ادبلیہ کا ادب

ظفر عالم ظفری کی آپ بیتی

ڈاکٹر گل عباس اعوان
زندگی ایک ایسی شمع کی مانند ہے جو دونوں سروں سے جلتی ہے لہذا کائنات کے مقابل یہ بہت کم عرصہ قائم رہ پاتی ہے زندگی جلد ختم ہوجاتی ہے مگر وہ شمع جس کے خمیر میں محبت،علم، عمل اور انسان دوستی کی روشنی ہو وہ ابدیت سے ہم کنار ہو جاتی ہے۔
ٍٍ بعض لوگوں کو زندگی جبر مسلسل کی طرح گزارنی پڑ جاتی ہے لہذا کامیاب زندگی گزارنا ایک آرٹ ہے مگر مشکل آرٹ۔مگر جب اس زندگی کی روداد خود ہی لکھنی پڑجائے تو بقول ڈاکٹر غفور شاہ قاسم تو یہ کام ”ایک مشکل آرٹ ہی نہیں بلکہ فائن آرٹ بھی ہے“۔آپ بیتی اس لئے فائن آرٹ اور ادب ہے کہ اس میں انسانی محسوسات کا مطالعہ کیا جاتا ہے مصنف اپنی زندگی کی ”گزران“اپنے نقطہ نگاہ سے کررہا ہوتا ہے ہمیں صاحب کتاب کا نفسیاتی مطالعہ بھی کرنے کو ملتا ہے۔
مصنف اگر سرکاری ملازم ہے تو وہ ساری مصلحتوں اور پابندیوں سے آزاد ہو چکا ہوتا ہے۔وہ جہاں بچھڑے ہوئے ماہ و سال کو یاد کرکے اداس ہوجاتا ہے وہاں وہ ان واقعات کو احاطہئ تحریر میں لاکر انہیں ایک نئی زندگی عطا کرتا ہے۔قدم قدم پر بکھرے اس کے مشاہدات نئے لوگوں کے لیے مشعل راہ ہوتے ہیں یوں میرے نزدیک آپ بیتی ایک ایسی دستاویز ہے جو آنے والی نئی نسلوں کی راہنمائی کرتی ہے۔آتش نے ایک عرصہ پہلے فرمایا کہ
تھکیں جو پاؤں تو چل سر کے بل نہ ٹھہر آتش
گل مراد ہے منزل میں خار راہ میں ہے
حقیقت بھی یہی ہے کہ ”گل مراد“وہی حاصل کر سکتے ہیں جو خار راہ کو کچلتے ہوئے گزر جاتے ہیں جن کے پاؤں تھکیں تو وہ سر کے بل چلنا شروع کردیتے ہیں۔ڈاکٹر ظفر عالم ظفری اس کی زندہ مثال ہیں۔
1950کے عشرے میں جنم لینے والی یہ عظیم ہستی اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے تک کے حالات اپنی کتاب”تھکیں جو پاؤں“ میں بیان کر رہی ہے۔اس کتاب کو بیکن بکس ملتان نے 2016ء میں شائع کیا ہے۔کتاب سے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر ظفر عالم ظفری 12دسمبر 1952ء میں کوٹ ادو میں پیدا ہوئے اور ساٹھ سال کی عمر میں 14دسمبر 2012ء کو چیئرمین انٹرمیڈیٹ بورڈ ڈیرہ غازیخان ریٹائرڈ ہوئے۔
“تھکیں جو پاؤں“ڈاکٹر ظفر عالم ظفری کی وہ کثیرالجہتی آپ بیتی ہے جس میں بیک وقت خاکہ نگاری کے نمونے بھی ہیں اور تاریخ نگاری کے بھی، اس میں قصہ گو کے قصے بھی ہیں اور دانشور کے مشاہدات بھی۔بی بی غفوری جوان کی والد ہ محترمہ تھیں ان کے بارے میں لکھتے ہوئے ان کے قلم سے تقدیس اور احترام کے لفظ خود بخود تخلیق ہوتے چلے جاتے ہیں۔
