لیہ کا ادب

دورٹہ خوابوں میں ہلکورے لیتی بستی

ڈاکٹر افتخار بیگ

یہ ۲۰۱۵ کا کوئی دن تھا، جب فیس بک پر پرم ویر دھینگر صاحب سے رابطہ ہوا ۔ پرم ویر پانی پت ( انڈیا ) میں رہتے ہیں اور یہ اس خاندان کے چشم و چراغ ہیں ، جس نے بیسویں صدی کے اوائل میں لیہ میں بھر اتری ہائی سکول ( موجودہ گورنمنٹ ایم سی ہائی سکول) قائم کیا اور یہ جیسے پسماندہ اور دور دراز علاقے میں علم کی شمع روشن کی ۔ یہ خاندان قیام پاکستان کے بعد ہجرت کر کے انڈیا چلا گیا اور اب پانی پت میں ایک تعلیمی ادارہ چلاتے ہیں۔ پرم ویر صاحب سے ایک دن میسنجر پر رابطہ ہوا تو انھوں نے اپنے بزرگوں کی یادداشتوں اور جنم بھومی کا ذکر کرتے ہوئے بستی دورہ کو بھی یاد کیا اور بتلایا کہ دور ٹہ میں ایک محلہ بجاج ( کپڑے کا کاروبار کرنے والے ) برادری کا تھا۔ ایک دوسرا محلہ گور واڑہ برادری کا تھا اور ایک محلہ چاولہ برادری کا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ دورہ میں ایک خاندان با وجہ (Baweja Family) نسوار کا کاروبار کرتا تھا۔ نسوار کا کاروبار کرنے والے یہ لوگ کابل تک جایا کرتے تھے اور بجاج خاندان کے کپڑے کا کاروبار بہاول پور تک پھیلا ہوا تھا۔
میں نے میسنجر پر ان کا یہ پیغام پڑھا تو بہت سی یادیں مچلنے لگیں کہ میر انھیال دور یہ بستی میں رہتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد دورہ کے مکین ہجرت کر کے انڈیا چلے گئے تھے اور انڈیا سے ہجرت کر کے آنے والے دور نہ کی اُجڑی بستی کو آباد کر چکے تھے ۔

میری پیدائش ۱۹۵۸ء کی ہے اور میرے نانا جی اور ماموں ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے اور دورہ میں آن بسے تھے۔ میرا بچپن دورئے کی گلیوں میں گزرا۔ میں تیسری یا چوتھی کلاس میں پڑھتاتھا، گویا یہ۱۹۶۵ء کے بعد کا زمانہ ہے جو مجھے یاد ہے۔ اس زمانے میں یہ چھوٹی سی بستی محبتوں اور رواداریوں کی خوشبو میں گندھی ہوئی تھی۔ ہم یہ شہر میں رہتے تھے۔ یہ بھی اس زمانے میں ایک چھوٹا سا قصبہ ہی تھا۔ لیہ اور دورہ کے درمیان رابطے کا ذریعہ یا تو ایک بچھی سڑک تھی، یا پھر ٹرین ۔ ہم عموماً ٹرین کے ذریعے دور ٹہ جایا کرتے تھے۔ دور شہ ریلوے اسٹیشن بستی دور ٹہ سے ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر ہے۔ اسٹیشن کے قریب بستی شاہ پور ہے۔ تو سوچتے تھے کہ اسٹیشن کا نام ایک دور کی بستی کے نام پر کیوں ہے؟ ذرا ہوش سنبھالا تو بزرگوں سے سنا کہ ریل کی پٹڑی دور ہستی کے مغربی طرف بچھائی جانی تھی مگر اس طرف زیادہ تر زمینیں درانی خاندان کی ملکیت تھیں ۔ انھوں نے اپنی زمین سے ریلوے لائن گزارنے پر احتجاج کیا تھا۔ ریل کی پٹری بچھانے کا یہ عمل اس علاقے میں ۱۸۸۰ء کے لگ بھگ شروع ہوا تھا۔ ۱۸۸۴ء وہ سال ہے کہ جب پہلی ٹرین اس ٹریک پر آئی تھی ۔

