ادب

شکست آرزو کے موضوعات

سید احمد علی گیلانی

پروفیسر ریاض حسین راہی گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے شعبہئ اردو میں اقبالیات کا مضمون پڑھاتے ہیں۔تاحال ان کا ایک شعری مجموعہ ”شکست ِآرزو“شائع ہوا ہے جو کہ اربابِ ادب پبلیکیشنز لاہور نے مارچ 2005ء میں شائع کیا۔ریاض راہی مشہور انقلابی ڈاکٹر خیال امروھوی (مرحوم)کے شاگرد ہیں۔ان کے فکر وفن پر اب تک نامور ادبا نے بیسیوں مضمون لکھے ہیں اور ان کی اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔
میں اپنی کم علمی کے باعث ان کے فکروفن کا احاطہ تو نہیں کر سکتا البتہ ان کا شاگرد ہونے کی حیثیت سے ان کی کتاب ”شکست آرزو“کے چند ایک موضوعات پر لکھنے کی کوشش کی ہے۔
”شکست ِآرزو“کے موضوعات کے حوالے سے ڈاکٹر خیال امروہوی لکھتے ہیں:
”ریاض راہی کے کلام میں دنیا بھر کے موضوعات ہیں جنہیں بڑی خوبصورتی اور فصاحت کے ساتھ مجموعے میں شامل کیا گیا ہے“۱
ڈاکٹر افتخار بیگ نے اس حوالے سے یوں لکھا ہے:
”ریاض راہی کی سوچ ایک نئے روپ میں سامنے آتی ہے جہاں درد مندی،مروت اور انسان دوستی خالصتاً دنیا داری کے حوالے سے اس کی شاعری کا حصہ بنتی ہے اور بظاہر صوفی نظر آنے والا یہ شخص افلاس اور محرومیوں کو شدت سے محسوس کرتا ہے“۲
جب بھی امیر شہر نے اذن نوا دیا
چپکے سے میں نے درد کا قصہ سنا دیا“۳
ڈاکٹر انوار احمد مجموعہ کلام کے فلیپ پراپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:۔
”ریاض راہی ایسانوجوان شاعر ہے جس کے پاس وافر مقدار میں ذخیرہ الفاظ موجود ہے اور اسے الفاظ کو استعمال کرنے کا ہنر بھی بہ خوبی آتا ہے“۴
محمد فاروق نے ریاض راہی کی شاعری کے حوالے سے یوں لکھا ہے:۔
”موجودہ دور کے اردو ادب میں سنجیدہ فکر،پختہ خیال اور نامور شعراکرام کا بیش بہا خزانہ موجود ہے جن میں لیہ سے تعلق رکھنے والے اردو ادب کے سنجیدہ فکر شاعر ریاض حسین راہی اپنے قلم کے ذریعے اردو ادب کی خدمت اور فروغ کے لیے مصروف عمل ہیں“۵
ریاض راہی کے کلام کا بنیادی موضوع انقلاب،ترقی پسندی،مساوات،امن،شعور ذات،تہذیب سے لگاؤ،جہدِ مسلسل،حرکت پیہم،آرزو اور حقیقی جمہوریت ہے۔
ان کی نظم ”مزدورکا نغمہ انقلاب“سے چنداشعار:۔
اس گھڑی انساں ہم آواز خدا ہو جائے گا
جب شعور ذات سے خود آشنا ہو جائے گا
توڑ ڈالے گا غلامی کی یہ زنجیریں سبھی
بندہئ مزدور جب آتش بہ پا ہو جائے گا
غم نہ کھا راہی کہ تشہیرِ وفا ہو جائے گی
اور ہم کو حاصل اپنا مدعا ہو جائے گا۶
ریاض راہی کا مدعا خالص جمہوریت ہے اور ایسی اسلامی ریاست،جس میں احترام انسانیت ہو،امن و آشتی ہو،محبت ہو،علم و آگہی ہو،تہذیبی رچاؤ ہو اور ایسا مثالی معاشرہ جس میں مساوات ہو،طبقاتی نظام نہ ہو اور بلا امتیاز انسانی ترقی ہو۔
جب صبا لائے گی جمہوری قیادت کا پیام
خطہ ء آہ و بکا جنت نما ہو جائے گا۷
