لیہ کا ادب : 1970ء کے آس پاس
1947ء سے 1970ء تک پاکستان کی سیاسی و سماجی زندگی میں جتنے بھی گرداب اٹھے ان کے اثرات لیہ میں کم کم ہی دیکھنے میں آئے۔یہاں کی زندگی تھل کی چاندنی میں نہاتی تھی چوپالوں میں جلتے الاؤکے گرد مستانہ وار رقص کرتی اور قدیم قصوں پر سر دھنتی تھی۔زندگی کے مجموعی رویوں نے یہاں کے شاعروں کے رویوں کو بھی ایک خاص نہج دی۔مٹی سے پیار،وطن سے محبت،مذہب سے لگاؤ،نبی آخرالزمان سے محبت،حسین ابن علی ؑ سے محبت اور محبت ہی محبت۔عمومی طور پرشعرا کے ہاں یہی رویہ بہت نمایاں تھا۔پھر1970ء کے بعد ذوالفقارعلی بھٹو کی سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے سیاسی منشور نے جہاں پاکستان بھر کے غریبوں کے ہاں فکر ونظر کا انقلاب برپا کیا،وہیں لیہ میں بھی ایک نئی سوچ اور فکر نے جنم لیا۔
سماجی سطح پراس سوچ کی آؓبیاری کرنے والوں میں لاہورفوٹوگرافرز سٹوڈیو کے مالک ظفر زیدی کی خدمات شامل تھیں اور فکری سطح پر شعرو ادب کو ایک خاص رنگ دینے میں نسیم لیہ اور ڈاکٹر خیال امروہوی جیسے لوگ شامل تھے۔دوسری طرف ذرائع آمدورفت میں تبدیلی وارد ہوئی تو لیہ کا رابطہ دوسرے شہروں سے زیادہ مؤثر طور پر قائم ہوا۔لیہ کے شعراء کے ہاں فکری بلوغت نے جنم لیا۔ اب یہاں صرف حسن و عشق کے موضوع پر بات نہیں ہوتی تھی بلکہ بات ذرا آگے بڑھی،سماج اورسماجی رشتوں کی تطہیرپر بات شروع ہوئی۔سیاسی و سماجی بے انصافیوں پر احتجاج اور انسان کی بے توقیری پر بڑی شد و مد سے قلم اٹھایا گیا۔یوں سمجھ لیجئے کہ 70ء کی دہائی میں جہاں پاکستان بھر میں خواب دیکھنے کا عمل شروع ہوا، وہیں لیہ کے شعراء بھی مستقبل کے حوالے سے خوابناکیوں میں ڈوب گئے۔اس دور میں شعراء کے اندازِفکر میں ایک واضح تبدیلی دیکھنے میں آتی ہے۔
رفیق خاور تھلوچی:
محکمہ محال میں پٹواری تھے۔علم الاعداد اور علم جعفر میں دستگاہ رکھتے تھے۔
کوئی آواز نہ آہٹ نہ صدا
خانہ ویرانی کی حد ہوتی ہے
نسیم لیہ:
عبدالسمیع اصل نام تھا۔1928ء کو لیہ میں پیدا ہوئے۔تھل کی پہچان تھے”برگِ لرزاں“ کے خالق نسیم لیہ کو خیال امروہوی نے یوں خراج تحسین پیش کیا:”عصرِ حاضر میں نسیم لیہ ان بڑے شاعروں میں شمار کئے جاتے ہیں جن کے الفاظ کا طنطنہ،معانی کا پھیلاؤ، مضامین کی ندرت،مفاہیم کی عظمت،اصطلاحات کا چناؤ اور شاعرانہ رکھ رکھاؤ طلسم زبان و بیان کہلانے کا مستحق ہیں۔“
(خیال امروہوی نسیم لیہ مشمولہ سپوتنک۔لاہور فروری1996ء ص۔113)
”لالہ ء صحرا“(جو بزمِ قصرِ ادب لیہ نے شائع کی تھی)میں نسیم لیہ اور ساقی الحسینی کا کلام شامل ہے۔وہیں سے نسیم لیہ کی ایک غزل دیکھئے:
تیشے کی ایک ایک ادا بولنے لگے
پتھر کو یوں تراش خدا بولنے لگے
گم سم تھی دو جہاں کی حقیقت مرے بغیر
میں آگیا تو ارض و سما بولنے لگے
ایسا نہ ہو کہ روزنِ دیوار سے کہیں
جلتے ہوئے دئیے سے ہوا بولنے لگے
ہوتے ہیں گنگ عرش نشینوں کے فیصلے
سولی پہ جب کسی کی انا بولنے لگے
انگلی کا آپ ایک اشارہ کریں اگر
دستِ شفق پہ خونِ حنا بولنے لگے
تھم جا ذرا سی دیر کو اے نبض ِ کائنات
نوکِ سناں پہ اہل وفا بولنے لگے
اتنی پلا کہ اپنا بھرم کھول دوں نسیم
میں چپ رہوں تو لغزشِ پا بولنے لگے
ڈاکٹر خیال امروہوی:
ڈاکٹر خیال امروہوی کا اصل نام سید مہدی علی نقوی ہے۔1930ء میں محلہ قلعہ ضلع میہڑ حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ایم۔اے (فارسی)پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اور پی ایچ۔ڈی کی ڈگری دانش گاہِ تہران سے حاصل کی۔جس کے لیے ”عقائد مزدک“کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھا۔ترقی پسند فکر کے حامل ہیں۔معاشی اور معاشرتی انقلاب ان کا خواب ہے۔کئی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔نظم و غزل میں یکساں مہارت رکھتے ہیں۔ شکوہِ لفظی ان کا خاصا ہے۔تاہم عوامی مزاج کی عکاسی کرتے ہیں۔شعری مجموعے ”مقتل جان“1967ء میں،”گنبدِ بے در“1973ء میں،”لمحوں کی آنچ“1975ء میں،”عصر بے چہرہ“1982ء میں پھر کلیات”نئے افق نئی کرنیں“ کے عنوان سے 1985ء میں اور”تلخاب“1988ء میں شائع ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر روح العین یزدک کے بقول:”۔۔۔۔۔انھوں نے اپنے عہد کے مسائل کو جس طرح محسوس کیا،اس کا اظہار پوری سچائی اور جرأت کے ساتھ کیا ہے اور یہی ایک سچے فنکار کی حقیقی شناخت ہے“(نئے افق نئی کرنیں۔ص۔9)بقول رئیس امروہوی:”خیال نے اپنے کلام میں جن مسائل کو فکرو بیان کا موضوع بنایا،آگ کی طرح جلتے ہوئے، انگاروں کی طرح دہکتے ہوئے اور خون کی طرح کھولتے ہوئے ہیں۔ان مسائل و موضوعات کی داخلی شدت نے شاعر کے لہجے کو شدید جذبات انگیز بنادیا ہے“(لمحوں کی آنچ۔ص۔17)
تاریکیوں میں کس نے دیا ہے کسی کا ساتھ
پروانے ساتھ ساتھ ہیں جب تک چراغ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طلوعِ صبح کے آثار رونما تو ہوئے
طلسم ظلمت آفاق سے رہا تو ہوئے
خوشی تو یہ ہے کہ طاقت کے پوجنے والے
غریبِ شہر کی ہمت سے آشنا تو ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سخت مہنگی تھی نئے افکار کی سوداگری
اس کے بدلے گھر لٹا دینا مجھے سستا لگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نگاہِ عصر اسے کل ضرور پرکھے گی
قلم کی نوک سے جو کام کر گیا ہوں میں
14مئی 2009ء کو لیہ کو علمی و ادبی شناخت دینے والی یہ ہستی ہمیشہ کے لئے ہم سے بچھڑ گئی۔پروفیسر ریاض راہی نے ایم اے(اردو) کے لیے ”خیال امروہوی شخصیت اور فن“کے عنوان سے مقالہ لکھا۔جب کہ پی ایچ۔ڈی کے لیے پروفیسر جرأت عباس نے ”خیال امروہوی شخصیت اور فن“ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھا ہے۔
طاہرہ امان:
طاہرہ امان 1932 ء کو آغا نعمت علی خان(جوکہ شاعر و خطیب تھے)کے گھر پیدا ہوئیں۔ان کی شاعری کی ابتدائی اصلاح ان کے والد نے کی۔
ہر روز نیا زخم لگادیتی ہے دنیا
کیا خوب محبت کا صلہ دیتی ہے دنیا
دے کر کسی مجبور کو دولت کا سہارا
جاگی ہوئی غیرت کو سلادیتی ہے دنیا
(ناصر ملک،لیہ دی تاریخ،لاہور:لہراں ادبی بورڈ،2008،ص۔589)
۔۔۔۔۔۔۔
مختصر سی زندگی کم ہے محبت کے لیے
وقت لاتے ہیں کہاں سے لوگ نفرت کے لیے
(طاہرہ امان کا یہ شعر میاں الٰہی بخش سرائی کی زبانی کئی بار سنا گیا)
عثمان خان:
بلدیہ لیہ کے پرائمری سکول میں تدریس کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔گوڑیانوی پٹھان ہیں۔1932ء میں قصبہ گوڑیانوی ضلع روہتک میں پیدا ہوئے۔قیام پاکستان کے بعد1948ء میں لیہ میں آباد ہوئے اس وقت ان کی عمر16سال تھی۔ان کی شاعری میں نئے عہد کے مسائل کا اظہار موجود ہے
ڈوبتے وقت کنارے مجھے تکتے تو رہے
یہ غلط ہے کہ کناروں نے مرا ساتھ دیا
۔۔۔۔۔۔۔
اب تو عدالتوں کا تقدس نہیں رہا
قاتل جو منصفوں کی دکاں تک پہنچ گیا
غافل کرنالی:
اصل نام محمد ےٰسین تھا۔ کرنال میں 1933ء میں پیدا ہوئے۔1947ء میں قیام پاکستان کے بعد لیہ ان کا وطن ٹھہرا۔تعلیم واجبی تھی مگر قادرالکلام شاعر تھے اور پُر گو بھی۔ملی مسائل پر بھی قلم اٹھایا اور عشق رسول میں ڈوب کر نعت گوئی بھی کی۔”قندیل ِ حرم“ نعتیہ مجموعہ ہے جو مظفر گڑھ سے شائع ہوا۔ان کی نعتوں کا وصف پروفیسر عاصی کرنالی کے بقول”جذبے کی صداقت اور زبان و بیان کی سادگی ہے“(قندیل ِ حرم۔ص۔6)
بے ساختگی اور سادگی اظہار کی ایک مثال دیکھئے:
سلام اس پر جسے اللہ کا محبوب کہتے ہیں
سلام اس پر جسے کونین کا مطلوب کہتے ہیں
سلام اس پر کہ جس کا غلغلہ ہے بزم ِ ہستی میں
سلام اس پر جوآیا ہم گنہگاروں کی بستی میں
سلام اس پر سبق جس نے اخوت کا پڑھایا تھا
سلام اس پرکہ جس نے دہر کو جینا سکھایا تھا
۔۔۔۔۔۔
سلام اس پرکہ جس کی سب رسولوں نے گواہی دی
سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کو بادشاہی دی
غزل اور نظم میں یکساں قلم فرسائی فرمائی۔ایک گوہر یکتا جو ہم سے جدا ہو گیااور اقلیمِ سخن وراں ویراں ہوگئی۔پروفیسرمزمل حسین نے ایم۔فل(اردو)کے لیے جو مقالہ تحریر کیا اس کا موضوع”غافل کرنالی۔فن اور شخصیت“ ہے۔
عبدالغفار عابد:
قصبہ نابھہ ریاست پٹیالہ میں 1933ء میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد لیہ میں آباد ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر14سال تھی۔حکیم غلام جیلانی فرمان پٹیالوی کے شاگرد تھے۔یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور میں ڈاکٹر سید عبداللہ،پروفیسر ڈاکٹر محمد باقر اور پروفیسر وزیر الحسن عابدی جیسے بزرگوں سے کسب فیض کیا۔1952ء میں تپدق میں مبتلا ہوئے اور اسی مرض میں 1967ء میں فوت ہوئے۔ان کی نظم اور غزل جذبہ و احساس کی شدت اور احساس و جمال کی رعنائیوں سے معمور ہے۔
جھکے گا میرا سراسی آستاں پر فلک نے جہاں سر جھکا یا ہوا ہے
نہیں ڈر اسے امتحانِ فلک کا جو دل آپ کا آزمایا ہوا ہے
سید امدادحسین شاہ طوسی:
اصل نام امداد حسین تھا۔1933ء کو سید امام علی شاہ شفیق کے ہاں پیدا ہوئے۔سخن شناسی ورثہ میں ملی۔8اپریل 2010ء میں وفات پائی۔
اپنوں کے بھی ہوتے ہوئے غیروں کا تھا محتاج
پر حیف مرے حال پہ شرمائیں نہ اپنے
اپنوں کی بھلائی رہے پوشیدہ کہ یارب
ڈر ہے کہیں اغیار ہی بن جائیں نہ اپنے
نواز صدیقی:
نواز صدیقی آپ کا پورا نام محمد نواز صدیقی ہے۔6جولائی1937ء کو دائرہ دین پناہ میں پیدا ہوئے۔ایم۔اے (اردو)کی تکمیل کے بعد1975ء میں بطور لیکچرار گورنمنٹ کالج لیہ میں فرائض منصبی ادا کرتے رہے۔اس دوران ترقی پاکر اسسٹنٹ پروفیسر ہوئے۔1996ء میں ریٹائرمنٹ لے لی۔بطور استاد آپ کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ایک مجموعہ کلام”سادگی ہائے تمنا“کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکا ہے۔اس مجموعے میں زیادہ تر غزلیں شامل ہیں۔نظموں میں چند سلام و مناقب بحضور حضرت علی اور حضرت حسین ؑابن علی شامل ہیں۔اس کے علاوہ ایک نظم ”ماں“کے عنوان سے ہے۔