دورہ کے مکینوں کی طرف سے ریل کا ٹریک بچھنے پر احتجاج والی بات درست ہے تو اس کا مطلب ہے کہ بستی دور ٹہ کے درانی خاندان کے بزرگوں کے ہاں بھی وہی ضد اور فکر کارفرما رہی ہو گی، جو عمومی طور پر پورے ہندوستان میں موجود تھی۔ یہاں کے بزرگوں نے بھی سوچا ہوگا کہ اگر اسٹیشن بستی کے قریب بنا تو یہاں تہذیبی اتھل پتھل شروع ہو جائے گی اور ہمارے بچے بچیاں کہیں دور چلے جائیں گے۔ ریلوے لائن بچھنے کا یہ عمل انیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں وقوع پذیر ہورہا ہے۔ گویا یہ عمل جدید زندگی کی طرف ایک بڑا قدم تھا۔ اس زمانے میں ذرائع آمد ورفت کا فقدان تھا۔ دُور دراز کے علاقوں سے رابطے بے حد کٹھن اور دشوار تھے ۔ قصبوں اور بستیوں کے باسی ایک محدودی زندگی گزارتے تھے۔ ایسے میں ریل گاڑی کی آمد ورفت یہاں کے لوگوں کے لیے نہ صرف تیر کا باعث بنی ہوگی بلکہ انھیں محسوس ہوتا ہو گا کہ اس ٹرین کی وجہ سے اجنبی لوگ ہماری بستی میں آئیں گے تو ہمارے لیے تہذیبی مسائل پیدا ہوں گے ۔ محدود و مخصوص اخلاقی اور سماجی روایات کے بندھن اس قسم کے رویوں کے ساتھ آشکار ہوتے ہیں۔ جدید سائنسی علوم ، ایجادات اور دونوں کے ساتھ وارد ہونے والی تہذیبی تبدیلی کے خلاف جو غصہ اور تنفر پورے ہندوستان میں موجود تھا۔

اس کے اظہار کے بہت سے طریقے تھے اور اس رد عمل کا یہ اظہار مختلف انداز میں سامنے آتا تھا۔ دور نہ میں بھی یہی کچھ ہوا اور بستی کا ریلوے اسٹیشن دور ٹہ سے دور بستی شاہ پور کے قریب بنا۔ عوامی سطح پر دور ٹہ ریلوے اسٹیشن کو آج بھی شاہ پور دور ہ کا نام دیا جاتا ہے، مگر سرکاری سطح پر یہ دور شد ریلوے اسٹیشن ہے۔ دور نہ ریلوے اسٹیشن سے ریل کی پٹڑی کا رُخ شمالاً جنوبا ہے۔ پڑی کی مغربی سمت میں اسٹیشن کی عمارت۔ اس عمارت کے درمیانی ہال کے بالکل عقب میں یعنی مغربی سمت تھوڑے فاصلے پر ایک کینٹین ہوا کرتی تھی اور اس کینٹین سے جنوب کی سمت قدرے ہٹ کر ایک کنواں تھا۔ جس پر چر خیاں لگی ہوتی تھیں۔ شاید کبھی آغاز میں اس کنویں سے پانی نکالا جاتا ہوگا۔ جب میں نے دیکھا تو اس کے پانی میں آلائشیں تیرتی تھیں اور لوگ اس کنویں سے پانی نہیں بھرتے تھے بلکہ ریلوے اسٹیشن پر ایک ٹوٹا ہوا نکا لگا تھا، جہاں سے مسافر پانی پیتے تھے۔

