چینیوٹ

چنیوٹ:شاہی مسجد

ڈاکٹر امجد ثاقب

اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہونے کی خواہش روز ازل سے انسان کے ہم رکاب ہے ۔ اہل ایمان کی تو ہمیشہ سے یہ آروز رہی ہے کہ وہ اپنی ہر متاع عزیز اس ہستی کی دہلیز پر رکھ دیں جو سب سے برتر واعلیٰ ہے۔ چشم تمنا سے لے کر قلب سلیم تک ہر شے اس کی جست جو میں مگن ہے۔ چودہ سو سال سے زمین کے چپہ چپہ پر تعمیر ہونے والی مساجد بھی اسی جذ بہ عبودیت کا اظہار ہیں۔ خدا کے اولین گھر کی تعمیر کا اعزاز حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حاصل ہوا جب انھوں نے ریگ زار عرب میں اپنے دست عقیدت سے پتھر ڈھو کے کے اعتراف بندگی کا پہلا باب رقم کیا۔ خدائے لم یزل نے اس اولین کاوش کو اس قدر شرف قبولیت بخشا کہ سارا عالم یہاں سے اٹھنے والی صدائے حق کی بازگشت سے گونج اٹھا۔ سنت ابراہیمی پر چلنے کی خواہش جب بادشاہوں کے دل میں بیدار ہوئی تو عبادت گاہوں کے روپ میں سنگ و خشت کے نادر شاہکار وجود میں آئے۔ کسے خبر کہ معبود کو سنگ مرمر کا وہ آستاں پسند ہے جس سے خود نمائی اور ستایش کی آرزو جھلکتی ہو یا مٹی کا ایسا حرم اچھا لگتا ہے جس کی بنیادیں عجز و انکسار اور بندگی کے دائی احساس پہ استوار ہوں۔

جبین نیاز اس کش مکش سے دو چار نہیں ہوتی اسے تو ایک آماج گاہ کی تلاش ہے جہاں سجدہ ہائے عقیدت ادا ہوں اور جھکنے والوں کے ساتھ جھک کر شوق عبودیت کی تکمیل ہو سکے۔چنیوٹ کی شاہی مسجد کا شمار بھی ایسی ہی عبادت گاہوں میں ہوتا ہے جو بنانے والے کے لئے شہرت اور اہل ایمان کے لئے حصول فیض کا سرچشمہ ہیں۔ یہ عظیم الشان مسجد کسی بادشاہ کے خزانہ عامرہ سے تعمیر نہیں ہوئی لیکن اس کے شاہانہ جاہ وجلال سے مرعوب ہو کر اہل جہاں نے اسے بھی شاہی مسجد کے نام سے پکارنا شروع کر دیا۔ یہ مسجد حسن و جمال اور نزاکت فن کے اعتبار سے مسجد وزیر خان ، جامعہ مسجد دتی، موتی مسجد قلعہ آگرہ یا بادشاہی مسجد لاہور کی ہم پلہ تو نہیں تاہم مسلم فن تعمیر کی تمام نمایاں خصوصیات یہاں نظر آتی ہیں۔ جس وقت یہ مسجد تعمیر ہوئی اس وقت مسلم تہذیب کا قافلہ مختلف تہذیبی سرچشموں سے نمو یافتہ ہو کر ایک بھر پور تخلیقی قوت کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ فکروفن کی ان وسعتوں نے مسلم فن تعمیر میں جو آفاقیت پیدا کی وہ شاہی مسجد چنیوٹ میں پوری طرح منعکس ہوئی ہے۔ اس مسجد نے انسانی تخیل کو جس طرح متاثر کیا اس کی جھلک چنیوٹ کے ایک ہر دلعزیز استاد حیرت جلالپوری کے ان اشعار میں
موجزن ہے:

قرباں ہوں تجبل پر ترے مسجد شاہی
ہے موجہ بحرین کا تو لولوئے شاہ کار
روشن ہیں تری ضو سے ستاروں کی جبینیں
جلوے ترے پنہائے دو عالم میں ضیا بار
هر خشت یه مرقوم تری حرف ریاضت
ہر سال یہ منقش تیری شوخئی فنکار
ہر سنگ تراشیده ترا رشک نوادر
ہر رنگ میں ظاہر ہوا جو ہر معمار
ہو چاہ کی تعمیر کہ ہو حوض کی تشکیل
ہر چیز تری ندرت تخلیق کی شاہ کار
بے مثل ستوں تیرے، حسیں منبر و محراب
دالان کی دیواروں پہ منقوش ہیں گلزار
گلدانوں میں غنچے ہیں تبسم برلب
ہر پھول سے رنگینی فطرت ہے نمودار
گنبد ہیں ترے گنبد خضرا کے حدی خواں
گلشن میں عنادل کی ہو جیسے چہکار
جبریل کے نغموں میں اذانوں کا ترنم
تکبیر مسلسل سے ہیں وجد میں مینار
تسبیح ہے تحمید سے تہلیل سے ہر دم
اذکار کی اصوات سے ماحول ہے سرشار
تقدیس تری باعث تکریم مسلماں
تنویر تری شوکتِ ملت کی نگہدار
ہر شام تری نور تجلی سے فروزاں
ہر صبح تری بارش انوار سے ضو بار
مدت سے ہے زائر ترا حیرت خوش بخت
مل جائے عجب کیا جو اسے شوکتِ کردار

چنیوٹ شہر کے وسط میں واقع یہ مسجد اپنی نفاست اور خوب صورتی کی وجہ سے شہر کے جھومر کا رتبہ رکھتی ہے۔ اس کے میناروں سے وابستہ کہانیوں اور اس کے ارد گرد بکھری ہوئی زندگی کی بہار نے اسے چنیوٹ کی پہچان بنا دیا ہے۔ اس مسجد کے مینار اور در و دیوار اس خطہ کی تین سو سالہ تاریخ کے خاموش گواہ ہیں۔ یہاں سے کوئی ایسی قدیم دستاویز میسر نہیں آئی جس سے یہ اندازہ ہو سکے کہ وہ کون خوش نصیب تھا جس کی نگاہ انتخاب نے اس خطہ شوق کو پسند کیا اور نہ ہی یہ اشارہ ملتا ہے کہ اس مسجد کا سنگ بنیا د کب رکھا گیا اور کس سنہ میں اس کی تعمیر کا کام مکمل ہوا۔ عہد مغلیہ میں مرتب کی گئی تواریخ میں بھی اس مسجد کا کہیں ذکر نہیں۔ اس کے بانی اور معماروں کے نام کسی سر بستہ راز کی طرح اس کے درودیوار میں دفن ہیں۔ کچھ محققین کے مطابق یہ مسجد عہد مغلیہ سے بہت پہلے تعمیر ہوئی لیکن مقبول عام روایات کے مطابق یہ مسجد شاہ جہاں کے چیتے وزیر اعظم نواب سعد اللہ خان یا پھر اسی عہد میں پنجاب کے گورنر نواب وزیر خان میں سے کسی ایک کے ذوق جمال کی مظہر ہے۔

تاریخی دستاویزات میں اس مسجد کا ذکر سب سے پہلے مولوی نور احمد نے اپنی مشہور تصنیف تحقیقات چشتی * میں کیا ہے۔ ان کے مطابق اس مسجد کو نواب سعد اللہ خان نے مشہور تعمیراتی پتھر ، سنگ سرخ سے تعمیر کروایا تھا۔ لیکن یہ گمان قرین حقیقت نہیں کیونکہ یہاں استعمال ہونے والا پتھر سنگ سرخ نہیں بل کہ سنگ سیاہ یا سنگ ابری ہے جو عرف عام میں چنیوٹی پتھر کے نام سے مشہور ہے۔ کنہیالال ہندی اور سید محد لطیف نے پنجاب اور لاہور کے متعلق اپنی گراں مایہ تصانیف اور مولانا غلام رسول مہر نے مقدمہ مکتوبات سعد اللہ خان میں بھی اس مسجد کی تعمیر کو نواب سعد اللہ خان سے ہی منسوب کیا ہے جب کہ اس صدی کے میں تحریر کئے گئے ضلع جھنگ کے دو گزیٹیئر ز میں اس مسجد کا ذکر اس طرح مرقوم ہے:

 

It (Chiniot) boasts of a handsome mosque built by Nawab Sa’adullah khan Thahim, Governor of the town under Shah Jehan

.Imperial Gazetteer of India Vol.II Page 217, 1908

"The most prosperous days of Chiniot were during the reign of Shah Jahan, when Nawab Sa’adullah Khan Thahim was Governor. To him is due to the Shahi Mosque, one of the sights of the town-It is an exceedingly handsome edifice of hewn ston obtained from the hills near Chiniot”.

