تیس لاکھ سال پہلے کے عہد میں سندھ ، ملتان ، پنجاب، کشمیر، اور دہلی تک پھیلی ہوئی سلطنت پر بھگت پر ہلا د آریہ ہند و حکمران رہا جس نے اپنا دارالسلطنت ملتان بنا رکھا تھا ۔ اس عہد میں ملتان کو کشیپ پوری کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ کیونکہ اس سے پہلے ملتان پر ایک ہرنا کشیپ نامی حکمران حکومت کرتا تھا۔ جس نے اپنے نام پر اس شہر کا نام "کشیپ پوری“ رکھا تھا۔ اس زمانہ میں ملتان کے ارد گرد راشٹر کوٹ (شورکوٹ ) ، برہمن گڑھ (جھنگ) اور چندا کوٹ (چنیوٹ) نام کے شہر آباد تھے ہیں۔
راجہ دشرت کا دور حکومت:
دس لاکھ سال پہلے راجہ وشرت کا دور حکومت تھا ۔ اس نے بہت ساری عورتوں کے ساتھ شادی کر رکھی تھی۔ اس کے دو بیٹے رام چندر اور چمن تھے۔ اس کی ایک بیوی چناب در ادی کے حاکم راجہ اسوانی کی بیٹی تھی جس کا نام لکئی تھا۔ اس کی سلطنت کا گڑھ سرائے سدھو تھا۔ اس رانی لکئی نے اپنے سوتیلے بیٹے رام چندر کو جبری نکال کر بارہ برس کے لئے جلا وطن کر دیا۔ جلا وطنی کا عرصہ ختم ہونے کے بعد رام چندر اپنی بیوی سیتا اور بھائی کچھمن کو ساتھ لے کر اپنی سوتیلی ماں لکئی کا دیدار کرنے کے لئے سرائے سدھو پہنچا تو اس نے رام چندر کے جاہ وجلال کو دیکھتے ہی سینے سے لگا لیا اور اسے راجہ دشرت کی جگہ سلطنت سنبھالنے کے لئے تخت پر بٹھا دیا۔ دریائے راوی کے کنارے پچھمن کنڈ، بیتا کنڈ اور رام چو نترو کے مندر انہیں کی یاد میں تعمیر کئے گئے ۔ وہ تینوں دریائے چناب میں کشتیوں کے ذریعے کشمیر چلے گئے ہے۔ ان مندروں میں ہر سال بیساکھی کا بڑا بھاری میلہ لگایا جاتا رہا۔ ان مندروں کے قدیمی نشانات اب بھی ظاہر ہیں۔
در اوڑوں کا دور حکومت:
10000 ق م میں بحر الکاہل سے آنے والی دراوڑ قوم نے پنجاب اور سندھ پر حملہ کر کے اپنی حکومت قائم کر لی اور گنیش وشیو کی پوجا کا رواج ڈال دیا۔ یہ بہت مغلوب قوم تھی جس نے 6000 ق م تک اپنی حکومت قائم رکھی۔ اسی دوران کمیریوں ، بابلیوں اور آشوریوں نے بھی تھوڑا تھوڑ ا عرصہ حکمرانی کی۔
آریوں کا دور حکومت:
6000 ق م میں وسط ایشیاء کوہ سلیمان کے دروں کے رہنے والے آرین مسلح فوج لے کر در اوڑوں پر حملہ آور ہو گئے اور انہیں بری طرح شکست دے کر وادی سندھ سے باہر بھگا دیا اور خود علاقہ پر قابض ہو گئے۔ آرین نے 3400 ق م تک وادی سندھ پر حکمرانی کی۔
راجہ شال کا دور حکومت:
راجہ شال جو کہ پانڈوؤں کا ماموں تھا، نے 3400 ق م میں اپنی حکومت قائم کی اور اس نے ایک نیا شہر آباد کر کے اس کا نام اپنے نام پر شالکوٹ رکھا جو کہ اس کا دارا لسلطنت تھا۔ اس کی اولاد نے 2800 ق م تک حکمرانی کی۔
رام چندر کے بیٹے لوہ کا دور حکومت:
لا ہور شہر بسانے والا رام چندر کا بیٹا لوہ تھا۔ ہزار سال تک تمام مورخ حضرات لہاور لکھتے رہے بور کے زمانہ کے مورخین نے لہاور کو لاہورلکھنا شروع کیا۔لوہ کوٹ نامی شہر تھل میں دریائے جہلم کے کنارے راجہ لوہ نے اپنے نام پر بسایا تھا۔ وہاں ایک مضبوط قلعہ بھی تعمیر کروایا جو بعد میں تباہ و برباد ہو گیا۔ اس شہر کے کھنڈرات دریائے جہلم کے کنارے اب بھی ظاہر ہیں۔ اب اسے مقامی زبان میں لوگ لو ہا بھڑ کہتے ہیں۔ لوہانے اسی راجہ اوہ کی اولاد تھے اور لوہ کوٹ ان کا گڑھ تھا۔ قصور شہر بسانے والا راجہ قصی بھی رام چندر کی اولاد میں سے تھا ہے۔ راجہ لوہ ایک شجاع و فرمانروا شخص تھا۔ لاہور اور لوہ کوٹ الٹا کے دار السلطنت تھے ۔ اسی طرح ہمیں ان واقعات کے باعث علم ہوتا ہے کہ چنیوٹ کا علاقہ ہزاروں بلکہ لاکھوں سال قبل سے ہی بود و باش کا مرکز تھا۔ کئی خاندانوں نے یہاں حکومت کی میرا اور جاٹ اسی نسب کی دو بڑی تو میں تھیں ۔ راجہ بکرماجیت کے زمانہ سے پہلے ہندوؤں کے سال اور مہینے موجودہ زمانہ کے سال اور مہینوں سے چھوٹے ہوتے تھے۔
