روز اول سے آج تک بلاشبہ لاکھوں کتابیں لکھی گئی ہوں گی لیکن جب تخلیقی ادب کا جائزہ لیا جائے کہ دائی وقعت کی حامل کتنی تخلیقات منظر عام پر آئیں تو اس کا جواب زیادہ حوصلہ افزا نہیں، زیادہ دُور نہ جائیں، قیام پاکستان کے ہی وقت کے کئی معروف تخلیق کار محقق اور شعراء و ادباء کے فن پارے آج کہاں ہیں؟ اسی طرح مستقبل کے حوالے سے آج کے موجودہ ناموں اوران کی تخلیقات کے مقام ومرتے کا حتمی تعین کیسے کیا جاسکتا ہے؟ کتنی تخلیقی کاوشیں گم نام ہوں گی اور کتے ادب پارے آئندہ کے لیے چراغ منزل ثابت ہوں گے؟ یہ قسمت کی بات نہیں بلکہ تخلیقی اہلیت کا کرشمہ ہوگا۔ تحقیق، علوم وفنون کی ارتقاء کا بنیادی ذریعہ ہے، جس کے سبب ہم جہاں مختلف افکار ونظریات سے آگاہ ہوتے ہیں ہاں قدیم علمی وادبی سرمایہ اس کی دریافت بمحاسن اور معائب سے بھی باخبر ہوتے ہیں۔ پروفیسر ریاض راہی نے اپنی کتاب ڈاکٹر خیال امروہوی ، شخصیت اور شاعری لکھ کر خیال جیسے عظیم شاعر کی سوانح ، فکر اور فن کے مختلف گوشوں کو بہ انداز احسن، قارئین ادب کے سامنے پیش کیا ہے جس میں خیال کی سوانح ، غزل ، نظم ، نعت ، منقبت اور فارسی شاعری پر نہایت مدلل بحث کی گئی ہے۔ ایم ۔ اے کی سطح کے اس مقالے کا اسلوب نہایت شفاف سنجیدہ اور بلیغ ہے۔
زبان و بیان میں جہاں ایک ادبی شان پائی جاتی ہے، وہاں اسلوب میں تحقیقی رکھ رکھاؤ بھی پوری آن بان کے ساتھ کارفرما ہے۔ ڈاکٹر خیال کے سوانحی حالات نہایت جزئیات اورتفصیل کے ساتھ درج ہیں، جو پروفیسر ریاض راہی اور ڈاکٹر خیال کے ذاتی تعلق اور قربت کا نتیجہ ہے اور نہ اس سے قبل ہمارے ادبی سرمائے میں قد آور علم و ادبی شخصیات کی بابت ضعیف روایات کی چنداں کمی نہیں، چونکہ مصنف کو ڈاکٹر صاحب کی صحبت میسر رہی اسی لیے کتاب کے تمام مندرجات میں ایک اعتماد نظر آتا ہے۔ مصنف تحقیق کی دشوارگزاریوں کے مستعد راہی ہیں، انھوں نے اس مقالہ میں تحقیق کے جملہ قواعد کی نہایت اہتمام کے ساتھ پاسداری کی ہے، کتاب میں مذکورہ تمام علاقوں کے عمرانی حالات کا بھی مختصر جائزہ لے کر ، قارئین میں کسی تم
کی تشنگی کو باقی نہیں رہنے دیا۔
مصنف نے خیال کی طبیعت میں انقلابیت اور ذہن میں بغاوت کے اسباب کا نہایت عمیق نظری سے مطالعہ کیا ہے۔ بلاشبہ انسان ایک فطرت پسند تخلیقی شاہکار ہے، جب اس کے ذوق تسکین پر ضرب لگے تو یہ خا کی پیکر ، جمادات کی طرح ساکن اور جامد نہیں رہتا بلکہ تقاضائے شرف انسانی اور شعور خودی کے سبب صدائے احتجاج بلند کرتا ہے۔ اسی انسانی فضیلت کے تناظر میں خیال کی حساس طبع کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ خیال کی زندگی کے اوائل ایام کی فارغ البالی اور ایام اواخر کی بدحالی اور تنگ دستی پر بات کرتے ہوئے ، مصنف نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہی وہ اسباب تھے جن کے باعث خیال کی شاعری میں تلخی کرختگی اور احتجاج نمایاں ہے۔ کسی بھی تخلیق کار کی تخلیقات کو عمرانی تناظر کے پیمانے میں رکھے بغیر نہیں پر کھا جا سکتا۔ مصنف نے اُن تمام عمرانی عوامل کی نشاندہی کی ہے جو شعر خیال پر اثر انداز ہوئے اور وہ عقیدہ پرست سے حقیقت پسند بنے۔ عمرانی حالات کے ساتھ ساتھ صحبت کا فیض اثر بھی تخیل کو تہ و بالا کرتا ہے۔ مصنف نے اس ضمن میں خیال کی فکر پر نمایاں حیثیت سے اثر انداز ہونے والے شعراء اور ادباء کا ذکر بھی کیا ہے، جن کی صحبت ، خیال کو میسر رہی ۔
