بھکر اور جسکانی خاندان
بھکر
بھکر نام کے متعلق تین روایات ملتی ہیں ۔
1۔ بکھر سندھ سے سومرہ خاندان کے کچھ لوگ سندھ میں اپنے اقتدار کے خاتمے کے
بعد موجود بجکر میں آبسے اور انہوں نے اسے جگر کا نام دیا۔
2۔ اُچ شریف سے جب سادات نے بلوٹ شریف اور عیسی خیل کے لیے براستہ دریائے سندھ سفر کیا تو انہی سادات میں سے کچھ باکھری سادات اس بھکر میں آباد ہوئے اور انہوں نے اپنے بزرگوں کے وطن ” بکھر“ کے نام پر اس جگہ کا نام ” بکھر رکھا جو بکھر سے جکڑ کہلایا جانے لگا۔ اس بھکر کے قدیم محلہ ملکانوالہ میں مخدوم سید محمد راجن شاہ بخاری کے پوتے سید حسن جہانیاں بخاری دفن ہیں۔ بھکر کے علاقے میں سادات گھرانوں کی پذیرائی تمام بلوچ قبائل نے کی اور انہیں اپنے روحانی پیشوا کا درجہ دیا۔ اس علاقے کی زرخیز زمینیں بھی سادات گھرانوں کو عقیدت کے لیے انہی قبائل نے دیں اور سکھر بکھر سے لے کراچ شریف اور پھر بھکر تک کی تاریخ میں یہی قبائل ایک دوسرے کے شانہ بشانہ رہے
ہیں۔
3 ۔ میر چاکر اعظم کی اولاد میں سے ایک سردار میر بلوچ خان تھے جنہوں نے مغل بادشاہ شاہ جہان کے دور حکومت میں علاقہ بھکر و منکیر ہ پر حکومت کی تھی۔ میر بلوچ خان کے ایک فرزند کا نام بھکر خان تھا جن کے نام پر بلوچ خان نے بھکر شہر آباد کیا تھا۔ اور رفتہ رفتہ یہ شہر منکیرہ اور دریا خان سے بھی بڑا شہر بن گیا اور دریائے سندھ کے ساتھ موجود زرخیز زمینوں کی وجہ سے یہ اس علاقے کا مشہور تجارتی مرکز بن گیا۔
جسکانی خاندان :
ملتان میں جب لنگاہ حکومت کمزور ہوئی تو ہر علاقے کے گورنر نے اپنی عملداری کا اعلان کرنا شروع کر دیا۔
اس وقت غازی خان دوم نے جن کا نام جہان خان تھا، نے تمام تھل پر اپنا قبضہ کر لیا اور بجکر و ھل کا علاقہ امیر رند بلوچ کو دے دیا۔ امیر رند بلوچ میر چاکر اعظم رند کی تیسری پشت میں سے تھا۔امیر رند بلوچ کی وفات کے بعد غازی خان نے علاقہ بھکر و پھل کو امیر رند بلوچ کے خاندان کی بجائے کسی اور سردار کو دے دیا۔ امیر رند بلوچ کے بھائی داؤدخان نے بغاوت کردی۔ داؤد خان نے بہل اور کروڑ کے آس پاس کے بلوچ قبائل کو ملا کر واڑہ مشکوری کے جنگل کو اپنا مستقر بنایا اور گوریلا جنگ کے ذریعے ڈیرہ غازیخان اور ڈیرہ اسماعیل خان کے دونوں صوبہ داروں کو تنگ کیا۔دونوں صوبہ داروں نے مغل بادشاہ اکبر کے پاس وفد بھیجے اور مغل افواج کی مدد سے داؤ دخان کو شکست دی گئی ۔داؤد خان اور مغلیہ فوج کے درمیان مڑھا نوالی میں جنگ ہوئی اور داؤد خان کے مارے جانے کے بعد انہیں وصیت کے مطابق مقبرہ راجن شاہ سے متصل قبرستان میں دفن کیا گیا تھا۔
بلوچ خان امیر رند کا بیٹا تھا اور تاریخ دانوں کے مطابق اس نے مغل بادشاہ شاہ جہاں کے دور حکومت میں 1634ء میں قندھار کی فتح میں کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد 1649ء، 1652ء اور 1653ء کے مغل حملوں میں جو قندھار پر کیے گئے تھے، میں بھی بلوچ خان اپنے قبائل کے ساتھ شامل ہوا تھا۔