ریلوے پلیٹ فارم کے جنوبی طرف حوائج ضروریہ کے لیے حاجت خانہ بھی موجود تھا، جہاں عموماً صفائی نہیں ہوتی تھی۔ پلیٹ فارم کے سامنے پٹڑی کی دوسری طرف یعنی مشرقی سمت میں ایک پلیٹ فارم تھا۔ یہ مال گاڑیوں کے لیے تھا۔ سردیوں کے موسم میں یہاں ریل کے چھکڑوں میں گن لا دا جاتا تھا۔ گردونواح کے علاقوں سے گنالانے والے اونٹوں پر لادکر گنا یہاں لات تھے اور پھر اس گنے کو ریل کے چھکڑوں میں لادا جا تاتھا اور لیہ شوگر ملز میں پہنچایا جاتا تھا۔ جب ہم لیہ سے دور نہ آتے تو ریلوے اسٹیشن پر ہمارے ماموں اونٹ یا گدھے کے ساتھ موجود ہوتے تھے۔ چھوٹا موٹا سامان گدھوں پر لادا  جاتا اور ہم سب پیدل دور ہ کی طرف روانہ ہوتے ۔ اگر اونٹ ہوتا تو سامان اور ہماری اماں کجاوے میں اور ہم پیدل ہی روانہ ہوتے ۔ اسٹیشن سے دور نہ جانے کے لیے کوئی بڑی سڑک نہیں تھی بلکہ ایک بل کھاتی پگڈنڈی تھی جو کھیتوں کے درمیان سے گزرتی جاتی تھی۔ راستے میں ایک بڑا جنگل تھا، یہ پگڈنڈی جنگل کے شمالی سرے سے گزرتی تھی ۔ یہاں سے گزرتے ہوئے ایک خاص طرح کا خوف ہم پر طاری ہو جایا کرتا تھا۔

اس زمانے میں یہ ڈیڑھ دو میل کا سفر بہت طویل محسوس ہوتا تھا۔ دور نہ پہنچتے تو شمال مغربی سمت سے بستی میں داخل ہوتے تھے۔ بستی کے اس سرے پر مغربی سمت میں کمہاروں کے گھر تھے اور ساتھ ہی ٹھیکریوں اور راکھ کا ایک اُونچا ٹیلہ تھا ، جسے ” آوی“ کہا جاتا تھا۔ اس ” آوی“ کے اوپر ایک شخص عموما نظر آتا تھا بہت بعد میں پتا چلا کہ یہ اللہ بخش کمہار تھا، یہ گرمیوں کے موسم میں صرف تہد باندھے ہوتا تھا۔ یہ تہد سیاہ رنگ کا ہوتا تھا۔ گرمی کے موسم میں یہ شخص کھری چار پائی آوی” کی چوٹی پر رکھ کر سویا کرتا تھا اور پوری گرمیاں قمیض نہیں پہنتا تھا۔ اس جگہ راستے کے مشرق میں ایک قدرے اونچی جگہ پر چروا ہے رہتے تھے۔ یہاں بکریوں کا ایک بڑا سا باڑہ تھا، جس کے چاروں طرف مختلف کانٹے دار جھاڑیوں کے ڈھیر ایک باڑ کا کام دیتے تھے۔ اس باڑے میں سردیوں کے لیے ایک جھونپڑی بھی تھی جو شاید سرکنڈوں کی بنی ہوتی تھی۔ بکریوں کا ریوڑ کبھی باڑے میں موجود ہوتا اور کبھی ان بکریوں کی موجودگی کی نشانیاں پڑی ہوئی تھی ۔ اس باڑے سے قدرے آگے ایک بڑا احاطہ تھا۔ یہ درانی خاندان کے بزرگ اللہ داد خان کا ڈیرہ کہا جاتا تھا۔ اس احاطے سے چکر کاٹ کر جب آگے آتے تو راستہ قدرے کشادہ ہو جاتا تھا اور اب یہ راستہ شرقا غر با مر جاتا تھا۔ ادھر اللہ داد خان درانی کا گھر تھا۔

اس گھر کا ایک بڑا سا دروازہ تھا۔ اس دروازے کے سامنے قدرے ہٹ کر ایک مسجد تھی۔ بہت بعد میں اللہ داد خان درانی کے اکلوتے فرزند غلام فرید خان درانی نے اپنی یادداشتوں کے حوالے سے بتایا کہ اس مسجد کی تعمیر انھی سالوں میں ہوتی تھی ، جب دور ٹہ ریلوے اسٹیشن تعمیر ہوا تھا۔ یہ بھی بتایا کہ دور ٹ ریلوے اسٹیشن کی تعمیر کا ٹھیکہ بھی درانی خاندان کے کسی بزرگ کے پاس تھا۔ گویا انیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں یہ خاندان اس علاقے کا بارسوخ خاندان تھا۔ اللہ داد خان کے گھر کے عقبی طرف ایک دو چھوٹے مکان تھے ، جن کے بارے میں بہت بعد میں پتا چلا کہ یہ مکان کوڑی پلانی نامی خاتون کا تھا، جس کے بیٹے نواز پاؤلی قادر بخش پاؤلی اور گل شیر پاؤ لی تھے ۔ اس گھر میں ایک بہت پرانا پیلور جال کا درخت تھا اور بہت پھیلا ہوا تھا۔ اس درخت پر تو تے ڈاروں کی صورت میں اُڑتے اور اترتے دیکھے۔ یہیں اللہ داد خان کے گھر کے سامنے والے حصے سے مشرق کی طرف اور مسجد کے کونے سے شمال مشرق کی طرف پرائمری سکول کے دو بچے کمرے تھے۔

