ہم سیاحوں کے نام
جو اس دشت ویراں میں
مسرت تلاش کر کے گیت گاتے ہیں۔۔!
آغا سلمان باقر
” پاکستان کی سرزمین ایک طلسماتی اور حسین دنیا ہے”
احباب اس وقت میرے ہاتھ میں آغا سلمان باقر صاحب کا سفر نامہ ” چولستان” ہے ۔اور یہ بات کہنے میں کوئی دو رائے نہیں کہ سفر نامہ اپنے پورے لوازمات کے ساتھ خوبصورتی سے لکھا گیا ہے ۔زبان و بیان اتنی سہل ہے کہ تاریخی راہداریاں عبور کرتے ہوے کسی بوجھل پن کا سامنا نہیں ہوتا ۔
آغا سلمان باقر کے نام سے سبھی واقف ہیں ۔ان کی شخصیت کا مختصر سا تعارف جناب علی اکبر ناطق کی کتاب آب حیات سے ہوا اور علم میں آیا کہ آپ مولانا محمد حسین آزاد کے خانوادے سے ہیں ۔یہ بذات خود بڑا اعزاز ہے ۔بعدازاں فیس بک کے توسط سے ان کی دو کتب سفر نامہ اور انشائیے نہایت خلوص اور محبت سے وصول ہوئیں۔آغا صاحب کا یہ چوتھا سفر نامہ ہے اور ایک زیر طبع ہے ۔اس کے علاؤہ لا تعداد تصنیفات ہیں ۔
کبھی سوچتی ہوں کہ اگر عورت نہ ہوتی تو سیاحتی شاعر ہوتی کیونکہ ہمارے ہاں سیاحت کا شوقین حضرات مرد ہو سکتے ہیں یا ہوتے آئے ہیں یا ہیں یا عورت پر معاشرتی ،مذہبی سماجی دباؤ ہے یا عورت کو عزت کے خطرات ہیں یا عورت پیدائشی بزدل ہے یا عورت کی گواہی آدھی ہے تو کون لکھا مانے گا کہ ” سکوت اور خاموشی میں دراوڑ ی فصیلیں ،جنات کے شہر میں تبدیل ہو جاتی ہیں ”
ان ڈھیر سارے یا،یا میں یہ شوق، ذوق، جنون ہی رہا اور ٹوٹی پھوٹی شاعرہ بن گئی ۔پاکستان کے شمالی علاقے جات دیکھنا نصف ایمان ہے سو تقریباً پورے پاکستان کے لوگ دیکھ چکے سو میں بھی ان اولین ایمان لانے والوں میں سے آدھی ہوں ۔۔باقی شوق مستنصر حسین تارڑ صاحب کو پڑھ کر پورا ہوا ۔
بہت عرصے بعد یہ خوبصورت سفرنامہ پڑھنے کو ملا تو دراوڑ قلعے کی یاد ستانے لگی گویا ہم وہیں پلے بڑھے ہوں بس وہ حصے جو آغا صاحب نے دیکھے اور لکھا وہ دیکھنا بھول گئے ۔زندگی رہی تو ضرور دیکھنے جائیں گے اور قلعہ کی دیواروں سے شکوہ کناں ہوں گے کہ کچھ شاہی مزاج لوگ شہروں کی بھیڑ بھاڑ میں ہراساں پھر رہے ہیں ۔۔
سیاحت کے شوقین حضرات و سواتین یہ جان لیں کہ” چولستان” ایک زبردست سفرنامہ ہے اس کے انتساب کی ” الف” سےے کر ” ہیں” کے ” نون غنہ” تک حرف حرف دل چسپی لیے ہوئے ہے ۔خطوط غالب جیسے یہ آپ سے بات کرتا ہے لطیف اور تاریخی پیرائے میں مگر کہیں اونگھ نہیں آتی ۔اور جب نیند آتی ہے تو خود کو نور محل میں پاتے ہیں ۔
تصوف کی بات ہو اور آغا صاحب کی مزارات سے وابستگی کا ذکر نہ ہو یہ ادھورا ہے ۔دم گٹ کوں،دم گٹ کوں کوں،ملنگ،کبوتر،پرندے ،دانہ،سائیں جی کی جوئیں،زکریا کی ڈیوڑھی،غلام فرید دا عشق سب ذائقے ملیں گے البتہ امتداد زمانہ ، توہمات، غلاظت و گندگی جو اب اس ملک کا لازم بنتا جا رہا ہے اس سے روگردانی نہیں کر سکتے ۔
محلات کی سرزمین بہاولپور جہاں مجھے حسن بھی بہت نظر آیا اس کا بیان بہت دل کش انداز میں کیا گیا ۔چونکہ بہت سوں کی طرح میں بھی اس کی زائر ہونے کا شرف حاصل کر چکی ہوں تو حرف حرف نہ صرف صداقت ہے بلکہ سحر انگیز بھی ہے ۔
مزاح بہت معیاری ہے کہ انسان مسکراتا بھی ادا سے ہے ۔ صحرا،نخلستان،ریگستان سب کا بیان اپنی مکمل تعریف میں جامعیت لیے ہے ۔
ویران،ریتیلے رستے،تاریک کھنڈر اور جگمگاتا قلعہ دراوڑ ۔
سردی ،انتظار،بھوک اور پھر پیدل سفر،
صحرا میں تاریک رات
بھوت نما جھاڑیاں۔صحرا میں بون فائر۔جیپ ریلی۔
دن میں قلعہ دراوڑ کا نرالا روپ اور رات میں بھوتوں کا بسرام
نور فاطمہ حسن کی دیوی کی نور محل سے شدید نفرت اور باقی زندگی دراوڑ میں گزارنے کے حقائق ۔
دیو مالائی داستانیں اور فی زمانہ قلعہ کی زبوں حالی شکر ہے خدا نے روحوں کو زندہ رکھا کہ نوابوں کی پاکستان سے محبت کی یادگار موجود ہے مگر ان کی روحیں سنا ہے اماوس کی راتوں میں فصیل پر بین کرتی ہیں ۔
اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا ۔
زندگی رہی تو یعقومند محل ضرور جائیں گے اور آغا سلمان باقر صاحب اس نوجوان حسین جوان دلہن کو دیکھیں گے جو صحابہ کرام کی قبروں کی اوٹ میں سر جھکا کر بیٹھ جاتی ہے ۔۔
آداب
صائمہ