ریاض راہی موجودہ سیاسی نظام کو ظالمانہ نظام کہتے ہیں اور موجودہ سیاست کو منافقت کا نام دیتے ہیں۔
یہ دور الیکشن کا ہے یا دورِ قیامت
سمجھایے کچھ مجھ کو با اندازِ صراحت
دل محو عداوت ہو زباں صرفِ محبت
بندے کی سمجھ میں نہیں آئی یہ سیاست۸
نشان منزل مقصود کیا ملے راہی
ہماری ناقہ ء ہستی کا سارباں بھی نہیں ۹
ریاض راہی کہتے ہیں کہ اگر انسان حق بات پر ڈٹ جائے اور کسی عظیم مقصد کے حصول کا مصمم ارادہ کرلے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے متزلزل نہیں کر سکتی۔
اگر تلاطم امواج میں صلابت ہو
تو کیا مجال کہ ٹھہرے مقابلے میں نہنگ۰۱
پروفیسر ریاض راہی علامہ اقبال کے فکرو فلسفہ سے بہت متاثر ہیں۔ان کے کلام میں میر،غالب اور اقبال کا رنگ واضح نظر آتا ہے۔ریاض راہی بھی اقبال کی طرح زندگی کو مسلسل حرکت،عمل اور آرزو کا نام دیتے ہیں۔
رکنا اگر ہے موت تو چلنا حیات ہے
پیغام آرزو ہے مرے انتباہ میں ۱۱
حرکات عناصر بھی ہو جذباتِ عمل بھی
رخشندہ ہیں شش جہت یہی روح کی آیات۲۱
ریاض راہی مغرب کی علمی اور سماجی ترقی کے تو قائل ہیں لیکن مغرب کے محض مادی نظریہ حیات اور اس کے ناگزیرمنفی و تخریبی اثرات سے باغی ہیں۔
بس کور نگاہی و فحاشی و نمائش
مغرب نے یہ بخشی ہے نئی نسل کو سوغات
سرمایہئ دل کیا ہے فقط جوش جنوں ہے
اور عقل کی زینت ہیں یہ فرسودہ خیالات۳۱
ریاض راہی کہتے ہیں کہ جو قومیں اپنی اعلیٰ اقدار و روایات کو بھول کراندھی تقلید کی طرف مائل ہو جاتی ہیں وہ قومیں تباہ ہو جاتی ہیں۔
وہ کیسے جیے گا جو تمدن سے الگ ہو
سوکھے گی وہی شاخ جو گرجائے گی کٹ کر
اسباب تباہی تو کوئی اور ہیں راہی
کچھ بھی نہ ملا اپنی روایات کو رٹ کر۴۱
کلام راہی میں ڈاکٹر خیال امروہوی کے ترقی پسندانہ اثرات ملاحظہ ہوں:
اپنے گھروں میں لوگ مقید ہیں اے خدا
پہرہ لگا ہوا ہے جہاں میں عذاب کا
بس نیم مردہ لاشے لہو میں ہیں تر بتر
یہ دور منتظر ہے کسی انقلاب کا۵۱
ریاض راہی کی شاعری میں جہاں طبقاتی نظام کے خلاف بغاوت ملتی ہے وہیں وہ اپنے ہی قبیلے پر بھی کڑی تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں:
ایسا نظام زر سے ہوا منتشر خیال
فنکار کے قلم میں بغاوت نہیں رہی۶۱
گزشتہ بالا موضوعات کے ساتھ ساتھ ریاض راہی کے کلام میں رومانویت اور لطیف جذبات کی عکاسی بھی ملتی ہے۔
مجھے عزیز ہے دل سے جو زندگی کی طرح
گزر گیا مرے پہلو سے اجنبی کی طرح۷۱
ڈاکٹر محمد امیر ملک اس حوالے سے یوں کہتے ہیں۔
”ریاض راہی کی غزل میروسودا کے دور کی توسیع ہے“۸۱
مذکورہ رائے ڈاکٹر موصوف کی ذاتی رائے ہے اور اس سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے کیوں کہ ریاض راہی کا شعری لحن آج کے دور کے مقبول مباحث کا احاطہ کرتا ہے۔میرو سودا کے دور کا رنگ تغزل کچھ اور تھا۔