کرشنا کی اولاد کا دور حکومت:
2000 قدم میں کرشنا کی اولاد بھٹی راجپوتوں کی حکمرانی شروع ہوئی ۔ کرشنا مہا راج کا بیٹا سا لنا حسن سندھ اور ملتان پر حکمرانی کرتا تھا۔ اسکے دور حکومت میں ملتان کا نام منزون تھا اور بعد میں ملتان کا نام سالب پوری مشہور ہو گیا ۔ چین ایران اور روس کی سلطنتوں پر حکمرانی کرنے والی یا دو قوم اس سالباھن کی اولا د تھی جنہیں مئورخین عرب شریف نے جادو لکھا ہے:۔ اسی راجہ سالبا ھن کی نسل سے ایک راجہ گنج تھا جو ترکستان وغیرہ کا بادشاہ بنا۔ اس کی بادشاہی کا نام گجنی تھا جس کی شکل بگڑ کر غزنوی کہلانے لگی ۔ بلند نامی شخص اسی راجہ شیخ کا بیٹا تھا جس نے اپنے نام پر بلند نامی شہر آباد کیا۔ اس بلند شہر کو سجاوٹ اس کے بیٹے بھٹی نے بخشی اور یہی بھٹی نامی شخص جیسلمیر کا بادشاہ بنا۔ راجپوت بھٹی اس کی اولاد میں سے ہیں جنہوں نے چنیوٹ جھنگ اور ملتان پر 1500 ق م تک حکمرانی کی۔ سلطنت روس چین ایران اور ترکستان کا حکمران راجہ چکتو راجہ بھٹی کا سگا بھائی تھا۔
راجہ چکو کی اولاد میں ایک راجہ کبیر نامی شخص تھا جس نے کبیر کوٹ شہر آباد کیا اور اس میں ایک مضبوط قلعہ تعمیر کروایا جو دور حاضرہ میں کبھیر کوٹ سے بدل کر کروڑ کوٹ مشہور ہو گیا۔ ملتان ،شورکوٹ ، کروڑ کوٹ ، خوشاب اور چنیوٹ پر کافی دیر تک راجپوت بھٹی قبیلہ کی حکومت رہی اور اب بھی ان علاقوں میں بھٹی راجپوت کثیر تعداد میں آباد ہیں ۔ لنگاہ خاندان بھی انہیں بھٹی راجپوتوں کے نسب سے تھا جس نے ریاست ملتان شور کوٹ اور چنیوٹ پر حکمرانی کی اور بعد میں مسلمان ہو گئے۔ راولپنڈی ، کوہستان نمک، کڑا نہ بار ، چنیوٹ اور ساندل بار کا حکمران راول چاپک بھی اسی خاندان کی ذیلی شاخ گکھڑ سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے راولپنڈی کا نام اپنے نام پر رکھا۔ راول ڈیم بھی اسی کے نام سے منسوب ہے۔
سا کاؤں کا دور حکومت:
پامیر کے علاقہ کے رہنے والے ساکا ؤں نے جو کہ سیر دریاء کے مشرق میں اس کے بالائی مصبیع کے نزدیک تک آباد تھے۔ 1500 ق م میں تبت پا میر اور بدخشاں کے علاقوں سے اٹھ کر خراسان سیستان اور کشمیر پر حملہ آور ہو گئے۔ کشمیر فتح کرنے کے بعد اسی راستے پنجاب میں داخل ہو گئے اور پنجاب پر قبضہ جما کر بیٹھ گئے ۔ انہی کی دو شاخیں میدا اور جاٹ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے جس کی وجہ سے علاقہ سکون گنوا بیٹھا بالآخر راجہ دیور دھن جو علی کا حاکم تھا اسے ہر دو قبائل نے بطور ثالث مقرر کیا جس کا فیصلہ اس نے اس طرح سنایا کہ میدا خاندان عراق اور شام کی طرف چلا جائے کہیں وہ خاندان ہے جو عرب میں میڈیا مشہور ہوا اور پنجاب پر جانوں نے قبضہ کر لیا ان کا پایہ تخت راوی اور چناب کے درمیان تھا ۔ گمان غالب ہے کہ ان کا دارالسلطنت چنیوٹ تھا۔ اسی خاندان کے ایک بر همین نامی آدمی نے بھی کچھ عرصہ وسیع سلطنت پر جاہ وجلال سے حکومت کی۔ راجہ اسواپتی کے بعد اس خاندان کی دو شاخیں 1000 ق م تک حکومت کرتی رہیں اہیر اور گجر اسی نسل
سے ہیں۔
شہنشاہ ایران گشتا شپ کا دور حکومت:
1000 ق م میں راجہ کفند چنیوٹ بھکر اور ملتان کے علاقہ کا حکمران تھا۔ راجہ کفند کے زمانہ حکمرانی میں شہنشاہ ایران گشتا شپ نے اپنے جرنیل بہن کو پنجاب پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ وہ شہنشاہ کے حکم کے مطابق مسلح فوج لے کر دریائے چناب کے کنارے کے ساتھ ساتھ مغرب کی سمت پیش قدمی کرنے لگا جب راجہ کفند کو پتہ چلا کہ گشتا شپ کا جرنیل فوج لے کر چڑھائی کرتا آرہا ہے تو وہ بھی مقابلہ کے لئے تیار ہو گیا۔ راجہ کفند نے بہمن کے حملے کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے ایران کے تمام علاقے جو انہوں نے قبضہ میں لیئے ہوئے تھے ، واپس لے لئے۔ راجہ کفند اسکلند “ کو دارالسلطنت بنا کر بیٹھ گیا۔ ملتان بھکر بھیرو چنیوٹ اور سانگلہ پر حکمرانی کرنے لگا اسکلید نامی قصبہ اب بھی تحصیل شجاع آباد میں موجود ہے۔
مصر کے فرعون شیاسترس کا دور حکومت:
950 ق م میں مصر کے سائرس نے ایک کمزور اور بزدل فوج لے کر عرب، یمن اور سندھ کے علاقوں کو روندتے ہوئے پنجاب پر حملہ کر دیا اور گنگا پار تک کے علاقہ کو اپنی سلطنت میں داخل کر لیا۔ آریاؤں میں گئو ماتا کی پوجا کا رواج ڈالا ۔ کاشتکاری اور فوجی ہنر سکھایا جبکہ پہلے آرین قبائل ان کاموں سے ناواقف تھے۔ ہندوؤں میں جو گمان ایشور دیوتا کا موجود ہے وہ سائرس ہی سے نسبت کیا گیا ؟۔ سائرس کے بعد دوبارہ مصریوں کی فوج اٹھی اور شیاسترس کی رہبری میں ملتان سے چنیوٹ تک کے علاقہ پر حملہ کر دیا اور علاقہ فتح کرنے کے بعد قابض ہو گئے ۔ ان کی حکومت زیادہ وقت نہ رہی جلد ہی مال و دولت لوٹ کر اپنے وطن کی راہ لی۔ جتنا عرصہ اس نے یہاں حکمرانی کی اس عرصہ کے دوران اس نے گائے کی ہو جا کو اور زیادہ فروغ دیا اور اپنے زیر قبضہ علاقوں میں گئو شالا میں بنوائیں۔ اس نے دریائے چنبل (چناب) کے مشرقی کنارے ایشورکوٹ (شورکوٹ ) شہر آباد کیا۔
مصر کے سائرس کا نام آرین ہند بڑے ادب سے لیتے تھے ۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ آرین نے سائرس کے احسانات کی وجہ سے اسے دیوتا کا مرتبہ دیا تھا اور ایشور کا گمان سائرس سے وجود میں آیا۔ سائرس کی یاد میں تمدن ہند کی عبارت کے مطابق قدیمی موئرخ دریائے چناب کو چنبل ، راوی کو امراوتی جہلم کو وہت ، دریائے سندھ کو سانڈ رس ، دریائے ستلج کو گھارا اور دریائے بیاس کو باسا لکھتے رہے ہیں۔ مصریوں کے بعد شہنشاہ ایران کی چڑھائی سے پہلے پنجاب اور ملتان پر آشوری خاندان نے بھی حکومت کی۔ اس خاندان نے آشور کوٹ اپنے نام پر ایشورکوٹ سے بدل کر رکھا جو بعد میں شور کوٹ مشہور ہو گیا بہر حال 539 ق م سے پہلے شورکوٹ نامی شہر موجود تھا۔۔
سنو! جن جن کی تم اللہ کے سوا پو جا پاٹ کر رہے ہو وہ تو تمہاری روزی کے مالک نہیں پس تمہیں چاہیے کہ تم اللہ تعالی ہی سے روزیاں طلب کرو اور اس کی عبادت کرو اور اس کی شکر گزاری کرو اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے”
(العنکبوت آیت نمبر (17)
شہنشاہ ایران کا دوسرا حملہ:
شہنشاہ ایران مسلح فوج لے کر براستہ درہ بولان پنجاب میں داخل ہو گیا اور
پنجاب فتح کر کے بلوچستان، سندھ، ملتان، چنیوٹ اور منکیر و تک کے علاقہ پر قبضہ جمالیا۔ ان کی گزرگاہ تریمو گھاٹ رہا۔ ان کی حکومت 529 ق م تک برقرار رہی۔
سبوئی ، کٹھوئی اور ملوئی قبائل کا دور حکومت شہنشاہ ایران کے بعد 528 ق م سے سبوئی، کٹھوئی اور ملوئی قبائل نے حکومت کی ان قبائل کی ریاست کو یوں تقسیم کیا جاتا ہے۔