کتاب کے اسلوب میں تحقیقی وقار اور ادبی چاشنی باہم شیر وشکر ہیں۔ مقالے کی ایک خوب صورتی یہ بھی ہے کہ شاگرد نے اپنے اُستاد کو انسانی سطح پر دکھایا ہے، ان کے تمام محاسن و معذورات کا درجہ بہ درجہ ذکر کیا ہے۔ مصنف اور خیال صاحب کا شاگرد اور اُستاد کا رشتہ ہے عموماً ایسے تعلقات ضرورت سے زیادہ مدح اور تقدس کا شکار ہو کر انسانی سطح سے مافوق مقام کی جانب نکل جاتے ہیں جس سے تحقیق کا غیر جانب دار عمل ایک خاص مقدس بیانیے کا اسیر ہو کر تحقیقی سطح سے گر جاتا ہے، مگر مصنف نے جس اعتدال اور غیر جانب داری سے خیال کی ذاتی زندگی کا محاکمہ پیش کیا ہے وہ تحقیق کے اصل الاصول سے عین موافق ہے۔
غزل کے باب میں غزل کی مختصر تاریخ بیان کرنے کے بعد ڈاکٹر خیال امروہوی کی غزل میں سماجی اضمحلال اور طبقاتی در دو ملال کی نشاندہی کی گئی ہے۔ خیال کی غزل کے حوالے سے مصنف نے اُن کے اشعار کا برمحل انتخاب پیش کرتے ہوئے اُن کے شعور کے ارتقاء کی تمام منزلوں کو درجہ بہ درجہ بیان کیا ہے۔ خیال کے غزلیہ اشعار سے اُن کی تشکیک اور تیقن کی ملی جلی کیفیات کو کھنگالنے کی کوشش کی گئی ہے اور عقل و عشق کے باب میں خیال کے متضاد نظریات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ واضح کیا گیا ہے کہ خیال کا تصور حیات حرکی Dynamic ہے۔
ڈاکٹر خیال کی غزلیہ شاعری میں ہنگامہ آرائی، فنا پذیری، انتقام پسندی، فکری یکسانیت، مردم بیزاری اور رجائیت پسندی جیسے خصائص کو مصنف نے مدلل انداز میں نشان زد کیا ہے، انھوں نے خیال کی پرواز تخیل کا، ماقبل عظیم شعراء کی فکر سے تقابل کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ خیال بھی غالب اور اقبال ک مانند انفرادی اور اختراعی مسیح کا شاعر ہے۔ مغربی فلاسفر نیٹشے کے فوق البشر اور خیال کے آئیڈیل انسان کا موازنہ کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ نیٹشے کا سپر مین قوت و اقتدار کا حریص اور صرف جرمن قوم کی عظمت کا خواستگار ہے جب کہ خیال کا آئیڈیل انسان کسی سرمایہ دار طبقے تک محدود نہیں وہ احترام انسانیت سے سرشمار اور تکبر و نخوت سے دُور ہے اور مذہبی ولسانی گروہ بندیوں سے ماورا ہے۔ مصنف نے اُردو غزل کے خصائص، محاسن اور کاملیت پر بھی بات کی ہے۔ اُردو کے معروف ناقدین مثلا مولانا حالی کے، شاعری کے بارے میں بیان کردہ فنی فرائض کو بھی پیش کیا ہے اور خیال کی شاعری میں ترقی پسندوں کے برعکس نگر فن دونوں کو یکساں اہمیت کے رویے کی نشاندہی کی ہے۔ مصنف ریاض راہی کے نزدیک ، ڈاکٹر خیال نے قدیم انسانی ذخیرے کو نئے انداز اور جدید فکر کی تکنیک میں پیش کیا ہے۔