اس سکول کے سامنے پیلور جال کا ایک گھنا درخت تھا۔ ادھر سے بستی کی پہلی گلی شروع ہو جاتی تھی۔ یہ گی شرفاً غربا تھی قدرے اندر مائی غفوری کا گھر تھا۔ یہ بیوہ تھیں اور کوئی اولاد نہیں تھی ۔ وہ خوددار خاتون تھیں اور چھوٹی سی پرچون کی دکان چلاتی تھیں۔ قیامِ پاکستان سے پہلے اس بستی میں ہندو بستے تھے۔ پرم ویر دھینگڑا نے بتایا کہ یہاں رہنے والے بزرگوں میں پر بھ دیال ،چاولہ، نبھ راج ،باوجہ نرائن داس با وجہ بھگوان داس گوردر دسندہ رام با وجہ اور تح چند بجاج شامل تھے۔ وہ کن گھروں میں رہتے تھے، مجھے نہیں پتا۔ ان لوگوں کے جانے کے بعد یہ بستی اُجڑی۔ کتنے دن اور ماہ وسال خالی بستی میں ہوائیں سرسراتی اور سر پختی رہیں، مجھے نہیں معلوم، جب میں نے ہوش سنبھالا تو اس ساری بستی میں رہنے والے مسلمان تھے۔ یہ سب لوگ ۱۹۴۷ء میں ہندوستان کے ضلع حصار کی مختلف بستیوں سے ہجرت کر کے آئے اور دور ٹہ میں آن لیسے۔ یہ سب پٹھان ہیں۔ درانی یہاں پہلے ہی رہتے تھے ۔ آنے والوں کی گوت شیروانی یا کائٹر خیل ہے۔ یہ آنے والے لوگ ضلع حصار کی تحصیل فتح آباد (جو اب ضلع بن چکا ہے) کی بستیوں خیرم پور محمد پور اور ہانسی سے ہجرت کر کے آئے اور دور ٹہ میں آن ہے۔ یہ سب آپس میں رشتہ دار ہیں۔ میری اماں انھیں میں سے تھیں اور پورے دورٹے میں بسنے والے بھی بزرگوں کا درجہ میرے لیے نانا کا تھا اور کبھی نو جوانوں کو میں ماموں کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔

اس بستی کی گلیوں میں میرا بچپن گزرا ہے۔ گرمیوں اور سردیوں کے موسم میں سکول بند ہوتے تو ہم دوڑے کا رُخ کرتے اور عموماً پوری چھٹیاں یہیں گزارتے تھے۔ اس بستی کی تین بڑی گلیاں شمالاً جنو ہا تھیں ۔ پرانے گھر بہت کشادہ اور کھلے نہیں تھے۔ بڑے گھر بھی آٹھ دس مرلے پر محیط تھے۔ گھروں کی دیوار میں باہر سے پختہ مگر اندر سے کچی ہوتی تھیں ۔ چھتوں میں کڑیاں اور ہالے ٹیڑھی میڑھی لکڑیوں کے ہوتے تھے، جنھیں بڑی مہارت سے ہموار رکھا گیا ہوتا تھا۔ بیشتر گھروں کے مرکزی دروازے خوب صورت کام سے مزین ہوتے تھے ۔
کی دہائی میں لیہ سے دور نہ تک پکی سڑک بنی تو پھر ریل کا سفر ختم ہوا۔ اب بسا اوقات ہم لیہ سے تانگہ کرایہ پر لیے اور دور ہ پہنچے تھے۔ بعد میں میں چلنے لگیں۔ یہ سڑک دورہ کے مغرب میں تھی اور بستی سڑک سے ایک ڈیڑھ فرلانگ مغرب کی طرف تھی اور ہے۔ پکی سڑک دور ٹہ کے جنوب مغرب میں واقع نگڑے خاندان کے رقبہ کے پاس آکر ختم ہو جاتی تھی ۔ اس سے آگے سڑک کچی تھی جس پر عموما سر کنڈے بچھا کر رکھے جاتے تھے۔

