سدوزئی حکومت
1793ء میں تیمور شاہ کی وفات کے بعد ان کا بیٹا زمان شاہ قندھار پر بادشاہ بنا اور 1796ء میں زمان شاہ نے ایک شاہی سند کے ذریعے محمد خان سدوزئی کو سندھ ساگر دو آب کلورکوٹ سے لے کر محمود کوٹ اور چناب سے لے کر سندھ دریا تک کا گورنر بنادیا۔ زمان شاہ کے بھائی ہمایوں نے بھائی کے خلاف بغاوت کی اور جنگ میں ہمایوں کو شکست ہوئی اور وہ درہ گومل کے راستے ڈیرہ اسماعیل خان آیا۔ نتکانی قبیلہ کے ایک سردار مسوخان مکانی نے اسے ڈیرہ فتح خان کے راستے سے دریائے سندھ پار کروایا اور لیہ کے پاس بھجوا دیا۔ لیہ سے پندرہ میل مشرق میں فتح پور کے قریب ہمایون کو نواب محمد خان سروز کی نے گرفتار کر لیا۔ نواب محمد خان سدوز کی ہمایوں کو گرفتار کر کے لیہ آیا اور زمان شاہ کواطلاع دی۔
زمان شاہ نے فرمان جاری کیا کہ ہمایوں کی آنکھیں نکال دی جائیں اور اس کے ساتھیوں کو قتل کر دیا جائے۔
محمد خان سدوزئی نے ہمایوں کی آنکھیں نکال کر اسے منکیرہ کے قلعے میں قید کر دیا۔ اسی قلعے میں قید میں ہی ہمایوں کا انتقال ہوا اور یوں تاج کابل کا ایک دعوے دار سرزمین تھل میں دفن ہوا۔
والی کابل نے نواب محمد خان سدوزئی کو نواب سر بلند خان کا لقب دیا اور دریائے سندھ کے مغربی علاقہ کو ڈیرہ اسماعیل خان سمیت ان کی عمل داری میں دے دیا۔ یوں خیسور پہاڑ سے سانگھڑ ( تونسہ ) تک کا علاقہ آپ کے پاس آ گیا۔نواب محمد خان سدوزئی نے دیوان مانک رائے کو ڈیرہ اسماعیل خان اور دامان کا گورنر بنایا اور بھکر اور لیہ کا انتظام خود سنبھالا اور منکیرہ کو اپنا صدر مقام بنایا۔ دامان میں گنڈہ پوروں اور میاں خیل قبائل نے سروز کی کی اطاعت سے انکار کردیا اور مالیہ دینے سے انکار کر دیا۔ نواب آف ٹانک سرور خان کئی نبیل بھی ان باغیوں میں شامل ہو گئے۔ 1813ء میں نواب محمد خان سدوز کی نے دیوان مانک رائے کی قیادت میں لشکر بھیجا اور مانک رائے نے میاں خیل علاقے پر بھی قبضہ کر لیا اور گنڈہ پوروں کو بھی مڈی کے مقام پر شکست دی۔ اور کلاچی شہر کو آگ لگوا دی گئی ۔ مانک رائے نے عیسیٰ خیل اور کالا باغ تک کے علاقوں کو اپنے تصرف میں لے لیا اور یوں منکیرہ ڈیرہ جات کا مرکزی صدر مقام بن گیا۔ 1815ء میں نواب محمد خان (سربلند خان) کا انتقال ہوا اور انہیں قلعہ منکیرہ میں دفن کیا گیا۔
نواب حافظ احمد خان سدوزئی:
نواب محمد خان سدوزئی کی وفات کے بعد ان کا داماد نواب احمد خان سدوز کی منکیرہ کا نیا والی بنا۔والی بننے کے بعد ان سے سکھوں نے خراج کا مطالبہ کیا اور انکار پر سکھوں کی فوج نے دیوان مانک رائے کی ملی بھگت سے ڈیرہ اسماعیل خان پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد سکھ افواج نے بجکر ، لیہ، خان گڑھ اور محمود کوٹ کے قلعوں پر بھی قبضہ کر لیا۔ 1818ء کی خون ریز جنگ کے بعد سکھوں نے ملتان پر بھی قبضہ کر لیا۔ نواب احمد خان سدوزئی نے اس موقع پر نواب مظفر خان سدوزئی کی کوئی امداد نہ کی اور 1821ء میں سکھ افواج نے منکیرہ قلعے کا محاصرہ کر لیا۔
نواب احمد خان سدوزئی حاکم منکیرہ کے فوج میں شامل ایک کمانڈ رسردار خان با دوز کی نے قلعہ سے باہر نکل کر دو بدو جنگ کا مشورہ دیا مگر نواب نے قلعے کے اندر محصور رہ کر ہی حفاظتی جنگ لڑنے کو ترجیح دی۔ سکھ فوج نے تھل کے بعض لوگوں کی امداد کے بل بوتے پر منکیرہ کے آس پاس موج گڑھ کے ریگ زار میں کنویں کھود کر پانی کا بندوبست کر لیا اور اونٹوں کے ذریعے یہ پانی سکھ فوج تک پہنچایا جانے لگا۔ سکھ فوج نے قلعے پر گولہ باری کی جس کی وجہ سے قلعہ کی جامع مسجد کے مینار گر گئے۔ کچھ ابن الوقتوں نے یہ پھیلا دیا کہ مسجد کے میناروں کا گرنا ایک بدشگونی ہے اور سکھ افواج کو کوئی بھی نہیں ہرا سکتا۔ آخر نواب احمد خان سدوز کی نے ڈیرہ اسماعیل خان کی جاگیر کے بدلے منکیر و قلعہ کو سکھوں کے حوالے کر دیا اور یوں یہ علاقے سکھوں کی عملداری میں آگئے ۔ سکھوں سے یہ علاقے انگریزوں نے اپنے قبضے میں لیے اور پھر ان کی سیٹلمنٹ ( بندوبست) کیا گیا اور مختلف موضع جات بنائے گئے۔
قلعہ حیدر آباد پر سکھوں کا حملہ :
رنجیت سنگھ کے جرنیل ہری سنگھ نلوہ نے جب حیدر آباد تھل پر حملہ کیا تو ان دنوں یہ قلعہ نورنگ خان بلوچ کے پوتے اور خوشحال خان بلوچ کے بیٹے حیدر خان بلوچ کے پاس تھا.جس نے اس کا نام حیدر آبا در کھا تھا۔ یہاں بلوچ اقوام نے سکھ لشکر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور قریب تھا کہ سکھ لشکر شکست کھا کرپسپا ہو جاتا لیکن کچھ مقامی قبائل نے رنجیت سنگھ کی فوج کی امداد کی اور قلعہ کے خفیہ راستوں تک سکھ فوج کو رسائی دی۔ اسی وجہ سے حیدر خان بلوچ اس جنگ میں مزاحمت کرتا ہوا مارا گیا اور سکھوں نے تھل میں آخری مزاحمت بھی کچل کر کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ پورے پنجاب پر سکھ راج قائم ہو گیا۔ حیدر خان بلوچ سے پہلے اس قلعہ کو اموانی قلعہ کہا جاتا تھا۔ حیدر آباد تھل میں لگسی ہمرہ اور چھینہ قبائل آباد ہیں۔
حوالہ جات:
1 – تاریخ پنجاب از کنبیا لال
2- تاریخ ملتان
5 تاریخ سرزمین گومل 6 – تاریخ ریاست منکیرہ 7- تاریخ لیہ
3. Gazetteer of Dear Ismaeel Khan
4. Gazaetteer of Mianwali District
8 ۔ تاریخ جھنگ
9. Gazetteer of Jhang District