لیہ کا ادب

لیہ: سرائیکی وسیب کی پہچان. ڈاکٹر گل عباس اعوان

تحقیقی ننقیدی اور شعری خدمات

علم وادب کے حوالے سے یہ مردم خیز خطہ رہا ہے۔ اس تناظر میں نابغہ ہستیوں کی فہرست تو بہت طویل ہے لیکن اس وقت راجہ عبداللہ نیاز ، ڈاکٹر مہر عبدالحق، ڈاکٹر خیال امروہوی ، نیم لیہ اور پروفیسر جعفر بلوچ کے نام میرے ذہن میں آرہے ہیں۔ موجودہ منظرنامے میں ڈاکٹر منزل حسین ، ڈاکٹر حمید اُلفت ملغانی اور ڈاکٹر گل عباس اعوان سرائیکی تحقیق و تنقید میں معتبر نام ہیں ۔ ڈاکٹر گل عباس اعوان کثیر الجہات شخصیات کا نام ہے۔ وہ نفیس مزاج اور لطیف احساسات رکھنے والے تخلیق کار ہیں اور ایک عرصے سے سرائیکی زبان و ادب کی خدمت کر رہے ہیں وہ بھی عبادت سمجھ کرے، اس لئے ڈاکٹر صاحب اور وسیب کی حیثیت روح اور جسم کی ہے۔ اُن کی چھ سرائیکی کتب موضوعات کے تناظر میں بڑی اہمیت کی حامل ہی نہیں بلکہ موصوف نے اپنی تخصیصی ،تحقیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر ماں بولی کا حق ادا کر دیا ہے۔
(1) اُن میں جدید سرائیکی شاعری تنقید اور تحقیق
(2) سرائیکی شاعری میں انساں دوستی
(3) سرائیکی ثقافت کے رنگ
(4) سوجھلا
(5) لوں لوں جاگہری تشس اور سو جھل خواب ہیں ۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ خاکسار طالب علم اور ڈاکٹر صاحب در یائے علم میں لکن اسے عبور کرنے کی ٹھان تولی ہے، خدا خیر کرے۔

(1) جدید سرائیکی شاعری:

اس کا تجزیہ کرنے سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب انگریزی ادبیات کا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں ۔ وجودیت کے حوالے سے کر کیگارڈ ہو یا سارتر ، ساختیات کا بانی سوئیسر ہو یا ٹرسن زارا کی ڈاڈا ازم یا آندرے کی سرو یلزم یا مارکسیزم ، ڈاکٹر صاحب کی ان تحریکات کے پس منظر اور پیش منظر پر کڑی نگاہ ہے ۔ اس لئے یہ کتاب فکر انگیز ہی نہیں بلکہ بصیرت افروز بھی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی کتاب سرائیکی تنقید وتحقیق میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔ مارکسی دانشورو اور جدید نقاد اسم رسولپوری کا جامع مضمون اس کتاب کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔ یہ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں ڈاکٹر صاحب نے تاریخی پس منظر میں جدیدیت اور اُس کے درج ذیل موضوعات (1) سماجی اقدار کی توڑ پھوڑ (2) متن سے معنی کی علیحدگی (3) انسان کی اپنے مستقبل سے مایوسی (4) انسان کی روحانی تنہائی (5) انسان کی تنہائی پسندی (6) انساں کی بے چینی (7) تاریخ کو مکمل طور پر بچ نہ سمجھنا (8) اُمید میں پوری نہ ہونے سے مایوسی (9) فرسودہ نظام سے دوری (10) روایتی خیالات اور روایتی اخلاقی نظام پر اعتراضات (11) مذہبی خیالات پر اعتراضات (12) اسطوری ماضی کے متبادل کی تلاش (13) دو عالمی جنگوں کے اسان پر اثرات کے تناظر میں جدیدیت کے علم برداروں ہیلین بیک ، ٹی ۔ ایس ایلیٹ ، فرائڈ، ہیگل تھیوڈور ایرانو کے افکار و نظریات سے جدیدیت کی تفہیم کی ہے اور اس کے اسلوب کی خصوصیات کا ذکر بھی کیا ہے، جدیدیت کی بحث کو سمیٹتے ہوئے دریا کو کوزے میں یوں بند کیا ہے کہ وہ ہرنی فکر، نیا اسلوب اور نئی ہیت اپنے عہد میں جدید ادب کی آئینہ داری کرتی ہیں۔“
دوسرے باب میں ڈاکٹر گل عباس نے جدید سرائیکی شاعری کے پس منظر میں اپنے پیرائے میں ایسی تلخ حقیقت کو اجا گر کیا ، جس کی تاریخ گواہ ہے، اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے جدید سرائیکی شاعری کا سہارا ڈاکٹر نصر اللہ خاں ناصر کے نہ صرف سر باندھا ہے بلکہ ڈاکٹر طاہر تونسوی اور دلشاد کلانچوی کی گراں قدر آراء سند کے طور پر پیش بھی کی ہیں۔ خرم بہاول پوری کو جدید غزل کا بانی قرار دیکر اُن کے دو اشعار بطور حوالہ بھی شامل کئے گئے ہیں۔ ایک شعر دیکھئے:

ہن کیکوں ہوش نمازاں دے
گٹھے پئے ہن یار دے نازاں دے

اس شعر میں کیا نئی فکر اور کیا نیا اسلوب ہے؟ یہ فیصلہ سخن فہم سخن شناس قارئین پر چھوڑتا ہوں ۔
البتہ حسن رضا گردیزی کی شاعری میں جدت ، ندرت اور مزاحمتی رویہ بھی ہے۔ ڈاکٹر صاحب.. رائے قائم کی ہے۔ خاکسار اس سے سو فیصد متفق ہے ، ڈاکٹر صاحب نے سچ بات کی ہے کہ اقبال سوکڑی کی ابتدائی شاعری میں روایتی پن نظر آتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ موجودہ عہد کی شاعری میں رُوح عصر بولتی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے نقوی احمد پوری کے جن اشعار کا حوالہ دیا ہے اُن میں فکری پختگی ، طنز اور رجائیت نمایاں ہے۔ ڈاکٹر خیال امروہوی مارکسی دانشور اور انقلابی شاعر تھے اُن کے فلسفیانہ افکار نظریات سے نئی نسل نے خوب استفادہ کیا، نیم لیہ ہوں یا نا در قیصرانی بالغ نظر شاعر تھے ۔ ڈاکٹر صاحب نے امان اللہ کاظم کا جوشعر نقل کیا ہے وہ طبقاتی زندگی کا آئینہ دار ہے ۔ تیسرے باب میں جدید سرائیکی شاعری کے موضوعات اور پس جدیدیت جسے ڈاکٹر صاحب نے جدید تر کا نام دیا ہے تا کہ قاری ابہام کا شکار نہ ہو، اور نو کے قریب جدید تر کے رجحانات کا ذکر بھی کیا ہے تا کہ جدید سرائیکی شاعری کو سمجھنے میں مددل سکے۔ پھر آزاد نظم کی وضاحت کے لئے ڈاکٹر حمید الفت ملغانی اور محمد اسماعیل احمدانی جیسے معروف نقادوں کی گراں قدر آرا بھی دی ہیں۔ ڈاکٹر گل عباس نے ڈاکٹر نصر اللہ خاں ناصر کی شاعری کے تمام فکری پہلوؤں کا اپنے تنقیدی شعور سے جائزہ لے کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ جدید سرائیکی شاعری کے پانی ہی نہیں بلکہ اپنے وسیب کی مٹی اور تہذیب و ثقافت سے بے پایاں محبت بھی رکھتے ہیں تا کہ اہل وسیب میں فرسودہ عقائد، رسم وروجات ، اوہام اخرافات کی دلدل سے نکلیں اُن کی شاعری میں قنونیت کی بجائے رجائیت کے عکس نمایاں ہے۔ ڈاکٹر گل عباس نے اقبال سوکڑی کی شاعری کا محاکمہ بھی خوب کیا ہے ۔ موصوف نے جہاں محاسن سے انکار کر دیا ہے۔ موصوف کے بقول کہ پیٹتے پیڑ دی ہفکر ہمیشہ وڈی تے آفاقی شاعری دی بٹیا بندی ہے۔ پر اقبال سوکڑی سئیں ایس پل پل دیح پیڑ دی فکر اچ رُل ویند ۔ اس فکر کوں کہیں وڈے تخلیقی تجربے دی بیا نھیں بٹیندے۔ نے میرے نزدیک این زل و محسن دا احساس تے غم اُنھاں دی شاعری کوں زمین توں نھیں چ اٹھن ڈیندا۔ ایس واسطے اساڈے اے بے مثال شاعر کہیں وڈے تخلیقی تجربے توں نھیں احمد گزر گیا۔ ایں سانگے بعض اوقات شاعری اور وڈ کی فکر توں خالی نظر آندی ہے۔“ ڈاکٹر صاحب کے اس پیرائے کی روشنی میں خاکسار یہ کہنے کی جسارت کرتا سیانہ ہے کہ اگر انسان غم شناس ہو جائے تو وہی غم ذات اور کائنات کی تفہیم کا سب بنتا ہے۔ نظر اقبال سوکڑی بھی غم کی نہاں حقیقوں سے آگاہی رکھنے والے بڑے شاعر ہیں۔ ویسے بھی ادب خلا میں تو پیدا نہیں ہوتا، زندگی سے ادب کا تعلق ایسے ہے کہ جیسے جسم اور روح کا ۔ اقبال سوکڑی کی شاعری انسانی سماج سے جڑی ہوئی ہے ۔ اس لئے اُس میں آفاقیت ہے۔ مزید راقم کی کتاب اقبال سوکڑی شخصیت اور فن کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اقبال سوکڑی کے اش شعر پر اعتراض کرتے ہوئے فرمایا ہے ی کو کہ وہ کیا محبوب ہے جو عیادت کے بہانے دوا اپنے ساتھ لے گیا ہے۔ شعر دیکھئے:

آیا با عیادت کیوں شفا نال گھدی گیئے
او میز تے لاتے ہوئے دوا نال گھدی گئے

میرے خیال میں یہاں شاعر نے محبوب کی بے دردی ، سنگدلی اور ہے اعتنائی پر طنز کیا ہے کیونکہ عاشق کے لئے محبوب مسیحا ہوتا ہے ۔ غالب نے بھی اپنے دُکھ یعنی عشق کے مداوا کے لئے ابن سریم کی تمنا کی تھی۔ ڈاکٹر گل عباس نے دبستان میانوالی کے نمائندہ شاعر پروفیسر سلیم احسن کے دو شعری مجموعوں جھکڑ جھولے اور چیتے چنتے کی روشنی میں اُن کے فکری پہلوؤں اور فنی محاسن کا انتقادی جائزہ خوب لیا ہے۔ قیس فریدی صف اول کے جدید سرائیکی غزل گو شعراء میں شمار ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر موصوف نے آم شام، ارداس ، توں سورج میں عزیز سورج مکھی ، اور پر کھر اجیسے فکر انگیز شعری مجموعوں کے تناظر میں اُن کی فکری جہتوں کو ذریعہ نہ صرف اُجا گر کیا ہے بلکہ فنی محاسن بھی بیان کئے ہیں ۔ موصوف نے قیس فریدی کو سماجی اور سیاسی شعور رکھنے والا وسیب کا نمائندہ شاعر ثابت کیا ہے۔ ڈاکٹرگل محمد نے عالمی ادب کا گہرا مطالعہ رکھنے والے سرائیکی کے بیدار مغز بدھ کے تصویر شاعر ممتاز حید ر ڈاہر کی شاعری کی وجودیت یعنی ( موجودیت) کے تناظر میں دیکھ کر قبل سے ایک بچے ، کھرے نقاد ہونے کا حق ادا کیا ہے۔ اُن کے اشاعتی ادارے اور ماہنامہ تھے۔ ادبی رسالے سوجھلا کا بطور خاص ذکر کیا ہے جو شاعری کی وسعت فکر کا آئینہ دار ہے۔ کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے اُن کے دو شعری مجموعوں ” کشکول وچ سمندر اور اندھارے کی اتھہ رات کا تجزیاتی مطالعہ دلچسپ انداز میں کیا ہے جو بصیرت افروز ہے۔ ڈاکٹر گل عباس نے عزیز شاہد کوجدید سرائیکی شاعری کی نہ صرف توانا آواز کے۔ کہا ہے بلکہ اپنی تہذیب و ثقافت کا امیں اور استحصالی طبقات کا مخالف قرار دیا ہے۔ اُن کے فنی محاسن بھی بیان کئے ہیں اور یہ بھی فرمایا ہے کہ اُن کو اساطیر پر مکمل عبور ہے  لیکن آخر میں ڈاکٹر صاحب عزیز شاہد کو مخلصانہ مشورہ یوں دیتے ہیں۔ پر اے فیصلہ عزیز شاہد نہیں خود کرئے جو اوں مشاعرے دا بے تاج بادشاہ ہن تے را ہونے یا وت قاری مزاج شاعری تخلیق کر تے اپنے آپ کوں سرائیکی شاعری دی تاریخ اچ امر را ہوں آلے شاعراں دی فہرست اچ شامل کرتے ۔”
چونکہ ڈاکٹر صاحب مثبت سوچ رکھنے والے خوبصورت انسان ہیں، انہوں نے مشورہ دے کر اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ میرے خیال میں مشاعرے کی شاعری نے ان میں عزیز شاہد کی تخلیقی صلاحیتوں کو زنگ لگا دیا ہے۔ اُن کا مقصد ادب کی خدمت نہیں بلکہ غزل سیتوں کو ذریعہ معاش ہے۔
