میر بکھر اور ان کا خاندان
امام علی نقی علیہ السلام کے ایک فرزند سید جعفر ثانی جن کو سید جعفر تو اب بھی کہا جاتا ہے، ان کی نسل ان کے فرزند سید علی اکبر سے جاری ہوئی۔ سید علی اکبر کی کنیت سید علی اصغرا اور لقب جعفر ہے۔ سید علی اصغر کی ولادت 220ھ میں مدینہ منورہ میں ہوئی اور آپ کا وصال330 ھ میں ہوا۔سید علی اصغر کے ایک صاحبزادے کا نام سید اسماعیل تھا۔ ان کا اصل نام زید، کنیت ابو نصر اور لقب اسماعیل بن جعفر بن الھادی تھا۔ اور ان کی والدہ حضرت امام حسن مجتبی کے خاندان سے سیدہ تھیں۔ حضرت اسماعیل کی وفات 360ھ میں ہوئی اور آپ یمن میں مدفون ہوئے۔
سید اسماعیل کے دوفرزند تھے۔
1 – سید نصر الله
2- سید ابوالبقا
سید نصر اللہ کا نام سید عقیل تھا۔ کنیت حسین اور لقب ناصر تھا۔ سید عقیل کی ولادت بهکردستان 35 سید جاوید حسین شاہ 310ھ میں ہوئی اور وصال 400 ھ میں ہوا۔ سید عقیل کا مزار مشہد مقدس میں سیدنا معروف کرخی کی چلہ گاہ سے متصل ہے جبکہ سید ابوالبقا کی نسل مصر میں ہے۔ سید عقیل کے دو صاحبزادے تھے۔
1۔ سیدا شریف
2 سیدا کرم
سید اشرف کی کنیت سید ابو اشرف احمد اور لقب سید ہارون سرمست ہے۔ آپ کی ولا دت 340 ھ میں ہوئی ۔ آپ کی وفات 430 ھ میں ہوئی۔ آپ کی قبر مبارک بغداد میں سید ہارون سرمست کے تین صاحبزادے تھے۔
1 – سید محمد شریف (سید حمزه)
2- سید عبداللطیف
3۔ سید محمد شجاع
سید محمد شریف کی کنیت ابو ا کرم اور لقب سید حمزہ تھا۔ ولادت 360ھ میں ہوئی اور وفات 410 ھ میں ہوئی ۔ آپ بغداد میں مدفون ہوئے۔آپ کے ایک صاحبزادے کا لقب سید زید اور کنیت ابوالقاسم تھی۔ آپ کے ایک صاحبزادے سید منور تھے جن کی کنیت ابوابراہیم اور لقب سید ابو القاسم تھا۔ سید ابوالقاسم کی ولادت 400 ھ میں ہوئی جبکہ وصال 480 ھ میں ہوا ۔ آپ بغداد میں مدفون ہوئے۔ سید ابوالقاسم کے ایک صاحبزادے کا نام سید انور کنیت علی اکبر اور لقب سیدابرا ہیم تھا۔ سید ابراہیم کی ولادت 420 ھ میں ہوئی اور وصال 500ھ میں ہوا ۔ سید ابراہیم مدینہ منورہ میں دفن ہوئے۔ سید ابراہیم کے ایک فرزند کا نام سید امجد ، کنیت ابواحمد اور لقب سید محمد شجاع تھا۔ آپ کی ولادت 440 ھ میں ہوئی اور وصال 480 ھ میں ہوا ۔ آپ مکہ معظمہ میں دفن ہوئے۔ سید محمد شجاع طوسی مشہد مقدس سید ابراہیم جوادی کے گھر پیدا ہوئے ۔سیدا براہیم جوادی مشہد مقدس کی عالم دین شخصیت تھی۔ آپ کے زمانے میں سلجوق ترک حکمران تھے۔ طغرل بیگ کی حکومت میں حسن بن صباح اور اس کے فدائین نے بہت غارت گری بر پا کر رکھی تھی۔ طغرل بیگ نے سیدابراہیم جوادی سے دعا کی درخواست کی ۔ سید ابراہیم جوادی نے امام رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں نماز ادا کی اور اللہ سے دعا کی جس کے طفیل فدائین کی غارت گری میں کمی آگئی۔ سید ابراہیم جوادی کے فرزند سید محمد شجاع علم حدیث اور فقہ میں ماہر تھے۔ فنون جنگ و حرب میں مہارت کی بنا پر آپ کو شجاع کا لقب عطاء کیا گیا۔ 1132ء میں ایران اور ترکی کی جنگ میں سید محمد شجاع طوسی خراسان کے گورنر تھے۔ اس جنگ میں آپ نے خراسان کے پہاڑی علاقے میں اپنی فتوحات کے جو ہر دکھائے۔سید محمد شجاع طوسی ایک مرتبہ سفر حج کے دوران بغداد میں رکے۔ وہاں آپ کی ملاقات ابو حفص عمر سهروردی سے ہوئی ۔ مذہبی اور فقہی گفتگو اور باہمی احترام کی بدولت آپ دونوں میں ایک تعلق قائم ہو گیا۔ ابو حفص عمر سہروردی نے اپنی بیٹی آپ کے عقد میں دے دی اور یوں آپ نے نقوی سادات کی قرابت داری کا آغاز سلسلہ طریقت سہروردیہ سے کیا۔ ابو حفص عمر سہر وردی ایک ایرانی صوفی اور سلسلہ طریقت سہروردیہ کے بانی ابو نجیب سہروردی کے بھتیجے تھے۔ ابو حفص عمر سہروردی نے سلسلہ سہروردیہ پر ایک کتاب عوارف المعارف بھی لکھی جو کہ صوفیانہ طریقت کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ شیخ عبد القادر جیلانی کی شاگردی کے سبب آپ دنیائے صوفیاء میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ سید محمد شجاع کو اللہ تعالیٰ نے 1145ء میں ایک فرزند عطا فرمایا۔ آپ نے اپنے فرزند کا نام محمد رکھا اور مکہ میں پیدائش کے سبب ان کو سید محد مکی ‘پکارا جانے لگا۔ سید محمد مکی سید محمد مکی نے دینی تعلیمات اپنے دادا سید ابراہیم جوادی، والد محترم سید محمد شجاع سے حاصل کیں ۔ آپ نے یمن میں بھی عسکری خدمات سرانجام دیں۔1174ء میں جب صلاح الدین ایوبی کے بھائی طور ان شاہ نے یمن فتح کیا اور عباسی حکمرانوں سے الحاق کیا، اس وقت سید محمد مکی نے یمن کے علویوں کی سربراہی کی اور عباسی فوج کے ساتھ جنگ کی۔ سید محمد مکی نے 10 سال یمن میں گزارے۔ یمن سے آپ مکہ اور مدینہ سے ہوتے ہوئے کربلا آئے۔ کربلا سے بغداد اور مشہد میں تشریف لے گئے ۔ مشہد سے براستہ ہرات اور قندھار آپ کے سندھ آنے کے متعلق تین تاریخی روایات ہیں۔
پہلی روایت :
جب منگول اور تا تا رافواج نے خراسان کے علاقے پر یلغار کی تو سید محمد مکی نے اپنے اہل وعیال کے ساتھ خراسان سے ہجرت کی ۔ آپ ہرات سے براستہ قندھار، شالکوٹ،پشین کے راستے سرزمین سندھ میں آئے ۔آپ صبح کے وقت سندھ کے علاقے میں وارد ہوئے ۔ ابھر تے سورج کے دلکشن نظارے، دریائے سندھ کے پانی کی فراوانی اور سرزمین سندھ کی زرخیزی کو دیکھتے ہوئے آپ نے یہ الفاظ کہے:
جعل اللہ بکرتی فی البقعة المباركة
ترجمہ: اللہ نے مجھے پر امن صبح عنایت فرمائی ہے۔“
جب آپ سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ کہاں رہنا پسند کریں گے تو آپ نے فرمایا کہ جہاں مجھے گائے کی گھنٹی کی آواز سنائی دے گی اور میں سورج کو طلوع ہوتے دیکھ سکوں گا،میں وہاں قیام کروں گا۔ عربی زبان میں گائے کے لیے مخصوص لفظ ”بقر“ ہے اور سید محمد مکی کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ میں سے لفظ ” بکر کی نسبت سے آپ نے اس سرزمین کا نام ” بکھر رکھا۔
دوسری روایت :
دوسری روایت یہ ہے کہ آپ جب مشہد سے براستہ ہرات ، قندھارے ہوتے ہوئے سندھ آئے تو آپ کے ہمراہ 30 ہزار افراد کا لشکر تھا اور آپ نے جزیرہ بکھر کو اپنا مسکن بنایاجس کا پرانا نام فرشتہ تھا۔
تیسری روایت:
تیسری روایت یہ ہے کہ جب آپ ہرات میں تھے اور خراسان کے معاملات دیکھ رہے تھے، جب علاؤ الدین خلجی جو کہ ہندوستان کے حکمران تھے، ان کی طرف سے سندھ میں جاگیر عطا کی گئی اور آپ نے اپنے اہل و عیال سمیت ہات سے سندھ کی طرف ہجرت کی اور بھکر کو آباد کیا۔ آس پاس کے بلوچ قبائل نے آپ کو میر بکھر کا خطاب دیا اور یوں آپ نے اس علاقے میں سادات نقویہ کی بنیاد رکھی ۔” بکھر ایک جزیرہ کی شکل میں دریائے سندھ کے پانیوں میں گھرا ہوا علاقہ ہے۔ یہ ایک چٹان پر مشتمل علاقہ ہے جو کہ روہڑی اور سکھر کے درمیان دریائے سندھ میں موجود سید محمد مکی کو علاقے میں امن و امان میں مدد کے عوض روہڑی میں جاگیر عطا کی گئی۔ سید محمد مکی نے بکھر میں قیام کے دوران اسلامی تعلیمات کی ترویج میں نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ سید محمد مکی 1246ء میں 101 سال کی عمر میں وفات پاگئے ۔ آپ قلعہ اراک میں جو سکھر اور بکھر کے درمیان ہے، مدفون ہیں۔ سید محمد مکی کی اولاد کو بکھر میں رہنے کی وجہ سے باکھری“ یا ”بھا کری“ سادات کہا جاتا ہے۔ آپ کی اولاد میں مندرجہ ذیل فرزند مشہورہیں۔
1 ۔ سید بدرالدین بھا کری:
آپ کی پیدائش 1205ء میں سے 1210ء کے درمیان ہوئی۔ فقہ میں عبور اور روحانی خوبیوں کی بدولت آپ نے بہت نام کمایا۔ روایات میں ہے کہ ایک مرتبہ سید بدرالدین بھا کرمی نے خواب میں حضرت محمد سالن انا اسلام کی زیارت کی جس میں رسول پاک سلینا کہ تم نے آپ کو اپنی بیٹی کو سید جلال الدین بخاری کے عقد میں دینے کا حکم صادرفرما یا تھا۔جب سید جلال الدین بخاری بکھر تشریف لائے اور آپ نے سید بدرالدین سے ان کی بیٹی کا رشتہ طلب کیا تو سید بدرالدین کے بھائیوں سید صدرالدین ، سید ماہ اور سید شمس الدین نے اس رشتہ پر اعتراض کیا۔ ان کو اعتراض تھا کہ ایک گمنام سید جو اپنے آپ کو بخارا سے بتا تا ہے، اس کو رشتہ دینا درست نہیں ہے۔ جب سید بدرالدین نے رشتہ کی ہاں کر دی تو سید بدرالدین کے بھائیوں نے شرط رکھ دی کہ اگر آپ سید جلال الدین بخاری کو رشتہ دیتے ہیں تو آپ کو بکھر چھوڑ کر جانا ہوگا۔ سید بدر الدین نے سید جلال الدین بخاری کے ساتھ بکھر سے اُچ کی طرف ہجرت کی اور یوں باکھری اور بخاری سادات کا نسل در نسل تعلق کا سلسلہ چل پڑا۔سید بدرالدین کی ایک شادی ہندوستان کے حکمران علاؤ الدین خلجی کی بیٹی سے بھی ہوئی جس سے آپ کے دو فرزند پیدا ہوئے ۔
1 – سید محمد مهدی
2۔ سید سعد اللہ
2۔ سید صدرالدین باکھری (خطیب سندھ ):
سید محمد مکی کے دوسرے فرزند سید صدر الدین کی پیدائش 1204ء میں بکھر میں ہوئی۔ آپ علوم فقہ وتصوف میں اعلیٰ پائے کے عالم دین تھے اور سکھر میں جامع مسجد میں خطیب تھے۔ اسی وجہ سے آپ کو خطیب سکھر بھی کہا جاتا ہے۔سید صدر الدین باکھری کے فرزند سید علی بدر الدین کی اولاد میں سے سید مرتضیٰ شعبان الملت بہت مشہور ہوئے ۔ آپ کی اولاد نے الہ آباد کی طرف ہجرت کی۔3۔ سید ماہ سید محمد مکی کے تیسرے فرزند سید ماہ تھے۔ آپ یمن میں پیدا ہوئے۔ روایات میں آپ کی اولا د کا ذکر نہیں ملتا ۔
4۔سید شمس سید محمد مکی کے چوتھے فرزند تھے۔ آپ کی پیدائش یمن میں ہوئی ۔ آپ نے اپنے والد کے ہمراہ سندھ میں ہجرت کی ۔ آپ سے کوئی اولا د منسوب نہیں ہے۔
حوالہ جات:
1- Manba Al Ansab by Syed Moeen ul Haq
2- The land of five rivers of Sindh by Chapman of
3 – تاریخ جاگیر بکھر ، باکھری سادات
4 – تاریخ فرشتہ
5- Memories of Syuds of Roree of Bukkur Hall
6- A Gazetteer of Province of Sindh
7- History of India by its own historians
8- The musalman Races found in Sindh, Baluchistan and Afghanistan
9- تاریخ معصومی – از سید محمد معصوم با کھری
10 – تحفتہ الکرم، از سید میر علی شیر قانع ٹھٹھوی
11- Sind a re-interpretation of unhappy valley by J.Abbot i.c.s 1924 Bomba