نواز صدیقی کے ہاں شاعری کا مطلب محض وقت گزاری نہیں۔ غزل کی ایمائیت کا سہارا لے کر انھوں نے فکر ونظر کی بات کی ہے۔ بقول مزمل حسین”پروفیسر نواز صدیقی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں اور ان کا سارا تخلیقی اظہار غزل کی صنف میں ہوا ہے۔۔۔۔۔سادگی ہائے تمنا کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نواز صدیقی کا لہجہ غزل کی کلاسیکی روایت سے ہم آہنگ ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ شاعری کے جدید رنگ سے آشنا نہیں بلکہ ان کے موضوعات آج کے موضوعات ہیں۔۔۔۔۔ان کے اشعار میں معاشرتی تضادات،سماجی ناہمواریاں اور ملکی سیاسی صورت حال سے پھوٹنے والی موجیں جلوہ گر ہیں۔“(سادگی ہائے تمنا:ص۔22,23)
میرے جذبوں کا کارواں اکثر
عمر رفتہ کے ساتھ چلتا ہے
گھپ اندھیروں کی بادشاہی ہے
تن کا جنگل ہنوز جلتا ہے
راستے کا ہر اک گراں پتھر
گر مئی شوق سے پگھلتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
اس شور شرابے میں دنیا کے خرابے میں
اک نعرہئ مستانہ، اے جرأتِ رندانہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان دیکھی تصویر میں کھویا رہتا ہوں
جذبوں کے سر تال سراسر پاگل ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
کوئی گستاخ گزرا ہے ادھر سے
بساطِ مئے کدہ الٹی پڑی ہے
۔۔۔۔۔۔
اس قدر بدلا ہواؤں کا چلن
پھول کا تازہ بدن کملا گیا
19فروری 2015ء کو پروفیسر نواز صدیقی ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوگئے۔
خلیق۔بی۔اے:
22ستمبر1937ء کو پیدا ہوئے۔میٹرک تک تعلیم کروڑ لعل عیسن سے حاصل کی۔ایف۔ اے اور بی۔اے گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ سے کیا۔شاعری میں کشفی ملتانی سے اصلاح لیتے رہے۔زیادہ عرصہ ذاتی کاروبار میں مشغول رہے۔مشاعروں میں شرکت نہیں کرتے تھے۔کم ازکم راقم نے کبھی نہیں سنا اور نہ ہی مختلف قسم کی تقاریب میں کبھی انھوں نے اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی کوشش کی۔یکم اکتوبر2000ء کروڑ لعل عیسنمیں وفات پائی۔(ان کے بیٹے جہانگیر نے کروڑ لعل عیسن میں چنڈی موڑ کے قریب ملنگی ہوٹل کی بغل میں کریم کیرج کمپنی کے نام سے گڈز ٹرانسپورٹ کا کاروبار سنبھال رکھا ہے۔دوسرا بیٹا کروڑ لعل عیسن میں نمک کا کاروبار کرتا ہے۔جس کا نام اعجاز احمد ہے اور تیسرا بیٹا محمد اعظم خوشحالی بینک لیہ میں ملازمت کرتا ہے۔اگر کوئی محقق خلیق بی۔اے کے حوالے سے کام کرنا چاہے تو ان کے فرزندان سے رابطہ کر سکتا ہے)
راقم خود1990ء سے 1996ء تک کروڑ کالج میں تدریس کے فرائض سرانجام دیتا رہا ہے اس دوران میں کروڑ کے کچھ شعرا سے محبت کا تعلق بھی قائم رہا مگر خلیق صاحب کا نام میں نے کسی سے نہیں سنا۔پروفیسر ریاض حسین راہی نے ذاتی دلچسپی اور ذاتی مراسم کو کام میں لاتے ہوئے ان کے فرزندان سے ان کی بیاض کے چند اوراق فوٹو کاپی کواکر مجھے بھجوائے تھے۔چونکہ ان کا کلام کہیں بھی دستیاب نہیں ہے اس لئے ان کا تمام دستیاب کلام شامل اشاعت کیاجا رہا ہے۔ا ن کی جو ڈائری ملی ہے،وہ 1987ء کی ہے۔کلا م خاص تاریخ کے حامل صفحے پر لکھا ہوا ہے۔کہیں کہیں کانٹ چھانٹ اور قطع برید بھی موجود ہے۔مگر یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ ڈائری پر جس تاریخ میں کلام درج ہے،وہ انھوں نے اسی تاریخ کو لکھا۔مگر یہ بات طے ہے کہ کلام 1987ء یا بعد کا ہے۔ ذیل میں ڈائری کے صفحات کی ترتیب کے مطابق تاریخ اور دن کے حوالے کے ساتھ ان کا دستیاب کلام پیش ہے:
12ستمبر1987ء ہفتہ(17محرم1408ھ)
مجھے فنِ شاعری پر اگر اختیار ہوتا
میرا نام شاعروں کی صف میں شمار ہوتا
سوجان سے میں قرباں دل سے نثار ہوتا
تیرے وعدہئ وفا کا اگر اعتبار ہوتا
تیرا وعدہئ وفا بھی اگر استوار ہوتا
نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا
مجھے تجھ سے تجھ کو مجھ سے اتنا تو پیار ہوتا
جو خفا ذرا بھی ہوتے تو دل بے قرار ہوتا
میرا حال زار سن کر میری حالت زبو ں پر
کوئی اشک بار ہوتا کوئی دل فگار ہوتا
میری نیم شب کی آہیں میرے صبح دم کے نالے
مجھے کب نصیب ہوتے جو نہ تجھ سے پیار ہوتا
میں ہوں بدنصیب ایسا نہیں کوئی دوست جس کا
میرے دل میں ہے یہ حسرت کوئی ایک یار ہوتا
میں خلیق رسوا اتنا ہوتا کبھی نہ ہرگز
مجھے حد سے بھی نہ زیادہ جو نہ تجھ سے پیار ہوتا
اس صفحے کے حاشے پر یہ شعر مرقوم ہے:
مرمر کے جی رہا ہوں جی جی کے مررہا ہوں
اس عشق میں تو مرنا فقط ایک بار ہوتا
13ستمبر 1987بمطابق 18محرم 1408ہجری بروز اتوار
اچھا یہ تجربہ ہے تمہارے شعور کا
صبر آزما رہے ہو دل ناصبور کا
مجھ کو بھی ایک نظرِکرم چاہیے خلیق
میں بھی ہوں ایک چاہنے والا حضور کا
۔۔۔۔۔۔
حق اور صداقت کا علمبردار ہے بھٹو
باطل سے سدا برسرِپیکار ہے بھٹو
مظلوم کا مزدور کا غم خوار ہے بھٹو
دشمن کیلئے تیر ہے تلوار ہے بھٹو
19
ستمبر 1987بمطابق 24محرم 1408ہجری بروز ہفتہ
ناداں انساں ہوکر بھی تم دل کے سہارے لگتے ہو
کتنے اچھے لگتے ہو تم کتنے پیارے لگتے ہو
میں نے تجھ کو جان لیا ہے،جانا اور پہچان لیا ہے
دل کی ٹھنڈک روح کی تسکیں آنکھ کے تارے لگتے ہو
چاند ستارے جو ہیں فلک پر،میرا ان سے کیا مطلب
میرا چاند بھی تم ہوپیارے میرے تارے لگتے ہو
بات یہ تم سے پوچھ رہا ہوں دیکھنا مجھ سے سچ کہنا
اس دھرتی پہ تم ہی آخر کیوں کر پیارے لگتے ہو
میرے رشتہ دار بہت ہیں دوست بہت غم خوار بہت ہیں
لیکن ان سب ہی سے بڑھ کر تم کیوں پیارے لگتے ہو
جیسے چاند فلک پر تنہا سب کو پیارا لگتا ہے
ویسے تم دھرتی پہ تنہا مجھ کو پیارے لگتے ہو
بات خلیق یہ سچ کہتا ہے تیری یاد میں گم رہتا ہے
جان سے پیارے تم لگتے ہو دل سے پیارے لگتے ہو
20ستمبر1987بمطابق 25محرم1408ہجری بروز اتوار
کیا فرضِ محبت کا تجھے پاس نہیں ہے
بے حس ہو کسی بات کا احساس نہیں ہے
اس دل میں لیے بیٹھا ہوں اک یاد تمہاری
اب اس کے سوا کچھ بھی مرے پاس نہیں ہے
لینا اسے چاہو تو بڑے شوق سے لے لو
اک دل کے سوا کچھ بھی میرے پاس نہیں ہے
حسرت نہیں، ارمان نہیں، یاس نہیں ہے
ہے کون سی نعمت جو میرے پاس نہیں ہے
26ستمبر1987یکم صفر 1408بروز ہفتہ
شارق کے دم سے رنگ غزل پر نکھار تھا
ہر شعر آشنائے مذاق بہار تھا
تشبیہیں، استعارے، کنائے نئے نئے
اردو کا جیتا جاگتا اک اشتہار تھا
تیرے ہی دم قدم سے تھیں اردو کی محفلیں
تھل کا علاقہ اردو ادب کا دیار تھا
بہ موقع شعر کہتا تھا محفل میں فی البدیہ
اتنا تو اپنے فن پہ اسے اختیار تھا
اے دوست ذوق وغالب و اقبال کی طرح
شعرائے پاک و ہند میں اس کا شمار تھا
وہ ماہر حساب تھا اور ماہر نجوم
فن عروض پر بھی اسے اختیار تھا
کرتے ہیں اعتراف یہ احباب اے خلیق
وہ دوستوں کا دوست تھا یاروں کا یار تھا
27ستمبر بروز اتوار 2سفر 1408ہجری
تیرے در پہ آئے صدا کر چلے
نہایت ادب سے دعا کر چلے
بڑی چیز تھی دولت فقر بھی
خزانہ یہی ہم لٹا کر چلے
کسی نے بھی جی بھر کے دیکھا نہیں
وہ اس طرح جلوہ دکھا کر چلے
3اکتوبر 1987بروز ہفتہ 8صفر 1408ہجری
اپنے دل کو آزمانا چاہیے
بے وفا کو بھول جانا چاہیے
چاہتے ہو تم حسینوں کو خلیق
ان کے دھوکے میں نہ آنا چاہیے
جو رہے ہیں عمر بھر مجھ سے خفا
ان سے ملنے کا بہانہ چاہیے
جس کو پڑھ کر میں سدا روتا رہوں
ایسا قصہ یا فسانہ چاہیے
4اکتوبر1987ء بروز اتوار9صفر1408ھ
محبت دوست بھی غم خوار بھی ہے
محبت باعثِ آزار بھی ہے
حقیقت ہے اسے مانو نہ مانو
محبت حسن کی سرکار بھی ہے
محبت ہی سے قائم رنگِ عالم
محبت حسن کا بازار بھی ہے
محبت کے کرشمے ہیں نرالے
محبت عشق سے بیزار بھی ہے
محبت کی طبیعت ہے نزاکت
محبت تیر بھی تلوار بھی ہے
خلیق ہم نے محبت کر کے دیکھا
محبت پھول بھی ہے خار بھی ہے
2نومبر1987ء بروز سوموار9ربیع الاول1804ھ
اب آسماں کی سمت نظر کر رہے ہیں
تسخیر یعنی شمس و قمر کر رہے ہیں ہم
کیوں پوچھتے ہیں آپ مری زندگی کا حال
جیسے بھی کر رہے ہیں بسر کر رہے ہیں ہم
دن کو غمِ معاش ہے شب کو تیرا خیال
کچھ اس طرح بھی زیست بسر کر رہے ہیں ہم
انجام ِ عشق سے ابھی شاید ہیں بے خبر
آغاز عشق شوق سے پھر کر رہے ہیں ہم
3نومبر1987ء بروز منگل10ربیع الاول 1408ھ
آغازِ محبت تو بڑے شوق سے کر دوں
میں عشق کے انجام پہ کچھ سوچ رہا ہوں
11نومبر1987ء بروز بدھ 18ربیع الاول1408ھ
کی وفا تم نے یاکی مجھ سے جفا یاد نہیں
آپ کی ایک بھی اب طرزِ ادا یاد نہیں
کب ہوئے کیسے ہوئے مجھ سے جدا یاد نہیں
کیا تھے اس وقت میرے حرفِ دعا یاد نہیں
صحنِ گلشن میں بہار آتی ہے آتی ہوگی
دل کے گلشن میں چلی سرد ہوا یاد نہیں
میں نے جاں ایک تبسم پہ نچھاور کردی
کیا ملا مجھ کو محبت کا صلہ یاد نہیں
میری محرومیئ قسمت نے میرا ساتھ دیا
میری قسمت میں بھلا تھا کہ ُبرا یاد نہیں
نقش ہے آپ کی ہر بات مرے دل پہ مگر
اک تری جھوٹ کی عادت کے سوا یاد نہیں
میں نے جب پوچھا جفا کس لئے کرتے ہو خلیق
ہنس کے فرمایا مجھے عہدِ وفا یاد نہیں
13/12نومبر1987ء بروز جمعرات/جمعہ
عشق میں آئے تو ہیں نکلیں گے اب مشکل سے ہم
بے وفا کو کیوں لگا بیٹھے ہیں اپنے دل سے ہم
تم اسے غلطی کہو یا بھوگنے کا نام دو
ایک ظالم کو لگا بیٹھے ہیں اپنے دل سے ہم
اس شعر کے سامنے×کا نشان ہے،شاید خلیق صاحب قافیے کی وجہ سے اس شعر کو قلم زد کرنا چاہتے ہوں۔
مشورے دل سے سدا کرتے رہے ہیں عمر بھر
چھوڑ دیں اس بے وفا کو یا لگائیں دل سے ہم
کس قدر مجبوریاں ہیں ضبط الفت میں خلیق
دفعتاً مجبور ہو جاتے ہیں اپنے دل سے ہم
(ان چاروں ا شعار میں قافیہ دل ہی ہے)
25نومبر 1987ء جمعرات 2ربیع الثانی1408ھ
بے قراری
مجھ کو ظالم کے خیالات نے سونے نہ دیا
یعنی الجھے ہوئے حالات نے سونے نہ دیا
میں نے سونے کی بہرحال بہت کی شش
میرے احساس نے جذبات نے سونے نہ دیا
چاند تاروں سے بھی ہوتی رہیں باتیں اکثر
غم میں ڈوبے ہوئے حالات نے سونے نہ دیا
دل میں اک درد اٹھا درد نے پہلو بدلا
غم کے انداز میں جذبات نے سونے نہ دیا
تیری محفل میں گزارے تھے جو لمحے میں نے
انہی گزرے ہوئے لمحات نے سونے نہ دیا
تو نے وہ بات کہی جس کی توقع بھی نہ تھی
بس یہی بات تھی جس بات نے سونے نہ دیا
آہیں بھرنا میری قسمت میں لکھا تھا لیکن
مجھ کو آنکھوں ہی کی برسات نے سونے نہ دیا
میں نے توصبر کی تلقین بہت کی دل کو
منہ سے نکلی ہوئی اک بات نے سونے نہ دیا
ایک امنڈا ہوا طوفاں تھا تیری یادوں کا
تیرے نفرت بھرے جذبات نے سونے نہ دیا
چاند تاروں کو سناتا رہا روداد خلیق
رات بھر تاروں بھری رات نے سونے نہ دیا
28نومبر 1987ء ہفتہ 5ربیع الثانی
