صوفیانہ کلام اورسرائیکی
ادب پر سب سے زیادہ اثر سندھی ادب نے ڈالا ہے۔ حتی کہ سرائیکی کی اکثر لوک داستانیں اور ادبی قصے بھی سندھی ادب سے جڑے ہوئے ہیں۔ سندھی برصغیر کی پہلی زبان ہے جس میں قرآن پاک کا ترجمہ کیا گیا تھا۔ پیر نورالدین جو کہ ایک اسماعیلی مبلغ تھے، نے 1079ء میں سندھی میں صوفیانہ کلام لکھا تھا۔ پیرنس سبز واری ملتانی نے بھی سندھی میں صوفیانہ کلام لکھا۔ جسے ان کے مریدین نے خوب شہرت دی۔سمہ سلطنت کے دوران 1351 ء سے لے کر 1521 ء تک پورے سندھ میں صوفیاء اور صوفیانہ شاعری کی سر پرستی کی گئی۔ اسی سمہ حکومت کے دوران اُچشریف سے قاضی سعید ابن زین الدین بکھر میں آباد ہوئے ۔ ان کے بیٹے قاضی قران کو بکھر میں قاضی بنایا گیا۔قاضی قران کو بکھر کی نسبت سے قاضی قدان با کھری بھی کہا جاتا ہے۔قاضی قدان سید محمد جونپوری کے پیروکار تھے۔ سندھی ادب میں سب سے پہلے دوہا ( دوہرا ) قاضی قران نے ہی تخلیق کیا۔ ان کے صوفیانہ کلام میں قرآنی تعلیمات اور اسلامی پہلو کود و با اور سورٹھا شاعری کے ذریعے اجاگر کیا گیا ہے۔
شاہ کریم
شاہ کریم کے صوفیانہ کلام کو سب سے پہلے بیان العارفین میں میر دریائی ٹھٹھوی نے 1630ء میں لکھا ہے۔ بیان العارفین میں شاہ عبدالکریم نے اپنے مریدین کی ہدایت کے لیے سات ابواب میں کلام لکھا ہے۔
شاہ کریم 1536 ء میں مٹیاری میں ایک سادات خانوادے میں پیدا ہوئے۔ مٹیاری کا اصل نام مٹ علوی تھا جو بعد میں میاری بن گیا۔ آپ کے آباؤ اجداد ہرات سے امیر تیمور کے ساتھ آئے تھے اور شاہ کریم ساتویں پشت میں سید حیدر کی اولاد میں سے تھے۔ شاہ کریم جو کلام کے مصنف نے ان کا شجرہ نسب یوں بیان کیا ہے۔
شاہ کریم بن سید لعل محمد بن سید عبد المومن بن سید ہاشم بن سید جلال محمد بن سید شرف الدین بن سید میر علی بن سید حیدر ۔سید حیدر 1398 ء میں سندھ میں آباد ہوئے تھے۔شاہ کریم فقیرانہ محفلوں میں بیٹھنے کے دلدادہ تھے اور صوفیانہ کلام کے دلدادہ تھے۔ آپ مخدوم زین الدین آف ٹھٹھہ سے بہت متاثر تھے اور مخدوم نوح کے پیروکار تھے۔ مخدوم نوح وہی صوفی بزرگ ہیں جنہوں نےسندھ میں سب سے پہلے قرآن پاک کا فارسیمیں ترجمہ کیا تھا ۔شاہ کریم نے صوفیانہ کلام بھی ذکر اور سماع کی ان محفلوں سے شروع کیا جن کے وہ شروع ہی سے عاشق تھے۔ شاہ کریم سندھ کے وہ پہلے صوفی شاعر ہیں جنہوں نے لوک روایات کے کردار کا سب سے پہلے ذکر کیا تھا۔ان لوک کردارں میں کسی سوہنی اور ماروی قابل ذکر ہیں۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی :
شاہ عبد اللطیف بھٹائی شاہ کریم کے پوتے تھے ۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی ہالہ کے علاقے بھٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش کا سال 1689ء درج ہے ۔ آپ 13 یا 14 سال کی عمر میں سندھ کے صوفی شاعر شاہ عنایت سے ملے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کو سندھ کا سب سے بڑا شاعر مانا جاتا ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹاآئی مولانا جلال الدین رومی اور ابن العربی سے متاثر تھے۔ اسی وجہ سے کچھ دانشوران کی شاعری کو سندھ کی مثنوی کہتے ہیں ۔ شاہ عبد اللطیف بھٹائی نے صوفیانہ کلام کو میوزک کے ساتھ بیان کرنے کی ابتدا کی۔ان کے صوفیانہ کلام کا نام شاہ جو رسالو ہے۔ شاہ جو رسالو میں سرسوراٹھ کے نام سے ایک باب موجود ہے جو موسیقی کے آلات پر پڑھا اور سنایا جاتا ہے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کو بر صغیر کا پہلا ذاکر کہا جاتا ہے جنہوں نے کربلا کے واقعات کو سر کے ساتھ پڑھا اور شاہ جو رسالو میں کربلا کے واقعات کے متعلق ایک مکمل تفصیل درج ہے۔ شاہ جو رسالو میں بھٹائی نے سر کیدارو کے نام سے واقعات کربلا کو بیان کیا ہے۔ کیدار و — سندھی میں میدانِ جنگ کو کہتے ہیں۔ شاہ عبد اللطیف بھٹائی وہ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے سندھی میں سب سے پہلے مرثیہ لکھا اور ان کے کلام کو اور بہت سے لوگوں نے اپنایا اور مرثیے کا رواج برصغیر میں مقبول ہوا۔سر کیدارو میں شاہ عبداللطیف بھٹائی نے واقعات کربلا کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ان حصوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔
1 – محرم کی آمد :
سر کیدارو میں پہلا حصہ محرم کی آمد کے متعلق ہے اور اس میں امام حسین کا مدینہ سے مکہ اور کر بلا میں آمد کا تفصیل سے ذکر ہے۔
2 ۔ مظلومیت امام حسین :
سر کیدارو کے دوسرے حصے میں امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی مظلومیت کا ذکر ہے کہ کیسے ان غریب الوطن مسافروں کو کربلا کے بے آب و گیاہ صحرا میں بے دردی سے شہید
کر دیا گیا۔
3۔ امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی شجاعت :
سر کیدارو کے تیسرے حصے میں امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی شجاعت اور بہادری کا ذکر ہے کہ کیسے انہوں نے تعداد میں کم ہونے کے باوجود دشمن کے سامنے بہادری اورشجاعت کی داستانیں رقم کیں۔
4 ملکوتی مهمان :
شاہ عبداللطیف بھٹائی نے سر کیدارو کے چوتھے حصے میں شہدائے کربلا کا اللہ تعالیٰ سے تعلق اور ان کا ملکوتی مہمان ہونے کا ذکر ہے۔ شاعرانہ اور صوفیانہ انداز میں شاہ عبداللطیف بھٹائی نے ان تمام واقعات کربلا کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ سندھی اور سرائیکی کے شعراء اور ذاکرین واقعات کربلا کو ہر سال محرم میں اسی تفصیل سے بیان کرتے ہیں جس تفصیل سے بھٹائی نے سر کیدارو میں درج کیا ہے۔ محرم کے شروع کے دنوں میں ذاکرین مدینہ سے روانگی ، مکہ میں حج کی نیت اور پھر کر بلا میں آمد پڑھتے ہیں۔ اس کے بعد تمام شہداء کے بہادری اور شجاعت اور شہادت اور ان کا الہی وعدوں کو پورا کرنے کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ کہنا بالکل ثابت ہے کہ شاہ عبد اللطیف بھٹائی سندھی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ برصغیر پاک و ہند میں وہ پہلے روایتی ذاکر ہیں جنہوں نے واقعات کربلا کو سندھی زبان میں سر کے ساتھ بیان کیا ہے۔ شاہ جو رسالو میں سر کیدارو ان کی اسی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شاہ عبد اللطیف بھٹائی 1752ء کو فوت ہوئے اور بھٹ شاہ میں دفن ہوئے تھے۔ غلام شاہ کلہوڑو نے آپ کا مقبرہ تعمیر کروایا جو 1754ء میں مکمل ہوا تھا۔
سچل سرمست :