”اماں جی انتہائی حوصلے والی اور بہادر خاتون تھیں ابا جان کی وفات کے بعد اس نے بڑے سے شٹل کاک برقعے میں ہم پانچوں بھائی کو چھپا لیا تھا وہ کہا کرتی تھیں کہ میں اگر انہیں برقعے میں نہ چھپاتی تو معلوم نہیں یہ دو قت کی روٹی کے لیے کہاں کہاں ٹھوکریں کھاتے اور کن کن کے محتاج ہوتے“(ص۔11)
بی بی غفوری کی شفقت نے ڈاکٹر ظفر عالم ظفری کے گرد محبتوں کا ایک ہالہ قائم کیا ہوا ہے بی بی غفوری وہ مرکزی نقطہ ہے جس کے گرد ظفری صاحب کی ساری زندگی گھومتی ہے اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
”جب وہ میرے کاندھے سے لٹکا کتابوں کا بوجھ اتار کر سیدھا نلکے پر لے جاتی ہاتھ،منہ دھلاتی اور پھر چولہے کے ساتھ بٹھا کر گرم گرم روٹی پکا کر کھلاتی۔مجھے وہ لمحات بھی یاد ہیں جب میں یونیورسٹی سے ملنے آتا تو مجھے گلے لگا کر روتی تھی مجھے نہیں معلوم کہ اسے یہ خوف کیوں پیدا ہوگیا تھا کہ ظفری ان سے دور ہو کر کہیں کھوجائے گا“(س۔98)
بی بی غفوری کی صرف شفقت ہی نہیں تھی بلکہ یہ ان کی مخلصانہ اور بے لوث دعائیں تھیں جنہوں نے ظفری صاحب اور ان کے دوسرے چار بھائیوں کو زندگی میں اعلیٰ مقامات سے نوازا یہی وجہ ہے کہ ظفری صاحب ہر محفل میں دوسروں کو یہی تلقین کرتے ہیں کہ اگر اللہ کو راضی کرنا چاہتے ہوتو ماں کو راضی کر لو دنیا میں اگر کہیں رکاوٹ آ جائے تو اماں کو کہو کہ اللہ سے ہم کلام ہو پھر دیکھو کیسے کام بنتے ہیں“
یہ آپ بیتی ایک تاریخی دستاویز بھی ہے جس میں جگہ جگہ تاریخی واقعات ایک تسلسل سے بیان کیے گئے ہیں یوں لگتا ہے کہ ظفری صاحب ان واقعات کو کہیں ڈائری میں تحریر کرتے رہے ہیں۔
”حویلیاں سے گلگت تک ہر اٹھنے والا قدم بلندی پر جاتا ہے۔پتھروں میں بڑے بڑے سوراخ کر کے ان میں بارود بھراجاتا پھر ایک لمبی رسی بارود میں اتاری جاتی تھی اور اسی کے دوسرے سرے پرآگ لگادی جاتی زوردار دھماکے سے پہاڑ زمین پر گر جاتا تھا دنیا کا یہ آٹھواں بڑا عجوبہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے“(س۔35)
ظفری صاحب ایک عرصہ تک پریوں کے دیس رہے مگر کوئی پری شاید اپنی طرف متوجہ نہ کرسکی یا شاید یہ اپنی تعلیمی مشن میں اتنے مگن رہے کہ انہیں کوئی کوہ قاف اور کسی کوہ قاف کی پریاں گھائل نہیں کرسکیں وہ حقیقی زندگی کے ساتھ بھرپور انداز میں جڑے رہے زندگی سے مردانہ وار مقابلہ کس طرح کیا جاتا ہے اس کا درس کتاب کے کئی صفحات میں پھیلا ہوا ہے۔ظفری صاحب بتاتے ہیں کہ انسان کو محو سفر رہنا چاہیے مسافر نواز بہتیرے ملتے رہیں گے ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔کرنل انور صاحب کی انسان دوستی کا لکھتے ہیں کہ