کیا کیا فریب زیست میں کھاتا رہا ہوں میں
ظالم کے در پہ بارہا جاتا رہا ہوں میں
بے خود خود اپنے دل کو بناتا رہا ہوں میں
آنکھوں سے خون اشک بہاتا رہا ہوں میں
پاؤں پہ رکھ کے ہاتھ کبھی ہاتھ جوڑ کر
ظالم کو ہر ادا سے مناتا رہا ہوں میں
خاموش رہ کے یا کبھی اپنی زبان سے
رودادِ غم کسی کو سناتا رہا ہوں میں
شاید کہ کر سکے کوئی اس زخم کا علاج
دنیا کو دل کے زخم دکھاتا رہا ہوں میں
آتے رہے ہیں یاد وہ بڑھ کر مجھے خلیق
ہر چند ان کو دل سے بھلاتا رہا ہوں میں
30نومبر1987ء سوموار7ربیع الثانی 1408ھ
میری جان احسان فرمائیے گا
میرے پاس چپکے سے آ جائیے گا
خفا کس لئے بے وفا جائیے گا
میرے زخم دل کے دُکھا جائیے گا
تمہارے گلے اور شکوے بہت ہیں
کوئی زخم تازہ بھی کھا جائیے گا
میرے پاس آکر مرے دل میں رہ کر
کبھی حالِ دل بھی سنا جائیے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔
وفا کا اگر جرم سرزد ہوا ہے
بڑے شوق سے پھر سزا پائیے گا
نہیں مانتا کوئی کہنا کسی کا
یہی بات اس دل کو سمجھائیے گا
مرے دل نے صدمے اٹھائے ہیں لاکھوں
مجھے بندہ پرور نہ تڑپائیے گا
مرے پاس آنے سے اے بندہ پرور
نہ گبھرائیے گا نہ شرمائیے گا
خلیق ہے تمہارا، تمہارا رہے گا
مگر عہد اپنا بھی دہرائیے گا
2دسمبر1987ء ہفتہ 9ربیع الثانی 1408ھ
شکوہ کریں گے اب نہ شکایت کریں گے ہم
کچھ سوچ کر حضور کی چاہت کریں گے ہم
جی چاہے گر حضور کا آئیں ہزار بار
اب التجا کریں گے نہ منت کریں گے ہم
یہ مانتا ہوں جھوٹ کی عادت ہے آپ کو
اس کے کے باجود نہ نفرت کریں گے ہم
ثابت یہ ہوچکا ہے کہ اک بے وفا ہے تو
اک بے وفا سے پھر بھی محبت کریں گے ہم
سمجھا رہا ہوں آپ کو آجاؤ راہ پر
مجبور ہوکے ورنہ عداوت کریں گے ہم
دل کا قصور کیا ہے یہ بتلائیے مجھے
ورنہ تمہاری تم سے شکایت کریں گے ہم
ہاں عاشقی سے پہلے مجھے کچھ خبر نہ تھی
اک بت کی اس طرح سے عبادت کریں گے ہم
قائم کسی کا تیر میرے دل میں خلیق
اس تیر کی خوشی سے حفاظت کریں گے ہم
23دسمبر1987ء ہفتہ یکم جمادی الاول 1408ھ
مشورہ
ایک ناداں سے اتنا پیار نہ کر
زندگانی کو سوگوار نہ کر
بھول بھی جا تو اس کے وعدے کو
اس کے آنے کا انتظار نہ کر
۔۔۔۔۔۔۔۔
دیتے رہو تم رنج والم اور زیادہ
کرتے رہو اب مشق ستم اور زیادہ
لکھتے رہو ہر روز میرے غم کی حکایت
”اللہ کرے زور قلم اور زیادہ“
۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی آنکھوں کو اشک بار نہ کر
اپنے دامن کو تار تار نہ کر
چھوڑ بھی دے خیال ملنے کا
خود کو اتنا ذلیل و خوار نہ کر
۔۔۔۔۔۔
جھوٹی قسموں پہ اعتبار نہ کر
خود کو یوں بھی تو شرمسار نہ کر
مخلصوں میں تو ایک ظالم کا
دل کو سمجھا مگر شمار نہ کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ کچھ ایسے قطعات ہیں جن کی تاریخ تخلیق کے حوالے سے ریکارڈ نہیں ہے اگر کوئی محقق چاہے تو ان کی ڈائری /بیاض تلاش کرسکتا ہے چند قطعات جو پروفیسر ریاض حسین راہی صاحب نے خلیق بی۔ اے کی ڈائری سے نقل کر کے جستہ جستہ لکھے ہیں درج ذیل ہیں:
ترے آنے سے گر خوشی ہوگی
دل کی حالت بہت بُری ہوگی
چھوڑ بھی دے خیال ملنے کا
ورنہ بے وجہ برہمی ہوگی
۔۔۔۔۔۔
قسمت
ترک الفت پہ دل اداس نہ کر
اور اس دل کو غم شناس نہ کر
تری قسمت میں یہ لکھا تھا خلیق
ان سے ملنے کی اب تو آس نہ کر
۔۔۔۔۔۔۔
جرم
مجھ کو جرم وفا کی اے ظالم
آپ جتنی بھی دیں سزا کم ہے
میری نظروں نے دے دیا دھوکا
میرا معیار ِسوچ مدھم ہے
اعتراف
کیسی غلطی شتاب کر بیٹھا
آپ کا انتخاب کر بیٹھا
اپنا بے اختیار دل دے کر
زندگانی خراب کر بیٹھا
۔۔۔۔۔۔۔۔
آیا اگر خیال تو بے خوشی ہوئی
وہ جب چلا گیا تو عجب برہمی ہوئی
میرا نہ بن سکا کسی صورت میرا خیال مفلوج عقل ہوگئی یہ سوچتی ہوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے بسی
دنیا میں غم زدوں کی ذرا زندگی بھی دیکھ
تشنہ لبوں کی غور سے تشنہ لبی بھی دیکھ
خوشیاں نصیب ہوں تجھے سارے جہاں کی
تو میرے پاس آکے مری بے بسی بھی دیکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔
عہد
دل میں چپکے سے شب کو رو لوں گا
اپنے اشکوں سے منہ کو دھو لوں گا
میں نے یہ عہد کر لیا ہے خلیق
تجھ کو اپنا بنا کے چھوڑوں گا
مولانا محمود الرحمن:
میونسپل کمیٹی کے قائم کردہ پرائمری سکول میں تدریس کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔پرائمری سکول کے سنٹر ہیڈ ماسٹر ریٹائرڈ ہوئے۔مذہبی گھرانے سے تعلق تھا۔بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے کے باوصف ایک صوفی کے مرتبے پر فائز تھے۔صدر بازار کے شمالی گیٹ کے سامنے مغربی طرف جو مسجد ہے انہی کے نام سے پہچانی جاتی ہے“مسجد مولوی محمود والی“۔ ساری عمر اس مسجد میں امامت کراتے رہے۔عیدگاہ میں نماز عیدین کی امامت بھی فرمایا کرتے تھے۔اعلیٰ پائے کے خطیب تھے۔ انسان دوستی آپ کا مسلک تھا۔
بندگی میں کبھی ایسا بھی مقام آتا ہے
آستاں کرتا ہے خود میری جبیں کو سجدے
فیاض قادری:
ضلع انبالہ سے ہجرت کر کے لیہ میں آباد ہوئے۔ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے وقت فیاض قادری بچے ہی تھے اور ہجرت کے عذابوں اور دکھوں کے چشم دید گواہ۔ان کے خاندان کے اکیس افراد ہجرت کے دوران میں ہونے والے فسادات کی بھینٹ چڑھ گئے۔خود فیاض قادری بھی زخمی ہوئے۔ ایک زمانہ تھا کہ لیہ میں شعر و سخن کی ہرتقریب میں فیاض قادری کی موجودگی لازم تھی۔پھر فالج کے مرض نے انہیں آلیا۔یہ دور ان کی زندگی کا مشکل ترین دور تھا۔
اب صنم خانوں کے لوگوں سے کروں کیسے گلہ
جب حرم کے لوگ ہی خود سومناتی ہوگئے
۔۔۔۔۔۔۔
کیا بات کہ قاتل کو ملے تمغہئ شاہی
مظلومیئ مقتول پہ تلوار بھی چپ ہے
ان کا مجموعہ کلام”سنگ بے آب“اشاعت پذیر ہو کر ادبی حلقوں میں قبولیت پا چکا ہے۔
جعفر بلوچ:
27جنوری1947ء کو لیہ میں پیدا ہوئے۔والد کا نام محمد حسن خان ہے۔درس و تدریس سے وابستہ رہے۔گورنمنٹ سائنس کالج لاہور سے ایسوسی ایٹ پروفیسر کے منصب سے ریٹائرڈ ہوئے۔شاعری میں مقصدیت کے قائل ہیں۔ نظم اور غزل دونوں میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔نعت رسول بے حد پسند ہے۔”اقلیم“شعری مجموعہ ہے جبکہ”بیعت“ نعتیہ مجموعہ ہے
چھا گئی تیرگی یا نبی یا نبی
روشنی روشنی یا نبی یا نبی
ہر افق سے اندھیرے ابلنے لگے
کیا کرے آدمی یا نبی یا نبی
(بیعت یونیورسل بکس لاہور 1989ء۔ص۔71)
”برسبیل سخن“ نظموں کا مجموعہ ہے۔اس کا ابتدائی حصہ حمد ونعت پر مشتمل ہے۔ان کی شاعری کا لفظ لفظ جذبوں کی صداقت کا پتہ دیتا ہے۔صحابہ کرام اور حسین ابن علی ؑ کے حضور سلام و منقبت میں بھی بے حد عقیدت کا اظہار ہے۔ دوسرے حصے میں شامل منظومات قائد اعظم،علامہ اقبال اور ظفر علی خان جیسی شخصیات کے حضور نذرانہ عقیدت پیش کیا گیا ہے۔کتاب کے آخری حصے میں کچھ طنزیہ نظمیں شامل ہیں۔بقول پروفیسر اسلم انصاری”جعفربلوچ کومعاشرتی طنز پر بھی قدرت حاصل ہے وہ ریا کار عبادت گزاروں اور مرقع فروشوں کے ساتھ ساتھ نام نہاد جدیدیت پسندوں کو بھی طنز کا نشانہ بناتے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ تہذیب و شائستگی کا دامن کہیں ہاتھ سے نہیں چھوٹتا۔“(برسبیل سخن: ص۔15)
26جنوری 2007 ء کو ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے اور27اگست 2008ء کو اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔
شوکت ہاشمی:
کوٹ سلطان کے رہنے والے تھے اور پولیس میں اہم عہدے پر فائز تھے۔حمد ونعت ان کی پہچان ہے۔ ان کا نعتیہ مجموعہ”فیضان ِ رحمت“1998ء میں لاہور سے شائع ہوا۔
سب کی آنکھیں بول رہی ہیں ایک اک چہرہ کہتا ہے
میں کیا!سب کے دل کے اندر نعت کا دریا بہتا ہے
عمر کے طاق میں جگنو رکھ دوں شہر نبی کی مٹی کا
طیبہ اور وصال کروں،دل دھڑکن دھڑکن کہتا ہے
(فیضان رحمت: ص۔123)
۔۔۔۔۔۔
میں کیوں کر ان پرندوں کی رفاقت چھوڑ سکتا ہوں
خدا جن کی محبت میں شجر تخلیق کرتا ہے
خورشید گڑیانوی:
1940ء میں گوڑیانی کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔والد کا نام نیک محمد خان تھا۔گوڑیانی گاؤں سے سوا میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جو تحصیل جھجر ضلع روہتک میں واقع تھا۔1947ء میں قیام پاکستان کے بعد اپنے والدین کے ہمراہ لیہ میں آئے۔تعلیم واجبی سی تھی۔ لیکن شعری ذوق موجود تھا اور تخلیقی صلاحیت سے مالا مال تھے۔بمبے بازار لیہ میں ایک چھوٹاسا چائے خانہ چلاتے رہے ہیں۔کم گو تھے۔اپنی غربت اور محرومیوں سے لڑتے عمر گزاری۔پروفیسر مہر اختر وہاب چائے پینے کے بڑے شائق ہیں۔ وہ گاہے گاہے ظہیر الدین صاحب(جو الائید بینک میں کام کرتے رہے ہیں)کے ساتھ خورشید خان گڑیانوی کے چائے خانے میں چائے پینے جاتے تھے۔وہیں دوران گفتگو انہیں اندازہ ہوا کہ خورشید خان شاعرانہ مزاج رکھتے ہیں اور کبھی کبھی شاعری کرتے ہیں۔انھوں نے 1995ء میں خورشید خان کو ایک ڈائری مہیا کرتے ہوئے فرمائش کی کہ جو آپ کہتے ہیں، لکھ دیں نتیجتاً خورشید گوڑیانوی کا کلام ایک ڈائری کی صورت میں محفوظ ہے۔ان کی آپ بیتی بھی پروفیسر مہر اختر وہاب نے انھیں کہہ کر لکھوائی۔ایک سیدھے سادھے نیم خواندہ شخص نے اپنی خفتہ صلاحیتوں کو استعمال میں لاکر کیا لکھا۔یہ تو جب انکی آپ بیتی سامنے آئے گی تو پتہ چلے گا۔ان کی غزل کے کچھ اشعار ان کی ڈائری سے نقل کئے جارہے ہیں
ان کا نام اور کلام پہلی مرتبہ ریکارڈ پر لایا جارہا ہے۔ان کے کلام میں ایک بھولپن اور سادگی بہت نمایاں ہے۔زبان اور موضوعات وہی ہیں جو ایک عام آدمی کے ہاں ہوتے ہیں۔خورشید خان نے کبھی کسی سے اصلاح نہیں لی۔ کسی کے سامنے اس بات کا اظہار تک نہیں کیا کہ وہ شاعری کرتے ہیں۔ ایک محروم،غریب اور نیم خواندہ شخص کے ہاں جس قسم کی جھجک موجود ہوتی ہے وہ خورشید خان کے ہاں موجود رہی۔مگر ان کے دل میں جذبوں کی اتھل پتھل ان سے کچھ نہ کچھ کہلواتی رہی۔
مرنے کے لئے تیار نہیں
اور جینے کے ارمان بہت
کرنے کے لئے توفیق نہیں
جتلانے کو احسان بہت
انساں کے لئے مسئلہ روٹی
میزوں پہ سجے ہیں نان بہت
ہم مست ہیں اپنی کھالوں میں
اس کو دولت کا مان بہت
کچھ حیلوں اور بہانوں سے
ہوتے ہیں یہاں چالان بہت
غربت تو خدا کی نعمت ہے
دنیا کو پسند ہے شان بہت
