جھنگ شعرو ادب،عشق و محبت،علم و حکمت،بہادری و جانبازی کی لازوال دھرتی ہے یہ سرزمین زمانہ قدیم سے علم و ادب کا گہوارہ رہی ہے اردو شعرو ادب کی دنیا میں شہر جھنگ نے اپنی استطاعت کے مطابق حصہ ڈالا ہے اردو زبان کے ممتاز و منفرد صاحبِ فن شاعر پیدا کرنے کا شرف بھی اسی سرزمین کو حاصل ہے۔
اس دھرتی میں سلطان باہو،محبوب عالم شاہ جیونہ جیسی صاحب علم و فضل ہستیاں آسودہ خاک ہیں تو کہیں مجید امجد ،جعفر طاہر شیر افضل جعفری ،رام ریاض ،ساحر صدیقی اور معین تابش کے نغمے کانوں میں رس گھولتے ہیں تو کہیں صفدر سلیم سیال عبدالعزیز خالد اور محمود شام کا فکر انگیز تخیل باطن کو روشنی دیتا ہے اردو سرزمین جھنگ نے علم و ادب کے دامن کو جو وسعت دی ہے اور اردو زبان کے ذخیرہ الفاظ میں جو اضافہ کیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے انہی شعرا و ادبا کی علمی و ادبی خدمات کی بنا پر جھنگ کو ایک دبستان کا درجہ دیا جا سکتا ہے جھنگ کے شعرا کی انہی خدمات کے اعتراف میں سید مظفر علی ظفر اپنی نظم "دیکھا جھنگ مگھیانہ دیکھا” میں لکھتے ہیں:
شعر وادب کے ماہر دیکھے
انجم،امجد، طاہر دیکھے
باطن دیکھے ظاہر دیکھے
اور یہ چشم ِ غائر دیکھے
دیکھا جھنگ مگھیانہ دیکھا
جھنگ کی شعری روایت کا آغاز دمودرداس و مودر سے ہوتا ہے جس نے ہیر رانجھا کی داستان کو شعری قالب میں ڈھالا تھا، یہ جلال الدین اکبر کے دور کا ہندی شاعر تھا سلطان العارفین حضرت سلطان باہو بھی صوفیانہ شاعری میں اپنی مثال آپ تھے۔ جھنگ کے قدیم ترین شعرا میں محبوب عالم حضرت شاہ جیونہ بخاری کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اردو ادب میں جھنگ کو ایک بلند مقام حاصل ہے بیسویں صدی کے اہم شعرا میں کبیرا نورجعفری ،شیر افضل جعفری ،مجید امجد ،ساحر صدیقی ،جعفر طاہر ،خضر تمیمی وغیرہ پاکستان بننے تک شہرت حاصل کر چکے تھے قیام پاکستان کے بعد جن شعرا نے نام پیدا کیا ان میں صاحب زادہ رفعت سلطان ،سید مظفر علی مظفر ،صفدر سلیم سیال،عبدالعزیز خالد، معین تابش ،رام ریاض ،خواجہ محمد زکریا اور محمود شام وغیرہ شامل ہیں۔ دورِ حاضر کے شعرا میں گستاخ بخاری ،فرحت عباس شاہ، علی نقی خان، غلام شبیراسد، عامر عبداللہ اور غائر عالم وغیرہ شامل ہیں۔خواتین میں اہم شاعرات فرخ زہرا گیلانی ،درانجم عارف ،سعیدہ رشم ،مسرت جبیں زیبا شامل ہیں۔
جھنگ کی ادبی تاریخ بہت پرانی ہے سرزمین جھنگ نے اردو ادب میں ایسے سپوت پیدا کیے ہیں جو شعری ادب پر مثل مہروماہ چمک رہے ہیں ان میں سے اہم نام جو جدید شاعری کے حوالے سے قابلِ ذکر ہے وہ مجید امجد کا ہے۔
بیسویں صدی کے انتہائی منفرد اور اہم شاعر عبدالمجید امجد تھے وہ نہایت وسیع المطالعہ شخص تھے۔فارسی ،انگریزی ،عربی،ہندی اور پنجابی زبان سے اچھی طرح واقف تھے ۔شاعری کے ساتھ شروع سے ہی لگائو تھا ان کے کلام میں موضوعات کی بوقلمونی کے ساتھ ہیت کا تنوع بھی نظر آتا ہے ان کی شاعری میں فکر اور جذبے کی گہرائی موجود ہے ان کی پوری شاعری پر وقت کا احساس حاوی نظر آتا ہے ان کی نظموں میں لمحہ حال کو بڑی اہمیت حاصل ہے تاہم زندگی ،جبر،ازل،ابد ،تہذٰیب ،خدا،انسان،فطرت اور معاشرتی و سماجی موضوعات کو بھی دیکھا جا سکتا ہے عامر سہیل لکھتے ہیں”مجید امجد کثیرالجہتی افکار کا حامل شاعر ہے”
مجید امجد نے نظم اور غزل دونوں میں طبع آزمائی کی ہے ۔بلال زبیری مجید امجد کے بارے میں لکھتے ہیں”جدید اردو غزل میں فلسفہ اور فن کے امام مانے جاتے ہیں”مجید امجد کی شاعری میں زیست کا سرمایہ موجود ہے غزل اور نظم دونوں میں ان کا انداز جداگانہ ہے۔ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں”اس کی نوا میں دلِ شکستگی اور ناتمامی کی خلش ہر جگہ ہے وہ تنہائیوں اور بیابانی کیفیتوں کا مصور ہے مگر کائنات کی ظاہری سطح سے ذرا نیچے جو عجائب و غرائب و طلسمات موجود ہیں ان کا انکشاف بھی اس کی خصوصیت ہے اس کی شاعری تمدن کے بازاروں سے دور اس زندگی کی راز دار ہے جو بہت سادہ و معصوم ہے”۔