اس جنوبی سمت سے بھی ایک گلی شرقا غر با بستی میں داخلے کا راستہ بنتی تھی ۔ شرقا غربا اس گلی کے جنوبی سمت میں ایک بڑا سا حال اور پھر ایک مناسب سائز کا دروازہ کی مکان کا پتادیتا تھا۔ یہ اسم خان اور اکرم خان کا ڈیرہ اور گھر تھا اس کی کی نگر پر سامنے مغربی سمت میں گاموں خان کے گھر کا قدرے بڑا دروازہ تھا۔ اس مکان کے سامنے ایک کشادہ گراؤنڈ میدان تھا۔ اس میدان کے شمالی گوشے میں مسجد تھی، جس کے دو مینار تھے جن پر ملتانی طرز کی کاش کاری تھی اور دیکھنے میں بہت بھلے لگتے تھے۔ مسجد کا دروازہ جنوب کی طرف یعنی میدان میں کھلتا تھا۔ اس دروازے کے بالکل سامنے ایک کنواں تھا جس کا محیط عمومی کنوؤں سے تقریباً ڈیڑھ دو گنا تھا ۔ یہی وہ کنواں تھا جس میں دُور ہٹ چلتے تھے اور کہتے ہیں کہ اس کنویں کی نسبت سے دور نئے کا نام پہلے دور ہٹہ پڑا اور پھر دور نہ ہو گیا۔ مسجد کے پہلو اور کاموں خان کے گھر کے سامنے اس میدان کے جنوبی سرے پر گائے بھینسوں کا ایک چھپر نما باڑہ بنا ہوا تھا۔ اس لیے چھپر کے دونوں سروں یعنی مشرقی طرف سے بھی اور مغربی طرف سے بھی کشادہ سا راستہ چھٹا ہوا تھا۔ دوسری طرف کھیت تھے اور کھیتوں کے درمیان پگڈنڈیاں دور تک جاتی دکھائی دیتی تھیں۔ جس زمانے میں میں نے دور ہٹ والا کنواں دیکھا اس وقت یہ کنواں بند ہو چکا تھا۔

اس کے گردا گر دا ایک چھوٹی سی دیوار چین دی گئی تھی ۔ اندر جھانکنے پر بساند زدہ پانی اور پانی میں تیرتے ہوئے بوسیدہ کا غذ اور تنکے دکھائی دیتے تھے۔ مسجد کے جنوبی طرف سے ایک گلی شمال کی طرف مڑ جاتی تھی۔ دائیں ہاتھ پہلا مکان دوسرا امکان محبت خان کا تھا۔ یہ میرے نانا جی تھی۔ تیسرا امکان غنی خان ، رحمت اللہ خان اور سوندھے خان کا تھا۔ اس سے آگے ایک مکان تھا جس میں کوئی شاہ صاحب رہا کرتے تھے ۔ یہ تعویذ گنڈے دیا کرتے اور جھاڑ پھونک کیا کرتے تھے۔ مکان کے مرکزی دروازے پر ایک چھپر پڑا ہوا تھا۔ عموماً د ہیں ایک چار پائی پر بیٹھے ہوتے تھے۔ یہاں سے گلی شمال کی طرف قدرے تنگ ہو کر آگے بڑھتی تھی اور ایک گلی مغرب کی طرف مڑ جاتی تھی۔ شاہ صاحب کے مکان کے بالکل سامنے گلی کی دوسری طرف کونے پر ایک مکان جانے کب سے ویران پڑا تھا۔ اس مکان کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ آسیب زدہ ہے۔ میں اپنے ساتھی لڑکے بالوں کے ہمراہ کئی مرتبہ دیوار پھلانگ کے اندر گیا۔ مگر ہمیں وہاں کوئی بھوت نہیں ملا۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ شاہ جی کے مکان کے سامنے پہنچ کر گلی میں چوک بن جاتا تھا۔ ایک گلی سیدھی شمال میں جارہی تھی اور گلی شاہ جی کے مکان کے سامنے مغرب کی سمت مڑ جاتی تھی۔ شمالی طرف گلی کا داخل حصہ تنگ تھا مگر اندر جا کر بائیں طرف تین مکان تھے۔ یہ مکان قدرے چھوٹے چھوٹے تھے۔ آگے پیچھے دو کرے اور دو چار چار پائیوں کا صحن اور دائیں طرف قدرے اونچا ایک کھلا سا حصہ جس میں جلانے والی لکڑیوں اور چھڑیوں کا ڈھیر پڑا رہتا تھا۔

