بھکر اور قدیم تاریخ
رحمن ڈھیری:
رحمان ڈھیری کے آثار ڈیرہ اسماعیل خان سے 22 کلومیٹر شمال میں ہیں۔ رحمان ڈھیری برصغیر پاک و ہند میں ازمنہء قدیم کا ایک شہر تھا جس کے آثا راب بھی موجود ہیں ۔ رحمن ڈھیری دریائے گومل اور دریائے سندھ کے میدانوں پر مشتمل ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق یہ پانچ ہزار سال پرانا شہر تھا جو موہنجودڑو اور ہڑپہ سے بھی پرانا تھا۔ رحمان ڈھیری کا یہ تیلہ آج بھی اپنے ارد گرد کی سطح سے 20 فٹ بلند ہے۔ اور اس کا پھیلا ؤ ایک مستطیل کی شکل میں ہے۔ اس شہر کے لوگ ایسے مکانات میں رہتے تھے جو کہ کچی مٹی کے ڈھیلوں یا اینٹوں سے بنے تھے۔ جو اس عہد کی آب و ہوا اور موسم سے موافق تھے۔ رحمان ڈھیری کے آثار کی تحقیق محکمہ آثار قدیمہ پاکستان اور پشاور یونیورسٹی کے شعبہ آرکیالوجی نے کی جو کہ پروفیسر فرزند علی درانی کی زیر نگرانی 23 جنوری 1976 ء سے شروع ہوئی اور اس کے بعد متعدد ماہرین آثار قدیمہ اس پر تحقیق کر رہے ہیں ۔ کھدائی کے دوران اس جگہ سے مرچوں کے بیچ ، سرسوں، جنی، گندم اور چنے کے دانے اس زمانے کی فصلوں کو ظاہر کرتے ہیں ۔ بھکر سے قریب ترین آثار قدیمہ میں سے رحمان ڈھیری اور کا فرکوٹ ہیں۔۔
کھدائی کے دوران رحمان ڈھیری سے مختلف مویشیوں، بھیڑ، بکری ، ہرن کی ہڈیاں بھی برآمد ہوئی تھیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اس دور میں بھی پالتو جانوروں کا گوشت ان لوگوں کی خوراک کا اہم جزو تھا۔ کھدائی میں حاصل کی گئی چوڑیوں، منکوں اور زیورات کے نمونوں سے اس زمانے کی عورت کے بناؤ سنگھار کو ظاہر کیا گیا ہے۔ برآمد ہونے والے برتنوں پر ڈیزائن شدہ تیر، دائرے اور دوسرے نقش ان کو ہٹر یہ اور موہنجودڑو سے ملاتے ہیں اور یہی نقش و نگار والے آثار وادی سندھ کی تمام تاریخی جگہوں پر ملتے ہیں۔
ماہرین آثار قدیمہ نے ان باقیات سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ رحمن ڈھیری کے آثار وادی ء سندھ کے قدیم ترین آثار میں سے ایک ہیں ۔ اس علاقے میں عام گھر یلو استعمال کے برتنوں پر متوازی اور لہرے دار لکیریں ڈالی جاتی تھیں اور ان کی خوبصورتی کے لیے ان پر پالش بھی کی جاتی تھی ۔برآمد ہونے والے آلات میں مٹی کی پکی ہوئی مورتیاں بھی شامل ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ بیل کی مورتیاں اور ناگ دیوی کی مورتی بھی شامل ہیں جو اس قدیم زمانے کے مذاہب کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ رحمن ڈھیری کے آثار بھکر سے صرف 50 کلومیٹر کی دوری پر ہیں اور ان آثار پر تحقیق سے ہمیں اس علاقے کی قدیم تاریخ اور رسم و رواج کا پتہ چلتا ہے۔ مغرب سے آنے والے تمام قبائل اور قومیں چاہے وہ آریہ ہوں، کشان ہوں یا کوئی اور، انہوں نے انہی راستوں سے مشرق کی طرف پیش قدمی کی اور اس خطے کی تاریخ و ثقافت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ماہر ین تاریخ کے مطابق آریہ سب سے پہلے انہی علاقوں سے مشرق کی طرف گئے۔ ان کی ابتدائی آباد کاری دریائے گول اور دریائے سندھ کے آس پاس ہوئی ۔ کیونکہ یہاں پانی کی فراوانی تھی اور دریائی زمین کی زرخیزی مویشیوں کے لیے نہایت موزوں تھی۔ آریوں کے ان علاقوں میں آباد ہونے کے ذکر ان کی کتاب رگ وید میں ملتے ہیں۔ اس میں اس علاقے کے دریاؤں کا تفصیل سے ذکر موجود ہے۔ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ اس میں دریائے کرم ، گومل اور دریائے کابل کا بھی ذکر ہے۔
ایک نظم رگ وید میں کچھ ایسے ہے:
”اے آبی رو!شاعر اپنے معبد میں تمہاری شکتی کے گیت گا تا ہے۔ تین سلسلوں میں بہنے والے دریاؤں میں ہر ایک میں سات سات رود میں آکر ملتی ہیں ۔کیکن سندھ سب سے زور آور ہے۔اے سندھ ! جب تم میدانوں کی طرف آتے ہو جہاں وافر اناج اگتا ہے تو وہ زمیں تمہاری راہ میں بانہیں کھول کر تمہارا استقبال کرتی ہے۔ سندھ کی صدائیں فضاؤں میں اٹھتی ہیں ۔ وہ گرجتے بادلوں سے برستے پانیوں کی آواز ہے۔ اس کے بہاؤ میں طاقت ہے۔چمک ہے۔جیسے گاؤ ماتا اپنے بچوں کے لیے دودھ نیچے لاتی ہے۔ اسی طرح دیگر ندیوں کا گنگناتا پانی تیرے پاس آتا ہے۔۔۔ اے گنگا! اے جمنا ! اے سرسوتی ! میری تعریفیں آپس میں بانٹو۔ لیکن اے دریا و! جو ان میں شامل ہوتے ہو، سوسامہ (سندھ) میں، میرے الفاظ سنو! اے سندھ ! پہلے تم ترسنامہ کے ساتھ بہتے ہو۔ پھر سوسار تو اور پھر رسا اور پھر سوہنی (دریائے سوات ) کے ساتھ پھر تم ملتے ہو کر مو ( دریائے کرم ) گنتی (دریائے گومل ) ، کھبا ( دریائے کابل —- اور تم چلتے ہو ان سے مل کر اپنی شاہانہ چال ۔ اے سندھ ! تیرا رو کنا مشکل ہے۔ تیرے شفاف پانی کی چمک دمک اور شوکت جو بھر دیتی ہے سارے اطرفا۔ تمام بہتے دریاؤں میں تیری روانی کی ہم سری کوئی نہیں کر سکتا۔ تیری روانی میں جنگلی گھوڑی کی شان ہے اور تیرے حسن میں بھر پور جوان دوشیزہ کا گداز ۔ سندھ ہمیشہ سے جوان ہے اور حسین ہے ۔ گھوڑوں ، رتھوں ، کپڑوں اور سونے کی دولت سے معمور ہے۔ یہاں گالیوں اور اون کی بہتات ہے اور سنہرے اور خوب صورت پھولوں سے ہر دم ہرا بھرا ہوا ہے۔
دریائے گومل :
افغان علاقے غزنی کے شمال مشرق سے شروع ہونے والا یہ دریا 400 کلومیٹر کا سفر طے کر کے دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔ جس مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے، وہیں اس کے کنارے پر تعمیر کی گئی یونیورسٹی کا نام اسی دریا کی نسبت سے گومل یونیورسٹی ہے۔ افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے کے بعد دریائے گومل دریائے شروب کے ساتھ مل جاتا ہے اور ان دونوں دریاؤں کا سنگم ” کھجوری کچھ کہلاتا ہے۔
دریائے کرم :
دریائے کرم کا منبع وادی کرم کا کوہِ سفید ہے۔ کوہ سفید سے نکل کر یہ دریا شمالی وز میرستان سے ہوتا ہوا عیسی خیل کے قریب دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔ اسی دریا کی نسبت کی وجہ سے وادی و کرم کے علاقے کو کرم ایجنسی اور اب ڈسٹرکٹ کرم کا نام دیا گیا ہے۔