خیال کی نظموں میں سے لیفن سحر لا زوال برٹرینڈ رسل اور عظیم المرتبت جوش میں شاعر کے انقلابی دانش وروں ،بین ، ماؤزے تنگ برٹینڈ رسل اور جوش کے لیے پسندیدگی کش اور قبولیت کی معاشرتی اورسماجی وجوہات کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنف نے واضح کیا ہے کہ خیال کے متاثر ہونے کی وجہ ان شخصیات کے نظریات میں احترام انسانیت کا پرچار ہے اور ڈاکٹر خیال کے اسلوب پر جوش کی بلند بانگی کی چھاپ کا سبب بھی یہی ہے۔ خیال کے طبقاتی اور سماجی شعور کے بارے، ان کی مسدسات کا ذکر کرتے ہوئے مصنف کہتے ہیں: ڈاکٹر خیال امروہوی نے نقاد کے علاوہ جراح بن کر اپنے نشتر یخن سے معاشرے کے رستے ہوئے ناسوروں سے گندا خون نکالنے کی کوشش کی ہے۔“
ڈاکٹر خیال کی نعتیہ شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے مصنف نے یہ واضح کیا ہے کہ خیال ایک مسلمان ترقی پسند شاعر تھے جنھوں نے ترقی پسندانہ نظریات کے ساتھ ساتھ دین اسلام کے دامن کو بھی تھام رکھا تھا۔ مصنف نے خیال کے شاعرانہ انکسار کی بدولت بعض اوقات جوش محبت میں ناقابل فہم اور متنازعہ باتوں کو ایسا عقلی جواز بخشا ہے کہ اس شرح اور تو جیہات مبسوط کے بعد ڈاکٹر خیال کے وہ اشعار بھی قاری کے عقیدے اور عقیدت پر ناگوار نہیں گزرتے اس حوالے سے مصنف نے ایک منفردزاویہ نگہ سے تفہیم کی کامیاب کوشش کی ہے۔ نعت کی بحث میں مصنف نے امتناع نظیر خاتم النبین “ کے حوالے سے جہاں خیال کے نقطہ نظر کو واضح کیا، وہاں ضمنا اکابر علما کے نظریات و عقائد کو بھی مختصر پیش کر کے وحدت الوجود ، نبوت اور تصوف کی حقیقت کا نہایت استدلال کے ساتھ جائزہ لیا۔
خیال کی منقبت میں مصنف نے اُن کے غلو محض، تثلیث اور فکر کی بے اعتدالی کی طرف نہایت اخلاقی جرات کے ساتھ اشارہ کیا ہے۔ نیز خیال کی مذہبی شاعری میں کسی حد تک فکری تضادات اور ان کے اسباب کی بھی وضاحت کی ہے اس فکری اعتبار سے روایت کا تسلسل ہے۔ تناظر میں خیال کے دین اسلام کی جدید سائنسی تفہیمات کے دعاوی کی علمی وقت کچھ کم ہو جاتی ہے۔ خیال کی مذہبی شاعری خیال چونکہ زبان وادبیات فارسی کے ماہر استاد تھے۔ اسی لیے انھوں نے فارسی زبان میں طبع آزمائی کی ہے۔
مصنف نے ان کی فارسی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے ، خیال کا تصور زندگی، خیال کا خدا کے بارے میں تشلک و تجنس حسن و عشق کی کیفیات، انسان کی ناقدری کا احساس خود آگہی اور اثبات ذات کے عنوانات کے تحت بحث کی ہے۔ پروفیسر ریاض راہی کا یہ مقالہ کسی بھی شخصیت کے فنی ، فکری اور شخصی پہلوؤں پر ایک مکمل متوازن اور جامع تحقیق ہے، جسے آنے والے متقین کی تحقیقی راہ نمائی کے لیے ایک پیمانہ قراردے دیا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ آج جہاں مختلف جامعات میں لکھے گئے پی ایچ۔ ڈی کے مقالات کا پست تحقیقی معیار، روایتی جملوں کی جگالی اور سلسلہ در سلسلہ سرقہ نے شعبہ تحقیق کو داغ دار کیا ہے وہاں ایم ۔ اے کی سطح کے اس مقالے کا تحقیقی اسلوب اور تدقیقی معیار نہایت شان دار ہے۔ پروفیسر ریاض راہی نے اس مقالے میں اپنی محققانہ لیاقت کو جس طرح برتا ہے وہ تحقیق کے ضابطہ سے کسی طرح کوتاہ یا متجاوز نہیں ۔ ایم فل اور پی ایچ۔ ڈی کے سکالرز تھیں لکھنے سے قبل ایک مرتبہ یہ مقالہ ضرور دیکھیں بلکہ یہ کتاب ان فاضلین کے لیے بھی فیض سے خالی نہیں جو ایم فل کر پی ایچ۔ ڈی کا مقالہ لکھ کر مستند محقق کی سند پاچکے ہیں۔
نوٹ:یہ مضمون گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے (تھل کالج میگزین) سے لیا گیا ہے۔