کے دامن میں ایک سرائے تعمیر کروائی جس کا نام چندن یوٹ رکھا گیا جس کا مطلب “چندن کے جائے پناہ” ہے۔

اس سرائے کی دیواروں کی تعمیر میں مقامی پہاڑوں کا پتھر استعمال کیا گیا۔ دیواروں کی چوڑائی تین فٹ تھی۔ یہ شاید چنیوٹ کی زمین پر رکھی جانے والی پہلی بنیاد تھی۔ بعد ازاں اس سرائے کے گرد شہر آباد ہوتا گیا جسے چندیوٹ کہا جانے لگا جو آج کل چنیوٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں یہ بھی لکھا ملتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سرائے کو یونیورسٹی کی شکل دے دی گئی جہاں بدھ مت کے اعلیٰ علوم سکھائے جاتے تھے۔ اس یونیورسٹی کا ذکر کئی پُرانی مذہبی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ پاکستان نے سات سال قبل اس سرائے کی دریافت کے دوران پہاڑوں کے دامن میں مٹی کے بڑے بڑے ٹیلوں کی تین مختلف مقامات سے کھدائی کرتے ہوئے اس کا 10فیصد سے زائد حصہ دریافت بھی کر لیاتھا مگر باقی تمام حصہ تاحال مٹی کے ٹیلوں تلے دبا ہوا ہے۔ محکمہ کی طرف سے کام روک دیا گیا ہے۔ مذکورہ جگہ پر کھدائی کے بعد نمودار ہونے والی تقریباً تین فٹ چوڑی دیواریں اب واضح دکھائی دیتی ہیں۔

سرگودھا میں تعینات محکمہ آثارقدیمہ کے ایک اعلیٰ عہد دار محمد ایوب کا کہنا ہے ، کھدائی کے دوران پہاڑ کے دامن میں شمشان گھاٹ (ہندوئوں کی مردہ جلانے کی جگہ) کے آثار بھی ملے ہیں جس سے یہ با ت واضح ہوتی ہےکہ یہاں ایک بڑا شہر آباد رہا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس یونیورسٹی کی دریافت کے دوران دیواروں میں دبائے گئے مٹکے بھی ملے جن میں زمانہ قدیم کے لوگ اپنی قیمتی اشیا محفوظ کر کے دیوار وں یا زمین میں دفن کر دیا کرتے تھے۔ مٹکوں میں موجود اُس دور کے زیوارت وغیرہ محکمہ آثار قدیمہ کے پاس محفوظ ہیں۔ محمد ایوب کے بقول محکمے کو جیسے ہی مزید فنڈز ملے، سرائے پر دوبارہ کام شروع ہو گا تا کہ ہندو شاہی دور میں آباد اس تاریخی شہر اور اُس دور کے لوگوں کے رہن سہن کے بارے میں مزید شواہد حاصل ہو سکیں۔ چنیوٹ سرگودھا اور فیصل آباد کے درمیان میں واقع ہے۔ لاہور جھنگ روڈ بھی چنیوٹ میں سے گزرتی ہے۔ یہ لاہور سے 158 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ شہر کا کل رقبہ 10 مربع کلومیٹر ہے اور یہ سطح سمندر سے 179 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ چنیوٹ کا ہمسایہ شہر چناب نگر ہے جو دریائے چناب کے دوسری جانب واقع ہے۔ضلع چنیوٹ میں سونے، تانبے اور لوہے کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ یہ ذخائر چنیوٹ کے علاقے رجوعہ میں دریافت ہوئے اور سرکاری بیان کے مطابق یہ ذخائر اٹھائیس مربع کلومیٹر رقبے پر محیط ہیں جب کہ تقریباً مزید دو ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے میں اسی قسم کے ذخائر ملنے کی توقع ہے۔

