بھکر

بھکر اور اس کا مستقبل

بھکر بننے سے لے کر اب تک بھکر نے کچھ حوالوں میں خوب ترقی کی ہے اور بعض حوالی جات میں یہ باقی حوالہ جات میں یہ دیگر علاقوں سے پیچھے رہ گیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد 1948 ء کے ریونیو ایکٹ کے تحت ادارہ ترقیات تھل تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (TDA) قائم کیا گیا۔ اس ادارہ کے تحت تھل کے زمینداروں سے رقبے لے کر آباد کاروں میں تقسیم کیے گئے تھے۔ ڈپٹی کمشنر مظفر گڑھ، ڈپٹی کمشنر سرگودھا اور ڈپٹی کمشنر میانوالی تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ممبرز تھے۔ 1950ء میں تھل کینال میں دریائے سندھ سے پانی چھوڑا گیا۔ بھکر کی خوش قسمتی میں سب سے بڑا عمل دخل اسی تھل کینال کا ہے جس کے پانی سے تھل کا ریگستان نخلستان بننا شروع ہوا۔ گورنمنٹ آف پنجاب نے 1954ء میں اعلان کیا کہ تھل کینال کی حدود کے اندر تھل کے مالکان سے مارجنل ایڈ جسٹمنٹ فارمولا کے تحت رقبہ حاصل کیا جائے گا۔ مارجنل ایڈ جسٹمنٹ فارمولMarginal Adjustment Formulal:
اس فارمولے کی اہم دفعات مندرجہ ذیل تھیں:
1 – وہ مالکان اراضی جن کا رقبہ 15 ایکڑ سے کم ہے، ان سے رقبہ نہ لیا جائے۔ بهکر داستان 155] سید جاوید حسین شاہ
2- 16ایکڑ سے 100 ایکڑ تک کی اراضی کے مالکان سے 50 فیصد اراضی کی جائے۔
3 – رقبہ ملکیتی اونی اور مزروعہ راج 1951 ء اس فارمولا سے متمنی ہو گا۔ 1955ء میں گورنمنت نے ترمیمی ایکٹ نافذ کیا جسے سلیب سسٹم فارمولا کہتے ہیں۔

سلیب سسٹم فارمولا :اس فارمولے کے نکات مندرجہ ذیل تھے۔
1 ۔ نہری حدود میں 15 ایکڑ اراضی سے کوئی رقبہ نہ لیا جائے گا۔
2۔ ایک صدا یکڑ سے زائد رقبہ کے مالکان کو اول پندرہ ایکڑ تک رقبہ چھوڑ کر باقی رقبہ کا
نصف بحق سرکا رچھوڑ نا ہوگا۔
3۔ اول 115 ایکٹر محفوظ رکھ کر 16 سے 100 ایکڑ تک کل رقبہ کا نصف اور باقی رقبہ کا
چوتھائی حصہ حاصل کیا جائے گا۔ سکیم برائے کاشتکاری Peasant Grant Scheme: 1 ۔ اس سکیم کے تحت فی خاندان ان بے زمین مہاجرین کو زمین دی گئی جو کہ ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے تھے۔
2 ۔ وہ لوگ جو تھل کے اضلاع کے علاوہ تیم ، خشک سالی یا دریا کے کٹاؤ کے متاثرہ تھے ، ان کو زمینیں الاٹ کی گئیں ۔
3 فوج کے ریٹائرڈ ہونے والے افسران کو زمینیں الاٹ کی گئیں۔
1951 ء سے 1963 ء تک اس سکیم کے تحت 78642ایکڑ نہری زمین 5270 افراد کو الاٹ کی گئی تھی ۔یہ زمینیں 150 روپے فی ایکڑ دی گئی تھیں اور یہ رقم بھی 70 اقساط میں ہر چھ ماہ بعد وصول ہونا قرار پائی تھی ۔

کنواں ٹیوب ویل اسکیم 1952ء:

یه تیم 1952ء میں ڈھنگانہ، جنڈا نوالہ، مہوٹہ، خانسر اور صبینو کے علاقوں میں شروع کی گئی۔ اس سکیم کے تحت ٹیوب ویل پر 150 ایکڑ اور کنواں لگانے پر 125 ایکٹر فی کس زمین الاٹ کی گئی۔ 9 روپے فی ایکڑ ایڈوانس اور بقایا 80 شش ماہی اقساط میں کل رقم وصول ہونا تھی۔ ٹیوب ویل سکیم کے تحت 196700 ایکڑ رقبہ 1308 افراد کو الاٹ کیا گیا جبکہ 119450ایکڑ رقبہ 778 افراد کو الاٹ کیا گیا۔ٹیوب ویل سکیم 1963-64ء: اس سکیم کے تحت 150 ایکڑ فی فرد کے حوالے سے لیز پر 10 سال کے لیے اراضی دی گئی اور اس میں 20 سال کا اضافہ بھی کیا گیا۔ اس سکیم کے تحت بھکر میں 115200 میٹر رقبہ101 افراد میں تقسیم کیا گیا۔

بھیٹر پال سکیم:

اس سکیم کے تحت 1952ء سے 1976 ء تک مختلف چکوک میں 40 افراد کو 15 ایکٹر فی کس کے حساب سے زمین 15 سالوں کے لیے الاٹ کی گئی۔

اٹامک انرجی کمیشن سکیم :

میانوالی کے اٹامک انرجی کے متاثرین کے لیے 2880 ایکڑ زمین مختص کی گئی۔چشمہ بیراج فیز 2 چشمہ بیراج کے متاثرین کے لیے فیز 2 میں 111552 ایکڑ زمین مختص کی گئی ۔

زراعت:

ضلع بھکر میں اکثر آبادی کا ذریعہ معاش کا شتکاری ہے ۔ بھکر میں اگائی جانے والی چنے کی فصل اسے پورے پاکستان میں ممتاز کرتی ہے۔۔ چنے کا شمار اہم غذائی اجناس میں ہوتا ہے اور پاکستان چنے کی برآمدات میں تیسرے نمبر پر ہے۔ محکمہ زراعت کے اندازوں کے مطابق بھکر میں سالانہ تقریباً 8000 من چنا پیدا ہوتا ہے۔ چنے کے بعد زیادہ اگائی جانے والی نسل مونگ کی ہے اور اس کی درجہ بندی میں بھی بھکر پنجاب اور پورے پاکستان میں نمایاں ہے۔دھنیا کی فصل بھی بہت زیادہ کاشت کی جاتی ہے اور گنا، گندم، جو اور ہاجرہ بھی کاشت کیا جاتا ہے۔ گورا کی پیداوار کے حوالے سے بھی بھکر بہت مشہور ہے۔ 03-2002ء میں بھکر میں 12 لاکھ من گوارا پیدا ہوا جو پورے ملک کا نصف حصہ پھلوں میں جو پھل بھکر میں زیادہ پیدا ہوتا ہے، وہ کھجور ہے ۔ صوبہ پنجاب کے بڑے پانچ اضلاع جو کھجور کے حوالے سے مشہور ہیں، بھکر ان میں سے ایک ہے۔منگیر و اور تھل کے خربوزے بھی پورے پاکستان میں اپنی مثال آپ ہیں۔ بجکر بارانی رقبے کے لحاظ سے صوبہ پنجاب کا سب سے بڑا ضلع ہے جس کی نصف سے زائد زرعی اراضی پر کاشت کاری بارشوں کے پانی سے ہوتی ہے۔ ضلع بھکر میں کاشت کار گھرانوں میں سے 42 فیصد چھوٹے کسان ہیں جن میں سے ہر ایک کے پاس صرف دو ایکٹر زمین ہے۔58 فیصد زرعی زمین والے درمیا نے کسان ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس رقبہ اوسطاً دس ایکٹر فی کسان ہے۔ضلع میں بڑے زمیندار تعداد میں تو تمام کا شتکاروں کا 5 فیصد ہیں لیکن یہاں کی 31 فیصد سے زائد زمینیں ان کے پاس ہیں اور اوسطا ہر ایک کے پاس رقبہ 163 ایکڑ ہے۔

