بھکر

لنگاہ خاندان

رائے سہرہ لنگاہ کا تعلق سبی سے تھا۔ کچھ مصنفین اسے بلوچ قبیلہ بتاتے ہیں جبکہ بعض نے انہیں راجپوت لکھا ہے۔ رائے سہرو نے ملتان پر قبضہ کرنے کے بعد قطب الدین لنگاہ کا لقب اختیار کیا ۔ قطب الدین لنگاہ نے 1454 ء سے لے کر 1470 ء تک ملتان پر حکومت کی۔1470ء میں آپ کا انتقال ہو گیا۔قطب الدین لنگاہ کے فوت ہونے کے بعد اس کا ایک بیٹا سلطان حسین لنگاہ کے نام سے تخت پر براجمان ہوا اور اس کی ذہانت اور قابلیت کا چرچا ہونے لگا۔ سلطان حسین لنگاہ علماء اور صوفیاء کا بہت قدر دان تھا۔ آپ نے اچی اور ملتان کے سادات کو جاگیریں عطا کیں اور اچ کے سادات خانوادے میں لنگاہ شہزادیوں کی شادیاں بھی ہو ئیں۔انہی دنوں ملتان کے سرحدی علاقوں میں تجارتی قافلوں کو لوٹ لیا جاتا تھا۔ لنگاہ حکمرانوں نے بلوچ قبائل کی آباد کاری اپنے سرحدی علاقوں میں کروائی اور میر سہراب خان کی سر پرستی میں بلوچ قبائل کو دھن کوٹ سے لے کر کوٹ کروڑ تک دریائے سندھ کے دونوں طرف آبا د کیا گیا۔میر سہراب کی اولاد میں سے جام اسماعیل خان نے ڈیرہ اسماعیل خان کے نام سے دریائے سندھ کے کنارے شہر بسایا۔ گودار سے حاجی خان میرانی بھی اپنے بیٹے غازی خان میرانی کے ساتھ ملتان آیا اور اسے بھی ڈیرہ جات میں دریائے سندھ کے آس پاس جاگیریں دی گئیں۔ غازی خان نے اپنے نام سے ڈیرہ غازی خان شہر بسا یا اور اسی غازی خان میرانی کی اولاد میں سے ایک بلوچ کمال خان میرانی نے پہلے کوٹ کمال“ بسایا جو کہ بعد میں کوٹ کمال سے لیہ مشہور ہو گیا۔ انہی میرانی سرداروں نے میر چاکر اعظم کی اولا د میں بھکر ، منکیرہ اور تھل کے علاقے تقسیم کیے تھے اور جہان خان نام کا قصبہ غازی خان دوئم کے نام پر بسایا گیا۔ غازی خان دوئم کا اصل نام جہان خان تھا۔سید محمد راجن شاہ بخاری آپ سید جلال الدین سرخ پوش بخاری کی اولاد میں سے ہیں ۔ آپ کے والد کا نام سید حامد کبیر ثانی تھا۔ آپ کے والد نے اپنے خانوادے کے ساتھ ہجرت کی اور بلوٹ شرایف میں رہائش پذیر ہوئے۔ سید محمد راجن شاہ بخاری برصغیر میں فقہ جعفریہ کے مجتہد قاضی نور اللہ شوستری کے ہم عصر ہیں۔ آپ شرعی علوم میں بہت فاضل شخصیت تھے ۔ آپ کو سدا بھاگ بھی کہا جاتا ہے۔ سید محمد راجن شاہ بخاری کی اولاد مبارک خان لنگاہ کی بیٹی سے ہوئی۔ جس سے آپ کا ایک بیٹا سید زین العابدین پیدا ہوا۔تاریخ دانوں کے مطابق جب نصیر الدین ہمایوں مغل بادشاہ کو ایرانی صفوی خاندان نے دہلی کا تخت واپس حاصل کرنے میں مدد دی تو اس وقت مغل بادشاہ کو برصغیر میں اہل تشیع کی سر پرستی کرنے کی بھی درخواست کی گئی۔ نصیر الدین ہمایوں اپنے زمانے میں اہلِ تشیع  علماء اور بالخصوص سادات کو بہت ادب اور احترام سے نواز نے لگا۔ راجن شاہ کا موجودہ مقبرہ بھی انہی مغل بادشاہوں کی طرف سے عقیدت کا منہ بولتاثبوت ہے۔کیونکہ ان دنوں دریائے سندھ کے راستے کشتی کے ذریعے سفر ہوتا تھا، اس لیے اُچ شرایف سے سادات براستہ دریائے سندھ بلوٹ شریف اور عیسیٰ خیل کی طرف گئے۔ انہی دریائی سفر کے دوران انہوں نے موجودہ بھکر کو دریائے سندھ کے کنارے دیکھا اور شنید ہے کہ سندھ کے بکھر کی نسبت سے اسے بھکر کا نام دیا۔ اس وقت بھکر کے تین اطراف پانی تھا اور اس کی ہیئت پرانے بکھر سے مشابہت رکھتی تھی ۔ سید محمد راجن شاہ بخاری اور سادات خاندانوں کو اس علاقے میں بلوچ اور جاٹ اقوام نے بہت عزت دی اور انہیں روحانی پیشوا کا درجہ دیا۔ ہر آباد ہونے والے علاقے میں سادات کو بسایا گیا تا کہ وہ اپنے مریدین کے لیے باعث روحانیت بنیں اور ان کی اسلامی عقائد کی پیروی میں معاونت کریں۔ سید محمد راجن شاہ بخاری کا شجرہ یوں ہے:مخدوم سید محمد راجن شاہ بخاری بن سید حامد کبیر ثانی بن سید کیمیا نظر بخاری بن سید رکن الدین بخاری بن سید حامد کبیر بخاری بن سید ناصر الدین محمود بخاری بن سید جلال الدین حسین جہانیاں جہاں گشت بن سید احمد کبیر بخاری بن سید جلال الدین سرخ پوش بخاری۔ سید محمد راجن شاہ بخاری کے فرزند کا نام سید زین العابدین بخاری تھا۔سید زین العابدین بخاری کے فرزند سید حسن جہانیاں ہیں جو کہ پرانے بھکر کے محلہ ملکا نوالہ میں دفن ہیں۔ سید حسن جہانیاں اپنے مریدین کی جماعت بنا کر اُچ شریف میں جا کر اپنے اجداد کی خانقاہوں کو واپس لیا اور آپ سید جلال الدین سرخ پوش کے مزار کے سجادہ نشین بنے۔ سیدحسن جہانیاں نے قاضی نور اللہ شوستری سے بھی کسب فیض حاصل کیا اور ان کی صحبت میں بھی رہے۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com