ان تین مکانوں میں آخری مکان میرے ماموں رشید خان کا تھا۔ اس سے پہلے کے مکان میں ایک صاحب رہتے تھے جنھیں ذیلدار کہتے تھے۔ یہیں گلی میں اندر جا کر برکت خان کا مکان تھا، جس میں اس زمانے میں ان کے بیٹے عثمان خان اور کلام خان رہتے تھے۔ ادھر شاہ جی کے مکان کے سامنے مغربی سمت میں جانے والی گلی مائی غفوری ( جورشتے میں میری نانی تھیں ) کا مکان اور دکان آجاتے تھے۔ نانی غفوری کی دکان کے سامنے سے ایک گلی شمال کی طرف جاتی تھی ۔ اس گلی میں آگے جا کر دائیں طرف ایک مندر تھا۔ مندر کے دروازے پر تالہ پڑا رہتا تھا۔ ہم دروازے کی جھریوں میں سے جھانک کر اندر پڑے بتوں کو دیکھنے کی کوشش کیا کرتے تھے اور خاص طرح کا خوف بھی محسوس کرتے تھے۔ اس سے قدرے آگے بائیں طرف پانچ چھے دکا نہیں تھیں۔ ان کے دروازے ہمیشہ ہندی پڑے رہتے تھے۔ شاید قیام پاکستان سے پہلے یہ بستی کا بازار تھا۔ ان دکانوں کے سامنے ایک چبوترہ تھڑا بنا ہوا تھا۔ جہاں بھی بھی کچھ لوگ بیٹھے خوش گیوں میں مصروف ہوتے۔ یہ گلی قدرے کشادہ تھی اور شمال کی طرف کھیتوں کی طرف جا نکلتی تھی، جہاں ایک کچا راستہ شرقا غربا موجود تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ جرنیل سڑک تھی۔ اب یہاں ایک بل کھاتی پختہ سڑک موجود ہے۔ سڑک سے پہلے گلی کے آخری ہرے پر ڈا کٹر دین محمد درانی کا بڑا سا احاطہ تھا۔ ان کا گھر اس احاطے میں اندر کہیں تھا۔ اس احاطے سے قدرے پہلے ضابطہ خان کا گھر تھا ، جن کی اولادیں ابھی یہیں رہتی ہیں۔ ضابطہ خان کے دو بیٹے فیض اللہ خان اور سیف اللہ خان لیہ شہر میں اُٹھے آئے ہیں۔