بدقسمتی سے حکومت اس کو جائز طور سے استعمال کرنے سے قاصر ہے چنیوٹ کے نواحی علاقے چناب نگر (ربوہ)میں واقع پہاڑیوں کے سلسلے کو سرگودھا کے پہاڑی سلسلے کا ہی ایک حصہ مانا جاتا ہے چنیوٹ میں موجود پہاڑ شہر کی تاریخ کا ایک اہم باب ہیں جن سے ملنے والے نوادرات اور نقوش یہاں پر آباد قدیم تہذیبوں کا پتا دیتے ہیں۔ سید ماجد بلال اس تاریخی ورثہ کی اہمیت اور اسے درپیش خطرات کو سامنے لائے ہیں، ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ پہاڑیاں تاریخی اہمیت کی حامل ہیں جو اپنے اندر بہت سے تاریخی راز اور نوادرات سموئے ہوئے ہیں۔دوسری طرف سرکاری سر پرستی میں پتھر کے حصول کے لیے کی جانے والی کٹائی اور بارود کے ذریعے ہونے والی توڑ پھوڑ سے بھی اس قدیم تاریخی ورثہ کو نقصان پہنچا ہے۔یاد رہے کہ 2005ء میں غیر سرکاری تنظیم چنیوٹ لوک کی جانب سے پہاڑیوں میں موجود قیمتی نقوش اور آثار کو بچانے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تھا جس کے بعد جسٹس شیخ عظمت سعید نے ان پہاڑیوں میں کرشنگ، بلاسٹنگ اور کسی بھی طور سے انہیں نقصان پہنچانے کے عمل پر بذریعہ سٹے آرڈر روک لگا دی تھی۔ان قدیم پہاڑوں پر موجود نشانات سے ماہرین آثار قدیمہ ابھی تک یہ اندازہ نہیں لگا پائے ہیں کہ یہ ہڑپہ تہذیب کی تحریر ہے یا پھر محض چٹانی نقوش اور اگر یہ کوئی خاص تحریر ہے تو کس اور کتنی پرانی تہذیب کی؟ چٹانوں پر قدیم ادوار میں بنائے جانے والے نقوش واضح نظر آتے ہیں ریٹائرڈ پروفیسر محمد حیات خوشاب کے علاقہ جوہر آباد کے رہائشی ہیں اور کتاب “چٹانوں میں تاریخ” کے مصنف ہیں۔پروفیسر حیات کو خدشہ ہے کہ کہیں تحقیق سے قبل ہی قدیم تحریر کے حامل یہ پتھر، نوادرات مافیا چوری نہ کر لے یا یہ تحریریں قدرتی شکست و ریخت کے عمل سے ختم نہ ہو جائیں۔وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے نصف صدی قبل یہ نقوش دریافت کیے اور آج تک ان کو بچانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں مگر جن آثار کو بین الاقوامی ورثہ قرار دیا جانا تھا انہیں ان کی نظروں کے سامنے بجری کا ڈھیر بنا کر سڑکوں میں دفن کر دیا گیا۔

“ان پہاڑوں میں تاریخی اہمیت کے حامل پتھر موجود ہیں مگر افسوس کہ موٹروے کی تعمیر کے لیے چٹانوں کو توڑا گیا اور نوادرات کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو گیا۔”ان کے مطابق چنیوٹ کی پہاڑیاں ہی وہ مقام ہیں جہاں سکندر اعظم کا بیڑا دریائے چناب کے بھنور میں پھنسا تھا، جس کے بعد سکندر نے یہاں قیام کیا۔انھوں نے بتایا کہ سکندر اعظم نے اپنی جنگی مہم کے دوران ان پہاڑوں کے اوپر سے ایک پختہ سڑک تعمیر کروائی تھی جسے سکندر کا درہ کہا جاتا تھا مگر کٹائی کے دوران اس درے کا آدھے سے زیادہ حصہ بارود کے ذریعے تباہ کر دیا گیا ہے۔”ابھی بھی چناب نگر میں چونگی نمبر تین کے قریب واقع پہاڑی پر اس درے کا باقی ماندہ حصہ موجود ہے لیکن دھماکوں کے باعث پہاڑ کی چوٹی تک جانے کے تمام راستے ختم ہو چُکے ہیں۔” پہاڑوں سے مختلف انواع کے قیمتی پتھر اور نوادرات ملی ہیں گورنمنٹ تعلیم السلام کالج چناب نگر (ربوہ)میں تاریخ کے پروفیسر وقار حسین کا کہنا تھا کہ چنیوٹ میں قیام کے دوران سکندر اعظم کا گھوڑا بیماری کے باعث مر گیا جس کی یاد میں سکندر نے پہاڑ پر اس گھوڑے کا مجسمہ بنوایا تھا۔ان کے مطابق مقامی لوگ توہم پرستی کے سبب اس قدیم مجسمے سے منتیں مانگنے لگے، جس کے بعد 2005ء میں تاریخی اہمیت رکھنے والے اس مجسمہ کو چند افراد نے بارود کی مدد سے تباہ کر دیا۔ان کے بقول

