بھکر کا نام کیسے وجود میں آیا ؟
جب منگول خراسان پر حملہ آور ہوئے تو سید محمد مکی اپنے خانوادے کے ساتھ خراسان سے براستہ ہرات، قندھار اور پشین سے ہوتے ہوئے سندھ تشریف لائے۔ روایت میں ہے کہ آپ صبح کے وقت پہنچے تھے۔ آپ نے دریائے سندھ کی وادی پر ابھرتے سورج کو دیکھتے ہوئے عربی میں یہ الفاظ کہے تھے :
جعل الله بكرتى فى البقعة المباركة ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے میری صبح کو ایک مبارک علاقے میں منور فرمایا ہے۔“ اور آپ کے پکارے گئے الفاظ کی بنا پر اس جگہ کا نام بکھر مشہور ہو گیا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اس سرزمین پر پہنچ کر گائے ذبح کر کے خیرات کی ۔ عربی میں گائے کے نام کی بنا پر یہ بقر اور بعد میں بگڑ کر بکھر، مشہور ہوا۔ کتب میں یہ بھی ملتا ہے کہ آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کہاں رہنا پسند کریں گے۔ آپ نے کہا، ‘ اس جگہ جہاں گائیں اور ابھرتا ہوا سورج انہیں نظر آئے گا۔ سید محمد مکی کو اس علاقے میں حکومت وقت کی طرف سے جاگیر عطاء کی گئی جس کے بهکر داستان 29 سید جاوید حسین شاہ بدلے میں ان کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ علاقے میں امن و امان کی صورت حال کو سنوارنے میں بھر پور ساتھ دیں گے۔ دریائے سندھ اور ساتھ میں پہاڑوں اور مشرق میں صحرا کی وجہ سے یہ علاقہ امن و امان کے حوالہ سے ہمیشہ مسائل سے دو چار رہا تھا۔ سید محمد مکی اور ان کے خاندان نے یہاں بکھر“ کی بنیاد رکھی۔ بلوچ قبائل نے بھی اسی دوران ہی دریائے سندھ کے قریب آبادکاری کی اور انہی بلوچ قبائل نے آپ کو میر بکھر“ کا خطاب دیا۔ بکھر اور روہڑی کے علاقے کی جاگیر آپ کے خانوادے کے پاس آ گئی ۔ کچھ ہی عرصے میں بکھر دریائے سندھ پر ایک اہم دفاعی اور معاشرتی مرکز بن گیا۔ سید محمد مکی کی اولا د بکھر کی نسبت سے باکھری سادات مشہور ہوئی اور برصغیر پاک و ہند میں ان کی اولا دا اپنے نام کے ساتھ آج تک باکھری سید لکھتی ہے۔ ایک برطانوی مصنف ایبٹ نے بکھر کو یوں بیان کیا ہے: بکھر روہڑی اور سکھر کے درمیان ایک پرانا قلعہ نما شہر ہے جس کی صبحیں روشن اور شامیں دل فریب اور پورے برصغیر میں مشہور ہیں۔ دریا، صحرا اور پہاڑوں کے ساتھ قربت نے بکھر کو وادی سندھ کا شاندار مرکز بنا دیا ہے۔ "تحفۃ الکرم کے مصنف نے بکھر کا پرانا نام فرشتہ لکھا ہے اور وضاحت کی ہے کہ سید محمد مکی صبح کے وقت بکھر تشریف لائے اور اس علاقے کو بکھر“ کا نام انہوں نے ہی دیا گیارہویں صدی عیسوی سے جب بھنجور اور منصورہ زوال پذیر ہوئے تو بکھر اپنے محل وقوع اور جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے نمایاں ہوا اور تقریبا چھ سو سال تک بکھر سندھ کی دفاعی ریڑھ کی ہڈی رہا ہے۔ بهکر داستان 30 سید جاوید حسین شاہ سندھ کے مشہور جرنیل دریا خان لاشاری نے جام فیروز کی طرف سے ٹھٹھہ کے حکمرانوں سے جنگ صرف بکھر کے ناقابل تسخیر ہونے کی وجہ سے جیتی۔ تاریخی حوالوں میں ہے کہ بکھر کے ارد گرد ایک میل تک دریائے سندھ کا پھیلاؤ تھا اور سکندر اعظم بھی کسی زمانے میں اس کے قریب سے گزرا تھا۔
کچھ تاریخ دان اسے عرب منصورہ بھی کہتے ہیں کیونکہ منصور عربی میں دفاع یا فاتح کو کہتے ہیں ۔ ناصر الدین قباچہ کے دور میں بکھر میں دو قلعے تھے۔ شاہ حسین اراغون نے 1528ء میں قلعہ نما جزیرہ کے ارد گر د فصیل تعمیر کرائی جس کے بل بوتے پر وہ اسے نصیر الدین ہمایوں کے حملے سے بچانے میں کامیاب ہوا۔ 1572ء کے بعد سے سکھر کا تذکرہ اس وجہ سے شروع ہوا کیونکہ بکھر اور موجودہ سکھر کے درمیان دریائے سندھ حائل ہو گی اور نہ شروع میں ایسا نہیں تھا۔ ہنری پوٹینگر کے مطابق بکھر سکھر سے قدیم ہے اور پرانے سندھ کا دارالحکومت ہے۔ ابوالفضل اپنی کتاب میں سندھ کا منصورہ بکھر کو گردانتا ہے اور آئین اکبری میں اس کی تفصیل درج ہے۔ ابن بطوطہ نے بکھر کو ایک پھلتا پھولتا شہر لکھا ہے اور اس کی جغرافیائی اہمیت بھی بیان کی 1658ء میں منوچی جس نے دارا شکوہ کی آرمی کی آرٹلری کولیڈ کیا تھا، اس نے بھی بکھر کی تفصیل بیان کی ہے۔ میر سید محمد معصوم شاہ باکھری کا تعلق بھی بکھر سے تھا۔ آپ نے تاریخ سندھ اور تاریخ معصومی لکھیں۔ آپ نے 1595ء میں مغل افواج کے ساتھ سہبی اور پشین کے علاقے فتح بهکردستان 31 سید جاوید حسین شاہ کیے۔ 1598ء میں اکبر بادشاہ نے آپ کو سندھ کا گورنر مقرر کیا۔ آپ کے نام سے سکھر میں معصوم شاہ مینار آج بھی موجود ہے جو کہ 1607ء میں سرخ اینٹوں سے تعمیر کیا گیا تھا۔ اسی مینار کے قریب آپ دفن ہیں۔