.District Gazetteer Jhang District (1929), Page16.

لیکن پنجاب کے ان گزیٹیئر ز میں دی گئی معلومات عمومی طور پر غیر سنجیدہ تحقیق کے زمرہ میں آتی ہیں کیونکہ انتظامی اور سیاسی نکتہ نگاہ سے لکھے گئے ان مضامین میں تحقیقی جست جو اور عرق ریزی کا فقدان نظر آتا ہے۔ یہ گزیٹیئر ز کاغذ کے ان پھولوں کی طرح ہیں جن سے برطانوی استعمار کے کتب خانوں کو سجایا گیا لیکن ان میں دھرتی کی اصل خوشبو اور مہک شامل نہ تھی۔ سعد اللہ خان جیسی مشہور عالم شخصیت کو چنیوٹ کا گورنر بتانا تاریخی حقائق و واقعات کا منہ چڑانے کے مترادف ہے۔ تاریخ کا ہر طالب علم اس امر سے آگاہ ہے کہ سعد اللہ خان کبھی بھی اس علاقے کا گورنر نہیں رہا۔ بل کہ وہ تو بر صغیر پاک و ہند کا پہلا مقامی وزیر اعظم تھا ( پیدائش 1595ء – وفات 1655ء ) جس کی عظمت اور دانش کے حضور سارا مغلیہ دربار سرنگوں رہتا تھا۔ ایسے لگتا ہے کہ ان گزیٹرز کے مصنفین نے مشہور عام روایات کو حقیقت کی کسوٹی پر پر کھے بغیر ان گز بیٹرز کا حصہ بنا دیا۔

ڈاکٹر عبداللہ چغتائی نے جس انفرادی خصوصیت کی بناء پر اس مسجد کو عہد مغلیہ کی تعمیرات سے الگ کیا ہے ہو سکتا ہے وہ امتیاز سعد اللہ خان یا کسی اور نے دانستہ اس عمارت میں متعارف کروایا ہو۔ آداب شنہشاہی کا تقاضا ہے کہ شاہی عمارات کے مقابلہ سے پر ہیز کیا جائے ۔ شاید اسی لئے مسجد کی تعمیر میں اس دور کے مقبول تعمیراتی پھر سنگ سرخ یا سنگ مرمر کی جگہ مقامی چنیوٹی پتھر کا استعمال کیا گیا ہے تاہم اس پتھر کا استعمال اس امر کی نشاندہی ضرور کرتا ہے کہ یہ مسجد کسی ایسے شخص نے تعمیر کروائی ہے جو چنیوٹ کا رہنے والا تھا اور یہاں کی مٹی کی محبت اس کے خمیر میں گندھی ہوئی تھی۔ اسی لئے اس کے حسنِ نظر نے اس مقامی پتھر کا انتخاب کیا جس کی چٹانیں دریائے چناب کے دوسرے کنارے شتاب گڑھ نامی گاؤں میں آج بھی موجود ہیں۔ اگر ہم چنیوٹ کے مسلم عہد کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں نواب سعد اللہ خان اور نواب وزیر خان کے علاوہ کوئی اور ایسی شخصیت نظر نہیں آتی جو بے شمار مالی وسائل کے علاوہ اس قدرشستہ اور نفیس ذوق کی حامل بھی ہو جس کا اظہار مسجد کے درو دیوار سے ہوتا ہے ۔

آثار قدیمہ کے مشہور ماہر ولی اللہ خان نے مختلف تعمیراتی شواہد کی روشنی میں ان مقامی روایات کی تائید کی ہے جن کے مطابق یہ مسجد چنیوٹ کے قریب موضع پترا کی میں آباد ایک عربی الاصل قوم تھہیم کے فرزند نواب سعد اللہ خان کی تعمیر کردہ ہے۔ یہاں کے بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ سعد اللہ خان کم عمری میں ہی اپنے والدین کے سایہ عاطفت سے محروم ہو گیا تو اسے چنیوٹ میں دفن ایک مشہور صوفی بزرگ حضرت شاہ برہان کے دامن میں پناہ ملی اور انھوں نے ہی اس کی ابتدائی پرورش اور نگہداشت فرمائی۔ حضرت شاہ برہان کے انتقال کے بعد جب سعد اللہ خان اپنے وطن واپس آیا تو اس نے از راہ عقیدت اپنے مرشد کے مقبرے کی تعمیر شروع کروائی۔ ایک روز خواب میں حضرت شاہ برہان کی زیارت ہوئی تو انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر تم میرے مقبرے کی بجائے چنیوٹ میں بندگان خدا کے لئے ایک مسجد تعمیر کروا دیتے ۔ کہتے ہیں کہ اس خواب کے اگلے روز ہی سعد اللہ خان نے شاہی مسجد چنیوٹ کی تعمیر کا حکم دے دیا۔ اس حقیقت سے تو کسی کو انکار نہیں کہ سعد اللہ خان تصمیم خاندان سے ہی تعلق رکھتا تھا لیکن اس کی حضرت شاہ برہان سے نسبت کوئی معتبر روایت نہیں ہے۔

نواب سعد اللہ خان کی ابتدائی زندگی کے اوراق صفحہ ہستی سے ناپید ہیں۔ اس عہد کے مشہور محقق بزمی انصاری نے اپنی ایک تفصیلی تحقیق میں سعد اللہ خان کی زندگی کے مختلف گوشوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے جس میں انھوں نے اس مسجد کی تعمیر کے متعلق مروجہ روایات اور اس ضمن میں ولی اللہ خان کے نکتہ نظر اور دلائل کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق سعد اللہ خان کے دامنِ فضیلت میں اور بہت سے اعزاز جمع ہیں لیکن یہ مسجد اس نے نہیں بل کہ اسی عہد میں پنجاب کے گورنر علم الدین انصاری المعروف نواب وزیر خان نے تعمیر کروائی تھی۔ اپنے موقف کے حق میں انھوں نے کئی ایک تاریخی حوالوں اور واقعات سے جو نتائج اخذ کئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے:

