جد ید اُردو ادب کی جھولی مختلف گل ہائے سخن سے بھری ہوئی ہے۔ ان میں سے ہر ایک کی اپنی خوشبو خوب صورتی، دل کشی اور نزاکت ہے۔ سلیم آکاش وہ گلاب ہے جس کی سرخی اس کی ریاضت اور خوش بو اس کی تاثیر کا پتہ دیتی ہے۔ انہی بنیادی موضوعات ہی کی وجہ سے کاوش و جستجو، اخلاقی اقدار کی پامالی اور تخلیقی جذبوں میں توازن ان کے کلام کے خاصے ٹھہرے۔ بہت کم عرصہ میں ہی اپنے سنجیدہ کام اور پر تاثیر شخصیت کے بل پر اپنی انفرادیت کو منوا لیا۔اشعار دیکھیں!
ساتھ جب تیرے تعلق کا حوالہ ہو گا
تب ہر اک شخص مجھے دیکھنے والا ہو گا
٭٭٭٭
گھر اپنا جلا کر جو کیا شہر کو روشن
غم خوار سمجھتے ہیں کہ نقصان بہت ہے
٭٭٭٭
اچھا ہوا جو آپ نے ٹھکرا دیا ہمیں
کچھ رنگ زندگی کے سمجھ میں تو آ گئے
شاعر کے خیال میں روایتی عناصر کی آمیزش ضرور ہے لیکن اندازِ بیان ممتاز حیثیت پر دلالت کرتا ہے۔احساس کی دولت ہی کسی شاعر کا سرمایہئ سخن ہوتی ہے۔ سلیم آکاش کی شاعری حساس کی شدت، ندرت ِ خیال، سہل ِ ممتنع اور روایتی غزل سے اکتساب کا نمونہ ہے۔ آپ آکاش کی شاعری کا مطالعہ کیجیے اور اس کی محبتوں کے دریا کے بہاؤ کے سنگ سمندروں کے سفر پر نکلیے تو آپ پر کھلے گا کہ محبت کتنے رنگوں میں تصویر ہوتی ہے، کتنی خوش بو ؤں میں تقسیم ہوتی ہے، کتنے لہجوں میں ڈھلتی ہے، کہاں مسکراتی ہے اور کہاں اس کے پانیوں میں اس کے اپنے آنسو شامل ہو جاتے ہیں یہاں حزن بھی انفرادی نہیں کائناتی ہے۔ حزن ہے تو ”کیوں نہیں ہے“ ہے کا ہے۔ زمانے کی رنگ بدلتی اک اک ادا کو نظرِ عمیق سے دیکھنا اور پھر نئے زاویوں سے فنی سحر میں مبتلا کرنا ان کے تغزل کی جان ہے۔ ان کی سحر کاری اسی بات کا ثبوت ہے۔
آسماں کو زمیں سے خطرہ ہے
اب مکاں کو مکیں سے خطرہ ہے
٭٭٭٭
فقیر صبر کو اپنا اصول کرتا ہوا
چلا زمانے کو قدموں کی دھول کرتا ہوا
سلیم آکاش کامشاہدہ حقیقت پسندانہ اور ہمہ گیر ہے جس کی وجہ سے معاشرتی و سماجی احساس بھی نمایاں دکھائی دیتا ہے۔انہوں نے حسنِ و عشق کا روایتی الاپ بھی الاپا ہے مگر اپنی فکر، میلانات اور اپنے عہد کے مکمل شعور کا ادراک بھی ساتھ رکھا ہے اور خارجیت کا شعور بھی لمحہ لمحہ ہم رکاب رکھا ہے۔ بقول ڈاکٹر مزمل حسین:
”شاعر کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی روایت کے مطابق گرد و نواح میں بکھرے ہوئے تمام حالات و واقعات کو اپنے دامن میں سمیٹتا ہے۔ سلیم آکاش اسی روایت کا معتبر نام ہے جس کی عمر کے نوجوان خود کو رومانوی اور لا یعنی سرگرمیوں میں مصروف رکھتے ہیں مگر یہ حساس شاعر لعل و گوہر کی صورت میں اپنے افکار پیش کر رہا ہے جس کی بنیاد اس کے ذاتی دکھو ں سے لے کر سماج کے تمام المیوں اور سانحوں کا احاطہ کرتی ہے۔