بلوچ خان کی نسل ان بیٹوں سے چلی جن کے نام سے قبائل اب بھی موجود ہیں۔ بلوچ خان کی سب سے بڑی اولا د میں بیٹی تھی جس کا نام ملائم بی بی تھا۔ بلوچ خان کے بیٹوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
1 ۔ جسکت خان جسک خان۔ جسکانی نسل کا بانی
2 لشکر خان ۔
شکرافی خان ۔
3 – مده خان نوراخان – مند رانی اور نورانی بلوچ
4 – کندن خان
کندانی بلوچ
5 کو بیچ خان۔
کچانی بلوچ
6 – محمد خان ۔
ممدانی بلوچ
7۔ شہانہ خان ۔
شہانی بلوچ
8 ۔مورخان۔
مورانی بلوچ
تاریخ ڈیرہ اسماعیل خان کے مصنفین نے سرگانی قبیلہ کو بھی بلوچ خان کی اولا دلکھا ہے جبکہ بعض تاریخ دان سرگانی قبائل کو دریشک قبیلے کا حصہ مانتے ہیں جو کہ راجن پور میں بھی
آباد ہیں۔
بلوچ خان کی وفات کے بعد ان کے بیٹوں میں دستار پر تکرار ہوئی اور پھر قبائل کےبڑوں نے ملائم بی بی کے شوہر عبد اللہ خان میرانی کو سردار چنا ۔ اسی عبداللہ خان میرانی نے بھکر کے شمال مشرق میں ایک قلعہ بنوایا جو کہ اب دلیوالہ کے نام سے مشہور ہے ۔ عبداللہ خان میرانی نے یہ قلعہ 1670ء میں بنوایا اور اس کا نام کوٹ عبد اللہ خان رکھا تھا۔ بعد میں
وقت کے ساتھ ساتھ یہ کوٹ عبد اللہ خان سے دلے والا میں تبدیل ہو گیا۔ عبداللہ خان میرانی کی وفات کے بعد جسک خان (جسکت خان جسکانی) سردار چنے گئے۔ جسک خان اور ان کی اولاد نے یکے بعد دیگرے اس ترتیب میں بھکر اور تھل پر
حکومت کی ۔
1 ۔ جسکت خان جسکانی
2۔سلطان خان جسکانی
3 نواب لدھوخان
4 ۔ نواب محمود خان
5۔ نواب احمد خان
6 نواب شہباز خان
,1713, 1700
1724 1713
,1730, 1724
,1739 1730
1747 1739
1757 1747
7 نواب بلوچ خان ثانی
,1768 1757
بلوچ خان ثانی کے بعد ان کے بھتیجے فتح خان جسکانی کو سردار بنایا گیا۔ فتح خان جسکانی نے بھکر اپنے بیٹے نصرت خان کے حوالے کیا اور خود منکیرہ میں رہنے لگا۔
فتح خان جسکانی کی وفات کے بعد اس کے دونوں بیٹے بہت چھوٹے تھے۔ اس لیے فتح خان جسکانی کے وزیر حسن خان لکانی نے زمام اقتدار خود سنبھال لی۔ حسن خان اسکانی بلوچ خان کے لڑکے لشکر خان کی اولاد میں سے تھا۔
لشکر خان کی اولا د شکرانی السکرانی کہلاتی تھی ۔ ضلع لیہ میں اب بھی اسکانی والا علاقہ اسی آپ ہی کی سر پرستی میں اُچ گل امام کے آس پاس تین قلعے بنائے گئے جن کے نام درج ذیل ہیں۔
چاندنه
ہزارہ
سونی