1: چنیوٹ کی شاہی مسجد کو سعد اللہ خان سے منسوب کرنا ہنوز محتاج ثبوت ہے۔ تاریخی کتب میں سب سے پہلے مولوی نور احمد چشتی نے اس مسجد کو نواب سعد اللہ خان سے منسوب کیا ۔ چشتی کے اس بیان کو ضلع جھنگ کے گزیٹر اور اس کے اتباع میں سید محمد لطیف نے تاریخ لاہور میں دھرایا۔ اس کے علاوہ کہیں یہ سراغ نہیں ملتا کہ اس مسجد کا بانی سعد اللہ خان تھا۔ نور احمد چشتی کی تحقیقی کاوش کا تو یہ عالم ہے کہ انھوں نے اس مسجد میں استعمال ہونے والے سنگ ابری کو سنگ سرخ بتایا ہے اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ انھوں نے شاہی مسجد چنیوٹ کو دیکھا تک نہیں تھا۔ لہذا ان کا یہ کہنا کہ یہ مسجد نواب سعد اللہ خان کی بنائی ہوئی ہے پائیہ اعتبار سے ساقط ہے۔ اس روایت کا دوسرا ماخذ گزیٹر ڈسٹرکٹ جھنگ ہے جس کی تاریخی حیثیت ہرگز مسلم نہیں ہے۔ اس کے مصنف نے تو سعد اللہ خان اور وزیر خان کی شخصیات میں کوئی امتیاز ہی روانہ رکھا ہے اور دونوں کے حالات آپس میں گڈ مڈ کر کے ایک نئی تاریخی الجھن کو جنم دیا ہے۔

2: عوام الناس کی زبانوں پر چنیوٹ کی اس قدیم تاریخی مسجد کا نام ”شاہی مسجد چڑھا ہوا ہے اور سرکاری دستاویزات اور ضلعی گزیٹرز تک میں اسے شاہی مسجد کے نام ہی سے موسوم کیا گیا ہے۔ اگر یہ مسجد سعد اللہ خان کی تعمیر کردہ ہوتی تو اس کا نام بھی اس کی مناسبت سے مسجد سعد اللہ خان ہونا چاہئے تھا۔ جیسا کہ لاہور کی مسجد وزیر خان آج تک اپنے بانی کی یاد تازہ کر رہی ہے۔ چنیوٹ کی اس مسجد کو شاہی مسجد کہا جانا اس امر کی قوی دلیل ہے کہ اس کا بانی کوئی بادشاہ ہو نہ ہو سعد اللہ خان ہرگز نہیں ہو سکتا ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ سعد اللہ خان کے خرچ سے تعمیر ہونے والی مسجد کا نام شاہی مسجد مشہور ہو جاتا ۔

3: عہد مغلیہ کی ایک مشہور تاریخ تآثر الامراء میں مذکور ہے کہ نواب سعد اللہ خان نے ہندوستان کے شہر متھرا میں ایک مسجد تعمیر کی تھی لیکن مصنف نے چنیوٹ کی کسی مسجد یا عمارت کو اس سے منسوب نہ کیا تھا۔ اگر سعد اللہ خان نے چنیوٹ میں بھی کوئی مسجد بنوائی ہوتی تو اس تذکرہ میں اس کے ذکر میں کیا امر مانع تھا۔ جبکہ اسی مصنف کے مطابق نواب وزیر خان نے چنیوٹ میں کئی ایک عمارات ، شفا خانے ، مدر سے ، تالاب اور مساجد بنوائی تھیں۔ .

4: ولی اللہ خان صاحب کے مطابق * چنیوٹ کی شاہی مسجد میں دتی کی مشہور زمانہ جامعہ مسجد کی تعمیری خصوصیات کا عکس نظر آتا ہے لیکن ان کا یہ کہنا کہ مسجد چنیوٹ کا مشرقی اور شمالی دروازہ بہت حد تک جامعہ مسجد دتی کے دروازوں سے مماثلت رکھتے ہیں اور جامعہ مسجد دتی کے انھیں دروازوں سے متاثر ہو کر سعد اللہ خان نے چنیوٹ کی شاہی مسجد میں یہ طرز تعمیر اپنایا، درست نہیں ہے کیونکہ ولی اللہ خان صاحب کی اپنی تحقیق کے مطابق شاہی مسجد چنیوٹ کا سن تعمیر 1058ھ (1648ء) ہے جبکہ جامعہ مسجد دتی کے ساتویں اور آٹھویں دروازے پر موجود کتبات اور سرسید احمد خان کی تصنیف آثار الصنادید کے مطابق جامعہ مسجد دتی کی بنیاد1060ھ (1650ء) میں رکھی گئی تھی۔ گویا جامعہ مسجد دلی کا سنگ بنیاد رکھنے سے قبل چنیوٹ کی مسجد مکمل ہو چکی تھی یا تکمیل کے قریب تھی اس لئے یہ کہنا کہ چنیوٹ کی مسجد کے دروازے دلی کی جامعہ مسجد سے متاثر ہوکر بنائے گئے ، قرین قیاس نہیں ہے۔

5: ولی اللہ خان کی ایک دلیل یہ ہے کہ سعد اللہ خان کے صاحبزادے حفیظ اللہ خان عرف میاں خان کے مقبرہ واقع لاہور میں بھی چنیوٹی ابری پھر استعمال ہوا ہے۔ گویا سعد اللہ خان نے چنیوٹ میں مقامی پتھر کے استعمال کی جس روایت کا آغاز کیا تھا اس کے ورثاء نے اس روایت کے تسلسل کو برقرار رکھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سعد اللہ خان کے فرزند میاں خان کے مقبرہ واقع موضع بھوگی وال لاہور میں جو پتھر استعمال کیا گیا ہے وہ چنیوٹ کے گردو نواح کی پہاڑیوں سے حاصل کیا گیا تھا اور یہی پھر شاہی مسجد کی تعمیر میں بھی استعمال ہوا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ تو اخذ ہو سکتا ہے کہ سعد اللہ خان کے ورثاء نے چنیوٹی پتھر استعمال کر کے ایک روایت کو آگے بڑھایا ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اس روایت کی بنیاد ہی سعد اللہ خان نے ڈالی تھی خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہیں ۔

6: ولی اللہ خان صاحب شاہی مسجد چنیوٹ کے پیش کمروں (Anterooms) کے طرز تعمیر پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ برصغیر کے شمال مغربی علاقہ میں تعمیر ہونے والی مساجد کے فن تعمیر میں سب سے پہلے یہ خصوصیت مسجد وزیر خان لاہور میں نظر آتی ہے۔ یعنی ولی اللہ خان خود تسلیم کرتے ہیں کہ پیش کمروں کی تعمیر کا انداز جو مسجد چنیوٹ میں فنی اعتبار سے بہتر صورت اختیار کر گیا ہے وہ سب سے پہلے ہمیں مسجد وزیر خان میں نظر آتا ہے۔ گویا شاہی مسجد چنیوٹ کی یہ خصوصیت مسجد وزیر خان کی ایک بہتر اور ترقی یافتہ شکل ہے۔ یہ تعمیرانہ مماثلت بھی اس دلیل کو تقویت دیتی ہے کہ دونوں مساجد کا بانی ایک ہی شخص تھا اور وہ شخص نواب وزیر خان کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا۔

بزمی انصاری کے ان محققانہ دلائل کے باوجود شاہی مسجد چنیوٹ کے بانی کا حتمی تعین ممکن نہیں ۔ اگر ان کے نکتہ نظر کی روشنی میں یہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہ مسجد نواب وزیر خان کی تعمیر کردہ ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح لاہور میں ان کی تعمیر کردہ مسجد وزیر خان کے بارے میں وافر تاریخی اور دستاویزی شواہد موجود ہیں تو ایسے ثبوت اور شواہد چنیوٹ کی مسجد کے بانی کے متعلق کیوں میسر نہیں ہیں۔ نواب وزیر خان نے لاہور میں تعمیر کردہ اپنی پر شکوہ مسجد کے انتظام و انصرام کے لئے ایک یادداشت بھی مرتب کی تھی جس میں دیگر ہدایات کے علاوہ مسجد سے ملحقہ جائیداد اور دکانوں سے ہونے والی آمدنی کو مسجد کے لئے وقف کیا گیا تھا تا کہ مستقبل میں اس عالیشان مسجد پہ اٹھنے والے اخراجات کے لئے ہر در نیاز پہ دستک نہ دینی پڑے۔ لیکن ایسی کوئی تفصیلی تحریر یا ہدایات شاہی مسجد چنیوٹ کے بارے میں دستیاب نہیں ہیں۔ اگر یہ مسجد بھی نواب وزیر خان کے جذبہ دینی کا اظہار ہوتی تو اس کے متعلق کوئی وصیت نامہ تحریر کرنے میں کیا قباحت پیش آئی۔ مزید برآں اگر پہلی دلیل کی روشنی میں یہ تسلیم کر لیا جائے کہ کسی بھی تاریخی مسجد کا اس کے بانی کے نام سے منسوب ہونا ضروری ہے تو مسجد وزیر خان کے نام کے برعکس اس مسجد کا نام شاہی مسجد کیوں رکھ دیا گیا۔