ووٹوں کو خریدیں نوٹوں سے
ایسوں کے لئے ایوان بہت
ہم بن گئے ایٹم کی طاقت
ہنس کر دنیا حیران بہت
دو ٹانگوں کے انسان نما
ملتے ہیں یہاں حیوان بہت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب لوگ سنیں گے میرا سخن تو پھول کھلیں گے چمن چمن
پھر ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے نغمے گائیں گے سنن سنن
پھر ہوگی ساون کی رم جھم پھولوں سے بھریں گے سب گلشن
چھلکے گی محبت کی مستی،مچلیں گے ارماں بدن بدن
بھنگڑے ڈالیں گے محنت کش کہ خوشحالی کی آس لگی
خوشیوں میں دوڑ لگائیں گے جوں بھاگیں بادل گگن گگن
پھرحسن کی پریاں ناچیں گی اور ہم سفروں کو جانچیں گی
پائل کی صدا ہے چھم چھم چھم جھانجھربولے گی چھنن چھنن
خوشیوں میں وہ سارے بہکیں گے اور بلبل بن کر چہکیں گے
ڈھولک کی دھمک ہے دھن دھن دھن پائل کی چھنک ہے جھنن جھنن
بادل گھر گھر کر آئیں گے دل میں شعلے بھڑکائیں گے
گل پہ بھونرے کی بھنن بھنن گوری کے دل میں سجن سجن
ان کی یہ شاعری اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اسے پڑھا جائے اور ریگزارِ تھل میں اردو کے عوامی لہجے میں شعر کہنے والے اس شاعر کی ذات اور شاعری پر پڑی گرد کو صاف کر کے اس کی ذات اور شعری کائنات کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔نوجوان محققین کے یہ چیلنج موجود ہے۔
امان اللہ کاظم:
امان اللہ اصل نام ہے۔کاظم تخلص کرتے ہیں 20مئی 1940ء کو عطا محمد خان کے ہاں بستی ٹبہ امام صاحب تحصیل تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازیخان میں پیدا ہوئے۔بی۔اے، بی۔ایڈ تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد تدریس کے پیشے سے منسلک ہوئے انھوں نے اپنی ملازمت کا آغاز1966ء میں کیا۔16دسمبر 1990ء کو گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول لیہ سے ریٹائر ہوئے۔شاعری سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ آٹھ تاریخی ناول تحریر کر چکے ہیں۔سرائیکی شاعری کے دو مجموعے”پپلیں ہنجھ نہ ماوے“ اور”رستہ رستہ اوجھڑ“ شائع ہوچکے ہیں۔اردو کلام ”قندیل دل“ کے عنوان سے منصہ شہود پر آیا ہے۔
آنسوؤں کی گود میں پلتی رہی
زندگی مجھ کو بہت کھلتی رہی
ہجر کی شب اور تاریکی کا خوف
رات بھر قندیلِ دل جلتی رہی
عدیم صراطی:
اصل نام الہی بخش ملانا تھا۔8اگست1942ء کو جمن شاہ میں پیدا ہوئے۔ایم اے (اردو) تک تعلیم حاصل کی۔درس و تدریس کے پیشے سے منسلک تھے۔ہیڈ ماسٹر کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے۔ایک کتابچہ”نیل گگن“ کے نام سے شائع ہوا۔دوسرا مجموعہ”صراطِ دوام“ کے نام سے1987ء میں شائع ہوا۔نظم اور غزل دونوں میں طبع آزمائی کی ہے۔غزل میں ”رنگ چوکھا“ ہے۔بقول جعفر بلوچ:”جناب عدیم کی غزل میں حسن و عشق کی واردات بھی ہے اور یہ لذیذ حکایت بیان بھی لذت لے لے کر کی گئی۔دامان غزل کہیں شاعر کے ہاتھ سے چھوٹنے نہیں پاتا“(صراط ِ دوام: ص۔13)
جدید ترقی پسندانہ انداز کے ساتھ انسان کی محرومیوں،مجبوریوں کو موضوع ِ سخن بناتے ہیں مثلاً:
ہجوم ِ یاس میں آنسو نکل ہی آتے ہیں اندھیری شب ہو تو جگنو نکل ہی آتے ہیں
۔۔۔۔۔۔
ہر دور میں انسان لٹا امن کی خاطرہردور میں انسان رہا جنگ کی زدمیں
ان کی نظموں میں عہد حاضر کے انتشار و بحراں پر گہرا طنز ملتا ہے مثلاً! نظم”کج فہمیاں“(صراط ِ دوام:ص۔114) کے چند اشعار دیکھئے:
بے خبر کو حکیم کہتے ہیں
بے نظر کو علیم کہتے ہیں
لوگ ہیں شخصیت پرست بہت
پست کو بھی عظیم کہتے ہیں
جو اشاروں سے بات کرتا ہو
آج اس کو کلیم کہتے ہیں
قتلِ جمہور ناروا ہے مگر
یہ ہے رسمِ قدیم کہتے ہیں
شعیب جاذب:
اصل نام ملازم حسین ہے۔ یکم مئی1942کو لیہ میں پیدا ہوئے۔1959ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا،محکمہ انہار میں بطور پٹواری کام کرتے رہے۔اب ریٹائر ہوچکے ہیں۔”تفہیم الحسین“ اور”خطیب ِ نوک سناں“ مناقب کے مجموعے اور ”پیاسی چھاگل پیاسے لوگ“”دھوپ کا سائباں“”قریہ ء احساس“ اور ایک غیر منقوط کتاب”لوح دل“ شائع ہوچکی ہے۔بقول پروفیسر مہر اختر وہاب”شعیب جاذب اپنے شعری اسلوب میں لفظیات،تشبیہات اور استعارات کی تازہ کاری اور رنگ و آہنگ کے اعتبار سے جدید اردو غزل میں اپنی مثال آپ ہیں“(پیاسی چھاگل پیاسے لوگ،ناصر پبلیکشنز ڈیرہ غازیخان 2005ء ص۔9)
شعیب جاذب کی غزل جدید حسیت سے مملو ہے اور جدید عصری مسائل میں الجھے فرد کے جذبہ و احساس کی نمائندگی کرتی ہے۔
گاؤں والے سوچ رہے ہیں کون خریدے مہنگی چھاؤں
۔۔۔۔۔۔۔
جانے کیا بات تھی احباب تھے سب سنگ بدست وادی ء زخم سے اک روز جو مڑ کے دیکھا
۔۔۔۔۔۔۔
بیچ ڈالے شجر کسانوں نے چھاؤں کا اب نشاں کہیں بھی نہیں
بقول ڈاکٹر خیال امروہوی”شعیب جاذب نے اردو شاعری کو منفرد لہجہ دیا ہے۔ انھوں نے اپنے ڈکشن پر قدرت حاصل کرنے کے لئے بڑی ”تپسیا“ کی ہے۔ان کے شعروں میں صرف ذخیرہ الفاظ اور نئی تراکیب ہی کی کارفرمائی نہیں بلکہ ابلاغ پر بھی قدرت حاصل ہے۔“(قریہئ احساس ص۔12)
سید محمد جعفر الزمان نقوی:
جمن شاہ تحصیل و ضلع لیہ کے رہنے والے تھے۔سب خاص و عام انھیں جعفر سئیں کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ محافل ِسخن وراں سے ہمیشہ دور رہے۔مشاعروں میں بھی بہت ہی کم شرکت کرتے تھے۔”انتصار مظلوم“،”عرفانئیے“،”کرچیاں“اور”گستاخیاں“ نظموں اور مراثی کے مجموعے ہیں۔خود کہتے ہیں۔۔۔۔۔ میں نے فضائل آل محمد کو منظوم کرنے کی کوشش کی ہے اور قدامت پرستی کو خیر آباد کہتے ہوئے جدید نظریات کو سامنے رکھ کر نصرتِ مظلوم پر قلم اٹھایا ہے۔(انتصار ِ مظلوم ص۔7)
”انتصار مظلوم“میں مراثی بھی ہیں،مناقب آل رسول بھی۔انداز شائستہ، لہجے میں سلاست اور روانی ہے۔ان کے مراثی میں خاص انداز کی تمثال نگاری موجود ہے۔
ہے شب عاشور اور ہے چاند دھندلایا ہوا
گنبدِ صحرا پہ سناٹا سا ہے چھایا ہوا
اپنا آنچل اک اداسی نے ہے پھیلایا ہوا
گہری مایوسی نے ہے اک درد بکھرایا ہوا
اک طرف دریا کی موجوں میں ہیں کچھ سرگوشیاں
گوش بر آواز ہیں چاروں طرف خاموشیاں
ایک خیمہ ہے جہاں بیٹھے ہوئے ہیں شاہِ دیں
راکبِ دوشِ نبی ہے خاک پر مسند نشیں
ہیں کہیں اکبر کھڑے عون و محمد ہیں کہیں
آج کچھ کہنے کو ہیں شہزادہ روح الامیں
سامنے بیٹھے ہوئے ہیں کل بہتر جانثار
سب سے فرمانے لگے ہنس کر امامِ ذی وقار
اے مرے پیارے عزیز ودوستو اور بھائیو
مرے بابا اور نانا کے صحابی دیکھ لو
میں نہیں کہتا کہ اب میرے لئے تم جان دو
یہ بھی اب لازم نہیں کہ تم مرے بن کر رہو
دیکھ لو تم آج امت کا رویہ اور ہے
جس کا ہے آغاز وہ مظلومیت کا دور ہے
(انتصار مظلوم:ص۔195)
عقیل احمد شید آر۔بی:
ان کا مجموعہ کلام”وطن بہشت زمیں“ کے نام سے چھپا ہے۔ موصوف درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ رہے۔ایم۔اے (اردو) ایم۔اے (سیاسیات) بی۔ایڈ تعلیم ہے۔مزاج قلندرانہ ہے۔شاعری میں حب الوطنی اور سماجی ناہمواری مرغوب موضوعات ہیں۔ان کی شاعری میں خاص سیاسی و سماجی صورت حال جھلکتی ہے۔ایک مخصوص سیاسی جماعت سے وابستگی ان کی پہچان ہے۔سو عوامیت ان کے مزاج کا خاصہ ہے۔نظم”مرے مظلوم وطن“ کے دو بند دیکھئے:
میری پلکوں پہ لرزتے ہوئے اشکوں کی قطار
قافلہ شہرِ غمِ دل سے چلا ہو جیسے
مری آنکھوں سے ہوا جاری شفق رنگ لہو
آبلہ دل کا کوئی پھوٹ گیا ہو جیسے
مرے مظلوم وطن اے مرے معصوم وطن
اتنی بے رحمی کا اپنوں نے دیا آج ثبوت
پیکرِ سنگ بنا اور کھڑا ہوں مبہوت
اپنے کاندھوں پہ محبت کا اٹھائے تابوت
ہر طرف رقص کناں دیکھ رہا ہوں طاغوت
میرے مظلوم وطن اے مرے معصوم وطن
(وطن بہشت زمین۔ص۔99)
شہباز نقوی:
ان کا پورا نام شہباز حسین نقوی ہے۔ اپریل1950ء میں گوجرہ میں پیدا ہوئے۔ایم اے(اردو) کرنے کے بعد 1982ء سے بطور لیکچرار محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوئے۔گورنمنٹ کالج لیہ میں اسسٹنٹ پروفیسر رہے۔بقول جعفر بلوچ”جناب شہباز نقوی خوش اسلوب اور تازہ فکر شاعر ہیں“(آیات ادب ص۔224) جبکہ ڈاکٹر ظفر عالم ظفری نے کہا”شہباز کا شمار اپنے عہد کے بڑے شاعروں میں ہوتا ہے اس لئے کہ اس نے لفظ اور معنی کے رشتے کا بھرم رکھا ہے۔اس کے لفظ بولتے ہیں“(جیون ندیا:ص۔18)ان کا پہلا مجموعہ ”جیون ندیا“ کے نام سے اشاعت پذیر ہو چکا ہے۔ ان کی غزل میں جدید عصری تجزیے کی جھلک نظر آتی ہے۔جیون ندیا کی ایک غزل دیکھئے:
چیختی پاگل ہوا ہے شہر میں
جانے دل کیوں ڈوبتا ہے شہر میں
روز دیوار وں پہ شکلیں سوچنا
روگ یہ کیسا لگا ہے شہر میں
پھر وہی رستے،گھنے جسموں کا ڈر
ایک جنگل سا اگا ہے شہر میں
خواہشوں کی دھند میں لپٹا ہوا
ایک منظر جاگتا ہے شہر میں
روشنی نے کاٹ دی ہے روشنی
حادثہ یہ بھی ہوا ہے شہر میں
دستکیں دے دے کے خوشبو تھک گئی
تیز رنگوں کی صدا ہے شہر میں
شہر کے بارے میں کیا سوچا کروں
کون مجھ کو سوچتا ہے شہر میں
شہباز نقوی 31دسمبر 2010ء کو گورنمنٹ کالج لیہ سے ریٹائر ہوئے اور ایک سال بعد 17جنوری 2012کو راہی ِ ملک ِ عدم ہوئے۔
سلیم اختر ندیم:
اصل نام سلیم اختر ہے۔والد کا نام قاضی احمد رفیع ہے جو لیہ کے مشہور شاعرنسیم لیہ کے سگے بھائی ہیں۔ سلیم اختر 2جولائی 1959ء کو لیہ میں پیدا ہوئے۔اپنے چچانسیم لیہ سے اصلاحِ سخن لیتے رہے ہیں۔ حمد،نعت،غزل اورنظم میں قلم فرسائی کرتے ہیں۔ ان کا کلام ”سوہنی دھرتی‘ اور ”دریچہ گل“ کے عنوان سے اشاعت پذیر ہو چکا ہے۔مشاعروں کی جان ہیں۔ لیہ میں ہونے والے مشاعروں کے اہتما م و انتظام میں ہمیشہ پیش پیش ہوتے ہیں۔سرائیکی تہذیبی لسانی پیرایہئ اظہار اُن کی شاعری میں جھلکتا ہے۔
آندھیوں میں ریت کے ذروں کو ایسے پر لگے
اس قدر اونچے اڑے تاروں میں شامل ہوگئے
یہ کوئی کم خدمتِ فن ہے سلیم اختر ندیم
شعر کہتے کہتے اخباروں میں شامل ہوگئے
کرامت کاظمی:
اصل نام کرامت علی ہے۔یکم اپریل 1966ء کو لیہ کے نواحی گاؤں شاہ پور تحصیل کروڑ ضلع لیہ میں پیدا ہوئے۔سید امام علی شاہ شفیق کے پوتے ہیں۔ سید امام علی شاہ شفیق کے کلام کا مجموعہ”کلیات شفیق“ مرتب کیا۔آجکل گورنمنٹ کامرس کالج میں درس تدریس کے فرائص سر انجام دے رہے ہیں۔ایم اے (اردو) بہاء الدین زکریا یونیورسٹی سے کیا۔
اس رنگ سے گذرا ہے کوئی دشت جنوں سے
ہیں خار بھی گل رنگ عنایات کے خوں سے