لبوں پہ جن کے ہمیشہ سوال رہتا تھا
امیر ِ شہر نے چن چن کے مار ڈالے ہیں
٭٭٭٭
ایسے ماحول میں ایمان کڑا رہتا ہے
درد کی شاخ پہ جب صبر کھڑا رہتا ہے
سلیم آکاش اپنی شاعری کو زندگی کے تجربات سے عبارت کرتا ہے لیکن زندگی سے مایوس دکھائی نہیں دیتا۔عہد ِ رفتہ اور عصر ِ جدید کا خوب صورت مرقع ان کی نظموں میں عیاں ہے لیکن ان کی غزل کا تغزل وہ باز گشت ہے جو دیر تک کانوں میں رس گھولتی ہے۔ اپنے افکار کو پیش کرنے کے لیے جذبو ں سے مزین شاعر نے صنائع بدائع اور مترنم بحروں کا انتخاب کیا۔ معصوم جذبات و احساسات کو منفرد قالب میں ڈھالنے والا یہ شاعر قافیہ اور ردیف، اور الفاظ کے چناؤ کا بھی پورا پورا ادراک رکھتا ہے۔ جو قار ی کو موسیقت، ترنم اور سوزو گداز کا سامان مہیا کرتے ہیں۔
اس قلم سے کشید کی جائے
روشنی جس قدر بھی لی جائے
زندگی زہر ہے حقیقت میں
آبِ زم زم سمجھ کے پی جائے
٭٭٭٭
وہ آتے جاتے ہوئے اجنبی سے بولیں گے
کہ یعنی میرے سوا ہر کسی سے بولیں گے
نئی ترنگ سے لکھیں گے داستانِ عشق
حروف جس میں سبھی آپ ہی سے بولیں گے
ضلع لیہ کے سلیم آکاش ایسے ہو نہار شاعر وں کی بدولت مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ کل تک وسیبی تنقید نگار اگر تونسہ کو پاکستان کا لکھنؤ قرار دے رہے تھے تو لا محالہ دبستان لیہ کو دبستان دلی قرار دینا ہو گا اور اس کا سارا کریڈٹ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کی ادبی فضا اور اس کے ادب پرور اساتذہ کا ہے جس میں ڈاکٹر افتخار بیگ سے لے کر ڈاکٹر امیر ملک تک، ڈاکٹر مزمل اور ریاض راہی تک ہوتا ہوا یہ سلسلہ ڈاکٹر مہر عبدالوہاب کی سحر انگیز شخصیت تک پھیلا ہوا ہے۔
کچھ رنگ زندگی کے سمجھ میں تو آ گئے
شاعر کے خیال میں روایتی عناصر کی آمیزش ضرور ہے لیکن اندازِ بیان ممتاز حیثیت پر دلالت کرتا ہے۔احساس کی دولت ہی کسی شاعر کا سرمایہئ سخن ہوتی ہے۔ سلیم آکاش کی شاعری حساس کی شدت، ندرت ِ خیال، سہل ِ ممتنع اور روایتی غزل سے اکتساب کا نمونہ ہے۔ آپ آکاش کی شاعری کا مطالعہ کیجیے اور اس کی محبتوں کے دریا کے بہاؤ کے سنگ سمندروں کے سفر پر نکلیے تو آپ پر کھلے گا کہ محبت کتنے رنگوں میں تصویر ہوتی ہے، کتنی خوش بو ؤں میں تقسیم ہوتی ہے، کتنے لہجوں میں ڈھلتی ہے، کہاں مسکراتی ہے اور کہاں اس کے پانیوں میں اس کے اپنے آنسو شامل ہو جاتے ہیں یہاں حزن بھی انفرادی نہیں کائناتی ہے۔ حزن ہے تو ”کیوں نہیں ہے“ ہے کا ہے۔ زمانے کی رنگ بدلتی اک اک ادا کو نظرِ عمیق سے دیکھنا اور پھر نئے زاویوں سے فنی سحر میں مبتلا کرنا ان کے تغزل کی جان ہے۔ ان کی سحر کاری اسی بات کا ثبوت ہے۔
آسماں کو زمیں سے خطرہ ہے