یہ ساری بحث اور جست جو ابھی حتمی شواہد کی منتظر ہے۔ کسی تاریخی حقیقت کا پہلا سرا کھو جائے تو اس کی بازیابی ایک مشکل مرحلہ بن جاتی ہے۔ شاہی مسجد چنیوٹ پر ہی کیا موقوف ہم اپنی اور بھی بہت سی سنہری روایات کے نکتہ آغاز کھو چکے ہیں جن تک پہنچنے کے لئے تاریخ بینی سے بڑھ کر خود بینی و خود شناسی کے مراحل طے کرنا پڑتے ہیں۔ ان مراحل تک رسائی مورخین کے بس کی بات نہیں۔ یہ منازل سر کرنے کے لئے تو کسی صاحب نظر کا فیض درکار ہے۔ مورخین سے تو یہ قضیہ طے نہ ہو سکا اب شاید کوئی صاحب بصیرت آئینہ ایام میں جھانک کر بتا سکے کہ اس عظیم مسجد کی تعمیر کا اصل اعزاز کسے حاصل ہوا تھا۔ جب تاریخ کے لبوں پہ مہر سکوت ثبت ہو جائے تو وجدان کی اقلیم کا آغاز ہوتا ہے۔

عمارتی تفصیل:

شاہی مسجد کا رقبہ 10/86 شرقاً غرباً اور 9/1/2 – 9/7 شمالاً جنوبا ہے۔ اس پیمائش میں بیرونی سہہ سرخی سیڑھیاں شامل نہیں ہیں۔ مشرقی سیڑھیوں کا رقبہ 13 × 20 اور شمال کی جانب واقعہ سیڑھیوں کا رقبہ 6 – 612 – 22 ہے۔ ایوان مسجد، جو تین درجوں میں ہے۔ 19 – 9/7 لمبا اور – 31 112 7 چوڑا ہے۔ مسجد کی چھت اور وہ حصہ جس پر تین گنبد تمیر میں سنگی ستونوں پر ایستادہ ہے۔ ستونوں کی چار قطاریں ہیں اور ہر قطار میں آٹھ ستون ہیں۔ پتھر کے یہ ستون بڑی نفاست سے تراشے گئے ہیں۔ انھیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قطاروں میں چاک و چوبند خدام کھڑے ہیں جنھوں نے چھت کے بوجھ کو اپنے شانوں پر اٹھارکھا ہے۔
ستونوں کا یہ نظام جس پر چھت قائم ہے اس مسجد کی سب سے منفر د خصوصیت ہے۔ یہ نظام کشمیر یادتی کی ان مساجد سے مستعار لیا گیا ہے جو عہد مغلیہ سے قبل سلاطین دتی کے دور میں تعمیر ہوئی ہیں۔ اس طرح کے ستون دیوان عام قلعہ دتی اور دیوان عام قلعہ آگرہ میں بھی موجود ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ انھی دیوان ہائے عام کے سائے میں گزرتے ہوئے کسی نے اس نظام کو مسجد کے لئے پسند کیا ہو۔ ان ستونوں کی ترتیب سے مسجد کی چھت مربع اور ہشت پہلو حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ ہر حصہ نقش و نگار سے مزین ہے جن میں بڑے سادہ اور مدھم رنگ استعمال کئے گئے ہیں۔ یہی سادگی، منقش دیواروں پر بھی نظر آتی ہے۔

سجدہ ہائے عقیدت کا تقاضا ہے کہ چشم عبودیت کے روبرو سادگی ہی رہے ورنہ نگاہ اور خیال کے بھٹکنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ ایوان مسجد کی یہ اندرونی نقاشی کئی ایک امتیازی اوصاف کی حامل ہے یہ نقاشی مسجد مریم زمانی لاہور (1614ء) اور مسجد وزیر خان ( 35 – 1634 ء ) سے اس اعتبار سے مختلف ہے کہ پہلی دونوں مساجد کے اندرونی حصوں کو نقاشی سے مکمل طور پر بھر دیا گیا ہے مگر شاہی مسجد چنیوٹ میں نقاشی کی الگ الگ تختیاں ہیں جن کے درمیان خالی جگہ چھوڑی گئی ہے۔ گو اس مسجد کو جامع مسجد دتی کا عکس کہا جاتا ہے لیکن اس کی یہ نقاشی اپنی خوش نمائی اور صناعی میں جامع مسجد دتی کے نقش ونگار اور کتبوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی جہاں خطاطوں اور خوش نویسوں کا موئے قلم اپنے فن کے عروج پہ ہے۔

صحن کے شفاف فرش کی زیبائش قابل دید ہے۔ اسے جبین نیاز نے صدہا برس کی سجدہ ریزی سے اور ملائم کر دیا ہے ۔ یہ فرش اور مسجد کا صحن 5 – 70 6 – 71 ہے۔ جس کے وسط میں وضو کے لئے 8 – 118 مربع کا حوض ہے جو وضو کے لئے استعمال ہونے کے علاوہ صحن کی خوب صورتی کو بھی دو بالا کرتا ہے۔ ابتداء میں یہ حوض 14 – 20 مربع کا تھا تا ہم مرمت کے بعد اس کی وسعت میں کچھ کمی ہوگئی ہے لیکن اس کی موزونیت اور خوب صورتی کی حدود کا ابھی بھی شمار نہیں ۔ مسجد کے ایوان، حجروں اور فرش کا احاطہ کرنے کے بعد جب نگاہ اس حوض تک پہنچتی ہے تو فرحت اور شگفتگی کا احساس بیدار ہوتا ہے۔ اس حوض میں بہہ کر آنے والا پانی تین سو سال سے نمازیوں کے زیر استعمال ہے۔ اس نیم شفاف پانی میں ہمارا درخشاں ماضی ہی نہیں مستقبل کی امیدیں بھی جھلملاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ صحن مسجد کے وسط میں موجود واحد فوارہ کسی چشمہ حیات کی مانند ہے۔ وسیع وعریض صحن میں یہ اکیلا فوارہ گویا اسلام کے فکری نظام وحدانیت کا علم بردار بن کے کھڑا ہے۔ اس سے لپکنے والی ہر بوند اس امر کا اعلان کرتی ہے کہ یہ خدا ہی تو ہے جس نے آسمان سے انسان کے لئے پانی برسایا اور اس پانی سے صحرائے زندگی کو گلستان بنا دیا۔ وضو کے لئے مختص اس حوض میں پانی کی فراہمی کے لیے مسجد کے صحن سے باہر ایک بہت بڑا کنواں بنایا گیا تھا، جس کا پانی زمین روز نالیوں سے گزر کر تالاب تک پہنچتا اور پھر نمازیوں کے دست و پا کی آلائشیں سمیٹ کر صحن کے نیچے سے ہوتا ہوا مسجد کے باہر واقع باغیچے کو سیراب کرتا۔ اس بیرونی باغیچے کے وسط میں بھی ایک خوب صورت تالاب ہوا کرتا تھا جہاں کئی ایک چھوٹے بڑے فوارے نصب تھے۔ پانی کی نکاسی کا یہ زیر زمین نظام اس قدر اعلیٰ ہے کہ تین صدیاں گزرنے کے باوجود اس میں کوئی نقص پیدا نہیں ہوا۔ معماروں کی مشاقی اور حسن تعمیر کی اس سے بڑی گواہی اور کیا ہوسکتی ہے۔ اس نظام میں صرف اس قدر تبدیلی کی گئی ہے کہ بیرونی کنواں بند کر کے اب ایک جدید ٹیوب ویل کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔

مسجد کے صحن کے دونوں جانب شمالاً اور جنو با حجرے تعمیر کئے گئے ہیں جنوب کی جانب پانچ حجرے اور شمال کی جانب چار حجرے اور ایک سیڑھی ہے۔ ان حجروں کی موجودگی سے پتہ چلتا ہے ہے کہ یہ مسجد کبھی دینی درسگاہ کا کام بھی دیتی تھی۔ یہاں روشن ہونے والی علم کی شمعوں سے نجانے کتنے دلوں کی جہالت کا پردہ چاک ہوا۔ ان حجروں کی مرمت کے بعد یہاں ، چنیوٹ میں منبت کاری کے قدیم فن کو ذہن میں رکھتے ہوئے ٹکڑی طرز کے خوب صورت چوبی دروازے نصب کئے گئے ہیں۔ ایوان مسجد کے دائیں اور بائیں جانب بھی بغلی کمرے ہیں۔ گو اس طرح کے کمرے مسجد وزیر خان لاہور میں بھی موجود ہیں لیکن
وسعت میں چھوٹے اور نسبتا تاریک ہونے کی وجہ سے استعمال کے قابل نہیں۔ صحن مسجد سطح زمین سے تقریباً 15 فٹ بلند ہے گویا خدا کے گھر میں داخل ہوتے ہی انسان دنیا کی آلائشوں سے بلند ہو جاتا ہے ۔ مسجد کے زیریں حصہ میں بازار کارخ کئے چاروں جانب حجرے اور دو کا نہیں ہیں جہاں آج بھی کاروباری گہما گہمی عروج پر رہتی ہے۔ مسجد اور اس سے ملحقہ دکا نہیں زندگی کے دو مختلف راستوں ، دنیا اور عاقبت کی نشاندہی کر کے اس اکائی میں ڈھل جاتی ہیں جو دین کہلاتی ہے۔

کاروبار حیات اور یاد خدا کا باہم امتزاج ہی اصل اسلام ہے۔ ہم دین اور دنیا کو الگ کرنے کی کوشش میں یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ اللہ اکبر کی صداؤں تلے ہونے والا کا روبار ہی باعث فلاح و نجات ہے۔ بیرونی باغیچے کی جانب کھلنے والے مجروں میں محکمہ اوقاف کے دفاتر قائم ہیں جبکہ جنوب کی طرف حجروں میں پولیس قومی رضا کاروں کا بسیرا ہے۔ مسجد کے مرکزی دروازے کے رو برو ایک وسیع و عریض باغ کے آثار موجود ہیں۔ جب یہ مسجد تعمیر ہوئی تو پورے برصغیر میں مسلمانوں کا طوطی بولتا تھا۔ وسعت اقلیم کی مناسبت سے یہ مسجد اور اس کا بیرونی باغ بھی تاحد نگاہ پھیلے ہوئے تھے۔ سلطنت کا شیرازہ بکھرتے ہی جب عظمت کا سورج گہنا گیا تو مسجد کے ساتھ باغ کی حدود بھی سمٹ گئیں۔ جس طرح آج مسجد کے ایوان نمازیوں کے وجود کو ترستے ہیں اسی طرح کل کا یہ جڑا ہوا باغ بھی گل ولالہ کی راہ تکتا ہے۔

مختلف ادوار:

شاہی مسجد کے میناروں سے اللہ اکبر کی صدا بلند ہو تے تین صدیاں گزرچکی ہیں۔ ان تین صدیوں میں یہ نام لینے والے کئی بار عروج اور زوال کی دھوپ چھاؤں سے گزرے۔ گویا یہ مسجد ہماری عظمت اور رسوائی کی عینی شاہد بھی ہے۔ پہلی دو صدیاں تو یہاں کے مسلمان عروج اور سر بلندی کی ہر نعمت سے بہرہ ور رہے لیکن انیسویں صدی کے اوائل سے ہی زوال کے گہرے اندھیروں نے انھیں اپنی اپنی گرفت میں جکڑ لیا۔ یہ وہ وقت تھا جب شمشیر و سناں کی جگہ طاؤس و رباب نے لے لی اور رنجیت سنگھ جیسا طالع آزما ایک عذاب کی صورت میں نمودار ہوا۔ ان دنوں ناموس مسلم کی ارزانی کا یہ عالم تھا کہ مساجد میں اصطبل بن رہے تھے اور عزتیں خاک ہو رہی تھیں۔ 1806ء کے لگ بھگ جب سکھوں نے چنیوٹ کو زیرنگیں کیا تو اس قت جہاں اس شہر میں بے شمار مسلمان تہہ تیغ ہوئے وہیں اس تاریخی مسجد کی حرمت کو بھی پامال کیا گیا۔ جس نفاست اور ذوق سے اس کی تعمیر عمل میں لائی گئی تھی اسی بے دردی سے اسے لوٹ کے ویران کیا گیا۔ تاہم ابتلا اور آزمائش کے اس دور میں بھی یہ مسجد اہل ایمان کو راہ حق کی طرف بلاتی رہی اور مخل امید سوکھنے نہ پایا۔ کچھ ہی عرصہ بعد ظلم وستم کی یہ آندھی بھی گزرگئی اور یہ مینار پھر سے خدائے وحدہ لاشریک کی حمد وستائیش کے لئے وقف ہو گئے ۔
۔
انیسویں صدی کے اختتام سے لے کر قیام پاکستان تک یہ مسجد چینوٹ کے مسلمانوں کے لئے ایک اہم سماجی اور سیاسی مرکز کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس کے میناروں نے مسلم نشاۃ ثانیہ کے کئی قافلوں کو یہاں سے گزرتے ہوئے دیکھا۔ جب وقت کے آنگن میں بیسویں صدی کی کونپلیں کھل رہی تھیں تو اس مسجد کے بیرونی باغ میں چنیوٹ کے مسلمانوں کا ایک تاریخ ساز اجتماع منعقد ہوا جس میں انجمن اسلامیہ چنیوٹ کی بنیاد رکھی گئی ۔ اسی اجتماع میں اسلامیہ سکول کے نام سے ایک چھوٹا سا دیا بھی روشن ہوا جس کی لو سے رفتہ رفتہ چنیوٹ کا ہر گھر منور ہو گیا۔ مسجد کے اندرونی صحن میں بھی کئی ایک تاریخ ساز اجتماعات منعقد ہوئے اور بڑے بڑے شعلہ نوا خطیبوں نے یہاں سے مسلم قومیت کی حقانیت کا نعرہ بلند کیا۔ عطاء اللہ شاہ بخاری جیسے مرد حر کی آتش نوائی کی بازگشت آج بھی ان درودیوار میں محفوظ ہے۔
قیام پاکستان سے قبل مسجد کی دیکھ بھال اور انتظام وانصرام چنیوٹ کے معزز اور صاحب ثروت مسلم گھرانوں کے ذمے تھا اور یہ اعزاز اکثر اوقات وراثتاً آگے منتقل ہوتا رہا۔