1: سبوئی (صابوئی ) خاندان نے کڑا نہ بار سے وہ چین تک کے علاقہ پر حکمرانی کی۔ 2: کٹھوئی (کاٹھیہ ) خاندان نے سانگلہ اور ساہیوال سے ساندل بار تک کے علاقہ کو اپنے اختیار میں لے لیا۔
3: لوئی (موبل) کچھی سے ملتان تک کے علاقہ پر حکومت کرتے تھے۔
یونان کے بادشاہ سکندراعظم کا دور حکومت:
325 ق م میں یونان کا بادشاہ سکندراعظم طوفان کی طرح فوج لے کر ابھرا اور کابل کے راستہ سے پنجاب میں داخل ہو گیا۔ اس وقت ٹیکسلا کے راجہ نے اپنی مغلوبی تسلیم کر لی اور سکندراعظم کے لئے پنجاب میں داخل ہونے کا راستہ کھول دیا۔ اس وقت یہ علاقہ ایران کے بادشاہ دارائے سوئم کے زیر نگیں تھا بلکہ دارائے اوّل سے لے کر دارائے سوم تک باجگزار رہا۔ یہ علاقہ کئی راجوں اور مہاراجوں میں بٹا ہوا تھا۔ یونان کے سکندر اعظم نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ جہلم (بہت) کے حکمران راجہ پورس کے ساتھ مقابلہ کے لئے رک جاؤ۔ سکندر اعظم نے دریائے جہلم کے کنارے راجہ پورس کو شکست دے کر جہلم سے چنیوٹ، پنڈی بھٹیاں تک کا تمام علاقہ اپنی قلمرو میں شامل کر لیا اور با ہم موافقت کے بعد راجہ پورس کو جہلم سے بیاس تک کے علاقہ کا گورنر مقرر کر دیا۔ اس کے بعد سکندر اعظم نے اپنی فوج کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک حصہ کو براستہ شیخوپورہ ،سانگلہ، ساندل بار (فیصل آباد ) ، کڑا نہ بار اور چنیوٹ بھیج دیا اور دوسرے حصے کو دریائے جہلم میں داخل کر کے کشتیوں کی مدد سے تریمو گھاٹ بھیج دیا۔
ساندل بار سے کچھ فوج نے پیدل آکر جھنگ کے قریب ڈیرے ڈال لیئے ۔ تینوں اطراف سے فوج کی چڑھائی اس وجہ سے فتحیاب رہی کہ آس پاس کی تمام چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو سکندر اعظم نے فتح کر لیا تھا اور دریائی راستوں کے قریبی شہروں پر بھی قابض ہو گیا تھا۔ تریمو گھاٹ سے تمہیں چالیس میل تک کے علاقہ کو سکندراعظم کی فوج نے گھیرہ میں لے لیا تھا اور برہمن گڑھ (جھنگ) کا پختہ قلعہ بھی بغیر کسی مقابلہ کے انہوں نے حاصل کر لیا تھا ۔۔ سکندراعظم نے شورکوٹ کا قلعہ فتح کرنے کی خاطر اپنا استقلال تریموں گھاٹ پر رکھا تا کہ ملتان جانے کا راستہ کھلا ہو جائے گا۔ جب سکندراعظم کو پتہ چلا کہ بلوئی اور مل خاندان بہت بہادر اور لڑا کے ہیں تب اس نے فوج کو قلعہ شورکوٹ پر دونوں اطراف سے حملہ کرنے کا حکم دیا اور قلعہ برہمن گڑھ (جھنگ) کی فوج کو دریائے راوی کے کنارے کے ساتھ ساتھ جانے کا حکم دیا اور دوسری فوج کو کشتیوں میں ڈال کر دریائے چناب کے ذریعے شورکوٹ پہنچایا اور خود بھی اسی راستے شورکوٹ پہنچا۔
سکندراعظم کے ہندوستان پر اس حملے نے تاریخ کا منہ موڑ دیا۔ اس وقت یہاں چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں۔ اس وقت ملتان پر مل قوم حکمران تھی انہوں نے ہی مل استھان نامی شہر آباد کیا جو بعد میں بگڑ کر ملتان مشہور ہو گیا۔ جب سکندر اعظم درہ خیبر کے راستے پنجاب میں داخل ہوا تو اس دور میں چنیوٹ کا نام اجین” تھا اور دریائے چناب کا نام ”چندر بھاگا تھا۔ 323 ق م میں سکندر اعظم ملتان میں ایک قلعہ کی دیوار پرلڑ رہا تھا کہ اسے ایک زہریلا تیر لگا جس سے وہ زخمی ہو گیا۔ اس وقت سکندر اعظم نے ملتان میں قتل عام کا حکم دے دیا اور قتل عام شروع ہو گیا۔ راجہ پورس سے لڑنے کے بعد دو سال میں صرف پنچھیں ، چالیس میل چل سکا۔ سکندراعظم نے ملتان کا قلعہ فتح کر کے وطن واپسی کا ارادہ کیا۔ دریائے چناب اور دریائے راوی کے سنگم پر سرائے سدھو میں اُچ شریف ، چنیوٹ ،شور کوٹ ،ملتان، منکیرہ، کروڑ کوٹ اور بھیرہ کے حکمرانوں اور سرداروں کو بلایا اور اپنی ذمہ داری پیش کی ۔ سکندر اعظم نے قلب کو ملتان اور فیلقوس کو شورکوٹ سے بھیرہ تک اپنا نائب مقرر کیا۔
