بھکر:ذکر امام حسین اور سرائیکی ادب
سرائیکی بیلٹ میں بالعموم اور بھکر کے علاقوں میں بالخصوص ایام محرم اور عزاداری؛ امام حسین لازم و ملزوم ہیں۔ سندھ سے چلی ذکر کی روایت اُچ شریف اور ملتان کے راستے ڈیرہ جات اور بھکر کے علاقوں میں مقبول ہوئی اور نسل در نسل سے ان علاقوں میں جاری وساری ہے۔ سندھ اور سرائیکی بیلٹ میں پروان چڑھا ذاکری کا طریقہ ایک منفرد روایت ہے جس میں ذاکر کربلا میں امام حسین اور ان کے رفقاء کی شہادت کی تفصیلات اور کرداروں کے جذبات بتانے کے لیے مخصوص الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں اور نظم کی شکل میں پڑھے جانے والے ڈو ہے اور رباعیاں لوگوں کو فلم میں شامل کر دیتے ہیں۔
وقت کے ساتھ جیسے جیسے ٹیکنالوجی میں جدت آئی تو مقبول ذاکروں اور نوحہ خوانوں کے آڈیو اور وڈیوریکارڈنگ بھی مقبول ہوتی گئیں اور یوں ذاکری نے سرائیکی ادب کے ارتقاء میں اپنا ایک منفرد کردار ادا کیا ہے۔ ذکر امام حسین میں ہر مکتبہ فکر سے لوگ آتے تھے اور کر بلا والوں کی یاد مناتے تھے۔ اس زمانے میں فرقہ واریت بھی نہیں تھی۔ اہل سنت بھی ذاکری کیا کرتے تھے۔ بھکر کےعلاقے کوندرانوالی سے ایک ذاکر مولوی محمد بخش آف کوندرانوالی تھے جن کے متعلق ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ وہ نو تک نشیب اور تھل میں مجالس عزا میں ذاکری کیا کرتے تھے اور ہر فرقہ سے لوگ ان کو سننے کے لیے آیا کرتے تھے۔
ضلع بھکر کے علاقے بہل سے سید امیر حسین شاہ کر بلائی بہت مشہور ومعروف ذاکر تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے بھائی سید خادم حسین شاہ سے حاصل کی تھی ۔ سید خادم حسین شاہ لکھنو سے پڑھے ہوئے تھے۔پاکستان بننے سے پہلے سید خادم حسین شاہ سندھ میں ریاست خیر پور میرس کے چیف
جسٹس تھے۔سید امیرحسین کربلائی نے سندھ اور کچھی کی ذاکری کوخوب پروان چڑھایا اور کچھی
میں سرائیکی کے ساتھ ساتھ اردو قصیدے گوئی اور رباعیات کو بھی شروع کیا۔
پہل ہی سے ایک اور ذاکر سید صابر حسین شاہ نے بھی سرائیکی ذاکری میں نام کمایا اور وہ سندھ اور پنجاب کے مقبول ترین ذاکر بنے ۔ بھکر کے علاقہ شہانی کا لنگاہ خاندان بھی اس علاقے میں ذاکری روایت کے بانی گھرانوں میں سے ایک ہے۔ لنگاہ خاندان سے پہلے ذاکر با با محب علی لنگاہ تھے جنہوں نے شہانی اور آس پاس کے علاقوں میں اس روایت کو پھیلایا۔ ان کے بیٹے بختاور علی لنگاہ نے بھی خوب نام کمایا۔ بختاور علی لنگاہ کے دو بیٹے غلام علی لنگاہ اور احمد علی لنگاہ بھی ذاکری کے بہت بڑے نام ہیں۔احمد علی لنگاہ نے اس روایت کو خوب شہرت دی اور ان کے بہت سارے شاگر داب اس روایت سے وابستہ ہیں۔ مولوی مرید عباس لنگاہ بھی مشہور ذاکر تھے اور اب ان کے پوتے عون عباس لنگاہ اپنے بزرگوں کا نام روشن کیے ہوئے ہیں۔ اسی لنگاہ خاندان کی رشتہ داری کوٹ ادو کے جھنڈیر خاندان سے ہے اور جھنڈیر خاندان سے بابا نذر حسین جھنڈیر سرائیکی کے مشہور شاعر اور ذاکر تھے جنہیں فردوسی ، پاکستان کہا جاتا ہے۔ نذر حسین جھنڈیر کے بھائی فدا حسین جھنڈیر بھی مشہور ذاکر تھے اور اب بھی جھنڈیر فیملی
میں یہ روایت نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے۔ بجکر کا ترک خاندان نے بھی ذاکری کی روایت کو پھیلایا اور چھینہ کے سید علی شاہ بھی کچھی کے مایہ ناز اور مشہور ذاکر تھے۔
سرائیکی زبان کے چند مشہور ذاکرین مندرجہ ذیل ہیں۔
با با سید مداح حسین شاہ ، دائرہ دین پناہ ۔
سید خادم حسین شاہ گھاگھری
سید امیر حسین کربلائی ، پہل
سید صابر حسین ، بہل
سید علی حسین تھی ،بھکر
ناصر عباس نوتک
غلام عباس نوتک
سید نجم الحسن شاہ، جام
نصرت عباس چانڈیہ
سید عامر عباس ریانی حافظ محمد علی خان بلوچ ، لیہ
سید ریاض حسین شاہ ، موچھ
علامه محمد ثقلین گھلو
عون عباس لنگاہ
تو قیر خان کر بلائی
یاسین خان کندانی
نصرت عباس خان چانڈیو
سید تصور عباس شاہ نوتک