تعلیم:

ضلع بھکر کی چاروں تحصیلوں میں بھکر میں لٹریسی ریٹ سب سے زیادہ یعنی 55 فیصد ہے اور تحصیل دریا خان میں سب سے کم 47 فیصد ہے۔ ضلع کے شہری علاقوں میں 67 فیصد آبادی خواندہ ہے جبکہ دیہی علاقوں میں 46 فیصد آبادی خواندہ ہے۔ مردوں میں خواندگی کی شرح کے حوالے سے بھکر پنجاب میں 25 ویں نمبر پر ہے جبکہ عورتوں میں خواندی کے لحاظ سے بجکر 30 ویں نمبر پر ہے۔ CPEC اور بھکر پاکستان کے جغرافیہ کو دیکھا جائے تو ضلع بھکر اس کے بالکل وسط میں ملتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ گورنمنٹ آف پاکستان اور چائنا کے بیچ طے پائے جانے والے معاہدہ ، چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) کے تحت بھکر کی تحصیل کلورکوٹ کو دریائے سندھ پر ایک پل کے ذریعے سی پیک کے مغربی روٹ سے ملایا جا رہا ہے ۔ کلورکوٹ سے براستہ ڈھکی یہ روڈ پنیالہ سے لنک ہوگا اور وہاں سے جنوب مغرب میں بلوچستان اور شمال میں شمالی علاقہ جات تک رسائی میں آسانی ہو گی۔ اسی لنک کی بدولت بھکر کے دو شہر نواں جنڈا نوالہ اور کلورکوٹ تیزی سے ترقی پذیر ہوں گے کیونکہ وسطی پنجاب کا رابطہ سی پیک کے مغربی کوریڈور سے اسی راستے سے ہوگا اور ایک نیا معاشرتی ارتقا اس علاقے کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا۔ ڈیرہ اسماعیل خان ، ژوب ڈویژن اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ سابقہ فاٹا کےاضلاع کا سفر بھی اس لنک کی وجہ سے کم ہو گا اور ان خطوں کی آپس کی دوریاں ختم ہوں گی۔ اور یوں بھکر کا یہ علاقہ مستقبل کے لیے ایک شاندار امید رکھتا ہے جو انشاء اللہ اس علاقے کی عوام کے لیے بہت مفید ہوگا۔

CPEC ریلوے لنک :

سی پیک کے تحت ریلوے لائن کے منصوبوں میں سے ایک منصوبہ کو ہستان ژوب سے کوٹلہ جام ریلوے لائن کا ہے۔ کو ہستان ژوب سے 560 کلومیٹر کا ریلوے ٹریک براستہ ڈیرہ اسماعیل خان کوٹلہ جام سے لنک ہو گا اور اسی ریلوے ٹریک کے ذریعے چائنا ہے گوادر تک مستقبل کی ریل کی نقل و حرکت ہوگی ۔ سی پیک کی تفصیلات کے مطابق کوٹلہ جام میں ریلوے جنکشن بنایا جائے گا اور سی پیک کے ریلوے کے منصوبوں میں کوٹلہ جام کی حیثیت مرکزی ہوگی۔ یوں بھکر کی اہمیت آنے والے دنوں میں اور زیادہ بڑھ جائے گی۔ پاکستان کے مختلف خطوں کو ملانے میں یہ ضلع ایک اہم کردار ادا کرے گا۔ وہ دن دور نہیں جب یہاں سے ریلوے ٹرینیں وسطی ایشیا تک کیلئے روانہ ہوں گی۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com