کوٹلہ جام اور لال ماہرہ
کوٹلہ جام :
جام اسماعیل خان اول نے ڈیرہ اسماعیل خان کے مشرق میں دریائے سندھ کے پار ایک قلعہ بنایا تا کہ دریا کے اس طرف بھی آباد کاری کی جاسکے اور اس قلعے کو کوٹلہ جام کا نام دیا۔
کوٹلہ جام میں مختلف بلوچ اقوام کو آباد کیا گیا جن میں ہوت اور کچانی قبیلہ کی اکثر ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ باقی بلوچ اور جاٹ قبائل بھی اس علاقے میں آباد ہونا شروع ہو گئے۔ جام کا نام اپنے اندر سندھی کلچر کی پوری تاریخ لیے ہوئے ہے۔نوتک جام اسماعیل خان کے بیٹے اسماعیل خان دوم کا نام نو تک خان تھا۔ نو تک خان نے ببر گھاٹ دریائے سندھ کے مشرق میں نو تک نام کا قصبہ آباد کیا اور تھل کے شروع میں ایک مرکز کی بنیاد رکھی۔ نو تک قصبہ لال ماہرہ کے بالکل سیدھ میں آباد ہوا۔ کسی زمانے میں دریائے سندھ کا پھیلاؤ نو تک کے قریب سے لے کر ہر گھاٹ تک تھا اور کشتی کے ذریعے لوگ نو تک سے ڈیرہ فتح خان اور دوسرے علاقوں میں جایا کرتے تھے۔ نو تک سے مشرق کی طرف تھل کے علاقے میں سفر کے لیے کوس مینار اور سرائیں بھی تعمیر ہوئیں ۔ نوتک سے دو کلو میٹر دور مشرق میں ایک کوس مینار کے آثار اب بھی موجود ہیں جو کہ قصائن کھوہ کے قریب ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نو تک سے منکیرہ اور شورکوٹ کی طرف آتےجاتے قافلے انہی راستوں سے گزر کر آتے جاتے تھے۔نواب اسماعیل خان دوم المعروف نو تک خان نے اپنا مقبرہ بھی اپنے بزرگوں کے مقابرکی طرح بنوایا اور بعض مورخین کے مطابق آپ نو تک میں دفن ہیں ۔اگر چہ موجودہ آثار میں قبر کے کوئی آثار نہیں ہیں اور مقبرہ کا ڈیزائن لال ماہرہ کے مقابر سے ملتا جلتا ہے۔ نو تک اور آس پاس مندرجہ ذیل بلوچ قبائل بسائے گئے۔
1 – کندانی قبائل
2 – کچانی
3 – بجرانی
4 – ممدانی
5- سرگانی
6- رند
7- چانڈیہ
8- لاشاری
خان پور تھل میں بلوچ آباد کاروں نے خان پور نام کا قصبہ آباد کیا اور اس میں مختلف بلوچ اقوام رند، لاشاری، مدانی، کچانی اور دوسرے اقوام آباد ہوئے ۔ اس آباد کاری سے دو خان پور بنے۔ ایک کو خان پور شمالی اور دوسرے کو خان پور جنوبی کہا جاتا ہے۔ خان پور کا نام بھی سندھ کے پرانے خان پور کے نام پر رکھا گیا۔ ایک نام جو ر کھنے والے کی جنوب سے نسبت کو ظاہرکرتا ہے۔
لال ماہرہ :
ڈیرہ اسماعیل خان سے 25 میل کے فاصلے پر لال ماہرہ نام کا قصبہ اور قبرستان ہے جسے سب سے پہلے پروفیسر احمد حسن دانی نے دریافت کیا تھا۔ اس قبرستان کا نام اس میں دفن ہونے والے ایک بزرگ سید لال بادشاہ کے نام کی وجہ سے ہے۔ احمد حسن دانی اور کچھ تاریخ دان اس قبرستان کے مقابر کو ان خلجی کمانڈروں کا کہتے ہیں جو کہ منگولوں کے ساتھ جنگ میں یہاں مارے گئے اور انہیں یہاں دفن کیا گیا۔ لیکن ان کا طرز تعمیر اور ٹائل ورک انہیں اُچ شریف کے مقابر اور نوتک کے مقبرہ سے مشابہت دیتا ہے۔ تاریخ لیہ کے مصنف کے مطابق سیہ ان بلوچ سرداروں کے مقابر ہیں جنہوں نے اس علاقے میں پہلے پہل آباد کاری کی ۔ پھر انہی بلوچ سرداروں نے سادات اُچ سے روحانی نسبت کی بنا پر اپنے مقابر کا ڈیزائن بھی وہی بنوایا اور یہاں دفن ہوئے ہیں۔ لال ماہرہ کے مقابر اور مندرجہ ذیل مقبروں میں بہت زیادہ مماثلت ہے۔
1 – مقبرہ بی بی جیوندی اُچ شریف
2 _ مقبره استاد نور یا اُچ شریف ان کے متعلق مشہور ہے کہ یہ مقبرہ بی بی جیوندی کے آرکیٹیکٹ ہیں ۔
3 ۔ مقبرہ غازی خان (ڈیرہ غازی خان )
4 ۔ مقبره علی اکبر ملتان
5۔ مقبرہ سید محمد راجن شاہ، لیہ
6 ۔ مقبرہ سخی سرور
7۔ مقبرہ طاہر خان ناہر ، سیت پور لال ماہرہ کے مقابر میں چاروں کونوں پر برج کی طرح کے مینار ہیں اور نیلے، سفید اور فروزی رنگوں کی ٹائلز کا استعمال ہوا ہے۔ بخارا اور ایران سے چلا یہ فن تعمیر اب بھی ہمیں وسط ایشیا کی یاد دلاتا ہے۔