مجید امجد نے اپنے نظریے کو کسی مخصوص تحریک سے وابستہ نہیں کیا ان کی مشاہداتی قوت،ترفع تخیل اور عصری آگہی نے ہی ان کی شاعری کی شکل متعین کی ہے نظموں میں اکثر جگہ وہ ماضی سے رشتہ استوار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔وہ کہنہ یادوں کو فراموش نہیں کرتے ان کے نزدیک یادیں انسان کی پہچان ہے انسان کی جڑ ہے رفیق سدھیلوی اس حوالے سے لکھتے ہیں”مجید امجد یادوں کی نقل وحمل کا شاعر ہے یاد کی کمند پھینک کر وقت کی بالائی چھتوں تک رسائی حاصل کرلینا اس کا محبوب مشغلہ ہے”
مجید امجد جدید اردو شاعری میں ممتاز و منفرد حیثیت کے مالک ہیں انہوں نے نظم جدید کے فکری آفاق کو وسعت دی انہوں نے نئے تخلیقی تجربے کو تاریخی انسان کے وجودی ثمرات کے ساتھ ہم آہنگ کرکے ایسا جہانِ معنی تخلیق کیا ہے جس کی بے کراں وسعتوں سے اردو شاعری واقف نہ تھی انہوں نے شاعری میں کھوکھلے پن کی بجائے نئے تجربے اور نئے رجحان کو فروغ دیا عامر سہیل مجید امجد کے بارے میں رلکھتے ہیں”مجید امجد کا وسیع تخیلاتی ذہن ،دقیق مطالعہ اور زبان پر مکمل عبور اسے مستقبل کی پیش نہیں کرنے پر اکساتے ہیں ”
مجید امجد اردو شاعری کا وہ روشن ستارہ ہے جس کی تابناکی میں وقت کے ساتھ اور اضافہ ہوگا۔ جھنگ دھرتی سے تعلق رکھنے والے ایک اور شخصیت جعفر طاہر ہیں ان کا اصل نام سید علی شاہ تھا لیکن اردو ادب میں جعفر طاہر کے نام سے شہرت حاصل کی ۔جعفر طاہر جدید ادب کی ایک نہایت قد آور شخصیت تھے جنھوں نے خاص طور پر نظم کی صنف کینٹوز کی وجہ سے شہرت حاصل کی انہوں نے روایتی مضامین کو بھی نئے تناظر میں پیش کیا ہے اس طرح انہوں نے کلاسیکی روایت کے ساتھ بھی اپنا رشتہ استوار رکھا ہے ۔جعفر طاہر فن شاعری میں خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے ۔
جعفر طاہر کا شمار ان اہم شعرا میں ہوتا ہے جن کے بعض غزلیات کو ان کے عہد کے نامور ادبی رسائل نے بار بار شایع کیا ان کی وسعت علمی اور تخلیقی صلاحیتوں کا ایک زمانہ متصرف تھا۔وسعت علمی کی بنا پر ہی انہیں شاعر ہفت زبان بھی کہا جاتا تھا کیوں کہ ان کو اردو پنجابی بنگالی سنسکرت فارسی ہندی عربی اور انگریزی پر مکمل عبور تھا۔
جعفر طاہر نے جھنگ کی شعری روایت میں اپنی بھرپور استطاعت کے مطابق بڑا مضبوط اور مستحکم حصہ ڈالا ہے۔ جعفر طاہر نے غزل اور نظم کے علاوہ قصائد بھی لکھے ہیں انہوں نے قصائد کے لیے خاندان رسول مقبول کی ان برگزیدہ شخصیات کو بطور ممدوح اپنایا ہے کہ اس سے پہلے کسی اور شاعر کو یہ شرف حاصل نہیں ہوا۔
مجموعی طور پر جعفر طاہر نئے راستوں اور نئی منزلوں کے شاعر ہیں اور اپنے منفرد اسلوب کی بنا پر جھنگ کی شعری روایت کے ساتھ ساتھ اردو شاعری کی تاریخ میں قابلِ قدر اضافہ ہیں۔
جھنگ رنگ کے ملنگ شاعر افضل جعفری ادب کی دنیا کا وہ گوہر ہیں جس نے اپنے فن کو اپنی ثقافت سے مربوط کیا ہے وہ معاشرے کی سطح پر دوستی اور محبت کے علمبردار تھے ان کے کلام میں شعریت اور جذبات ک رچائو نظر آتا ہے وہ شروع میں ادب برائے ادب کے قائل تھے لیکن جلدہی وہ ادب برائے زندگی اور پھر ادب برائے عاقبت کے قائل ہوگئے ۔شیر افضل جعفری کی غزل میں جھنگ کی تہذیبی سرگزشت سنائی دیتی ہے ۔
ریاض احمد 1933 میں پانی پت میں پیدا ہوئے شروع میں شگفتہ تخلص کرتے تھے لیکن بعد میں رام تخلص اختیار کیا ان کا خاندان پانی پت سے ہجرت کرکے جھنگ شہر میں آباد ہوا ۔
رام ریاض کا پہلا شعری مجموعہ "پیڑ اور پتے” شایع ہوا دوسرا مجموعہ "ورق سنگ” کے نام سے شایع ہوا۔