“دو دہائیاں قبل انہی پہاڑوں میں واقع چٹان پر ایک خاتون کا مجسمہ بھی نصب تھا جو پتھر توڑنے کے لیے کیے جانے والے دھماکوں کی نظر ہو گیا۔”انھوں نے مزید بتایا کہ ونوٹی والا دھرنگڑ کے علاقہ سے چند سال قبل بھینس نما مٹی کا مجسمہ ملا تھا جسے بعد ازاں محکمہ آثار قدیمہ نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ان کا کہنا تھا کہ ان پہاڑوں پر تیز دھار آلے سے بنائے گئے ایسے نقوش ملے ہیں جن کے ذریعے سے پھول، گھڑ سوار اور جنگ کی منظر کشی کی گئی ہے۔”ان نقوش سے ثابت ہوتا ہے کہ ان پہاڑوں پر جنگیں بھی لڑی گئی ہیں اور یہاں مختلف ادوار میں جنگجو بادشاہ اور قبیلے پناہ لیتے رہے ہیں۔”ان کا مؤقف تھا کہ حکومت کو ان پہاڑوں کی سرپرستی لیتے ہوئے یہاں عملہ تعینات کرنا چاہیے تاکہ چنیوٹ کی تاریخ کو محفوظ بنایا جا سکے۔نمائندہ خصوصی سے بات کرتے ہوئے محکمہ آثار قدیمہ سرگودھا کے ڈائریکٹر محمد ایوب کا کہنا تھا کہ چنیوٹ سے سرگودھا تک کے تمام پہاڑ تاریخی اہمیت کے حامل ہیں جنہیں محفوظ بنانے کے لیے محکمہ کی طرف سے کوششیں کی جا رہی ہیں۔تاہم ان کے بقول فنڈز کی قلت اور عملہ کی کمی کے باعث محکمہ آثار قدیمہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔”چنیوٹ کے یہ پہاڑ نوادرات کا خزانہ سمیٹے ہوئے ہیں جن سے اس علاقہ کی تاریخ اور لوگوں کے رہن سہن کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے مگر وسائل نہ ہونے کی وجہ سے فی الحال تحقیق کی بجائے انہیں محفوظ بنانے پر توجہ دی جا رہی ہے۔”یوں تو چنیوٹ میں کئی مذہبی، ثقافتی، اورتاریخی مقامات ہیں لیکن بادشاہی مسجد چنیوٹ، عمر حیات کا محل، دریائے چناب کا پل اور حضرت بوعلی قلندر کا مزار کافی مشہور مقامات ہیں۔

بادشاہی مسجد چنیوٹ

بادشاہی مسجد چنیوٹ جو بادشاہی مسجد لاہور کی طرز پر بنائی گئی ہے چنیوٹ کی خوبصورت اور قدیم ترین مساجد میں سے ایک ہے۔اسے پانچویں مغل بادشاہ شاہ جہاں کے وزیر سعدالله خان نے سترہویں صدی عیسوی میں تعمیر کروایا مسجد مکمل طورپر پتھر کی بنی ہوئی ہے۔ اس کے تمام دروازے لکڑی کے بنے ہوئے ہیں اور آج تک اس کے دروازے بغیر ٹوٹ پھوٹ کے اپنی جگہ قائم ہیں۔ بادشاہی مسجد لاہور کا فرش سفید سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے۔مسجد کے صحن کا فرش سنگ مرمر سے بنا تھا۔ اسے 2013ء میں سنگ مرمر سے اینٹوں کے فرش میں تبدیل کر دیا گیا۔ تاہم مسجد کا اندرونی فرش ابھی تک سنگ مرمر کاہی ہے۔ مسجد کے سامنے موجود شاہی باغ مسجد کے حسن میں اضافہ کر دیتا ہے۔