یہ سحر کی تاثیر ہے اے لبِ خوباں
مسحور ہے ہر شخص تو اندازِ فسوں سے
جسارت خیالی:
اصل نام منظور حسین ہے۔ 12اپریل 1954ء کو قصبہ پہاڑ پور میں پیدا ہوئے۔گورنمنٹ کالج لیہ سے بی۔اے کرنے کے بعد اردو فاضل کا امتحان پاس کیا۔گورنمنٹ ہائی سکول کوٹ سلطان میں درس و تدریس میں مصروف رہے۔دسمبر 2013ء میں ملازمت سے ریٹائر ہوچکے۔پہاڑ پور جیسے دورافتادہ قصبے میں بیٹھ کے ایک ادبی مجلہ”نیا قدم“ شائع کرتے ہیں۔
شاعری میں خیال امروہوی کے شاگرد ہیں اور فکر ونظر کے حوالے سے بھی متاثرین ِ خیال میں سے ہیں۔مجموعہ کلام”شعاع فردا“ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔۔بقول ڈاکٹر عاصی کرنالی”انھوں نے غزل کو صرف اس کی ہیت اوزان اور فنی تلازمات تک اختیار کیا ہے اور افکار و مضامین وہ لئے ہیں جن کا تقاضا ہمارا عصر حاضر کرتا ہے۔یہاں ان کے سامنے انسان کے انفردای اور اجتماعی مسائل ہیں اور انھوں نے آج کے دکھ،الم آشوب کی بھرپور آئینہ داری کی ہے۔“(شعاع فردا: ص۔15۔14)ان کادوسرا مجموعہ کلام ”سطوت حرف“ کے نام سے سامنے آیا ہے۔اس کے علاوہ نثری کاوشوں میں ”لازماں سے زماں تک“ ”اقبال سوکڑی شخصیت اور فن“ اور ”تذکرہ شعرائے تونسہ شریف“ شامل ہیں۔جنوبی پنجاب کے تہذیبی رچاؤ کے ساتھ ایک نیا اظہاریہ بنتا محسوس ہوتا ہے۔
مایوس پرندوں کو کوئی جا کے خبر دے
شاخوں پہ چہکنے کا حسین وقت قریں ہے
۔۔۔۔۔۔۔
گھری ہے فاختہ شعلوں میں پھر بھی
ترانے زندگی کے گا رہی ہے
منور بلوچ:
21مارچ 1955ء کو لیہ میں پیدا ہوئے۔یو۔بی۔ ایل میں وائس پریذیڈنٹ کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔ سارا دن ہندسوں اور رقموں کو جوڑتے ہیں مگر دل کے بہت صاف اور کھرے ہیں۔آزاد نثری نظم کہنا مرغوب ہے۔نظموں میں افسانے کا ساماحول پیداکرتے ہیں۔عہدحاضر کے انتشار اور سماجی عدم توازن جیسے موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں۔نظموں کے دو مجموعے،پہلا”شہر جاں کے عذاب“اور دوسرا ”رفاقتوں کا سفر“ شائع ہوچکے ہیں۔بقول پروفیسر مہر اختر وہاب”منور بلوچ کا تخلیقی سفر با معنی ہے۔ انھوں نے اپنی ذات کی غواصی کرکے فکرو احساس کے گہرہائے تاب دار تلاش کئے ہیں۔بیان کی تازگی،انتخاب الفاظ،فکری پختگی اور موضوعاتی تنوع ان کی نظموں کا مخصوص رنگ تشکیل دیتے ہیں“(رفاقتوں کا سفر ص۔8)
جس جگہ فرعون و خدا میں امتیاز نہ ہو
پھر وہاں
نفس کی قید میں ڈوبا ہواانسان
نفرتوں کے اشتہار بانٹے گا
مجھ کو دیکھ میں سقراطِ وقت
آج بھی لفظوں کے مفاہیم بدلنا چاہوں
(اقتباس نظم: نفرتوں کے اشتہار)
شفقت بزدار:
اصل نام غلام یحییٰ خان بزدارہے۔حاجی غلام رسول خان بزدار کے ہاں 14اکتوبر1956ء کو تونسہ شریف کے نواحی گاؤں بستی بزدار میں پیدا ہوئے۔ایم۔اے (اردو) کوئٹہ یونیورسٹی سے کیا۔1986ء سے بطور لیکچرار(اردو) تعلیم و تدریس میں مصروف ہیں۔ گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازیخان،گورنمنٹ غوثیہ کالج فرید آباد ٹوبہ ٹیک سنگھ اور گورنمنٹ کالج فتح پور میں تعینات رہے۔1992ء سے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں۔سرائیکی زبان و ادب کی تاریخ شفقت بزدار کے نام کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ابتدائی طور پر اردو میں بھی خامہ فرسائی کرتے رہے ہیں۔اردولسانی شعریات سرائیکی شعریات سے مستعار محسوس ہوتی ہیں۔
جب مری آوازِ دل محسوس کر جاؤ گے تم
میرے جیسا مل ہی جائے گا جدھر جاؤ گے تم
اس سے بہتر تھا فقیروں سے تعلق جوڑتے
چند سکوں کے لئے کس کس کے در جاؤ گے تم
لوٹنے والوں سے بچنا ہے تو چلتے ہی رہو
ورنہ قسمت میں ہے ٹھوکر جب ٹھہرجاؤ گے تم
گر کبھی دہراؤں گا تیرے تصورکی کتاب
عین ممکن ہے اسی لمحے گذر جاؤگے تم
توڑ دو شفقت خرد مندوں سے اپنے رابطے
بیٹھ کر فنکار لوگوں میں نکھر جاؤ گے تم
خالد زبیری:
اصل نام خالد تھا۔1956ء کو کروڑ لعل عیسن میں پیدا ہوئے۔درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ رہے۔کروڑ میں ہی ایک سکول میں تعیناتی تھی۔7اکتوبر 1999ء کو اس جہان فانی سے کوچ کیا۔شاعری کے ساتھ ساتھ گلوکاری بھی کرتے تھے۔شارق انبالوی سے اصلاح سخن لیتے رہے،درد مند انسان تھے۔
اسے ڈھونڈو کہیں اپنوں میں ہو گا
جو اس مٹی میں نفرت بو گیا ہے
۔۔۔۔۔۔
سانپ رستوں پہ کیا چلنا گوارا دیکھنا
ہم نے غاروں کے مکیں کو پھر پکارا دیکھنا
سعید احمد سعید:ٍ
لیہ میں 1956ء میں پیدا ہوئے اصل نام سعید احمد ہے۔ تخلص سعید ہے۔ان کے والد کا نام رشید اکبر تھا جو ضلع کرنال تحصیل تھانیسرسے ہجرت کر کے لیہ آبسے تھے۔سعید احمد نے ابتدائی تعلیم ایم سی پرائمری سکول نمبر1لیہ سے حاصل کی۔ بعد ازاں خیاطی کے پیشے سے منسلک ہوگئے۔موزدنی طبع اور فکری جودت کے باوصف پروفیسر ڈاکٹر خیال امروہوی کے حلقہ ارادت میں شامل ہوئے اور پھر شاعر ہوگئے۔خیال امروہوی کے سامنے زانو ئے تلمذ تہہ کرنا ان کے لئے باعث فخر رہا ہے۔مشاعروں میں ترنم سے کلام پڑھا کرتے ہیں۔آج کل لیہ سے ہجرت کر کے گجرات منتقل ہوگئے ہیں۔
عارضی شب کی یہاں ہے زندگی
نیتوں کا امتحاں ہے زندگی
موت آتی ہے فقط اجسام کو
کر یقیں روح رواں ہے زندگی
جل رہے ہیں آتشِ نمرود میں
اک عذاب جاوداں ہے زندگی
لاش اپنی اپنے کاندھوں پر لئے
ڈھونڈتے ہیں ہم کہاں ہے زندگی
زندگی تو اک حقیقت ہے سعید
جھوٹ کہتے ہیں گماں ہے زندگی
مہر اختر وہاب:
10دسمبر 1959کو لیہ میں پیدا ہوئے سمرا خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے(اردو) کرنے کے بعد بطور لیکچرار درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا۔آجکل ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ میں پرنسپل تعینات ہیں۔نسیم لیہ سے مشورہئ سخن کرتے رہے ہیں۔ایم۔ فل(اردو)میں انھوں نے ”اردو میں اسلامی ادب کی تحریک“ کے موضوع پر مقالہ تحریر کیا، جبکہ ایم۔ اے(اردو) میں ”قافیہ کے مباحث“ کے عنوان سے مقالہ تحریر کرچکے ہیں۔تسلسل کے ساتھ شاعری نہیں کرتے۔غزل مرغوب ہے۔
مدتوں سے روشنی کا قافلہ گزرا نہیں
تیرگی کے دائرے سے میں ابھی نکلا نہیں
۔۔۔۔۔۔۔
کیا کریں گی ظلمتیں پھر حشر برپا سوچ لو
گر نہ پھیلا جہدِ پیہم سے اجالا سوچ لو
کیا قیامت ہے ابھی سورج ڈھلا اور رات نے
کر دیا ہے اپنی ابدیت کا دعویٰ سوچ لو
آج اختر ہے غنیمت نیم جاں سا دیپ بھی
ہے یہی اب ظلمتِ شب کا مداوا سوچ لو
حمید الفت ملغانی:
ان کا اصل نام عبدالحمید ہے۔1959ء کو ڈیرہ غازیخان میں پیدا ہوئے۔ ایم اے (لائبریری سائنس)پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔ایم۔ اے (سرائیکی)میں سلور میڈل حاصل کیا۔ایم۔ فل(علاقائی زبانیں) کے لیے جو مقالہ لکھا اس کا عنوان تھا”سرائیکی کتابیات مع سرائیکی کتابیات کا تجزیاتی مطالعہ(2005ء تک)اور پی ایچ۔ڈی (علاقائی زبانیں)کے لیے جو تحقیقی مطالعہ اس کا عنوان ”سرائیکی افسانے،ناول اور ڈرامے کا ارتقاء“ہے۔مقامی تہذیبی اور لسانی پیرایہئ اظہاراپناتے ہیں۔
بعد مدت کے سہی آخر جدا ہونا ہی تھا
فاصلے جب بڑھ گئے تو فاصلہ ہونا ہی تھا
برلبِ دریا بھی گر برگ و شجر تشنہ رہے
”زرد پتوں کو درختوں سے جدا ہونا ہی تھا“
یاں رہِ الفت میں کب تک کون تنہا چل سکا
پھر کسی کو پھر کسی کا آسرا ہونا ہی تھا
محمد اشرف درپن:
20ستمبر 1962ء کو چک نمبر419ٹی۔ڈی۔اے دھوری اڈہ تحصیل لیہ ضلع مظفر گڑھ میں پیدا ہوئے۔آج کل لیہ میں مقیم ہیں۔ایف۔اے، سی۔ ٹی کے بعد پرائمری سکول میں تدریس کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔جزوقتی طور پرپرائز بانڈ ڈیلنگ کا کام کرتے ہیں۔”درپن“ کے نام سے مجموعہ کلام شائع ہو چکا ہے۔بقول پروفیسر ریاض حسین راہی:”درپن صاحب اردو سرائیکی اور پنجابی کے بہترین شاعر ہیں۔ بنیادی طور پر آپ فطری انسانی جذبات و احساسات کے ترجمان ہیں۔آپ نے رومانوی طرزِ احساس اور عصری آشوب کو منفرد انداز میں پیش کیا ہے“(درپن۔ ص۔ 11)
ظلم کا پربت گرا کر چل پڑو
آمریت کو مٹا کر چل پڑو
یاس کا اندھا سفر کٹ جائے گا
آس کی شمع جلا کر چل پڑو
ڈاکٹرگل عباس اعوان:
21اپریل1963کو لیہ میں پیدا ہوئے۔ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی سے ایم اے(اردو) کیا پھر ایم اے(انگلش) اور ایل ایل۔ بی کی ڈگری حاصل کی۔ایم فل (اردو)میں ”اردو شاعری پر مسلم ثقافت کے اثرات“کے موضوع پر مقالہ لکھا اور پی ایچ۔ڈی(اردو) کے لئے ”اردو شاعری میں انسان دوستی“ کے موضوع پر مقالہ تحریر کیا۔
تمہارے ہاتھ اک دن چومنے ہیں
کسی لمبے سفر جانے سے پہلے
جو کچھ بھی مانگنا ہو مانگ لینا
مرا سورج اتر جانے سے پہلے
آجکل کامرس کالج کوٹ سلطان میں پرنسپل ہیں
منشی منظور:
منظور حسین لیہ کے باسی تھے۔ 15فروری1963ء کو لیہ میں پیدا ہوئے۔تعلیم واجبی سی تھی۔مگر تخلیقی ذوق اور صلاحیتوں سے مالا مال تھے۔محکمہ صحت میں بطور ویکسینیٹر کام کرتے رہے۔ان کا سرائیکی مجموعہ کلام”اکھیں بھالی رکھو“2014ء میں شائع ہو چکا ہے۔کبھی منظور اور کبھی منشی تخلص کرتے تھے۔عسکری آپریشن”ضرب عضب“ کے آغاز میں ان کا تخلیق کردہ نغمہ افواج ِ پاکستان کی طرف سے ریلیز ہوا۔
مرے وطن یہ عقیدتیں اور پیار تجھ پہ نثار کردوں
محبتوں کے یہ سلسلے بے شمار تجھ پہ نثار کردوں
مرے وطن میرے بس میں ہوتو تری حفاظت کروں میں ایسے
خزاں سے تجھ کو بچا کے رکھوں بہار تجھ پہ نثار کردوں
سانول سنگت ضلع لیہ کے صدر اور بزم افکارِ لیہ کے جنرل سیکرٹری تھے۔28جنوری 2015ء کو داعیء اجل کو لبیک کہا۔
میاں شمشاد حسین سرائی: شمشاد حسین اصل نام ہے۔والد کا نام غلام حسین سرائی ہے۔ لیہ کے علمی ا،دبی، تاریخی گھرانے ”لیکھی سرائی“ میں یکم جنوری 1965کوپیداہوئے۔ایم۔اے (اردو) ایم۔ایڈتک تعلیم حاصل کی۔اظہاریہ مقامی جذبہ و احساس سے مملو ہے۔
میں قلب و نظر میں وہ ضیاء لے کے چلا ہوں
احساس کے ہونٹوں پہ صدا لے کے چلا ہوں
میں مر کے بھی پا جاؤں گا معراجِ محبت
یوں عشق کی منزل پہ وفا لے کے چلا ہوں
اظہر زیدی:
1965ء میں ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے۔لڑکپن اور جوانی کے ایام لیہ میں گزارے۔تعلیمی واجبی تھی۔اپنے کلام کی املا خود نہیں کرتے تھے بلکہ وہ بولتے تھے اور دوست اس کلام کو ضبط تحریر لایا کرتے تھے۔ان کا ایک شعری مجموعہ”اور سفر ہے“چھپ چکا ہے۔جس کا دیباچہ ڈاکٹر خیال امروہوی نے لکھا ہے۔1982ء میں لیہ تشریف لے آئے۔ ایک طویل عرصہ لیہ میں گزارا۔عمر کے آخری حصے میں وہ سرگودھا چلے گئے۔سرگودھا میں روزنامہ ”نوائے شرر“اور ”ضربِ قلم“ میں قطعات لکھا کرتے تھے اور وہیں سرگودھا میں فوت ہوئے۔مہندر پرتاب چاند(انبالہ:بھارت) کے بقول”اظہر زیدی دھیمے لہجے کا نفیس شاعر ہے۔ان کی شاعری میں فیض احمد فیض کا رنگ جھلکتا ہے۔ان کی شاعری سدا بہار شاعری ہے“(بحوالہ:اور سفر ہے:ص۔3)لسانی سطح پر مقامی روزمرہ کا تاثرزیادہ ابھرتا ہے۔
تھرتھراتے ہیں قدم کیوں منزلوں کے خوف سے
شہر میں آئے لٹیرے جنگلوں کے خوف سے
گر نہ جائیں ریت پر رکھے ہوئے کچے مکاں
رات بھر سوئے نہ بچے بادلوں کے خوف سے
رات بھر بیٹھی نہ اظہر ننھی چڑیا پیڑ پر
اس کے بچے چیختے ہیں قاتلوں کے خوف سے
۔۔۔۔۔۔۔
قانون شکن پھرتے ہیں پہنے ہوئے وردی
چوروں کے لبادے میں ہیں پولیس کے پہرے
ڈاکو کو لٹیرے کو کوئی پکڑے تو کیسے
مضبوط قلم بکتے ہیں، بکتے ہیں کٹہرے
جنید سکندر:
ان کے والد صاحب غلام اکبر بھٹہ مدرس تھے۔ملازمت کے سلسلے میں 1965ء میں لیہ آکر آباد ہوئے اور یہیں کے ہو رہے۔جنید سکندر لیہ میں پیدا ہوئے۔2000ء میں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی سے ایم اے (انگلش) مکمل کیا۔ ان دنوں سعودی عرب میں انگریزی کی تدریس کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔غزل جیسی صنف کے ساتھ انسیت رکھتے ہیں۔محبت کے اسیر ہیں۔”محبتوں کا سفر“ پہلا مجموعہ کلام ہے۔حسن و عشق کے روایتی موضوع کو ہمیشہ ملحوظ رکھتے ہیں لیکن کہیں کہیں عہد حاضر کے تقاضے کچھ اور ہی طرح کے شعر کہلوا دیتے ہیں۔ان کے ہاں شعری لفظیات میں نئے پن کا تاثر موجود ہے۔
؎ ہم جہاں میں اس طرح سے کھو گئے ہیں ہم تو خود سے اجنبی سے ہوگئے ہیں
؎ پیار کو اپنے بزرگوں کی روایت جان کر جرم یہ ہم نے کیا ہے اک عبادت جان کر
؎ ہوں ابھی میں طفل مکتب عشق میں عاشقی کی رہ سے انجانا ہوں میں
قاسم عارض: اصل نام غلام قاسم ہے۔ 1967ء میں قصبہ جمن شاہ میں پیدا ہوئے۔ بعد ازاں لیہ شہر میں آ مقیم ہوئے۔ایم سی ہائی سکول لیہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔بقول ان کے ڈاکٹر خیال امروہوی اور شعیب جاذب سے اصلاح سخن لیتے رہے ہیں۔2012ء میں ان کا پہلا مجموعہ کلام ”پر تتلی کے“ اور 2014ء میں سرائیکی مجموعہ”جنج درداں دی“ شائع ہو چکا ہے۔لسانی سطح پرسرائیکی محاورہ اور روزمرہ کو اردو میں برتتے ہیں۔
کس کی زلفوں نے مجھے قید سے آزاد کیا
جانے کس شخص نے آکر مجھے برباد کیا
غیر سمجھوں یا اسے اپنا سہارا جانوں
ایک ناشاد نے آکے جو مجھے شاد کیا
عطا محمد عطا:
مہر اللہ داد کے ہاں 20مارچ 1968کو قصبہ کوٹ سلطان میں پیدا ہوئے۔ایم۔ اے (اردو) کے بعدکامرس کالج کروڑ (لعل عیسن) میں درس و تدریس کا فریضہ سرانجام دیتے رہے ہیں۔اس دوران میں ایم۔ فل (اردو)مکمل کی۔ جس کے لئے انھوں نے ”ڈاکٹر مہر عبدالحق: احوال و آثار“ کے عنوان سے مقالہ لکھا۔ ان کی شاعری میں مقامی لسانی شعریات کا رچاؤ محسوس کیا جا سکتا ہے۔
جو زلفِ یار کو پہنچیں مچل گئیں راتیں
کہ ماہ و مہر و کواکب نگل گئیں راتیں
کریں گے دھوپ سے ہی اہلِ شوق سائے کشید
تمام سائے ہمارے کچل گئیں راتیں
بہت سے پردہ نشیں بے نقاب ہوتے ہیں
یہ راز سامنے میرے اُگل گئیں راتیں
جبیں پہ نور تھا دامن میں جن کے جگنو تھے
ہمارے ہاتھ سے ایسی نکل گئیں راتیں
پیا ہے چاند نے یوں نور سب ستاروں کا
کہ میرے خوف کا رستہ بدل گئیں راتیں
عطا کا ہم ہیں مقدر یہ جن کا دعویٰ تھا
یہ واقعہ ہے وہ از خود پھسل گئیں راتیں
چاند سے آگے کی منزل میں ہے وہ کھویا ہوا
اور ہم الجھے ہوئے ہیں زلف ِ پیچاں میں ابھی
ریاض راہی:
اصل نام ریاض حسین ہے۔4اپریل 1968ء کو لیہ میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر خیال امروہوی کے شاگردوں میں سے ہیں۔ایم اے (اردو) بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے کیا۔آجکل اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور لیہ میں فرائض منصبی اداکر رہے ہیں۔طبقاتی امتیازات اور سماجی ناہمواریوں کو قلندرانہ انداز میں شاعری کا موضوع بناتے ہیں۔ ان کا مجموعہ کلام”شکست آرزو“ کے نام سے اشاعت پذیر ہو چکا ہے۔شہباز نقوی ان کے بارے میں فرماتے ہیں ”پروفیسر ریاض راہی ادب کے ان خاموش خادموں میں سے ہے جس نے عجزوانکسار اور معمولی پن کو اپنا شعار بنا رکھا ہے۔ ایسے لوگ جو معمولی پن اوڑھ کر پھرتے ہیں بہت غیر معمولی ہوتے ہیں“(شکست آرزو: ص۔17)
ان کی شاعری میں جمالیات کا نیا تصور ابھرتا ہے۔روانی اور ترنم کے ساتھ ساتھ فکری عمق ان کی شاعری کی پہچان ہے۔غزل کے ساتھ پابند نظم میں خامہ فرسائی کی ہے۔چند اشعار دیکھئے:۔
اب اپنے گھونسلے میں ہر پرندہ عذابِ خوف سے سہما ہوا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنا دشوار ہے بجھتے ہوئے خوابوں کے عذاب اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے پھرتے رہنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس عہد روشنی میں جو ظلمت فروش تھے فانوس بن گئے ہیں وہ دربارِ شاہ میں
تجھے اس عہد ِ جہالت میں زہر کھانا ہے نہیں ہے دست مسیحا میں اب ترادارو
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ درگاہ ِ سخن ہے اس کا ہر انداز عالی ہے امیر شہر کی ہم نے یہاں پگڑی اچھالی ہے
ریاض حسین راہی ”بزم افکار لیہ“ کے سرپرست ہیں۔
سید یوسف حسنین نقوی:
اصل نام یوسف حسنین نقوی ہے۔ تخلص یوسف کرتے ہیں۔ان کے والد کا نام محمد باقر رضوی ہے۔یوسف حسنین 7مئی1968ء کو لیہ میں پیدا ہوئے۔ان کے والد قیام پاکستان کے وقت قصبہ سمانہ(پنجاب)سے ہجرت کرکے لیہ میں آبسے تھے۔یوسف حسنین ایک صحافی کے طور پر عرصہ بیس، پچیس سال سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ان کا کلام جب بھی سنا ہے،مجھے احساس ہوتا ہے کہ عہد حاضر کی بے چہرگی اور معاشرتی انتشار میں یوسف حسنین نقوی عجیب طرح کی رومانیت کا شکار ہے۔اس کے دل و دماغ پر ایسے خواب مسلط ہیں جہاں صرف شانتی اور محبت کی فراوانی ہے۔زندگی کے جبر کے سامنے ڈٹ جانے اور شکست تسلیم نہ کرنے کا ایک رویہ یوسف حسنین نقوی کی شاعری کا بنیادی نقطہ ہے۔
جب بھی انصاف کے ہاتھوں میں قلم ٹوٹا ہے
شہر خاموش ہے اندر کا صنم ٹوٹا ہے
تم نے زنجیر ہلائی تھی کہ انصاف ملے
جب بھی زنجیر ہلائی ہے ستم ٹوٹا ہے
محمدمنیر:
شوق تخلص کرتے ہیں۔ 6جون 1968ء کو لیہ میں پیدا ہوئے۔بہا ء الدین زکریا یونیورسٹی ملتا ن سے ایم۔اے(اردو) کیا۔عدیم صراطی اور ڈاکٹر خیال امروہوی سے اصلاح سخن لیتے رہے۔ ان کے ہاں شعر تفہیم زندگی اور تفہیم ذات کا ذریعہ ہے۔
مانا کہ محبت میں بہت جورو جفا ہے لیکن مجھے چسکا ہی محبت کا پڑا ہے
ہے دین محبت تو محبت مرا ایماں سچ پوچھئے ہمدم تو محبت ہی خدا ہے
سلیم گورمانی:
ان کا اصل نام محمد سلیم اختر ہے۔گورمانی بلوچ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ 28جنوری 1969کو لیہ میں پیدا ہوئے۔بہاء الدین زکریا یونیورسٹی سے ایم اے(اردو) کیا۔بعد ازاں ادارہ”طلوع اسلام“ لاہور سے وابستہ ہوئے۔آج کل ”طلوع اسلام“ کی ادارت کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔جدید رنگ تغزل ان کی پہچان ہے۔عصر حاضر میں فرد کی بے بضاطی،انتشار کے مقابل فرد کی استقامت اور فرد کا بھولپن جیسے موضوعات ان کی شاعری میں ایک ایسی موضوعی کیفیت پیدا کرتے ہیں جو اپنے اندر بے پناہ حسن رکھتی ہے۔ان کی غزل میں جمالیات کے نئے سانچے بنتے محسوس ہوتے ہیں۔
یہ رتجگوں کے مسافر یہ خواب بیچنے والے
برائے نانِ شبینہ ثواب بیچنے والے
تمہیں یقین نہ آئے مگر یہ سچ ہے یہاں پر
خریدتے ہیں حیا بھی حجاب بیچنے والے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اداکاری تو چالاک کیا کرتے ہیں
ہم گریباں نہیں دل چاک کیا کرتے ہیں
نکھرے ہوتے ہیں جو ہر صبح گلابوں کی طرح
رات بھر اشک ہمیں پاک کیا کرتے ہیں
جن کی”میں“ساتھ نہیں چھوڑتی تا حینِ حیات
وہ محبت مری جاں خاک کیا کرتے ہیں
گرداڑاتے نہیں وحشت میں یونہی دیوانے
خاک کوہمسر افلاک کیا کرتے ہیں
شکر ہے خبر گزرتی ہے ہر اک بار سلیم
راوی کیا کیا مگر الحاق کیا کرتے ہیں
محمد احسن بٹ:
یکم اپریل1969ء کو لیہ میں پیدا ہوئے۔گورنمنٹ کالج لیہ سے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی۔طویل عرصے سے لاہور میں اشاعتی اداروں کے ساتھ بطور مترجم کام کر رہے ہیں۔پچاسیوں کتابیں انگلش سے اردو میں ترجمہ کرچکے ہیں۔غزل میں بھرپور اظہار کرتے ہیں۔ ان کی غزل روایت اور جدیدیت کا آمیختہ محسوس ہوتی ہے۔فکر و نظر کے حوالے سے جدید تر رجحانات ان کا اوڑھنا بچھونا ہیں۔عہد حاضر میں فرد کو جذباتی اور نفسیاتی سطح پر جن مسائل کا سامنا ہے ان کو بڑی چابکدستی سے غزل میں سمو دیتے ہیں۔خوف اور دہشت کی فضا ان کی غزل کو گہرائی اور گیرائی دیتی ہے۔مثلاً
پھٹی چادر توکل کی ہمیں اوڑھانے والا ہے
پرانے داؤ میں اک بار پھر الجھانے والا ہے
کسی امکان کی لو سے رگوں میں روشنی کر لو
زمانہ تو زمیں کو پھر ضرر پہنچانے والا ہے
پرندو! دھوپ اور پانی ذخیرہ کر کے چھپ جاؤ
بہت تاریک اور آسیبی موسم آنے والا ہے
ستارے اور سانسیں مٹھیوں میں قید کر لو سب
سمندر سرد اور تاریک تر ہوجانے والا ہے
مجھے سورج کی کرنیں بوریوں میں بھر کے رکھنے دو
خزاں آنے کو ہے یہ پھول بھی کملانے والا ہے
ایم آر ملک:
محمد رمضان اصل نام ہے۔9دسمبر1969ء کو شیر محمد اعوان کے ہاں ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے۔بعد ازاں لیہ میں آ مقیم ہوئے۔شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔قومی سطح کے اخبارات میں کالم لکھتے ہیں۔آج کل ”نئی بات“ کے ساتھ منسلک ہیں۔قلمی سفر میں حافظ شفیق الرحمن کو استاد مانتے ہیں۔ نثری نظم میں قلم فرسائی کرتے ہیں۔
جب رات کی زلفیں بھیگ چلیں
جب چاروں اور اندھیرا ہو
تنہائی ہو،سناٹا ہو
بند کمرہ ہو اور اس میں
یادوں کی کچھ لاشیں ہوں
ان لاشوں پر،بین ہو اجڑی راتوں کا
اس عالم میں،اس حالت میں
تو ساتھی آکر دیکھ مجھے
میں تجھ کو کیسا لگتا ہوں!!!