ریاض راہی کی شاعری کے بارے میں پروفیسر صغیر عباس جسکانی نے اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا ہے۔
”شعراوازکمال متانت و پختگی برخورداراست و سلاستی کہ داردمثل موج دریاروان می شود،وبرقاری خواندن آسان ولی فھمیدن شعرش خیلی دشواراست ھنگا میکہ شعرش رامی خوانیم یک دنیای فکروآگہی راروبروی خود مجسم می بینیم۔چون وی درز مین غالب و اقبال ھم شعرسرودہ است اما اونہ تنہا مقلد نیست بلکہ ایجاد کنندہ ای یک روش نوین می باشدکہ این طرز نودریک صورتی نمایان می شود کہ می تو ان گفت کہ ھم از غالب و ھم از اقبال بوی خوش راھمراہِ خوددارد۔۔۔سراسر شعروی یک پیام امیدو انقلاب است“۹۱
ترجمہ:۔
”ان کی شاعری،کمال متانت اور پختگی کی حامل ہے۔سمندر کی لہروں کی مانند سلاست موجود ہے۔قاری کے لیے پڑھنا آسان،لیکن شاعری کا ادراک بہت مشکل ہے۔جب ہم ان کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو فکرو آگہی کا ایک جہان اپنے سامنے موجود پاتے ہیں۔ریاض راہی نے غالب و اقبال کی زمین میں بھی شاعری کی ہے مگر ہم انہیں محض مقلد نہیں کہہ سکتے بلکہ وہ شاعری کی ایک نئی روش کے موجد ہیں۔اس نئی طرزشاعری میں غالب و اقبال کی شاعری کا عطر موجود ہے۔ان کی تمام شاعری امید و انقلاب کا ایک پیام ہے“
شکست آرزو ترقی پسند رجحانات اور رومانویت کا حسین امتزاج ہے۔اس میں زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔استاد محترم کی یہ شاندار تخلیق ان کی اعلیٰ فکر اور انسان دوستی کی عکاس ہے۔خوبصورت تشبیہات،استعارات اور تراکیب سے مزین یہ کتاب ایک اعلیٰ فنی نمونہ ہے۔علمی ادبی حلقوں میں منفرد مقام رکھنے والے ریاض راہی کی شکست آرزو بلاشبہ ایک ادبی اثاثہ ہے۔شکست آرزو مثبت اور تعمیری سوچ رکھنے والوں کی فکر کو جلا بخشتی ہے۔
حوالہ جات
1۔ خیال امیروہوی،ڈاکٹر،نئے امکانات کا شاعر،مشمولہ،شکست آرزو،مصنفہ،ریاض راہی،ارباب ادب پبلیکیشنز،لاہور،۵۰۰۲ء
2۔ افتخار بیگ،ڈاکٹر،”ریاض راہی:شاعر تصوف“مشمولہ،روزنامہ خبریں ملتان،۴۱اپریل۶۰۰۲ء
3۔ ریاض راہی،شکست آرزو،ارباب ادب پبلیکیشنز،لاہور،۵۰۰۲ء،ص ۳۵
4۔ انوار احمد،ڈاکٹر،مشمولہ،شکست آرزو
5۔ محمد فاروق،”عہد جدید کا سنجید ہ فکر شاعر“مشمولہ،سہ ماہی الزبیر،اردو اکیڈمی بہاولپور
6۔ ریاض راہی،شکست آرزو،ارباب ادب پبلیکیشنز،لاہور،۵۰۰۲ء،ص۴۱۱
7۔ ایضاً
8۔ ایضاً،ص۳۴۱
9۔ ایضاً،ص۴۰۱
10۔ ایضاً،ص۱۷
11۔ ایضاً،ص۹۲
12۔ ایضاً،ص۲۸
13۔ ایضاً
14۔ ایضاً،ص۴۸
15۔ ریاض راہی،شکست آرزو،ص۴۴۱
16۔ ریاض راہی،نجی گفتگو،گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ،۷۲ مارچ ۶۱۰۲
17۔ ریاض راہی،شکست آرزو،ص۷۸
18۔ محمد امیر ملک،ڈاکٹر،نجی گفتگو،۱۳ مارچ،۶۱۰۲
19۔ صغیر عباس جسکانی،پروفیسر،”شاعر فکر نویں“تھل،کالج میگزین،ص۶۲۱

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com