دریائے کابل:
دریائے کابل افغانستان کے علاقے میدان وردگ سے ہندو کش کی پہاڑیوں سے نکلتا ہے اور افغان شہروں کا مل ، سر ولی اور جلال آباد سے ہوتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ پشاور، چارسدہ اور نوشہرہ سے ہوتے ہوئے یہ اٹک کے قریب دریائے سند میں شامل ہو جاتا ہے۔ قدیم زمانہ سے جتنے بھی قبائل نے مغرب سے مشرق کی طرف ہجرت کی ، وہ انہی دریاؤں کے کناروں سے اس علاقے میں آباد ہوئے اور اس علاقے کی تہذیب و تمدن پرانمٹ اثرات چھوڑے۔
کافرکوٹ :
مانسرور جھیل سے لے کر ڈیرہ جات تک دریائے سندھ کے کناروں پر صرف دو ہی قلعوں کے آثار آج تک موجود ہیں۔ ان کو کا فرکوٹ کے قلعہ جات کہا جاتا ہے۔ بھکر کی تحصیل کلورکوٹ کے بالکل مغرب میں دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر یہ دونوں قلعے موجود ہیں اور دونوں ہی کو سلیمان کی چوٹیوں پر بنائے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک کو شمالی کا فرکوٹ کہا جاتا ہے اور دوسرے کو جنوبی کا فرکوٹ کہتے ہیں۔
شمالی کا فرکوٹ :
شمالی کا فرکوٹ کے آثار چشمہ بیراج کے مغربی سرے سے چھ کلو میٹر شمال میں ہیں۔ شمالی کا فرکوٹ کوئل کوٹ بھی کہا جاتا ہے اور تاریخ دان بتاتے ہیں کہ اس قلعے اور اس میں موجود مندروں کو را جیل نے بنوایا تھا۔مل کوٹ کا قلعہ دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر کوہ سلیمان کی چوٹی پر بنایا گیا ہے۔ اس قلعے کی فصیل آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے اور مندروں کی باقیات بھی اب تک باقی ہیں ۔ شمالی کا فرکوٹ (ٹل کوٹ ) کا قلعہ دریائے کرم اور دریائے سندھ کے سنگم پر واقع ہے اور ہزاروں سال سے مغرب سے مشرق کی طرف جانے والے قافلے انہی راستوں سے گزرتے تھے۔ قلعے کی ساخت اسے ایک نا قابل تسخیر قلعہ بناتی ہے۔ اس کے تین اطراف گہری گہری کھائیاں ہیں جنہیں عبور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ قلعہ کا اندرونی رقبہ تقر بیا162 ایکٹر پر مشتمل ہے اور اس کے اندر چار مندروں کے معبد اب بھی موجود ہیں۔ ان چار میں سے دو کے آثار اب خستہ حالت میں ہیں۔ قلعہ کے شمالی اطراف کی فصیل اور گیٹ آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہیں اور شمالی طرف اس فصیل کی اونچائی 26 فٹ ہے۔
قلعہ کے جنوب مغرب کی طرف سے ٹیمپل سے نظارہ بہت دلفریب اور پر اثر ہے۔ شمالی کا فرکوٹ سے دریائے سندھ اور پنجاب کے میدان صاف نظر آتے ہیں۔ ان قاموں کا سب سے پہلے معائنہ برطانوی میجر جنرل ھم نے 1882ء میں کیا۔ ان قاموں میں مندروں کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ ہندوشاہی دور میں تعمیر کیے گئے ۔ ان مندروں اور ٹیمپل کا ڈیزائن وادی سون کے میلوٹ ، کٹاس راج اور سرنہ کے قاموں سے ملتا ہے۔ شمالی کا فرکوٹ (ٹلکوٹ) سے 38 کلومیٹر جنوب میں جنوبی کا فرکوٹ واقع ہے۔جنوبی کافرکوٹ : اس کو بلوٹ بھی کہتے ہیں۔ تاریخ دانوں کے مطابق اسے راجہ مل کے بھائی راجہ بل نے تعمیر کرایا تھا اور اس کے نام پر اس کا نام بلوٹ مشہور ہوا۔ ہے۔ اس قلعے کے آثار آج بھی اصل حالت میں موجود ہیں ۔ قلعے کے جنوب کی فصیل اور اس پر گولائی میں واچ ٹاورز کے آثار بھی واضح ہیں ۔ اس قلعہ کے درمیان تین مندروں کی باقیات ہیں اور پر کیا گیا کام ان کو مایان دور سے ملاتا ہے۔ انہیں رنگ آمیز پتھروں سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس قلعے کے اندر ایک چھوٹا سا تالاب بھی موجود ہے اور دریائے سندھ کی ڈھلوان کی طرف پانچ تالابوں کے آثار بھی موجود ہیں۔ اس قلعہ میں جس قسم کا پتھر استعمال کیا گیا ہے، وہ آس پاس کی پہاڑیوں پر نہیں پایا جاتا بلکہ میانوالی کے علاقے میں سالٹ رینج کے پہاڑوں میں پایا جاتا ہے۔ جنوبی کا فرکوٹ ( بلوٹ قلعہ ) بھی شمالی کا فرکوٹ کی طرح ایک پہاڑی چوٹی پر بنایا گیا ہے اور اس کی دفاعی پوزیشن بہت مضبوط رہی ہوں گی ۔اس قلعہ میں موجود ہندو مندر اور ٹیمپل اسے بھی وادی سون کے ان ہندوشاہی مندروں سے ملاتے ہیں جن کے آثار آج بھی اصل حالت میں سیلوٹ ، کٹاس راج اور نندا نہ میں موجود ہیں۔ مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے ان دونوں قلموں کا ذکر اپنی کتاب ” تزک بابری میں کیا ہے۔ جب بابر نے مثل کوٹ اور بل کوٹ فتح کیا تو اس نے بلوٹ قلعے میں جس کو اس نے بلوت لکھا ہے، پڑاؤ کیا اور جشن منایا۔ بابر لکھتا ہے کہ خواجہ کلاں عزنی سے شراب کے کئی منکے اونٹوں پر لاد کر بلوٹ آیا اور یہیں فتح کی خوشی میں جشنِ مے نوشی منعقد کیا گیا۔ دریائے سندھ کے مشرق میں ماڑی انڈس سے شروع ہو تا سالٹ رینج کا پہاڑی سلسلہ بھی اپنے اندر ازمنہ قدیم کی تہذیب لیے کھڑا ہے۔ اس علاقے کی تہذیب اور معاشرتی ارتقاء میں ان علاقوں کے قدیم باشندوں نے اپنا اثر ڈالا جو آج تک محسوس کیا جاسکتا ہے۔اس علاقے میں پائے جانے والے مندر اور قلعے تقریبا ہزار سال پرانے ہیں۔ ماہرین کے مطابق جب سمندر خشک ہوا تو دریائے سندھ کے میدانوں اور سطح مرتفع پوٹھو ہار کے مابین سلسلہ کوہ نمک حائل ہوا جسے سالٹ رینج کہتے ہیں۔ بلوٹ اور کا فرکوٹ کے قلعہ اور ان میں موجود مندروں کا ڈیزائن سالٹ رینج کے قلعوں اور مندروں سے ملتا جلتا۔
دیپال گڑھ :
بھکر اور ارد گرد کی قدیم تاریخ جاننے کے لیے دیپال گڑھ بھی ایک اہم قدیمی شہر ہے۔ موجودہ کروڑ لعل عیسن شہر کا پرانا نام دیپال گڑھ تھا جو کہ اس وقت کے راجہ دیو پال کے نام سے مشہور ہوتا تھا۔ یہ قلعہ ملتان اور کا فرکوٹ کے مراکز کے درمیان ایک اہم دفاعی مرکز تھا اور ہندوشاہی سلطنت کا حصہ تھا۔ 395ھ میں افغانی حملہ آور شاہ محمد غزنوی نے کا فرکوٹ کے قاموں کو فتح کرنے کے بعد دیپال گڑھ کا رخ کیا اور قلعہ کا محاصرہ کر لیا۔ قلعہ کی فتح کے بعد محمود غزنوی نے اپنے ساتھ آئے سلطان حسین قریشی کو اس قلعہ میں تبلیغ کے لیے ٹھہر نے کی درخواست کی۔ سلطان حسین قریشی نے اس قلعہ میں مسجد کی بنیاد رکھی اور قلعہ کا نام کوٹ کروڑ رکھا۔ کروڑ کی وجہ تسمیہ کے بارے میں دور وایات ملتی ہیں۔