غلام اکبر رضا کاظمی:
رضا تخلص کرتے ہیں۔15اپریل1970ء کو بستی کھلندہ قصبہ پہاڑ پور تحصیل و ضلع لیہ میں پیدا ہوئے۔بی۔اے تک تعلیم حاصل کی۔آج کل صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔عموماً غزل کہتے ہیں۔ان کی غزل میں روایت کا رچاؤ اورسبھاؤ بھی موجود ہے اور خاص طرح کی جدید حسیت بھی۔
راز الفت سنبھالنے ہوں گے
دل کی جھولی میں ڈالنے ہوں گے
پیار رگ رگ میں سینچنا ہو گا
خار نفرت نکالنے ہوں گے
شام ڈھل جائے جب نگاہوں میں
خواب فردا کے پالنے ہوں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانے کس کس نے کیا ہم پہ کرم یاد نہیں
دل کے کعبے میں رہے کتنے صنم یاد نہیں
نفسانفسی کا وہ عالم ہے کہ اللہ توبہ
میرا غم کیا ہے اسے اپنا بھی غم یاد نہیں
جب سے واعظ نے ہے لفظوں کا تلفظ بدلا
تب سے انسان کو انساں کا بھرم یاد نہیں
سوئے مے خانہ خطاکار تو آتے دیکھے
کب چلے آئے سفیرانِ حرم یاد نہیں
طاہر مسعود مہار:
کوٹ سلطان میں یکم اپریل 1971ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک علمی گھرانے سے ہے۔ ان کے والد ساری عمر درس و تدریس میں مصروف رہے۔ایم۔فل (اردو)کر چکے ہیں آج کل پی ایچ۔ڈی کر رہے ہیں۔کئی سال پہلے ایک ادبی مجلہ”غزل“ کے نام سے شائع کیا اور سند قبولیت حاصل کی۔بقول قاضی راشد محمود ”انھوں نے اردو غزل کو حسن و جمال اور عصری شعور سے مزین کیا“(بحوالہ کوٹ سلطان کا ادبی منظر نامہ مشمولہ”سلطان“ گورنمنٹ کالج کوٹ سلطان سیشن 2013 ص۔133)
دل دیا جلایا تھا بارشوں کے موسم میں یادکوئی آیا تھا بارشوں کے موسم میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جو چشم تر کے چراغ ہیں،یہ جو داغ دل کے گلاب ہیں
یہ جو موسموں کے ہیں معجزے ترے رخ کا عکس جمال ہیں
افضل صفی:
محمد افضل صفی فتح پور میں یکم فروری 1971ء کو پیدا ہوئے۔ایم۔اے(اردو) گورنمنٹ کالج لیہ سے کیا۔16دسمبر2005ء کو بطور لیکچرار گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ میں تعینات ہوئے۔اردو کی تدریس میں مشغول ہیں۔”صحراسے گفتگو“اور”نگاہیں اداس ہیں“ دو شعری مجموعے اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔افضل صفی کی شاعری میں عصر حاضر کا منظر نامہ جھلکتا ہے۔آج کے انسان کو شخصی سطح پر جن محرومیوں کا سامنا ہے صفی کی شاعری ان محرومیوں کا اظہاریہ ہے۔نازک اور کومل جذبوں کی تلاش موصوف کا مطمح ء نظر ہے۔غزل میں ان کی طبیعت کی جولانی نکھر کر سامنے آتی ہے۔ڈاکٹر عاصی کرنالی کے بقول”ان کی شاعری کا نقطہء ارتکاز یہ ہے کہ وہ عصری دور میں فرد کی ذات کو ریزہ ریزہ دیکھ کر اس کی شیرازہ بندی میں مصروف ہیں۔فرد کے آشوب کے حوالے سے وہ مثبت اقدار کی شکست و ریخت کا تذکرہ کرتے ہیں۔۔۔افضل صفی کے یہاں محبوب بھی اسی مضطرب اور مظلوم معاشرے کا ایک دکھی فرد ہے اور افضل صفی۔۔۔۔اس کے دکھوں کے حوالے سے آشوب نگاری میں مصروف نظر آتے ہیں“(ڈاکٹر عاصی کرنالی ”اظہار خیال“ مشمولہ ”نگاہیں اداس ہیں“ ص۔11)
تجھ کو میں نے گنگنا یادیر تک آج بھی تو یاد آیا دیر تک
چاند کو بھی چاہیے تھی روشنی رات میں نے گھر جلایا دیر تک
چاند تو آخر افق میں چھپ گیا اک ستارا جگمگایا دیر تک
مرزا مبشر بیگ:
لیہ میں 1971ء میں پیدا ہوئے۔ایم سی ہائی سکول سے میٹرک کیا۔بی اے کرنے کے بعد بطور ایجوکیٹر محکمہ تعلیم میں ملازمت کرتے ہیں۔غزل کہتے ہیں۔ ایک خاص انداز کا رچاؤ ان کی غزل کی پہچان ہے۔
تم کیا جانو عشق میں کیا کیا ہوسکتا ہے
صدیاں پل سی،پل صدیوں سا ہو سکتا ہے
جذبے کی صداقت، فراوانی اور جدید حسیت ان کی غزل کو اہم بنا دیتے ہیں۔پچھلے طویل عرصے سے تارک الشعر ہو چکے ہیں، وجہ کا کچھ پتہ نہیں۔
عبدالرحمن مانی:
5جنوری 1971ء کو لیہ میں پیداہوئے۔گریجویشن تک تعلیم حاصل کی۔فکر ونظر کے حوالے سے ترقی پسندانہ مزاج رکھتے ہیں۔خیال امروہوی اور نواز صدیقی سے کسب فیض کیا۔غزل اور آزاد نظم میں یکتا ہیں۔
گھر کی دیواروں پہ دکھ درد اتر آتے ہیں
جب تھکے ہارے قدم شام کو گھر آتے ہیں
جب ڈھلے شام مری جان ترے ہجر کے دکھ
دن کے مصروف سمندر سے ابھر آتے ہیں
کون ہے مجھ سے بچھڑ کر جو ترے ساتھ ہے جاں
کس کے حصے میں ترے شام و سحرآتے ہیں
میں تجھے چھو کے ترے لمس کو محفوظ کروں
ایسے لمحات مری سمت کدھر آتے ہیں
وہ بھلا دے گا محبت بھی وفا بھی مانی
زندہ رہنے کے اسے سارے ہنر آتے ہیں
جمشید ساحل:
یکم اپریل 1972ء کو لیہ میں پیدا ہوئے گورنمنٹ کالج لیہ سے بی اے اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا ہے۔اظہار کے لئے نثری نظم کا پیرایہ اختیار کرتے ہیں۔جدید فکری رجحانات کے حامل ہیں۔ مثلاً!
مجھے جاگتے/برسوں بیت چکے ہیں
میں جب بھی/سونے کی/ناکام کوشش کرتا ہوں
تو مجھے خواب میں /افسانوں کے اصلی چہرے
نظر آنے لگتے ہیں
(اقتباس نظم: انسان،مجلہ لیہ ٹائمز 2005 ء اپریل۔جون: ص۔60)
یہ روشنی /میری رگوں میں اتر رہی ہے/اور میں
دھیرے دھیرے/چاند کے مقابل/ابھر رہا ہوں
(نظم: روشنی مشمولہ لیہ ٹائمز اپریل۔جون 2005ء ص۔60)
عتیق خیالی:
لیہ کے نواحی دیہات میں 8جولائی 1973ء کو پیدا ہوئے۔گورنمنٹ کالج لیہ میں بڑھتے رہے۔بی اے،بی ایڈ کرنے کے بعد بطور ای۔ ایس۔ ٹی درس و تدریس میں مصروف ہیں۔ آجکل گورنمنٹ مذل سکول آصف آباد تحصیل کروڑ ضلع لیہ میں تعینات ہیں۔ڈاکٹر خیال امروہوی کے شاگرد ہونے کے ناتے انقلابی فکر و نظر کے حامل ہیں۔
وہ بزم جس میں گدائی وقار کہلائے
عتیق ایسے کسی شہر میں قیام نہ کر
ان کا مجموعہ کلام ”حیرت سے عبرت تک“ شائع ہو چکا ہے۔
کاشف مجید:
25جولائی 1974ء کو لیہ میں پیدا ہوئے۔بہاء الدین زکریایونیورسٹی سے ایم اے(اردو) کیا۔آجکل گورنمنٹ کالج گوگیرہ ضلع اوکاڑہ میں بطور لیکچرار فرائض منصبی ادا کرتے ہیں۔ان کا مجموعہ کلام”دعا کی طرف لوٹتے ہیں“ شائع ہو چکا ہے۔ان کی شاعری میں جدید حسیاتی تلازمات موجود ہیں۔ حیرت،معصومیت اور درون ذات کا یقین ان کی غزل کی پہچان ہے۔ان کی غزل میں جمالیات کے نئے سانچے اور نئے پیمانے بنتے محسوس ہوتے ہیں۔
مجھے سورج بنا دیں گے کسی دن
میں جن ہاتھوں پہ بیعت کر رہا ہوں
ڈھلکتے ڈولتے اشکوں کی صورت
تری آنکھوں سے ہجرت کر رہا ہوں
خالد ندیم شانی:
یکم مئی 1975ء محمد سلیمان کے ہاں عیسٰی خیل میں پیدا ہوئے۔شانی تخلص کرتے ہیں۔گریجویشن کرنے کے بعد 2005ء میں فتح پور میں آمقیم ہوئے۔پروفیسر فیروز شاہ مرحوم سے اصلاح لیتے رہے۔ان کے تین مجموعے ”بادل خوشبو اور ہوا“2008ء ”آنکھ کے دریچے میں“2010ء اور ”آپ“2012ء شائع ہوچکے ہیں۔بزم لطیف فتح پور کے صدر ہیں۔
کتنی حیرت سے یہ عبرت کے نشاں دیکھتی ہے
رونقِ دنیا مری آنکھ جہاں دیکھتی ہے
حضرت جوش کے دیوان کا جب ذکر چلے
کتنی حسرت سے ہمیں اردو زباں دیکھتی ہے
ظفر حسین ظفر:
ظفر تخلص کرتے ہیں۔4اپریل 1976ء کو لیہ میں پیدا ہوئے۔والد کا نام محمد حسین ہے۔آبائی پیشہ کاشتکاری ہے۔ایم اے(اردو) بہاء الدین زکریا یونیورسٹی سے کیا۔فکری حوالے سے ترقی پسند ہیں۔ڈاکٹر خیال امروہوی کے شاگردوں میں سے ہیں۔سرائیکی شاعری کے حوالے سے شفقت بزدار سے اصلاح لیتے رہے۔
کیسی تہذیب کی بنیاد رکھے جاتے ہو
چشم بینا سے تماشے نہیں دیکھے جاتے
اے مری قوم کے ارباب،ذرا رحم کرو
اب ٹرپتے ہوئے لاشے نہیں دیکھے جاتے
اذکار حسین:
مقسوم تخلص کرتے ہیں۔یکم مارچ1978ء کو ملک غلام حسین کے ہاں محلہ عید گاہ لیہ میں پیدا ہوئے۔ایم۔اے انگلش ہیں۔اردو غزل سے خاص شغف ہے۔طبیعت میں روانی ہے۔لمبی بحر میں لکھنا مرغوب ہے۔دو غزلے اور سہ غزلے کہہ جاتے ہیں۔
یوں ہی الزام آتے ہیں زمانے کے ہواؤں پر
کئی پھولوں کو اپنی ہی نزاکت مار دیتی ہے
ہمیں کیا دھوپ سے شکوہ ہمیں کیا دن سے منہ ماری
ہمیں تو سائباں کی بھی تمازت مار دیتی ہے
یہ عالم اختلاف فکر سے ہی خوبصورت ہے
ہمیں اپنے قبیلے کی حمایت مار دیتی ہے
ناصر حسین:
ناصر خیالی تخلص کرتے ہیں۔18مارچ 1978ء کو لیہ کے نواحی گاؤں چاہ ہوت والہ بستی لشکرانی میں پیدا ہوئے۔ایف اے تک تعلیم حاصل کی۔ڈاکٹر خیال امروہوی سے اصلاح سخن لیتے رہے۔ ’مجموعہ ’کربلا اے کربلا“ 2008 ء میں شائع ہو چکا ہے۔
ہم تو الفاظ و معانی کا جہاں رکھتے ہیں اتنا معیار مگر لوگ کہاں رکھتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سے ملنا تو ذرا سوچ کے ملنا ناصر جسم کمزور سہی دل تو جواں رکھتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سے ملنا تو ذرا سوچ کے ملنا ناصر جسم کمزور سہی دل تو جواں رکھتے ہیں
شاہد رضوان:
چاند تخلص کرتے ہیں۔14اگست 1982ء کو چوہدری محمد بشیر کے ہاں فتح پور میں پیدا ہوئے۔ایم۔اے(سیاسیات) اور ایل ایل۔بی تک تعلیم حاصل کی۔ان کے دو شعری مجموعے”ابھی تم لوٹ سکتے ہو“2004ء ”زندگی اک اداس شام“2010ء شائع ہوچکے ہیں۔