”کرنل انور خان طلباء کے لیے بڑے شفیق تھے اگر کسی طالب علم کے کپڑے بوسیدہ پا پھٹے دیکھتے تو اکثر اپنی جیب سے یا کالج کے کسی فنڈسے اسے کپڑے دلواتے اکثر اوقات سٹاف ممبر کہتے آؤ کرنل صاحب سے چائے پیتے ہیں ہم چلے جاتے کرنل صاحب بغیر تقاضے کے چپراسی کو چائے لانے کاکہتے“(ص۔49)
جب ہم مشرق و مغرب کے معاشروں کا موازنہ کرتے ہیں تو ہمیں مغربی معاشرے کسی حد تک پر سکون دکھائی دیتے ہیں وہاں دھماکے نہیں ہوتے ایک دوسرے پر کفر کے فتوے صادر نہیں کیے جاتے ڈاکٹر ظفر عالم ظفری یہاں کی بے چینی کی وجہ جذباتیت کو قرار دیتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اہل مشرق ہر معاملہ میں خوامخواہ جذباتی ہو جاتے ہیں لہذا ہمارے فیصلے غیر منطقی ہوجاتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ:۔
”عصر حاضر کا مسلمان مسجد میں ہونے یا اپنے نام سے پہچانا جاتا ہے کہ مسلمان ہے،ورنہ معاشرے میں اس کا اسلوب حیات یہ ظاہر نہیں کرتا کہ یہ کلمہ گو اور اسوہ رسول ﷺپر چلنے والا انسان ہے۔۔۔ بہت کم ٹیچر ایسے ملیں گے جو اپنے شاگرد کے لیے ماڈل بنتے ہوں میں ذاتی طور پر اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ عزت و وقار اعلیٰ کردار کی وجہ سے ہے“(ص۔124)
جذباتی اور خصوصاً مذہبی معاملات میں جذباتی ہونے کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ انہوں نے امام کعبہ کو سعودی عرب میں پولیس کے ہمراہ سڑک پر چلتے ہوئے دیکھا ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے ایک عالم سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ
”پاکستان اور ہندوستان کے حجاج کرام عشق و مستی میں سب کچھ بھول جاتے ہیں اگر امام کعبہ کو یوں نگرانی میں نہ رکھا جائے تو لوگ ان کے ہاتھ چومتے چومتے نہ صرف کپڑے پھاڑ دیں گے بلکہ جان بھی لے لیں گے۔(ص۔135)
محکمہ تعلیم کی غیر منطقی سوچ پر تبصرہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ محکمہ تعلیم کالجز میں ضلعی آفیسر کو ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز کہا جاتا ہے جو کالجز کا ضلعی نمائندہ ہوتا ہے اور 18ویں سکیل کا آفیسر ہوتا ہے جبکہ اس کے ماتحت کام کرنے والے پرنسپل صاحبان میں سے اکثر پرنسپل گریڈ20یا گریڈ19میں کام کررہے ہوتے ہیں (ص۔84)یقینا جونیئر گریڈ میں کام کرنے والا ضلعی آفیسر اپنے ماتحت مگر گریڈ میں زیادہ شخص سے کام لینے میں یقینا مشکلات کا سامنا کرتا ہو گا۔
اسی طرح اس کتاب میں ایک اچھے منتظم کی خوبیاں کردار سازی کی اہمیت اور باادب بانصیب لوگوں کے واقعے بیان کیے گئے ہیں میری گزارش ہے کہ اسی کتاب کو حکومت پاکستان ملک بھر کی لائبریریوں کے لیے منظور کرے تاکہ نسل نو اس سے بھرپور طور پر مستفید ہو سکے۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com