چنیوٹ کا عمر حیات محل

چنیوٹ کے مرکز میں واقع لکڑی کی بنی اس عمارت کو چنیوٹ کا تاج محل اورگلزارمنزل بھی کہا جاتا ہے۔14مرلہ رقبہ پرمشتمل یہ شاندارعمارت تہہ خانے اورپانچ منزلوں پرمشتمل تھی تاہم اب دوبالائی منزلیں خستہ حالی کی وجہ سے ختم ہوچکی ہیں۔یہ محل کولکتہ کے ایک معروف تاجر شیخ عمرحیات نے اپنے خاندان کیلئے تعمیرکروایا تھا،1935 میں جب یہ شاندارمحل اپنی تعمیرکے آخری مرحلے میں تھا اورشیخ عمرحیات کی ناگہانی موت واقع ہوگئی۔شیخ عمرحیات کی وفات کے بعد یہ محل تومکمل ہوگیا مگر عمر حیات کی بیوہ فاطمہ اپنے بیٹے گلزار اوربیٹی حسینہ کے ساتھ اس محل میں منتقل نہ ہوئیں اور محل بند پڑا رہا۔ اسی عرصے میں ان کی بیٹی حسینہ کا تپ دق سے انتقال ہوگیا۔کچھ عرصہ گزرنے کے بعد فاطمہ نے اس محل کو آباد کرنیکا فیصلہ کیا اور 1937 میں اپنے بیٹے گلزار کی شادی کی، لیکن شادی کے اگلے ہی روز گلزارکی پراسرارموت ہوگئی، بیوہ ماں نے بیٹے کا جنازہ نہ اٹھنے دیا اوراسے محل کے برآمدے میں ہی دفن کردیا۔اور اب اسے گزشتہ چند سالوں سے لائبریری میں تبدیل کر دیاگیا ہے۔

چنیوٹ کا پل ترميم

چنیوٹ کا پل (یا ربوہ کا پل) کنکریٹ (concrete) سے بنا ایک پل ہے۔ جو چنیوٹ میں دریائے چناب پر واقع ہے۔ یہ 520 میٹر لمبا ہے جبکہ 17۔8 میٹر چوڑا ہے۔ یہ ختم نبوت چوک سے 4.6 کیلو میٹر اور چنیوٹ ریلوے سٹیشن سے 3.3 کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

چنیوٹ کا شیش محل ترميم

چنیوٹ شہر کے عین وسط میں واقع پہاڑوں کی اوٹ اور قبرستان سے ملحقہ علاقے میں موجود میناروں سے نکلنے والی روشنیاں جہاں پورے علاقے کو جگ مگ کر دیتی ہیں وہیں قوالی کے ساتھ بجنے والے ساز بھی فضاء میں محبت بھرنے سے پیچھے نہیں رہتے۔ یہ روشنی محلہ مسکین پورہ میں موجود حضرت احمد ماہی المعروف سائیں سکھ کے ساڑھے دس کنال پر پھیلے مزار میں لگے برقی قمقموں کی ہوتی ہے۔ جب یہ روشنی محل کی دیواروں میں نسب شیشے پر منعکس ہوتی ہے تو عمارت کے اندرونی حصے میں انعکاس کی وجہ سے بلوری چمک پیدا ہوتی ہے جو مزار کی خوبصورتی کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ حضرت احمد ماہی المعروف سائیں سکھ چنیوٹ کے معروف شیخ خاندان سے تعلق رکھتے تھے جن کی پیدائش 1914ء جبکہ وفات 1987ء میں ہوئی۔