سرائے سدھو کو ایک اہم فوجی چھاؤنی اور بحری اڈہ کی حیثیت حاصل تھی۔ وہیں جہاز سازی کا ایک کارخانہ بنایا اور وہ نئے جہازوں پر سوار ہو کر ہندوستان سے اپنے وطن روانہ ہو گیا اور اس زہر یلے تیر کی وجہ سے بیمار ہو گیا ۔۔ بالآخر براستہ دریائے سندھ سندھ میں داخل ہوا۔ 323 ق م میں عراق میں بابل کے مقام پر اس زہر یلے تیر کا سارے جسم میں زہر پھیل جانے کی وجہ سے مرگیا وطن پہنچنا نصیب نہ ہوا۔ ایک اور روایت کے مطابق جھنگ سے دس میل دور جنوب کی سمت مہلو آنہ کے مقام پر لڑائی کے دوران سکندراعظم کومل قوم کے ایک فرد نے زہریلا تیر مارا جس سے وہ مر گیا۔
چانکیہ کا فعل اور دور حکومت:
چانکیہ چنیوٹ کی پہلی نامور شخصیت تھی۔ وہ چنیوٹ کا شہری تھا اور چندر گپت کے شاہی خاندان نندا میں سے تھا۔ چندر گپت موریہ نام کی سلطنت چانکیہ نے ہی کوشش وسکی سمجھے، دانائی اور عقلمندی سے برقرار کی۔ جس وقت یونان کے سکندر اعظم نے پنجاب پر حملہ کیا، اس وقت چانکیہ ٹیکسلا کے ایک مکتب میں پڑھاتا تھا جب اس نے اپنے وطن کو غلام ہوتے دیکھا تو رہ نہ سکا۔ اس نے ٹیکسلا کے راجہ کو سکندراعظم کے مقابلہ میں ابھارنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر وہ کارگر ثابت نہ ہوسکی۔ ٹیکسلا کے راجہ نے سکندر اعظم کے مقابلہ سے صاف جواب دے دیا جس پر چانکیہ کو از حد تکلیف ہوئی تو اس نے راجہ کی ملازمت کو خیر باد کہہ کر سکندر اعظم کی فوجوں کے ساتھ پھرنا شروع کر دیا اور اس کی فوج کا جائزہ لیتا رہا۔ ہر مقام پر وہ راجاؤں کو یونانیوں کے مقابلہ میں ابھارنے میں کوشاں رہا۔
مگر را جاؤں نے کم ہمتی ظاہر کی اس سے چانکیہ از حد شکستہ دل ہوا اور راجہ پاٹلی پتر سے ملاقات کی اور اسے ابھارنا شروع کر دیا کہ دوسرے راجگان کی مدد حاصل کر کے یونانیوں کا مقابلہ کرے اور پنجاب کو آزاد کروائے ۔ حتی کہ راجہ پاٹلی پتر بھی سکندر اعظم کی فوج کا سامنا کرنے سے انکاری ہو گیا۔ چانکیہ ہر طرف سے ناکام ہو کر راجہ چندر گپت موریہ کے پاس پہنچ گیا اور اسے حالات حاضرہ سے خبردار کیا اور اسے سکندر اعظم کی فوج کا مقابلہ کرنے کیلئے رضا مند کر لیا۔ سب سے پہلے راجہ چندر گپت نے اپنی فوج کی مدد سے راجہ نند پاٹلی پتر پرحملہ کر کے جنگ شروع کر دی۔ جس میں راجہ نند پاٹلی پتر کو شکست ہوئی تو راجہ چندر گپت نے ٹیکسلا تا جہلم تک کا علاقہ اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ اس کے بعد بھیرہ، چینوٹ ، اموانی اور ملتان کے سرکشوں کی طرفداری کے لئے اپنی فوج کو روانہ کیا۔ اس نے پنجاب کے یونانیوں کو چانکیہ کی مدد سے شکست دی اور چانکیہ کے مشورے سے اپنے تمام شاہی گھرانے کو قتل کر دیا اور اپنی ماں مور یہ جو کہ نندا کی باندی تھی۔ اس کے نام پر سلطنت قائم کی۔
نندا نے کئی شادیاں کر رکھی تھیں۔ چانکیہ نے نرساری زندگی جھونپڑی میں گزاری۔ اس وقت سے لے کر آج تک چانکیہ حکمرانوں کے لئے پیروی کا سبب بنا رہا۔ قانون سلطنت و امور مملکت کا ماہر تسلیم کیا جاتا تھا۔ چانکیہ نے ایک مشہور کتاب ” آرتھر شیاست سنسکرت زبان میں لکھی تھی جو کہ قانون حکومت اور بندو بست سلطنت پر پہلی کتاب تھی۔ اس میں یہ سبق تھا کہ !