ان دنوں مسجد کی حالت نا گفتہ تھی۔ اندرونی فرش اکھڑا ہوا تھا۔ خوب صورت نیل بوٹوں اور رنگ در دخن پر فکر مسلم کی طرح گردو غبار کی تہیں جم گئی تھیں۔ بیرونی باغیچے کے خزاں رسیدہ درخت ہوا کے کسی خوش گوار جھونکے کے منتظر تھے۔ وسائل کی کمی کے باعث اس عظیم عمارت کے حسن پارینہ کی بحالی کا کام ممکن نہ تھا۔ قوموں کی زندگی میں ایک مرحلہ ایسا بھی پڑتا ہے کہ اپنے گراں بہادر ثے کی حفاظت اور آرایش بھی ممکن نہیں رہتی ۔ آج سے بہتر سال قبل کی ایک تحریر میں اس خستگی کا بڑا دل سوز نقشہ نظر آتا ہے:

مسجد کا اندرونی فرش نہایت خراب اور خستہ حالت میں ہے۔ جابجا پلستراڑ چکے ہیں اور انٹیں ننگی ہورہی ہیں۔ بیرونی فرش بھی کوئی ایسی اچھی حالت میں نہیں۔ صفائی پوری طرح نہیں ہوتی ۔ شاذ و نادر ہی فرش دھویا جاتا ہے جس سے مٹی فرش پر عموما جمی رہتی ہے۔ گنبد اور دیواروں کے چونے کے پلستر اس قدر پرانے ہو چکے ہیں کہ اب ان کا رنگ سیاہ ہو چکا ہے اور چونے پر تارکول کا شبہ ہوتا ہے۔ صفیں پھٹی پرانی اور کم ہیں شامیانے تباہ و برباد اور نہایت خستہ حالت میں ہیں۔

کہتے ہیں کہ 1946ء میں مسجد کی مرمت کی ایک کوشش کی گئی تھی لیکن مسلمانوں کی معاشی پسماندگی اور باہمی چپقلش اس بار گراں کو اٹھانے کی متحمل نہ ہو گی۔ اس پر مستزاد یہ کہ مسجد سے ملحقہ سکول اور کچھ جائیداد جو مجد کی ملکیت تھی مسجد کمیٹی اور انجمن اسلامیہ چنیوٹ کے درمیان کئی بار تنازعہ کا باعث بنی۔ یہاں تک کہ ذاتی مخاصمت کے یہ چھینٹے مسجد کے بلند میناروں تک پہنچتے رہے۔ زوال محض اقتدار سے محرومی کا نام نہیں۔ فکر و نظر کی پستی بھی اس زمرے میں آتی ہے۔ اس زوال اور پستی کا شاخسانہ ہے کہ یہ ہزار عقیدت تعمیر ہونے والی یہ مجد، ٹوٹے ہوئے پلستر ، اکھڑے ہوئے فرش اور مٹتے ہوئے نقش و نگار لیے ماضی کو پکارتی رہی اور ایک طویل عرصہ کسی اہل دل نے اس پکار پر لبیک نہ کہا۔

مرمت۔ اہتمام جدید:

پاکستان بننے کے کچھ عرصہ بعد تک یہ صورت حال برقرار رہی حتی کہ 1960ء میں محکمہ اوقاف نے اس مسجد کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ 1963ء میں عمارت کی مرمت کے لئے ایک لاکھ پچاس ہزار روپے کا تخمینہ لگایا گیا جے محکمہ اوقاف کی جانب سے منظوری بھی حاصل ہوئی لیکن ماہرین فن کی عدم دستیابی کے باعث یہ منصوبہ تکمیل پذیر نہ ہوا اور عمارت کی زبوں حالی میں اضافہ ہوتا رہا۔ 13 اپریل 1968ء میں مسجد کے لئے ایک نئی تعمیراتی کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے تعمیر نو کی راہ میں حائل مشکلات کا دوبارہ جائزہ لیا۔ ابتدائی تخمینے پر نظر ثانی کر کے اسے پانچ لاکھ روپے تک بڑھا دیا گیا لیکن اس بار بھی کچھ وجوہات کی بناء پر کام کا آغاز نہ ہو سکا ۔ 1972ء میں ولی اللہ خان مرحوم کی زیر نگرانی تعمیر نو اور تزئین کے حتمی منصوبہ کا آغاز ہوا جو پانچ سال کی شب و روز محنت کے بعد 1977ء میں مکمل ہوا اور اس پر دس لاکھ چھہتر ہزار ایک سو دس روپے صرف ہوئے ۔ تعمیر نو کے اس کام میں محکمہ اوقاف کے عمل اور محکمہ آثار قدیمہ کے ماہرین کے علاوہ اکتالیس افراد پر مشتمل معماروں ، سنگ تراشوں، نقاشوں اور مزدوروں کی ایک جماعت نے حصہ لیا۔ جس میں چنیوٹ کے مشہور نقاش غلام محی الدین، معمار ظہور احمد اور ٹیکسلا کے سنگتراش گلاب خان شامل ہیں۔ سربراہ نقاش غلام محی الدین نے اپنے فن کا اظہار مسجد وزیر خان لاہور کے علاوہ ہرن مینار اور گورنر ہاؤس لاہور میں بھی کیا ہے۔ چنیوٹ کے اس ماہر نقاش کو نقش و نگاری کے فن کا امام مانا جاتا
ہے۔

مسجد کی مرمت کے دوران اس امر کو خصوصی طور پر محوظ خاطر رکھا گیا کہ اس کی قدیم ساخت اور حیثیت میں تبدیلی نہ آنے پائے بل کہ جہاں تک ہو سکے نقش اول کی ہی پیروی ہو۔ مسجد میں بعض ایسے مقامات بھی تھے جنھیں مختلف اوقات میں معمولی مرمت کے دوران نہایت کور ذوقی سے درست کیا گیا تھا۔ کوشش کی گئی کہ تاریخی شواہد کی روشنی میں انھیں بھی دوبارہ اصلی حالت کی طرف لوٹا دیا جائے ۔ سب سے اہم مرحلہ یہاں استعمال شدہ پتھر کی تلاش تھی ۔ تین ماہ تک سرگودہا اور ربوہ کے درمیان پھیلی ہوئی پہاڑیوں کا معائنہ کیا گیا۔ بڑی تگ و دو کے بعد ربوہ سے دو میل دور شتاب گڑھ نامی گاؤں میں ایک پہاڑی ملی جہاں شاہی مسجد میں پائے جانے والے ستونوں سے ملتا جلتا نوفٹ لمبے پتھر کا ایک ستون شکستہ حالت میں موجود تھا۔ اس کے علاوہ ستون کے نیچے استعمال ہونے والی پتھر کی ٹوٹی ہوئی چوکی بھی دستیاب ہوئی جو کہ شاہی مسجد چنیوٹ میں ایستادہ قدیم ستونوں اور ان کی چوکیوں کی پیمائش سے بالکل مطابقت رکھتی تھی۔ مسجد کی تعمیر کے وقت استعمال ہونے والے اس پتھر کی دستیابی ایک بڑی دریافت سے کم بی تھی۔ اس پتھر کو بڑے اہتمام سے لڑکوں پر لاد کر چنیوٹ پہنچایا گیا۔ تین سو سال قبل یہی پتھر دریائے چناب کے دوسرے کنارے سے ہاتھیوں اور کشتیوں کے ذریعے چنیوٹ منتقل کیا گیا تھا۔ انسانی عزم و ہمت اس وقت بھی بحر بے کنار سے کم نہ تھی اور آج بھی لامحدود ہے۔ اس ہمت اور محنت کی بدولت ان مٹھی بھر ماہرین فن نے اس مسجد کے ظاہری رنگ و روپ کو پھر سے بحال کر دیا اور 1978ء میں تعمیر نو کے مختلف مرحلوں کی تکمیل کے بعد یہ مسجد پوری شان و شوکت کے ساتھ ماضی کی یاد تازہ کرنے لگی۔