کہا جاتا ہے کہ سائیں سکھ نے اپنی ذاتی زمین پر دربار کی تعمیر 1925ء میں شروع کرواتے ہوئے اسے اپنی زندگی میں ہی مکمل کروا لیا تھا اور مریدین سے کہا تھا کہ ” تیسی کانڈی چلتی رہے گی”۔ سائیں سُکھ کے حکم کے مطابق دربار میں مرمت اور سجاوٹ کا کام سارا سال چلتا ہے مقامی لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ اُن کے الفاظ کی ہی برکت ہے کہ ان کی وفات سے اب تک یہاں کوئی نہ کوئی ترقیاتی کام ہوتا رہتا ہے۔ اس وقت یہاں ایک دلکش منیار تعمیر کروایا جا رہا ہے جس پر انتظامیہ کے مطابق اب تک کروڑوں روپے لاگت آ چُکی ہے۔ اس مزار پر چاند کی ہر چودہویں رات کو محفل کا انعقاد کیا جاتا ہے، لنگر تقسیم ہوتا ہے اور قوالی کی محفل بھی منعقد ہوتی ہے۔ دربار پر سال میں دو عرسوں کا اہتمام ہوتا ہے، پہلا عرس جو بڑا عرس کہلاتا ہے 6 اگست جبکہ دوسرا 2 دسمبر کو منعقد کیا جاتا ہے۔ دربار کی انتظامیہ کے مطابقٍ بڑا عرس سائیں سکھ کی بیوی عائشہ بی بی کی تاریخ وفات پر ہوتا ہے کیونکہ یہ عرس سائیں نے پہلی بار اپنی زندگی میں 6 اگست1984ء کو خود کروایا تھا۔ دوسرا عرس ان کی اپنی وفات 2دسمبر 1987ء کے بعد شروع ہوا جس میں شرکت کے لیے اندرونِ اور بیرون مُلک میں مقیم شیخ خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد چینوٹ آتی ہے۔ دربار کے گدی نشین باؤ بشیر احمد بتاتے ہیں کہ ” سائیں جی نے اپنی زندگی میں اس دربار کی تعمیر کے لیے کسی سے ایک روپیہ بھی نہیں لیا تھا۔ انھوں نے اپنا گھر بنانے کی بجائے یہ دربار بنایا”۔ مزار کی تعیمر پر اب تک اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں۔

چنیوٹ کا مندر ترميم

چنیوٹ کے محلہ لاہوری گیٹ میں واقع گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول محکمہ اوقاف کی ملکیت ایک پرانے مندر میں قائم ہے۔یہ مندر قیام پاکستان سے قبل 1930ء کی دہائی میں تعمیر کیا گیا تھا جسے کرتاری لال یا کلاں مندر کہا جاتا ہے جبکہ یہاں سے گزرنے والی سڑک کو بھی مندر روڈ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ مندر کی عمارت تین منزلوں پر مشتمل ہے جس میں سب سے نیچے والی منزل میں سکول جبکہ بیرونی طرف 11 دکانیں اور ایک گودام موجود ہے جبکہ دوسری منزل کو خستہ حالی کے باعث بند کر دیا گیا ہے۔اس عمارت کی چھت پر خستہ حال مندر کے کلس اور چوبرجیوں کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ 1947ء میں جب ہندوستان اور پاکستان کے نام سے دو نئے ملک وجود میں آئے تو یہ مندر تعمیر کے آخری مراحل میں تھا تاہم ہندو آبادی کی بڑی تعداد ہجرت کر کے بھارت چلی گئی جس پر اسے محکمہ اوقاف کی تحویل میں دے دیا گیا۔قیام پاکستان کے بعد کبھی کبھار چنیوٹ کے قدیم ہندو باشندے اس کی زیارت کرنے کے لیے یہاں آ جاتے تھے لیکن دسمبر 1992ء میں جب بھارت میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا تو اس کے بعد ہندو زائرین کی آمد کا سلسلہ بند ہو گیا۔اس موقع پر یہاں بھی لوگوں نے احتجاج کرتے ہوئے مندر کو مسمار کرنے کی کوشش کی جو انتظامیہ کی مداخلت کے باعث کامیاب نہ ہو سکی۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے اس عمارت میں سکول اور پھر خواتین کو ہنرمند بنانے والا ادارہ کام کرتا رہا جبکہ 1997ء میں میونسپل کارپوریشن نے اس جگہ باقاعدہ طور پر پرائمری سکول قائم کر دیا۔ضلع چنیوٹ میں میں بعض گاؤں بھی ایسے ہیں جو پوری دنیا میں مشہور و معروف ہیں جن میں محمدی شریف گاؤں تاریخ اعتبار سے بہت اہم ہے ۔ محمدی شریف گاؤں کا نام ولی کامل حضرت میاں امام دین المعروف میاں محمدی جوان رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے منسوب ہے جو کہ حضرت شاہ رکن عالم ملتانی کے شاگرد اور خلیفہ تھے وہ حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی کی قائم کردہ درسگاہ سے دینی ،روحانی علوم سے بہرہ ور ہوئے۔ روحانی علوم حاصل کرنے کے بعد اپنے مرشد کے حکم کے مطابق واپس اپنے آبائی وطن کی راہ لی۔