ٹھیک ہے کہ بھلا نہیں ہوں میں پھر بھی اتنابرا نہیں ہوں میں
تا ابد ہی رہوں گا ورد زباں عام سا واقعہ نہیں ہوں میں
سعید ہ بانو:
بانو بلوچ کے نام سے لکھتی ہیں۔1986ء میں غلام فرید جو کہ ریٹائرڈ مدرس ہیں کے ہاں پیدا ہوئیں۔نامور سرائیکی محقق ڈاکٹرحمید الفت ملغانی کی اہلیہ ہیں۔ایم اے (اردو)اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے اور ایم فل (اردو)انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے کیا۔بطورایس۔ ایس۔ ٹی گورنمنٹ گرلز ماڈل ہائی سکول کروڑ میں تعینات ہیں۔
حد سے بڑھ کر جو خواب ہوتے ہیں وہ یقینا سراب ہوتے ہیں
ایسے بھی کئی سوال ہیں بانو جن میں پنہاں جواب ہوتے ہیں
افتخار فلک کاظمی:
کو ٹ سلطان کے رہنے والے ہیں۔ نوجوانوں میں سے ایک ہیں۔ان کی غزل میں جذبوں کا رقص،تخیل کی دھمال اور جما ل یارکاجادو پورے رچاؤ کے ساتھ محسوس کیا جا سکتا ہے۔”اذیت“ کے نام سے ان کا مجموعہ کلام اشاعت پذیر ہو چکا ہے۔
وقف رنج و ملال مت کریو دل ابھی پائمال مت کریو
زخم دامن سمیٹ لیتے ہیں دیکھیو تم دھمال مت کریو
قاضی راشد محمود:
25ستمبر1980ء کو کوٹ سلطان میں پیدا ہوئے۔گورنمنٹ کالج لیہ سے ایم۔ اے (اردو) کیا۔زمانہ طالب علمی سے ہی شعر و سخن کا شوق رہا۔ان کا مجموعہ”ابھی صبح سفر ہے“شائع ہو چکا ہے۔ظہور فاتح کے بقول”قاضی راشد جدید انداز کے شاعر ہیں ان کے گل شعر میں روایت کی بھینی بھینی مہک سحر جگاتی نظر آتی ہے۔ایک عجیب تازگی کا احساس ہوتا ہے“(بحوالہ،ابھی صبح سفر ہے: ص۔8) یاد رہے کہ ظہور احمدفاتح قاضی راشد کی اصلاح بھی دیتے رہے ہیں۔ایم۔اے(اردو) کے لیے ”شعرائے لیہ کے فکری رجحانات کا جائزہ“ کے عنوان سے مقالہ لکھ چکے ہیں۔
دل دکھیارا ہر پل غم میں موت کی دستک دروازے پر
اک ہنگامہ تم میں ہم میں موت کی دستک دروازے پر
کھانستا،روتا،بوڑھا شاعر، تنہا کمرہ،بکھرے کاغذ
بارش ہوتے اس موسم میں موت کی دستک دروازے پر
عمران عاشر:
اصل نام محمد عمران ہے والد کا نام صفدر علی ہے۔یکم دسمبر1982ء کو فتح پور ضلع لیہ میں پیدا ہوئے۔تین مضامین یعنی اسلامیات،اردو اور ایجوکیشن میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔دو شعری مجموعے ”ابھی موسم نہیں بدلا“2008 اور”احساس“2014ء اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔
چمن میں کون آئے گا،ابھی موسم نہیں بدلا
کوئی نغمہ نہ گائے گا،ابھی موسم نہیں بدلا
رہیں گے عمر بھر تنہا یہی اپنا مقدر ہے
تمہارا غم ستائے گا، ابھی موسم نہیں بدلا
محمد نعمان اشتیاق:
22مئی1983ء کو لیہ میں پیدا ہوئے والد کا نام اشتیاق احمد ہے۔ ان کے بزرگ گجرات شہر سے ہجرت کر کے یہاں آئے اور یہیں کے ہو رہے۔گورنمنٹ کالج لیہ میں ایم۔ اے(اردو) کے طالب علم رہے۔ بعد میں ایم۔ اے(سیاسیات) کیا۔پھر بی۔ ایڈ اور ایم۔ ایڈ کے امتحانات پاس کئے۔آج کل بطور معلم چک نمبر 141ٹی ڈی اے میں درس و تدریس کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ان کے ہاں زمانہ طالب علمی سے ہی شعری ذوق موجود تھا جو بالآخر تخلیق پر منتج ہوا۔
اس نے پھولوں کی طرف کرکے اشارہ یہ کہا
بات اتنی سی ہے گر تم کو سمجھ آجائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بار تجھے کھونے کا ڈر، وہم ہوا ہے
اور وہم کا تو کوئی بھی عیلاج نہیں ہے
ارشد عباس ذکی:
ارشد عباس یکم دسمبر 1983ء کو کروڑ میں پیدا ہوئے۔والد کا نام غلام حسین ہے۔ایم اے تک تعلیم حاصل کی۔آج کل پبلیشنگ کا ایک ادارہ چلا تے ہیں۔ان کا مجموعہ کلام”زندگی سے ملتے ہیں“کے نام سے چھپ چکا ہے۔اس کے علاوہ ایک انتخاب 2014ء میں ”میر انیس سے فرتاس سید تک“شائع ہوا ہے۔
خاک سمجھو گے ہمیں،خاک سمجھتے ہو ہمیں
تم تو رکھتے ہی نہیں خاک کا ادراک میاں
۔۔۔۔۔۔
لوگ تو ہاتھ اٹھاتے ہیں ستم کرنے کو
ہم اگر ہاتھ اٹھاتے ہیں دعا کرتے ہیں
۔۔۔۔۔
عمر خان تنہا:
عمر جی تنہا کے نام سے لکھتے ہیں۔31دسمبر1986ء کو گل شاہ کے ہاں فتح پور میں پیدا ہوئے۔ان کا ایک شعری مجموعہ ”لفظ کرتے ہیں گفتگو تیری“2010میں شائع ہوا۔
مسرت روح کی جو تھا وہی سامان بیچا ہے
یہ تم نے آج کیا اپنا دلِ نادان بیچا ہے
اگر فاقے ہوں گھر میں تو سجاوٹ بھی نہیں بھاتی
کہیں پر پھول بیچے ہیں کہیں گلدان بیچا ہے
محمد سلیم آکاش:
محمد سلیم آکاش فتح پور ضلع لیہ میں 14ستمبر 1988ء کو پیدا ہوئے۔والد کا نام غلام حسین ہے۔پرائمری تعلیم فتح پور سے ہی حاصل کی۔گورنمنٹ کالج لیہ سے ایم۔اے(اردو) کیا۔دوران تعلیم ان کا مجموعہئ کلام”تنکے“شائع ہوا۔پروفیسر ریاض حسین راہی کے بقول”وہ ایسے شاعر ہیں جو بغاوت کی بجائے شعری روایت سے نہ صرف کسب فیض کرتے ہیں بلکہ اس جولان گاہ میں رہ کر حتی المقدور اپنے تخلیقی سفر پر رواں دواں بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں روایتی طرز احساس کا بھرپوراظہار پایا جاتا ہے“
زندگی سے کبھی جو لڑنا ہو موت میرا ہی روپ دھارے گی
۔۔۔۔۔
کہاں ہے دل کو میسر ابھی قرار و سکوں ترے بغیر اگرچہ سنبھل گئے بھی تو کیا
۔۔۔۔۔
بستی بستی اجڑ گئی ہے ایسے ٹوٹ کے برسا پانی
میرا قصہ کیا سنتے ہو میرا سارا قصہ پانی
قطب سلطان:
قطب سلطان 16اپریل 1989 کو حاجی عبدالغفور چشتی کے ہاں پیدا ہوئے۔محلہ چانڈیہ والا لیہ میں مقیم ہیں۔اردو شعر و ادب سے ان کی دلچسپی اور وابستگی بہت گہری ہے۔تعلیم واجبی سی ہے مگر جس طرح وہ لفظ کو برتتے ہیں،وہ بہت خوب ہے۔ان کی غزل میں ایک نزاکت فکر محسوس ہوتی ہے۔
ہاں داستان درد کا درماں نہیں رہا وہ اب غریب شہر ہے انساں نہیں رہا
اے شہر یار عشرب پیہم سے کچھ نکل جیتا بھی دہر میں کوئی آسان نہیں رہا
محمد عمران:
عمران فائق کے نام سے لکھتے ہیں۔والد کا نام غلام حسین ہے۔چکنمبر 116ٹی ڈی اے شاہ پور تحصیل کروڑ ضلع لیہ کے مکین ہیں۔بی اے تک تعلیم حاصل کی۔اردو غزل سے شغف ہے۔
اب اوقات میں رہنا ہوگا یعنی رات میں رہنا ہو گا
میں افلاک کو چھو آؤں گا آپ کو سات میں رہنا ہوگا
تسنیم کوثر سیمی:
آپ محلہ عید گاہ لیہ کی مکین ہیں۔شاعری کو اپنے کرب و اضطراب کے اظہار کا وسیلہ سمجھتی ہیں۔فرحت عباس شاہ نے ان کے بارے کہا کہ”اس کا لفظ لفظ سچے دکھ اور بے ساختہ بیان سے معمور ہوا۔وہ شعری لطافتوں سے آگہی کے باوجود اپنی دھن میں لکھتی رہی۔دعا ہے کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ“
”اشک دان“ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔جس میں غزلوں اورجستہ جستہ شعروں کے ساتھ ساتھ آزاد نظمیں بھی موجود ہیں۔
غم نے صحرا کی سیر کرنی ہے میری آنکھوں کو غور سے دیکھو
۔۔۔۔۔
پہلے رستے پہ دل بچھاتی ہوں پھر میں اس پر گلاب رکھتی ہوں
ایک نظم دیکھئے:۔
”کڑوا سچ“
یاحیرت
عورت کی کوکھ سے
جب بھی عورت پیدا ہوتی ہے
عورت خوش نہیں ہوتی
رانا عبدالرب:
3ستمبر1990کو لیہ میں پیدا ہوئے۔عبدل تخلص کرتے ہیں۔ان کے والد ساری عمر درس و تدریس کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔سو علم وادب کا شعور ورثے میں ملا۔نوجوان جذبوں کے مالک ہیں۔پروفیسر ریاض حسین راہی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا ہے۔اپنے اساتذہ کے رنگ میں شعر کہتے ہیں۔ادبی محافل کے روح رواں ہیں۔بزم افکار لیہ کے صدر ہیں۔غزل اور نظم میں قلم فرسائی کرتے ہیں
یوں تیری یاد پال رکھی ہے ٹوٹی چوڑی سنبھال رکھی ہے
صرف منزل نصیب ہے اس کو جس نے کچھوے کی چال رکھی ہے
۔۔۔۔۔
صبحِ سورج نے کبھی آنکھ جو کھولی ہو گی پھر کہیں ظلمت ِ شب دور ہی سولی ہوگی
حاکم ِ وقت نے اعلان کیا ہے کیسا اب کوئی بولا تو پھر جان کی بولی ہوگی
وقار خان وقار:
والد کا نام محمد بخش خان ہے۔ 4اپریل 1994ء کو کوٹ سلطان میں پیدا ہوئے۔
مرا شعور ہوس،مرا لا شعور ہوس وصال ِ یار ہوس،وصل کا سرور ہوس
مجھے سزا میں کوئی جسم سونپئے صاحب کہ مجھ سے آج ہوا ہے یوں اک قصور ہوس
۔۔۔۔۔۔۔
اس سب کچھ کے باجود میں اپنی نارسائیوں کا اعتراف کرتا ہوں کچھ ایسے شعرا لیہ ضلع میں موجود ہیں جن کے بارے میں زیادہ تفصیل حاصل کرنا میرے لئے ممکن نہ ہو سکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقار بخاری کی غزل کا رنگ کچھ یوں ہے:۔
میں جس کے نام پہ خود کو نثار کرتا تھا
اسی نے آگ لگادی ہے میری بستی میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلزار محبوب کا شعر کچھ یوں ہے کہ:۔
پتھر تمام چھین لے بچوں کے ہاتھ سے
شیشے کی کھل گئی ہے دکاں تیرے شہر میں
کچھ دیگر شعرا میں ریاض احمد رازی،قمر عباس،عاطف نعیم،عرفان فانی،مشی ملک،تہمینہ بی بی،عرفان فانی،انعم سحر،اویس گرمانی،سارہ اصغر اور احسان خلجی جیسے نوجوان شامل ہیں جنہوں نے ابھی بہت سی منازل طے کرنی ہیں۔