1 ۔ پہلی روایت یہ ہے کہ سلطان حسین قریشی نے ایک کروڑ مرتبہ سورۃ مزمل کا ورد کیا جس کی وجہ سے اس جگہ کا نام کوٹ کروڑ مشہور ہوا۔
2- آئین اکبری میں روایت ہے کہ حکومت کی طرف سے جولوگ مالیہ کی وصولی پر مامور ہوتے تھے ، انہیں کروڑی“ کہا جاتا تھا۔انہیں سلطان حسین قریشی کی اولاد میں سے سلسلہ سہروردیہ کے صوفیاء پیدا ہوئے جن میں بہاء الدین زکریا ملتانی ، شاہ رکن عالم ملتانی لعل عیسن کروڑا اور مخدوم رشید مشہور ہوئے دیپال گڑھ کا قلعہ اس علاقے میں دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر سب سے قدیم کاری تھی اور یہ شہر بھکر ، لیہ اور دیرہ اسماعیل خان سے بھی قدیم شہر تھا۔ شاہ محمود غزنوی نے دریائے کرم سے ہوکر کا فرکوٹ، دیپال گڑھ اور پھر ملتان اور اُچ شریف کو فتح کیا۔ دریائے کرم اور دریائے سندھ کے کنارے پر آباد یہ قلعہ جات مغرب سے آنے والے حملہ آوروں کے لیے ایک اہم دفاعی مراکز سمجھے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ محمد غزنوی کے بعد جب شہاب الدین غوری نے ان علاقوں پر حملہ کیا تو ان کی فتوحات کے بعد اس علاقے پر علی بن کر ماخ کو اپنا گورنر مقرر کیا اور پھر اس علاقے میں مسلمانوں کے اثر ورسوخ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور دیپال گڑھ برصغیر میں سلسلہ سہروردیہ کا مرکز بنا۔اس زمانے میں اس شہر کا شمار برصغیر کے مشہور شہروں میں ہوا کرتا تھا۔
سالٹ رینج :
کالا باغ سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ جہلم تک چلا جاتا ہے جو سمندر کے خشک ہونے کے بعد سطح مرتفع پوٹھوہار اور وادی و سندھ کے میدانوں کے بیچ حائل ہے۔ یہ سلسلہ پہلی قدرتی رکاوٹ ہے جو برصغیر کو یوریشین پلیٹس سے جدا کرتا ہے۔ اس پہاڑی سلسلے میں موجود چٹانیں اور فوسلز زمین کی پوری تاریخ بتاتے ہیں۔ چٹانوں کی تہیں اس علاقے میں عمودی ہیں۔ سکندر مقدونی اس علاقے کے شہر مند نہ سے گزر کر راجہ پورس سے جنگ کرنے دریائے جہلم کے کنارے پہنچا تھا۔ سکندر اعظم کے بعد اس علاقے پر بدھ مت حکومت بنی۔ چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی میں اس علاقے میں سہا پورہ (سنگھا پورہ ) کے نام کی سلطنت کا ذکر ملتا ہے۔ جس کا مرکزی شہر کٹاس راج تھا۔ اس کے بعد یہ علاقہ ہندوشاہی سلطنت کا حصہ بنا جس میں بلوٹ اور کاب لٹک کے علاقے شامل تھے ۔ گیارہویں صدی عیسوی میں شاہ محمود غزنوی نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا اور اس علاقے کے جنجوعہ قبائل نے اسلام قبول کر لیا۔ اس علاقے میں مشہور ہندو قلعے اور مندر مندرجہ ذیل ہیں۔
1 میلوٹ
2۔ کٹاس راج
3 نندنہ
میلوٹ مندر Malot Temple:
میلوٹ کے آثار سالٹ رینج کی ایک اونچی چوٹی پر ہیں جس کے تین اطراف گہری کھائیاں ہیں۔ اس کے تعمیراتی ڈیزائن اور بلوٹ کے مندروں کے ڈیزائن میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ میلوٹ کا مندرنل کوٹ اور بلوٹ کے مندروں سے پرانا ہے۔ اس کے تعمیراتی آرکیٹیکچر پر کشمیری مندروں کی تعمیر کا اثر نمایاں ہے۔ یہ انتہائی نفیس سرخ پتھروں سے بنایا گیا ہے اور چاروں اطراف ساخت ایک جیسی ہے جو اس پر گندھارا تہذیب کا اثردکھاتی ہے۔
کٹاس راج Katas Raj:
سالٹ رینج کے پہاڑوں میں بنایا گیا یہ مندر کسی زمانے میں ہندوؤں کی بہت اہم عبادت گاہ تھا۔ اس میں ٹیمپل، قلعہ اور رہائش گاہوں کی تعمیرات اس تالاب کے گرد کی گئی ہیں جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ہندو دیوتا شیو کا ہے۔ لوک روایات میں ہے کہ جب شیو د یوتا نے اپنی بیوی کی موت پر آنسو بہائے تو ان سے یہ تالاب بن گیا جو ایک کٹاس راج میں بنا اور دوسرا راجستھان میں ۔ ہندی میں کٹاس روتی ہوئی آنکھ کو کہا جاتا ہے۔
نند نه Nandna:
سالٹ رینج کے مشرق میں بند نہ قلعہ کو سلسلہ کوہ نمک کا گیٹ وے قلعہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اس راستے پر ہے جس کو مغرب سے آنے والے اکثر فاتحین نے استعمال کیا ہے۔ ہندو شاہی حکمران جب شاہ محمود غزنوی سے جنگ ہارے تو انہوں نے اسی نند نہ میں پناہ لی اور اسے اپنا نیا دار الحکومت بنایا۔ البیرونی نے اسی نندنہ کے آس پاس قیام کیا اور زمین کی پیمائش کی۔تیرھویں صدی عیسوی میں جلال الدین خوارزم شاہ جنگیز خان سے شکست کھا جانے کے بعد کالا باغ اور تھل سے ہوتا ہوا اسی نندنہ میں پناہ گزین ہو گیا اور یہیں سے جلال الدین خوارزم شاہ نے تھل اور سالٹ رینج کے علاقوں پر اپنی حکمرانی قائم کی اور آس پاس کے علاقوں میانوالی ، کلورکوٹ اور موجودہ بھکر کے علاقوں کو اپنے تصرف میں لے لیا۔ جلال الدین خوارزم شاہ نے سلاطین دہلی سے بھی امداد طلب کی تاکہ منگولوں سے بدلہ لے سکیں لیکن دہلی کے سلاطین نے منگولوں سے دشمنی لینے میں پس و پیش کیا۔جلال الدین خوارزم شاہ نا امید ہو کر اس علاقے سے اچ شریف پر حملہ آور ہوا۔ بھکر اور تھل کے علاقوں پر کچھ عرصہ جلال الدین خوارزم شاہ کے مصاحبین نے اپنا تسلط قائم رکھا۔
امب Amb :
امب ایک ویران ہندو ٹیمپل ہے جو کہ سالٹ رینج میں سکیسر کی چوٹی سے آٹھ کلو میٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ اس کے ٹیمپل کو بھی تاریخ دان ہندو شاہی راج سے جوڑتے ہیں اور اسے بلوٹ اور ٹل کوٹ کا ہم عصر مانتے ہیں ۔
حوالہ جات:
1 . Gazetteer of Dera Ismaeel Khan
2 . Story of Civilization by Will Durant
3 . Imperial Gazetteer of N.W.F.P
4 . Ancient Pakistan, Vol-vi, Rahman Dheri Excaution Report by Dr. Farzand Ali Durrani
5 . Stein, on Alexandar "s track ti Indus
6 . Wheeler, Sir M. Civilization of Indus Valley &Beyond
7 . Pakistan Handbook by Isobel Shaw
8 . Notes on Afghanistan & Balochistan, by H.G.Raverty Vol-ll
9 . تاریخ سرزمین گومل
10 . تاریخ لیہ
11 . تزک بابری
12 . ہمایوں نامہ
13 . District Gazetteer of Mianwali 1918.