اس گلی کے آخری حصے اور ضابطہ خان کے گھر کے سامنے کھیت تھے اور کھیتوں سے پہلے ایک راستہ مغرب کی سمت آتا تھا۔ گویا یہ دور ی ہستی کا شالی سمت میں آخری راستہ تھا۔ چکر کاٹ کر آتے تو بستی کے مشرقی کونے کی میں خوشیانائی کا گھر تھا جس میں پیپل کا ایک بڑا درخت موجود تھا۔ یہیں پہلو سے گزر کر بستی میں داخل ہوتے تو سامنے رمضان خان کاگھر تھا جن کا بیٹا اسلام خان ہمارا ہمجولی تھا۔ اندر اظفر خان کا گھر تھا جن کے بیٹے ابھی بھی انہی گلیوں میں رہتے ہیں۔ بستی کے جنوبی حصے میں گاموں خان کے گھر کے سامنے کھڑے ہوں تو جنوب کی سمت گلی کے سرے پر کھیت تھے۔ ان کھیتوں کے بیچوں بیچ ایک پگڈنڈی آگے جاتی تھی ۔ کھیتوں سے گزرتے ہوئے کچھ آگے جا کر ایک مندر تھا جس کا گنبد مجھے اس بچپنے میں بہت بلند محسوس ہوتا تھا۔ یہ مندر جہاں تک مجھے یاد ہے اندر سے سیاہ رنگ کا تھا، مجھے بہت بعد میں پتا چلا کہ یہ ہندوؤں کا شمشان گھاٹ تھا۔ بعد ازاں اسے گرا دیا گیا تھا۔ کہانیاں یہ بھی تھیں کہ جن لوگوں نے اس مندر کو گرایا تھا ان کو بد قسمتی نے گھیر لیا تھا۔ ان کے گھروں کے کئی افراد مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر یکے بعد دیگرے فوت ہو گئے تھے۔ ضعیف الاعتقادی کے حوالے سے یہ باتیں ہمیشہ سے ہمارے ہاں موجود رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں کوئی حقیقت نہ تھی مگر بچپن میں یہ باتیں سن کر خوف کی ایک لہر دل میں دوڑ جایا کرتی تھی۔

گاموں خان کے گھر کے عقبی طرف چندا یکڑ کے فاصلے پر ایک گہرا جو ہڑ تھا، جس میں خاص پودے جنھیں "کان” کہتے تھے۔ آگے ہوتے تھے ان پودوں کے جو ہر کے بیشتر کناروں کو ڈھکا ہوتا تھا۔ اس کے موٹے موٹے سے نکلتے اور جب یہ پک کر پھوٹتے تو روئی کے گالوں کی طرح ہر طرف اُڑا کرتے تھے۔ اسی جو ہر میں مرغابیاں بھی ہوتی تھیں۔ بستی کے کئی لوگ لپائی ہوتائی کے لیے مٹی اس جو ہر سے لیتے تھے۔ ادھر شمال میں اللہ داد خان درانی کا گھر تھا۔ میں صرف ایک مرتبہ اس گھر کے بڑے دروازے سے اندر داخل ہوا تھا۔ داخل ہوتے ہی بائیں طرف (مغربی سمت میں) ایک بڑا سا ہال نما کمرہ تھا جس کے فرش میں مناسب مناسب فاصلے پر گول گول کنڈیاں بنی ہوئی تھیں۔ اللہ داد خان کا ایک ہی بیٹا تھا۔ فرید خان درانی ، جب کہ ان کے برادر نسبتی خدا بخش خان نمبردار تھے جو ان کے ساتھ رہتے تھے ۔ خدا بخش خان نمبردار کے بیٹے جمشید خان درانی ، اقبال خان درانی، جاوید خان درانی اور خورشید خان درانی تھے ۔ خورشید خان درانی بعد میں لیکچرر اردو ہوئے اور کچھ عرصہ پہلے بطور پروفیسر اپنے فرائض منصبی سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ ان سب لوگوں سے میرا محبت کا ایک رشتہ ساری عمر سے قائم ہے۔

پروفیسر خورشید خان درانی صاحب نے بتلایا کہ قیام پاکستان سے پہلے دور ٹہ میں نسوار کا کاروبار کرنے والے شخص کا نام نجھ راج تھا۔ نبھ راج بھلے آدمی تھے۔ خدا بخش خان ، گاموں خان اور فقیر و موچی کے ساتھ ان کے دوستی تھی۔ ہجرت کرنے کے بعد بھی ان کے خطوط آتے رہے ۔ ۱۹۶۲ء کے لگ بھگ موصوف ایک مرتبہ دور نہ آئے تھے اور اپنے گھر کو دیکھ کر بے حد دکھی ہوتے تھے۔ خدا بخش خان نمبردار کے بیٹوں کے ساتھ میرے ماموؤں کی دوستی تھی۔ میرے ماموں رشید خان ،شفیق خان، امیر خان اور عزیز خان تھے ۔شفیق خان زیادہ باری باش تھے۔ ادھر جمشید خان درانی بھی دوستی نبھانا جانتے تھے۔ سو یہ سب لوگ ہمارے بزرگوں کی حیثیت رکھتے تھے اور میں انھیں ماموں ہی کیا کرتا تھا۔