اس وقت مسجد محکمہ اوقاف کی تحویل میں ہے لیکن اس کی مرمت اور تعمیری تبدیلیوں کے لئے اس محکمہ کے ذیلی شعبہ آثار قدیمہ سے اجازت لینا پڑتی ہے جس کی وجہ سے معمولی نقائص دور ہونے میں بھی تاخیر ہو جاتی ہے۔ بجلی کا نظام اور تالاب مستقلاً خراب رہتے ہیں۔ نمازیوں کے لئے وضو کی سہولت بھی باقی نہیں رہی ۔ جو چند صاحب نماز یہاں آتے تھے وہ بھی اب قرب و جوار کی دیگر مساجد کا رخ اختیار کرنے لگے ہیں ۔ یہ مسجد چنیوٹ کا طرہ امتیاز ہی نہیں بل کہ تین صدیوں پر محیط ماضی اور حال کا نکتہ اتصال بھی ہے۔ تین سو سال سے اس کے فرش پر ادا ہونے والے سجدے اس شہر کے لئے سرمایہ حیات سے کم نہیں لیکن مرمت اور زیبائش سے غفلت کی بدولت طرز تعمیر کے اس نادر شاہکار کا رنگ وروپ ایک بار پھر بگڑ رہا ہے۔ یہ حقیقت بھی ہمارے قومی زوال کا ہی حصہ ہے کہ ہم مسجد کا شمار آثار قدیمہ میں کرنے لگے ہیں۔ ہم نے بھلا دیا ہے کہ مسلم معاشرہ میں مسجد محض عبادت گاہ نہیں بل کہ ایک ایسی متاع بے بہا ہے جو منزل بھی ہے اور نشان منزل بھی ! یہ رفتگاں کی یاد گار نہیں بل کہ مستقبل کی آماج گاہ ہے جہاں ماضی دفن ہوتا ہے اور فردا طلوع ہوتا ہے۔ رشد و ہدایت کے ان مراکز کو سنگ و خشت کا ڈھیر سجھ کر محکمہ آثارقدیمہ کے دامن سے باندھ دینا کم نظری اور کوتا وائد سٹی نہیں بل کہ کوئی ایسا جرم ہے جس کا کفارہ بھی ادا نہیں ہوسکتا۔

سنگ لرزاں:

شاہی مسجد چنیوٹ کے ساتھ ایک نہایت دل چسپ کہانی منسوب ہے جسے لوگوں نے اپنی اپنی افتاد طبع کے مطابق مختلف انداز میں سنا اور سمجھا ہے۔ مشہور ہے کہ اس مسجد کے مینار سنگ لرزاں نامی پتھر سے تعمیر کئے گئے ہیں۔ اس پتھر کی خوبی یہ بتائی جاتی ہے کہ ہلانے پر اس میں ارتعاش اور لچک پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ کہانی اب افسانوی شہرت حاصل کر چکی ہے اور اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اس پر یقین کے لئے آمادہ نظر آتے ہیں۔ چنیوٹ کے باہر بہت سے لوگ اشتیاق اور تجسس سے اس پتھر اور میناروں کے متعلق دریافت کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے سنگ لرزاں نامی تعمیراتی پتھر کا وجود محض افسانہ طرازی ہے۔ اگر کوئی پتھر اس طرح کی اعلی تعمیراتی خصوصیات کا حامل تھا تو وہ برصغیر کی دیگر عمارات میں استعمال کیوں نہ ہوا۔ دراصل ان میناروں کی تعمیر اس طرح ہوئی تھی کہ زور زور سے ہلانے پر ان میں ارتعاش پیدا ہوتا تھا اور اسی ارتعاش کی بناء پر اس پتھر کو سنگ لرزاں کا نام دے دیا گیا ۔ حالانکہ پتھر کی بجائے میناروں کو مینار لرزاں کہا جاتا تو شاید زیادہ درست ہوتا کیونکہ یہ لچک پتھروں میں نہیں بل کہ میناروں کے طرز تعمیر اور ساخت کی وجہ سے تھی۔ سنگِ لرزاں کی اس روایت کے متعلق آج سے پچاس سال قبل لکھی گئی ایک تحریر کا مطالعہ بھی دل چسپی سے خالی نہ ہوگا ۔ چنیوٹ کے بزرگ صحافی نذیر مجیدی ہفت روزہ یاد خدا میں چھپنے والے اپنے کالم ” تلخ وشریں میں لکھتے ہیں:

قصبہ چنیوٹ کو نواب سعد اللہ غفرلہ کے وطن مالوف ہونے کا فخر حاصل ہے۔ نواب صاحب کی مشہور زمانہ یادگار یہاں کی جامعہ مسجد ہے جو شاہی مسجد کہلاتی ہے۔ اس کے متولی شہر کے رؤساء میں سے چند معززین ہیں ۔ یہ مسجد جہاں مغل سلاطین کے وقار شاہی کی آئینہ دار ہے وہاں اپنے بانی کی شان کجکلاہی کی سرمایہ دار بھی ہے لیکن بدقسمتی سے نجانے کس طرح اس کے متعلق یہ غلط بات مشہور ہوگئی کہ اس میناروں میں سنگ لرزاں استعمال کیا گیا ہے، چنانچہ دور دراز یا قرب و جوار کے جو سیاح اور مسافر اسے دیکھنے آتے ہیں وہ میناروں کو خوب ہلاتے ہیں۔ جب یہ عمل ختم ہوتا ہے تو زمانہ قدیم کے معماروں کو داد کا ریگری دے کر اپنی راہ لیتے ہیں۔ کیا معلوم کب سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کر میناروں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ وہ تو خدا کی مہربانی اور زمانہ قدیم کے فن تعمیر کی خوبی ہے کہ یہ مینار اب تک موجود کھڑے ہیں ورنہ اگر آج کل کی ساخت کا نمونہ ہوتے تو سنگ لرزاں کا امتحان کرنے والوں کی وساطت سے
کب کے ٹھکانے لگ چکے ہوتے۔

آثار قدیمہ کے ماہرین کی رائے کے مطابق بھی سنگ لرزاں نامی کوئی تعمیراتی پتھر نہیں پایا جاتا اور شاہی مسجد سے وابستہ اس کہانی میں کوئی حقیقت نہیں۔ اس مسجد کے مینار اسی مقامی چنیوٹی پتھر ہے۔ رسے بنے ہیں جو بقیہ مسجد کی تعمیر میں استعمال ہوا ہے۔ دراصل ان کی تعمیراتی خوبی یہ ہے کہ یہ مینار چول اور خانہ کی ترکیب سے بنائے گئے ہیں۔ ان میناروں کی چھتریاں چنیوٹی پتھر ہی کی ہیں۔ لیکن یہ زیریں داسے کے پتھر میں قائم کی گئی ہیں جس کی وجہ سے اوپر کے حصہ کو قدرے بہلایا جاسکتا ہے جس سے یہ غلط تاثر لیا جاتا رہا ہے کہ یہ مینار سنگ لرزاں (Swinging Stone) سے بنے ہیں اسی لئے تعمیر نو کے دوران ان میناروں کے پتھروں کو ایک دوسرے سے الگ کر کے دوبارہ آپس میں جوڑ دیا گیا ہے تا کہ کثرت استعمال سے ان میں پیدا ہونے والی لرزش کا مداوا ہو سکے۔ ولی اللہ خان سنگ لرزاں کی اس کہانی کے
متعلق کہتے ہیں:

سنگ لرزاں ایک چورس پتھر ہوتا ہے اور اس میں ایک خاص قسم کی چک بھی ہوتی ہے، لیکن یہ پتھر تعمیرات میں استعمال نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک مسامدار پتھر ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم میں اس پتھر کے بڑے بڑے پیالے بنائے جاتے تھے۔ اگر ان پیالوں میں پانی ڈال دیا جا تایا ان پیالوں کو پانی میں ڈال دیتے تو پانی چھن کر صاف ہو جا تا تھا۔ اس قسم کا ایک پیالہ آگرے کے قلعہ میں بھی موجود ہے۔ اگر سنگ لرزاں کسی عمارت میں استعمال کر دیا جائے تو زلزلے کے معمولی جھٹکے سے ہی گر کر تباہ ہوسکتا ہے۔ مسجد کے میناروں میں سنگ لرزاں والی حکایت غلط ہے ۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہ مینار ہلتے کیوں ہیں تو قابل غور بات یہ ہے کہ چاروں میناروں میں سے مغربی مینار سب سے زیادہ ہلتا ہے اس کی نسبت دوسرے مینار کم ملتے ہیں۔ اگر یہ سنگ لرزاں ہوتا تو تمام میناروں کو یکساں طور پر ملنا چاہیے تھا۔ دراصل میناروں کے پتھروں کو چولوں کی طرح ایک دوسرے میں پھنسایا ہوا ہے۔ اندازہ ہے کہ تعمیر کے پہلے دو سو سال مینار اپنی اصلی حالت میں رہے لیکن آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ ساتھ میناروں کی چولیں ڈھیلی ہوتی ہو گئیں اور پچاس ساٹھ سال قبل یہ مینار ہلنا شروع ہو گئے اور پھر نہ معلوم کس طرح سنگ لرزاں والی حکایت مشہور ہوگئی۔

ولی اللہ خان محض ماہر تعمیرات تھے ۔ صاحب نظر ہوتے تو یہ بھی کہتے کہ جب لوگ حقیقت کو افسانہ اور افسانے کو حقیقت سمجھنے لگیں تو یچ اسی طرح دسترس سے دور ہونے لگتا ہے اور حقیقت یونہی حکایت کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے۔

سعد اللہ خان تحقیقی مرکز:

جب مسلمانوں کی عظمت کا آفتاب عروج پر تھا تو مساجد درس و تدریس کے مراکز ہوا کرتی تھیں ۔ ہر مسجد کے ساتھ ایک کتب خانہ بھی ہوتا جہاں تفسیر، حدیث اور فقہ جیسے موضوعات پر لکھی گئی کتب اکٹھی کی جاتی تھیں ۔ شاہی مسجد چنیوٹ کے ساتھ بھی ایک مختصری لائبریری ہے جہاں تین سو کے قریب کتب موجود ہیں لیکن ان کی حفاظت کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں اور نہ ہی کبھی کسی نے ان سے اکتساب فیض کی کوشش کی ہے۔ الماریوں میں بند یہ کتب کسی رہ نور دشوق کی راہ تکتی ہیں۔ گردو غبار سے آلودہ ان کتب کے خاموش حروف اس بے اعتنائی پر نوحہ کناں ہیں ۔ تاریک راہوں میں بھٹکتے ہوئے کسی مسافر کے لئے یہ حروف آج بھی تابندہ ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس کتب خانے کوز را اور وسعت دے کر ایک تحقیقی مرکز میں تبدیل کر دیا جائے جہاں قدیم اور جدید علوم کے امتزاج سے تحقیق اور جست جو کی نئی راہیں کھل سکیں ۔

تاریخ اس مسجد کی تعمیر کو مغل شہنشاہ ، شاہ جہاں کے وزیر اعظم نواب سعد اللہ خان سے منسوب کرنے سے بے شک قاصر ہے لیکن چنیوٹ کا ہر فرد اس مسجد کو نواب سعد اللہ خان سے ہی وابستہ کرتا ہے۔ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھتے ہوئے اس مرکز کو نواب سعد اللہ خان تحقیقی مرکز کا نام دیا جا سکتا ہے۔ شاید اسی طرح سرزمین چنیوٹ کے اس نام ور فرزند کو خراج عقیدت پیش ہو سکے جس کے بارے میں خود شاہجہاں نے یہ لکھا تھا کہ :

وہ محرمانِ راز کا چنیدہ و برگزیدہ، دنیا بھر کے دانش وروں کا مطلوب و مقصود، زمانے بھر کے خرد مندوں کا امام و رہ نماء، صاحب دانش اور عمیق نظر علامہ جو منقولی اور معقولی علوم کا جامع تھا، جو ظاہری اور باطنی کمالات کا مظہر تھا، جو علوم کا معیار جانچنے کی کسوٹی تھا، جو شعر وسخن کا نفاد تھا، جو حقائق کا مجسم ادراک تھا، جو سربستہ رازوں کا سراپا انکشاف تھا، جو علم کا خزانہ تھا، جو معانی و مطالب کا دریا تھا۔ کاش وہ بارگاہ خداوندی سے عمر دراز کا پیراہن اور حیات مستعار کا کامل حصہ پاتا۔

نواب سعد اللہ خان کی بوقلموں شخصیت پر تین صدیوں کا غبار پھیلا ہوا ہے لیکن آج بھی وہ اپنی چکا چوند سے نگاہوں کو خیرہ کرتی ہے۔ چنیوٹ کے اس تہی دامن ، تنگ دست، در ماندہ راہ مسافر نے جس کے دامن میں خاندانی جاہ و نسب اور مراسم کی کوئی دولت نہ تھی محض اپنے علم وفضل کی بدولت مغل دربار کو ہیں سال تک مسحور کئے رکھا۔

اس کے عہد کا ایک مشہور واقعہ * ہے کہ مغل شہنشاہ شاہ جہاں ایک بار لا ولشکر کے ہمراہ کہیں جارہا تھا۔ سامنے دریا آ گیا۔ بادشاہ نے دور سے دیکھا کہ دریا کے کنارے لوگ جمع ہیں۔ پوچھا تو معلوم ہوا کہ کوئی بارات عبور دریا کے لئے کشتی کا انتظار کر رہی ہے۔ شاہ جہاں نے اپنی سواری دور ہی روک لی تا کہ بارات بہ اطمینان گزر جائے ۔ کسی مرد درویش نے یہ دیکھ کر بآواز بلند کہا کہ اس مبارک زمانے میں جملہ نیکیاں جمع ہوگئی ہیں۔ بادشاہ عادل، وزیر اعظم جزرس، اہلکار متدین، خلق خدا مرفه الحال۔ ان عنایات ایزدی کا شکر واجب ہے۔ بادشاہ نے یہ الفاظ سنے تو سعد اللہ خان اور دیگر بندگان خاص کو بلا کر خلعت سے نوازا اور بارگاہ باری تعالیٰ میں فریضہ شکر ادا کیا۔ وقت کے گنبد میں محفوظ درویش حق پرست کے الفاظ کی بازگشت جب کبھی کانوں میں گونجتی ہے تو بے چین نگا میں فضا کی بے کراں وسعتوں، مسجد کے بلند میناروں اور خوب صورت بام و در کا احاطہ کرنے کے بعد اپنے ہی گریبان میں جھانکنے لگتی ہیں۔ بادشاه عادل، وزیر اعظم جزرس، اہلکار متدین، خلق خدا مرفه الحال“ ہماری کم نصیبی کہ کتنی ہی عنایات ایز دی ہم سے منہ موڑ چکی ہیں ۔ اب تو صف دوستاں میں کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ دکھ اور کرب کے گہرے ہوتے ہوئے سائے میں یہ آیات خداوندی اشک بن کر میری چشم تر سے بہتی ہیں :

بے شک اللہ ظلم نہیں کرتا لوگوں پر کچھ بھی لیکن لوگ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔

(سورۃ یونس (44)

 

نوٹ: یہ مضمون ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتاب (شہرِ لبِ دریا) سے لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com