سچل سرمست سندھ کے ایک اور صوفی شاعر ہیں جنہوں نے سندھی اور سرائیکی میں صوفیانہ کلام تخلیق کیا۔ آپ 1739ء میں پیدا ہوئے اور آپ کا پیدائشی نام خواجہ صلاح الدین حافظ عبدالوھاب تھا۔ آپ کا لقب سچل سرمست آپ کی سچائی اور راست گوئی کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ سندھی صوفیانہ ادب میں سچل سرمست کو منصور ثانی کہا جاتا ہے جب سیچل سرمست سات برس کے تھے تو شاہ عبداللطیف بھٹائی سے ان کی ملاقات ہوئی تھی ۔ ملاقات کے دوران عبداللطیف بھٹائی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تخلیق ہوا یہ بچہ ایسے ایسے روحانی را ز آشکار کرے گا جو آج تک میں نے نہیں کیسے تھے ۔ سچل سرمست کے پاس ایک عصا، ایک طنبورا اور ایک کشتی نما پیالہ ہوا کرتا تھا جو آج بھی درویش اور فقیر ملنگ لوگ لیے پھرتے ہیں۔ سچل سرمست طنبورا بجا کر وجد میں آکر صوفیانہ کلام پڑھتے رہتے تھے۔ سچل سرمست کو سندھی اور سرائیکی غزل کا پہلا شاعر مانا جاتا ہے۔ ان کی سرائیکی شاعری تین حصوں پر مشتمل ہے۔ سی حرفی ڈوہڑا کافی سرائیکی شعراء نے ان کے دو ہڑا اور کافی کے اثرات کو بڑی حد تک اپنایا ہے اور دریائے سندھ کے ساتھ اس طریقہ کی شاعری کے اثرات آج تک نمایاں ہیں ۔
سید ثابت علی شاہ:
آپ 1740ء میں سیہون شریف میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام سید امداد علی شاہ تھا۔ آپ نے سندھی اور سرائیکی زبان میں کربلا کے واقعات پر مریے لکھے ۔ جنہیں آج بھی سندھ اور سرائیکی علاقہ جات میں ایام عزا اور مجالس میں پڑھا جاتا ہے۔ سید ثابت علی شاہ نے لعل شہباز قلندر کی مدح میں بھی شاعری کی ہے۔ سید ثابت علی شاہ 1810ء کو فوت ہوئے ۔ آپ کو سہون شریف میں ہی کر بلا قصبہ میں دفن کیا گیا ہے۔ سمہ حکمران کے بعد کلہوڑا اور ان کے بعد تالپور حکمرانوں نے سندھ کے ان صوفی شعراء اور ذکر کی ان محفلوں کو جاری رکھا اور حکومتی سطح پر بھی ان کو پذیرائی دی گئی جس کا اثر موجودہ سندھ کے ساتھ ساتھ سرائیکی وسیب پر بھی نمایاں ہے۔ خطہ ملتان، سرائیکی بیلٹ ، وادی سندھ کے جغرافیائی مرکز اور تاریخی امین کی صورت ابد سے آباد ہے۔ دیگر خطوں کی طرح یہاں بھی روایات واقدار نے معاشرت سے جنم لیا اور نمو پائی مگر دیگر تہذیبی مراکز کے برعکس یہاں کی روایات و اقدار نے صرف الہیات ہی سے پرورش نہیں پائی۔ وادی سندھ میں بالعموم اور ملتان اور آس پاس کے سرائیکی علاقوں میں بالخصوص پروان چڑھنے والے تصور الم کی خالصتاً انسانی صورتِ حال سے ایک قدر انسانی کی تشکیل ہوئی۔
روما و فارس کی تہذ یہیں بیک وقت غالب و مغلوب کے تجربے کی حامل نظر آتی ہیں جبکہ سندھ کی وادی تاریخ امن باطن کی حامل نظر آتی ہے جہاں کے مراکز موہن جودڑ و، ہڑپہ اور ٹیکسلا آج بھی آلات حرب کی بجائے سامان لطف سے مزین نظر آتے ہیں اور جہاں بمطابق انسائیکلو پیڈیا برٹین کا تاریخ انسانی کا پہلا شعر بصورت وید” ضبط تحریر ہوا۔ وادی سندھ کے تصور الم کی صورت بھی یہی ہے کہ غضب و جبر کے غیر حامل باشندگانِ وادی ہی نے اسے اپنے حب الوطنی کے جذبات اور اپنے خون شہداء کے احترام سے سینچا۔ شہادت امام حسین ایک ایسا المیہ ثابت ہوئی کہ جس نے ایک قدر مشترکہ کی حیثیت سے یہاں نہ صرف پذیرائی حاصل کی بلکہ یہاں کے تاریخی الم میں اور یہاں کی شعریات میں مرثیہ حسینی کے نام سے ایک حقیقت بن گئی ۔ جب لوگ عرب دنیا سے جائے امن کی تلاش میں اس سرزمین میں آبسے تو اسی وادی سندھ کے دامن میں ہر کسی کو امن و آتشی سے رہنے کا موقع ملا۔
حوالہ جات:
1. Historical Dictionary of Sufi Culture of Sindh in Pakistan and India
2. Sufis of Sindh by Dr. Motilal Jotwani
3. The Shias of Pakistan by Andreas T. Rieck
4. Shah Abdul Latif of Bhit
5. Tuhfat UI Kiram
6 ۔ وادیء، سندھ کا تصور الم اور مرثیہ گوئی از شمیم عارف قریشی