یادش بخیر، یہ ساٹھ کی دہائی تھی ۔ پوری بستی میں لوگ سر پر سفید پگڑی باندھتے تھے۔ کسی بزرگ کا نگے سر ہونا مجھے یاد نہیں۔ لباس عموماً سفید تہجد اور سفید کرتا ، جو تا عموم دیسی جسے ” کنالی جتی” کہا جاتا تھا۔ انگریزی جو تا کسی خاص موقع پر پہنا جاتا تھا۔ غمی خوشی کے سارے مواقع پر پوری بستی کے لوگ اکٹھتے ہوتے تھے۔ دوستیوں میں فرق تفریق نہیں تھی ۔ اس کی ایک مثال غلام رسول نگیڑا اور جمشید خان درانی تھی۔ ہجرت کر کے آنے والے گھرانوں کے نو جوانوں سے ان کی دوستیاں تھیں ۔ آنے والے اکثریت میں تھے ، ہریانوی بولتے تھے ۔ غلام رسول نگیڑا جس روانی سے ہریانوی بولتا تھا حیرت ہوتی تھی۔ باہمی محبت اور رواداریوں کا جو مظاہرہ اس بستی میں موجود تھا وہ قابل رشک تھا۔ تمدنی اعتبار سے وہ زمانہ بڑا عجیب سا تھا۔ گھروں میں واش روم یا باتھ روم نہیں ہوتے تھے۔ مردوزن حوائج ضروریہ کے لیے یا تو کھیتوں کا رُخ کرتے تھے یا کچھ گھروں کے ساتھ بڑے بڑے خالی احاطے تھے جن میں جھاڑ جھنکارا گا رہتا تھا۔ یہی احاطے حوائج ضروریہ کے لیے استعمال ہوتے تھے ۔

اکثر گھروں میں پانی کے نلکے نہیں تھے صرف چند گھروں میں نکے نظر آتے تھے ۔ سبھی گھروں میں پانی کے گھڑے بھر کر رکھے جاتے تھے۔ ہرگھر میں ایک گھڑونچی ضرور ہوتی تھی ، جس پر چار پانچ گھڑے دھرے رہتے تھے۔ بجلی نہیں تھی، روشنی کے لیے مٹی کے تیل کے دیئے بالائین جلائی جاتی تھی۔ کھانا پکانے اور دودھ وغیرہ گرم کرنے کے لیے ہے اور ہرقسم کی لکڑی جلائی جاتی تھی ۔ جلانے میں استعمال ہونے والی لکڑی خریدی نہیں جاتی تھی بلکہ آس پاس کے کھیتوں سے کاٹ کر لائی جاتی تھی ۔ دودھ بچھانہیں جاتا تھا، بلکی ضرورت کے وقت کسی سے مانگ لیا اور دے دیا جاتا تھا۔

آج وہ ہستی اور اس بستی کی روایات کہیں کھو گئی ہیں۔ نہ وہ ٹو بہ (جوہر) ہے نہ دور نے کی نشانی وہ دور بٹہ کنواں ہے۔ اکثر گھر ویران اور خالی ہو چکے ہیں۔ یہاں کے بیشتر لوگ یہ شہر یا اردگر داپنے رقبوں پر منتقل ہو چکے ہیں۔ میرے من میں جھکتی دہ بستی کہیں گم ہو چکی ہے۔ باہمی اختلافات اور کدورتیں عام ہیں۔ ان کدورتوں نے بستی کو ویران کر دیا ہے۔ آج ۲۰۱۹ ء ہے۔ میرے خوابوں میں ساٹھ کی دہائی والی بستی ہلکورے لیتی ہے۔ بستی کے پرانے مکینوں میں سے بہت سے لوگ منوں مٹی کے نیچے جا سوئے ، جو باقی ہیں وہ عمر رسیدگی کا دُکھ سہہ رہے ہیں اور نئے زمانے کے چلن کا ساتھ دیتے دیتے ہانپ گئے ہیں۔ کل بستی اُجڑی تھی ، یہ ۱۹۴۷ء تھا۔ آج بستی ویران ہے مگر کیوں ؟ میں اور میرے خواب اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے قاصر ہیں۔

 

نوٹ:یہ مضمون گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے (تھل کالج میگزین) سے لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com