مرشد نے آپ کو الوداع کرتے وقت ایک عصا عنایت کیا اور ساتھ فرمایا کہ جہاں نماز کا وقت ہو جائے اس عصا کوزمین میں گاڑ کر نماز ادا کر لینا اور پھر عصا اکھاڑ کر چلتے رہنا جس جگہ سے عصا نہ اکھڑے وہیں ٹھکانہ ہو گا وہیں قیام کرنا۔ چنانچہ آپ”نے مرشد کے حکم پر دریائے چناب کے کنارے کے ساتھ ساتھ سفر کرنا شرو ع کر دیا ۔جہاں نماز کا وقت ہوتا عصا زمین میں گاڑ دیتے نماز پڑھ کر اکھاڑ لیتے اور چلتے رہتے۔ حتیٰ کہ جہاں اب آبادی کڑک محمد شریف ہے اس جگہ پہنچے۔صبح کی نماز کا وقت تھا۔ آپ نے عصا زمین میں گاڑکر نماز فجراد ا کی۔ نماز سے فراغت کے بعد عصا اکھاڑنے کی کوشش کی مگر نہ اکھڑسکا تو آپ نے آس پاس کے لوگوں سے معلوم کیا کہ یہ زمین کس زمیندار کی ملکیت ہے۔ جس پر آپ کو پتا چلا کہ یہ محمد سلطان کنگر کی ملکیت ہے۔ لہٰذا آپ نے اس سے اجازت لے کر وہیں جھونپڑی ڈال لی اور ساتھ ہی ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر کروائی اور ایک کنواں بھی آباد کیا۔ آپ نے اس علاقہ میں اسلام کی تبلیغ شروع کر دی۔ جس سے کئی غیر مسلم قبیلے حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔

1027ھ میں آپ اللہ کو پیارے ہو گئے تو آپ کو اسی جگہ دفن کر دیا گیا۔ اور محمد ی شریف انہی کے فیض سے پوری دنیا میں مشہور ہے. مفکر پاکستان کے مشورے پر محمدی شریف میں دینی اور دنیاوی تعلیم کیلئے ایک بہت بڑی درسگاہ قائم کی گئی ہے جو جس سے لاکھوں لوگ علم حاصل کرکے اعلی عہدوں پر فائز ہوکر ملکی خدمات سرانجام دے رہے ہیں.چند سال قبل تک ایشیاء کی گاؤں لیول پر سب سے بڑی مسجد محمدی شریف کی جامعہ مسجد کو جانا تھا.محمدی شریف کو چنیوٹ کی سیاست میں بھی بہت بڑا مقام حاصل ہے یہاں سے مولانا محمد ذاکر رکن قومی اسمبلی اور انکے فرزند مولانا محمد رحمت اللہ بھی متعدد بار قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوچکے ہیں. انکی وفات کے بعد انکے بیٹے صاحبزادہ محمد قمراالحق سجادہ نشین و ناظم اعلیٰ محمدی شریف ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com