چھوٹے اور کمزور ہمسائیوں کو ہضم کر لیا جائے بڑے اور طاقتور ہمسائیوں سے اور دشمن کے دشمن سے دوستی پیدا کر لی جائے پہلے وزیر اعظم بھارت پنڈت لعل نہرو بھی چانکیہ کا اثر قبول کرنے والے تھے۔ آرتھر شیاستر میں،اجین ( چنیوٹ ) کا تین، چار بار ذکر آیا ہے ۔ اس کتاب کا ہندی میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے ۔ چانکیہ نے چندر گپت کی پوری طرفداری کی یہ مقامی لوگوں کی پہلی اور ایک قاعدہ کے تحت حکوت تھی۔ آرتھر شیا ستر ہی کو دیکھنے کے بعد سلوکیوں کے وزیر اعظم نظام الملک طوسی نے بھی فارسی میں ایک کتاب ” سیاستنام لکھی جو آج بھی سب حکمران پڑھتے ہیں۔
چندر گپت موریہ کا دور حکومت:
جب مغربی پنجاب کے لوگوں نے یونانیوں کے خلاف بغاوت کی تو چندر گپت مور یہ چھ لاکھ پیدل تمہیں ہزار گھوڑ سوار فوج اور 9 ہزار جنگی ہاتھی لے کر داخل ہو گیا اور اس نے فوجی حمایت کا اعلان کر دیا کیونکہ چندر گپت موریہ ہندوستان کا مضبوط حکمران تھا۔ 322 ق م میں ایک چینک نامی شخص جو چینوٹ کے رہنے والا تھا اور بہت بہادر ودلیر تھا اور اپنے خاندان میں سرفراز بھی تھا۔ وہ چندر گپت موریہ کے دربار میں پہنچ گیا۔ چندر گپت موریہ نے اسے اپنا وزیر مقرر کر لیا چھینک نے کافی درسگا ہیں اور مندر بنوائے ۔ چندر گپت موریہ تاریخ ہندوستان کا پہلا شخص ہے جس نے اتنی بڑی وسیع وعریض سلطنت پر حکومت کی۔ اس کی وفات کے بعد چانکیہ نے اس کے درمیانے بیٹے کوحکمران بنا دیا جس نے 272 ق م تک حکمرانی کی۔ اس نے اپنے باپ کی قائم کر دہ سلطنت کو حفاظت سے رکھا۔ چندر گپت نے 323 ق م سے 298 ق م تک کسی دوسری طاقت کی مداخلت کے بغیر حکومت کی۔
جزل سلوکس کا حملہ ، پنجاب!
جب چندر گپت موریہ کی حکمرانی اور مغربی پنجاب کی سرکشی کی اطلاع یونان تک پہنچی تو جنرل سلوکس ( جو کہ سکندر اعظم کا نائب تھا) جلدی سے مسلح لشکر لے کر شور کوٹ پہنچ گیا۔ اس نے ایک زبر دست حملہ کر کے چندر گپت موریہ کو شکست دی اور خود پنجاب پر قبضہ جمالیا اور بعد میں جنرل سلوکس دہلی کی طرف بڑھنا ہی چاہتا تھا کہ اس کے خلاف ایک طاقتور بغاوت شروع ہو گئی تو اس نے اسی پریشانی کے عالم میں دہلی کی طرف چڑھائی کو روک دیا اور چندر گپت موریہ سے باہم موافقت کر کے پنجاب کی حکومت اسے سونپ دی اور اپنی بیٹی کی شادی بھی چندر گپت موریہ سے کر دی۔ جنرل سلوکس نے اپنی بیٹی کو خوش رکھنے کے لیے یونان سے ساتھ آئے ہوئے چند خاندانوں کو اسی علاقہ میں ٹھہرا دیا اور بعد میں یہ قبائل ٹیکسلا، ملتان سے چنیوٹ تک کے علاقوں میں آباد ہو گئے ۔ ان کی اولاد آج بھی ان علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔ وینس اور لانگ وغیرہ خاندان انہی یونانیوں کی نسل میں سے ہیں ۔
اشوک کا دور حکومت:
298 ق م میں جب چندر گپت کا انتقال ہو گیا تو اس کے بیٹے بینو سورا گپت نے اور پھر اس کے پوتے اشوک (جو شہنشاہ اشوکا کے نام سے مشہور ہوا) نے نظام سلطنت سنبھال لیا۔ اشوک نے بدھ مت مذہب اپنا لیا تھا۔ اپنے زمانہ حکمرانی میں اس نے اس مذہب کو از حد وسعت دی اور کئی مقامات پر بڑے بڑے مندر تعمیر کروائے۔ شورکوٹ، موضع مسن (جھنگ) اور واڑہ سلیمان (چنیوٹ ) میں شہنشاہ اشوکا کے مندروں کے نشانات اب بھی ظاہر ہیں ۔ ان مندروں میں اشوکا نے مہاتما بدھ کے مجسمے بنوائے اور تانبے کے سکے بنوائے جن کی ایک طرف مہاتما بدھ کی تصویر اور دوسری طرف اشوک کی شکل کندہ تھی ۔ وہ اب بھی کئی لوگوں کے پاس موجود ہیں۔ 185 قبل مسیح تک اشوک کی سلطنت برقرار رہی۔ اس کے بعد اس کا لڑکا اس سلطنت کا بادشاہ بنا جس کی حکمرانی 126 ق م تک قائم رہی۔ اس زمانے میں چنیوٹ کا نام ” سکائیا“ رکھا گیا تھا۔ اور چنیوٹ ایک صوبہ کی حیثیت سے تھا جس کا علاقہ جھنگ سے سیالکوٹ تک تھا اور اس دور میں دریائے چناب کا نام ” ایکسیائن رکھا گیا تھا۔
باختر کے بادشاہ انراڈی ٹس کا دور حکومت:
باختر کے بادشاہ انراڈی ٹس نے 126 قبل مسیح میں پنجاب پر حملہ کر دیا اور چندر گپت قبیلہ کو شکست دے کر تمام علاقہ قبضہ میں لے لیا۔ اس نے بغیر کسی خوف وخطرے کے حکمرانی کرنا شروع کر دی۔ اسی سال یونان سے ملک بدر ہونے والا ایک ” بگرین نامی خاندان جو مختلف ملکوں میں گھوم رہا تھا اس نے ہنگامہ آرائی شروع کر دی۔ اس خاندان کے لوگ بہت بہادر اور لڑا کے تھے ۔ انہوں نے ملتان، کروڑ کوٹ ، شورکوٹ ، اموانی اور چنیوٹ کی ریاستوں کو فتح کر لیا اور اپنی حکمرانی جما کر بیٹھ گئے ۔ پنجاب کا جو علاقہ باقی بچا اس پر اہل باختر ہی حکمران رہے ۔ باختر کے بادشاہ انراڈی ٹس نے مقامی سلاطین کو اور زیادہ رعایتیں دیں اور ان سے سرکشی کروا کر گرین خاندان کو اپنے علاقہ سے باہر بھگا کر علاقہ خالی کروانے پر رضامند کر لیا۔ اس مسلح سرکشی کی وجہ سے بگڑرین خاندان کو شکست کھانا پڑی اور ان کا سربراہ بھاگ کر بھکر کی طرف جانے کیلئے تریموں گھاٹ سے گزررہا تھا کہ انراڈی نس کی فوج نے اسے پکڑ کر پھانسی پر لٹکا دیا۔ اور انراڈینس کی حکومت دوبارہ پنجاب پر مضبوط ہو گئی لیکن عملی طور پر مقامی سلاطین ہی حکمران تھے جن میں سے اکثر چندر قبیلہ ہی سے تھے۔ باختر کے بادشاہ انراڈی ٹس کی 98 ق م تک حکمرانی برقرار رہی
یو چی اور کشان اقوام کا دور حکومت:
چین کی یوچی قوم کا سردار گڈ فائس اول اور کشان قوم کا سردار آزلیس اول 98 قبل مسیح میں مسلح فوج لے کر اٹھے اور کوہ ہندوکش کے دشوار گزار پہاڑی سلسلوں کو عبور کرتے ہوئے کا فرستان، کشمیر اور کابل پر حملہ آور ہو گئے ؟۔ ان علاقوں کو فتح کرنے کے بعد براستہ موجودہ شاہر اور ریشم، بنز و اور نگر پنجاب پر حملہ آور ہو گئے اور پانجاب فتح کر کے قبضہ جما لیا۔ 55 قبل مسیح میں گڈ فائس اول کا بیٹا گند فاکس دوئم وادی گنگا کوعبور کرتا ہوا بنارس پر حملہ آور ہو گیا۔ گڈ فائس دوم اور آزلیس دوئم کی حکومت میں افغان کا شغر بنتن، یارقند، پنجاب اور وسط ایشیاء کے جنوبی علاقے بھی شامل تھے۔ یوچی اور کشان قبائل نے 160 ء تک بڑے زورو شور سے حکومت کی۔ خران کی حکومت آہستہ آہستہ ختم ہوتی چلی گئی جس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے ملک سے کافی دور تھے۔ چندر قبیلہ کے مہاراجوں نے مل کر چینیوں پر حملہ کر دیا وہ جبکہ پہلے ہی بہت کمزور ہو چکے تھے شکست کھا کر واپس بھاگ گئے تو چندر قبیلہ نے علاقہ پر قبضہ کر لیا پھر اہل باختر پر حملہ کر دیا۔
راجہ بکرماجیت کا دور حکومت:
راجہ بکرماجیت راجپوت خاندان کی ایک شاخ پنوار میں سے تھا۔ وہ بہت ہی نیک اور عقلمند انسان تھا اس نے پچاس سال کی عمر میں سپہ گری کے میدان میں قدم رکھا۔ 57 ق م میں اس نے چینیوں اور اہل باختر کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑ کر اپنی ریاست کو آزاد کروایا۔ اس میں اتنی روشن ضمیری تھی کہ اس کے دل میں آنے والی ہر بات بغیر کسی کمی و بیشی کے عیاں ہو جاتی اور رات کو اس کی سلطنت میں ہونے والے ہر واقعہ کا دن کو اسے علم ہو جاتا تھا۔ اور اپنی رعایا کے ساتھ برادرانہ سلوک کرتا تھا۔ راجہ بکرماجیت نے اپنا دارالسلطنت اجین بنایا۔ ایک مٹی کا پیالہ اور بور یہ اس کا ترکہ تھا۔ ہندوؤں کے سال اور مہینوں کی ابتداء راجہ بکرماجیت کی وفات کے دن اور مہینے سے شروع ہوتی ہے۔ سن بکرمی کا آغا ز راجہ بکرماجیت نے ہی کیا۔ دیسی مہینے چیت، بیساکھ، جیٹھ وغیرہ بکرمی سال ہی کے مہینے ہیں۔
قبیلہ ھن کا دور حکومت:
460ء میں وسط ایشیا یورپ کی ھن قوم کا سر دار ترمان جو کہ پر تگال کا رہنے والا تھا (جس کا تعلق چنیوٹی قبیلہ سے تھا) نے پنجاب پر حملہ کر کے بہت سارے علاقوں پر اپنا قبضہ جمالیا۔ اس نے اجین” کا نام اپنے قبیلہ کے نام پر چنیوٹ رکھا۔ یہ اتنا سخت گیر حاکم تھا کہ لوگ اس سے سہم گئے تھے۔ اس نے چنیوٹ ،شورکوٹ اور ملتان پر ایک ”سانگلہ“ نامی حکمران مقرر کیا جو ان کی مدد سے حکمرانی کرتا تھا۔ سانگلہ شہر کا نام اس نے اپنے نام پر رکھا تھا -1527ء میں جب چین کا مشہور سیاح ہیون تسا تنگ تر میمو گھاٹ سے گزر کر ملتان جارہا تھا تو اس وقت پنجاب پر راجہ چہی کا کی حکمرانی تھی ۔ ” ہیون سانگ اپنے سفر نامہ میں لکھتا ہے کہ جب میں ترمیمو گھاٹ پر پہنچا تو دریا تقیانی پر تھا ۔ کشتی بھی بند تھی ۔ تقیانی کے اترنے کے انتظار میں وہیں تھوڑا عرصہ ٹھہرا۔ یہ علاقہ بڑا سر سبز و شاداب تھا“۔
پنجاب کے سلاطین سے ترکوں نے درخواست گزاری که هن قوم کا سردار ترمان بہت ظالم ہے اور اس نے اپنے ظلم کی وجہ سے ہمارا جینا دو بھر کر رکھا ہے اس درخواست پر ترکوں نے مسلح فوج لے کر حملہ کر دیا۔ کئی علاقے فتح کر کے ان پر قابض ہو گئے انہوں نے عورتوں اور بچوں کو چھوڑ کر تمام بالغ افراد کوقتل کر دیا ھن قوم کی عورتیں اور بچے مستقل طور پر پنجاب میں آباد ہو گئے ان کی نسل سرگودھا ، میانوالی، جھنگ اور ملتان کے غربی علاقوں میں اب بھی موجود ہے۔
رانی پدما کا حملہ اور مہر گل کا قتل:
حن قبیلہ کا سردار ترمان بہت ظالم حکمران تھا۔ وہ اپنے زیر نگیں علاقے کے لوگوں پر ظلم کرتا اور ان کو بلا وجہ تنگ کرتا تھا۔ ایک رات وہ اپنی خواب گاہ میں سویا ہوا تھا کہ کسی نا معلوم شخص نے کہیں سے چھپ کر اس پر تیر چلا دیا۔ جو اس کے پیٹ میں پیوست ہو گیا۔ جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ باپ کے قتل کے بعد اس کا بیٹا مہر گل تخت نشین ہوا۔ اس نے سلطنت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد اپنے باپ کے قاتل کی تلاش شروع کر دی۔ جب نا کام ہو گیا تو اس نے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے پوری سلطنت میں خوفناک مظالم کرنا شروع کر دیئے ۔ اس کی ان ظالمانہ کاروائیوں کو دیکھ کر بھیرہ کی رہنے والی چندر گپت قبیلہ کی رانی پر مامہر گل سے جنگ لڑنے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس بہادر اور دلیر عورت نے مالودہ کے حکمران راجہ یشودھر ھن سے فوج لیکر مہر گل پر زور دار حملہ کر دیا۔ گھمسان کی جنگ ہوئی اور مہر گل کو قتل کر کے چنیوٹ ،شورکوٹ اور بھیرہ کے علاقہ پر حکمرانی شروع کر دی۔ 530 ء دو سال تک حکمرانی کرنے کے بعد رانی پر مافوت ہو گئی اور اس کی اولا د ایک صدی تک اس علاقہ پر حکمران رہی۔ اسی خاندان کے رائے میچ نے 631ء میں اس علاقہ کو اپنے قلمرو میں شامل کر لیا۔
رائے بیچ کا دور حکومت:
631ء میں ٹھٹھ کے برہمن رائے بیچ نے سندھ تا کشمیر تک سلطنت قائم کر لی۔ سندھ ، ملتان ، کروڑ ، لیہ ، بھکر ، شورکوٹ ، بھیرہ ، برہمن گڑھ (جھنگ) ، تلواڑہ اور چاچ (چنیوٹ) کے علاقہ جات اس کے زیر قبضہ تھے یا۔ رائے بیچ کی موت کے بعد اس کا بھائی چند حکمران بنا تو اس نے اپنی ریاست کو چار صوبوں میں تقسیم کر کے ملتان سیوستان، اسکلند (چنیوٹ) اور برہمن گڑھ (جھنگ) پر اپنی حکومت قائم کی ۔ چندر 686ء میں فوت ہو گیا۔
رائے چچ کے بیٹے راجہ داہر کا دور حکومت:
686ء میں رائے میچ کے بھائی چندر کی وفات کے بعد 697ء میں اس کے بھتیجے راجہ داہر نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی۔ راجہ داہر کے قبیلہ کے لوگوں نے اس کے خلاف بغاوت کر دی اور رائے انمل ان باغیوں کو ساتھ لے کر سلطنت میں داخل ہو گیا ۔ اسی دوران عرب کے عبدالرحمن بن اشعث کا قاتل سردار محمد علافی وہاں سے فرار ہوکر سندھ میں راجہ داہر کے ہاں چھپا ہوا تھا۔ اس نے راجہ داہر کو جنگی مشورے دیئے جن سے راجہ داہر کو کامیابی ہوئی۔ یوں اس نے 15 سال تک بڑے زور وشور سے حکمرانی کی اور اپنی سلطنت میں دریائے جہلم و چناب کے کنارے اصطبل ، چوکیاں اور سرائیں تعمیر کروائیں۔ کیونکہ دریائے جہلم و چناب پر راجہ داہر کی حکمرانی تھی جو کہ 712 ء تک قائم رہی۔
نوٹ:یہ مضمون ڈاکٹر ارشاد احمد تھیم کی کتاب (تاریخ چنیوٹ) سے لیا گیا ہے۔