انگریزوں کی بھکر بند و بست رپورٹ 1879ء
شروع میں انگریزوں نے بھکر کو ڈیرہ اسماعیل خان میں شامل کیا۔ 1879ء کی ٹکر کی بند و بستی رپورٹ میں دریائے سندھ کے ساتھ والے علاقوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔
1 ۔ ٹرانس انڈس Trans Indus :
ان میں ڈیرہ اسماعیل خان ، ٹانک اور کلاچی کے علاقوں کو شامل کیا گیا۔
2 کس انڈس Cis Indus
اس میں بھکر اور لیہ کو شامل کیا گیا۔ ٹکر کی بندوبستی رپورٹ میں ہے کہ کسی زمانے میں تجارتی کشتیاں ڈیرہ اسماعیل خان سے سکھر کے درمیان چلتی تھیں جن سے اچھی خاصی علاقائی تجارت ہوتی تھی۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور کلاچی کسی زمانے میں پاؤندہ قبائل کی تجارت کا مرکز تھے۔ ان کے قافلے خراسان سے سامان تجارت ہندوستان لاتے تھے اور ہندوستان سے اشیاء خراسان کے شہروں میں جاتی تھیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور دریا خان کے درمیان کشتیوں کا پل 1873ء میں بنایا گیا جس سے مقامی آبادی کو بہت آسانی ہوئی اور پاؤندہ تجارتی قافلوں کی آمد و رفت میں اضافہ ہو گیا۔ تجارتی سامان سے لدے ہوئے اونٹ اسی کشتیوں کے پل سے دریا کے آر پار جاتے تھے۔ انگریزوں نے ڈیرہ اسماعیل خان سے جھنگ کے لیے میل کارٹ بھی شروع کی جو براستہ کوٹلہ جام بھکر ، جہان خان،
سرائے کرشنا، منگیر اور حیدر آباد سے جھنگ جایا کرتی تھی۔ان وقتوں میں جو پتین دریا کے کنارے مشہور تھے ، ان میں مور جھنگی ، ڈیرہ فتح خان اورکا نجن پتن شامل تھے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے جہلم کے لیے میل کارٹ براستہ کوٹلہ جام، دریا خان، تھلہ سریں، نواں جنڈ انوالہ اور مٹھہ ٹوانہ سے ہوتے ہوئے جہلم تک چلاتی تھی اور اس طرح ان
خطوں کے بیچ ایک روابط کا جدید نظام قائم ہوا۔
قدرتی طور پر ضلع بھکر دو حصوں میں تقسیم کیا جتا ہے۔
1 – کچھی ( کچہ علاقہ )2 تھل
سرائیکی میں بغل کو کچھ کہتے ہیں اور اس علاقے کو دریائے سندھ کے قریب ترین ہونے کی وجہ سے” کچھی کہا جاتا ہے۔ کچھ مصنفین کے خیال میں کچھی کا نام ان بلوچ قبائل نے اسے دیا جو بلوچستان کے علاقے "سبی Sibi سے یہاں آئے تھے کیونکہ سبی اور آس پاس کے علاقے کچھی کہلاتے تھے۔انگریزوں نے کچھی کے علاقے کی حد بندی کی اور اس کے جیولوجیکل سروے بھی کیے۔ بندوبستی رپورٹ کے مطابق کچھی کا علاقہ کلورکوٹ سے لے کر مظفر گڑھ کے ان علاقے تک ہے جو دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ ہیں۔ تاریخ میانوالی کے مصنف نے میانوالی کا پرانا نام بھی کبھی بتایا ہے جو کہ دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر آباد ہوا تھا۔ کچھی کے تمام علاقے میں فصلوں اور کاشت کاری کا انحصار دریائے سندھ سے نکلنے والے دریائی ندی نالوں اور وہیروں پر تھا۔ ان کو مقامی زبان میں کندھی کہتے ہیں اور ان کے آثار آج بھی کچھی کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان کندھیوں کے کنارے کی زمین ہزاروں سالوں سے لائی دریائی اور پہاڑی زرخیز مٹی سے بنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لیہ کے پہلے ڈپٹی کمشنر نے 1849ء میں اس علاقے کو ہندوستان کا کیلی فورنیا کہا تھا۔ انگریز بستی رپورٹ میں اس وقت کی کندھیوں کی
تفصیل ان ناموں سے ملتی ہے۔
یوزل:
دریائے سندھ سے نکلتی سب سے بڑی کندھی کا نام پوزل تھا جو سب کندھیوں سے حجم میں بڑی تھی اور اس کا پانی پورا سال بہتا تھا۔ پوزل اکثر تین یا چارشاخوں میں تقسیم ہو کرلیہ کی حدود میں دوبارہ دریائے سندھ میں شامل ہو جایا کرتی تھی۔ پوزل کے دوسرے علاقائی ناموں میں اسے لالہ اور بود و بھی کہا جاتا تھا۔
لیہ کے علاقے کوٹ سلطان میں اس لالہ نام کی کندھی پر بند باندھ کر نہریں بھی نکالی گئی تھیں جن سے کاشت کاری کی جاتی تھی ۔ ان کندھیوں کے کنارے جھلاروں کے ذریعے
پانی نکال کر کاشت کاری کی جاتی تھی۔ کچھی کا علاقہ بہت زرخیز اور سرسبز ہوا کرتا تھا۔ اس کے آدھے علاقے پر کاشت کاری اور آدھے پر جنگلی نباتات تھیں اور دریائی کندھیوں کے آس پاس لیاٹ کے جنگل تھے
جنہیں لائی بھی کہتے ہیں اور اسی نام سے لیہ مشہور ہوا۔
کچھی میں کھجور کے درخت بہت زیادہ بہتات میں ان علاقوں میں ہیں۔
کوئلہ جام
در یا خان
بھکرنوتک