اب مکاں کو مکیں سے خطرہ ہے
٭٭٭٭
فقیر صبر کو اپنا اصول کرتا ہوا
چلا زمانے کو قدموں کی دھول کرتا ہوا
سلیم آکاش کامشاہدہ حقیقت پسندانہ اور ہمہ گیر ہے جس کی وجہ سے معاشرتی و سماجی احساس بھی نمایاں دکھائی دیتا ہے۔انہوں نے حسنِ و عشق کا روایتی الاپ بھی الاپا ہے مگر اپنی فکر، میلانات اور اپنے عہد کے مکمل شعور کا ادراک بھی ساتھ رکھا ہے اور خارجیت کا شعور بھی لمحہ لمحہ ہم رکاب رکھا ہے۔ بقول ڈاکٹر مزمل حسین:
”شاعر کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی روایت کے مطابق گرد و نواح میں بکھرے ہوئے تمام حالات و واقعات کو اپنے دامن میں سمیٹتا ہے۔ سلیم آکاش اسی روایت کا معتبر نام ہے جس کی عمر کے نوجوان خود کو رومانوی اور لا یعنی سرگرمیوں میں مصروف رکھتے ہیں مگر یہ حساس شاعر لعل و گوہر کی صورت میں اپنے افکار پیش کر رہا ہے جس کی بنیاد اس کے ذاتی دکھو ں سے لے کر سماج کے تمام المیوں اور سانحوں کا احاطہ کرتی ہے۔
لبوں پہ جن کے ہمیشہ سوال رہتا تھا
امیر ِ شہر نے چن چن کے مار ڈالے ہیں
٭٭٭٭
ایسے ماحول میں ایمان کڑا رہتا ہے
درد کی شاخ پہ جب صبر کھڑا رہتا ہے
سلیم آکاش اپنی شاعری کو زندگی کے تجربات سے عبارت کرتا ہے لیکن زندگی سے مایوس دکھائی نہیں دیتا۔عہد ِ رفتہ اور عصر ِ جدید کا خوب صورت مرقع ان کی نظموں میں عیاں ہے لیکن ان کی غزل کا تغزل وہ باز گشت ہے جو دیر تک کانوں میں رس گھولتی ہے۔ اپنے افکار کو پیش کرنے کے لیے جذبو ں سے مزین شاعر نے صنائع بدائع اور مترنم بحروں کا انتخاب کیا۔ معصوم جذبات و احساسات کو منفرد قالب میں ڈھالنے والا یہ شاعر قافیہ اور ردیف، اور الفاظ کے چناؤ کا بھی پورا پورا ادراک رکھتا ہے۔ جو قار ی کو موسیقت، ترنم اور سوزو گداز کا سامان مہیا کرتے ہیں۔
اس قلم سے کشید کی جائے
روشنی جس قدر بھی لی جائے
زندگی زہر ہے حقیقت میں
آبِ زم زم سمجھ کے پی جائے
٭٭٭٭
وہ آتے جاتے ہوئے اجنبی سے بولیں گے
کہ یعنی میرے سوا ہر کسی سے بولیں گے
نئی ترنگ سے لکھیں گے داستانِ عشق
حروف جس میں سبھی آپ ہی سے بولیں گے
ضلع لیہ کے سلیم آکاش ایسے ہو نہار شاعر وں کی بدولت مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ کل تک وسیبی تنقید نگار اگر تونسہ کو پاکستان کا لکھنؤ قرار دے رہے تھے تو لا محالہ دبستان لیہ کو دبستان دلی قرار دینا ہو گا اور اس کا سارا کریڈٹ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کی ادبی فضا اور اس کے ادب پرور اساتذہ کا ہے جس میں ڈاکٹر افتخار بیگ سے لے کر ڈاکٹر امیر ملک تک، ڈاکٹر مزمل اور ریاض راہی تک ہوتا ہوا یہ سلسلہ ڈاکٹر مہر عبدالوہاب کی سحر انگیز شخصیت تک پھیلا ہوا ہے۔