آپ نے دریائے چناب سے تھل کے علاقے میں نہریں بھی بنوائیں۔اس نئی ریاست کی اطلاع جب والی کابل تیمور شاہ کو ملی تو اس نے حیات خان جسکانی کے نام ایک پیغام بھیجا کہ وہ فوراً گل امام پر لشکر کشی کرے اور سید گل محمد کو قید کر کے کابل بھیجوائے۔حیات خان جسکانی نے والی کابل کے کہنے پر گل امام پر لشکر کشی کی ۔ حیات خان جسکانی کی فوج کی اکثریت بلوچ قبائل پر مشتمل تھی جنہوں نے گل امام کے سادات سےجنگ کرنے کو گناہ کہا اور حیات خان جسکانی کو چھوڑ کر سادات گل امام سے جاملے۔ حیات خان جسکانی نے منکیرہ واپس آکر دوبارہ لشکر کشی کی تیاریاں شروع کر دیں کیونکہ
اس پر شہنشاہ کا بل کا دباؤ تھا۔
قلعہ منکیرہ میں ہی ایک بلوچ سردار گولہ خان سرگانی نے اسے ساتھیوں کی مدد سے قتل کر دیا اور سرگانیوں نے قلعہ منکیرہ پر قبضہ کر لیا۔
محمد خان جسکانی:
حیات خان جسکانی کے قتل کے بعد بھکر میں ان کے بھائی محمد خان جسکانی کی دستار بندی کروائی گئی ۔ محمد خان جسکانی نے ایک لشکر کے ساتھ دیوان لدھا رام کو منکیرہ پر حملے کےآپ ہی کی سر پرستی میں اُچ گل امام کے آس پاس تین قلعے بنائے گئے جن کے نام
درج ذیل ہیں۔
چاندنه
ہزارہ
سونی
آپ نے دریائے چناب سے تھل کے علاقے میں نہریں بھی بنوائیں۔
اس نئی ریاست کی اطلاع جب والی کابل تیمور شاہ کو ملی تو اس نے حیات خان جسکانی کے نام ایک پیغام بھیجا کہ وہ فوراً گل امام پر لشکر کشی کرے اور سید گل محمد کو قید کر کے کابل
بھیجوائے۔
حیات خان جسکانی نے والی کابل کے کہنے پر گل امام پر لشکر کشی کی ۔ حیات خان جسکانی کی فوج کی اکثریت بلوچ قبائل پر مشتمل تھی جنہوں نے گل امام کے سادات سے
جنگ کرنے کو گناہ کہا اور حیات خان جسکانی کو چھوڑ کر سادات گل امام سے جاملے۔ حیات خان جسکانی نے منکیرہ واپس آکر دوبارہ لشکر کشی کی تیاریاں شروع کر دیں کیونکہ
اس پر شہنشاہ کا بل کا دباؤ تھا۔
قلعہ منکیرہ میں ہی ایک بلوچ سردار گولہ خان سرگانی نے اسے ساتھیوں کی مدد سے قتل کر دیا اور سرگانیوں نے قلعہ منکیرہ پر قبضہ کر لیا۔
محمد خان جسکانی:
حیات خان جسکانی کے قتل کے بعد بھکر میں ان کے بھائی محمد خان جسکانی کی دستار بندی کروائی گئی ۔ محمد خان جسکانی نے ایک لشکر کے ساتھ دیوان لدھا رام کو منکیرہ پر حملے کےلیے بھیجا کیونکہ سرگانیوں کے پاس فوج کی کمی تھی ، اس لیے وہ منکیرہ سے بھاگ کر نواں کوٹ کے قلعے پر قابض ہو گئے اور وہاں سے قلعہ منڈا میں جاہے۔ دیوان لدھا رام نے قلعہ منڈا پر حملہ کیا اور یہاں سرگانی اقوام نے قلعہ سے باہر نکل کر جسکانی افواج کا مقابلہ کیا۔ گوله خان سرگانی اس لڑائی میں مارا گیا۔
سرگانی اقوام کو شکست ہوئی اور اس کے بعد محمد خان جسکانی نے انہیں منڈا اور شیر گڑھ کے علاقے بطور جاگیر د یے تا کہ وہ بھکر اور منکیرہ میں کوئی بغاوت نہ کر سکیں۔
حوالہ جات:
4 ۔ تاریخ لیہ 5- تاریخ منکیرہ
1. Gazetteer of Dera Ismaeel Khan
2. Gazetteer of Mianwali District
3. Gazetteer Jhang District
6. Gazetteer of Dera Ghazi Khan
تاریخ معصومی ( سیدمحمد معصوم با کھری)
8 – تحفتہ الکرم از سید میر علی قانع ٹھٹھوی