لو سماجی ار مغز ڈاکٹر گل عباس نے اشولال فقیر کے فلسفہ زندگی کی ایسے دل نشیں انداز میں تصویر کشی کی ہے کہ اسے بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے ۔ لگتا ہے کہ کنفیوشس اور گوتم بدھ کی روحوں نے اشو لال فقیر کی صورت میں دوبارہ جسم لیا ہے ۔ کیونکہ وہ چھٹی صدی قبل مسیح میں سچ کے فانوس جلا کر ماضی کے اندھیروں میں بھٹکنے والوں کو راہ دکھلا رہے تھے ۔ ڈاکٹر صاحب اشو لال فقیر کی شاعری کو ابدی صداقتوں کی امیں قرار دیتے ہیں کیونکہ جب وہ تاریخی تناظر میں غلام داری نظام کا طویل سلسلہ دیکھتے ہیں تو وہ پنجہ ے کی استحصال میں جکڑے ہوئے دنیا کے ہر انسان کو حریت کا شعور دیتے ہیں ۔ اشولال فقیر صاحب علم ہی نہیں بلکہ تاریخی ، سیاسی ، سماجی اور مذہبی تناظر میں انسانی زندگی یکھ کر ہے۔ آواز کے ہر پہلو کو نئے انداز سے دیکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول اُنہوں نے وادی سندھ کی روشنی میں اساطیر کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے ۔ موصوف نے صفحہ نمبر 108 پر یہ پیر بھی نقل کیا ہے۔ جس کا و ترجمہ کچھ یوں ہے کہ آسمان سے بلائیں اتر کر انسانوں کو اُن کے بُرے اعمال کی سزا دیتی ہیں ۔ وادی سندھ میں یہ خیال عام اور موجود ہے کہ جب بلا ئیں آسمان سے اترتی ہیں تو گئے اُن کو دیکھ کر ڈراؤنی آواز نکالتے ہیں ۔ اس کا یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ آفات آسمان سے نازل ہو رہی ہیں۔“ اشو لال جیسے صاحب ادراک شاعر بھی جب اپنی شاعری میں اساطیری یعنی من گھڑت کہانیوں کو جگہ دیں ، جن کا ابدی سچائیوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ، حیرت کی بات ہے۔
ڈاکٹر گل عباس نے فلسفہ وجودیت کے تناظر میں رفعت عباس جیسے جدید طرز احساس کے شاعر ذات و کائنات اور خدا کو کسی زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ موہ وف نے اُن کے نقطہ نظر کو مؤثر انداز میں واضح کیا ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے اُن کے تصور تو حید پر اعتراض کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ تمام الہامی مذاہب رب کو ٹور ہی تصور کرتے ہیں اس لئے تجرید اورٹو رکا تصور الہامی ہے اور پاکیزہ بھی لیکن رفعت عباس نے خدا کو تجرید کی بجائے تقسیم کا روپ دیا ہے۔ یونانی عہد سے لیکر موجودہ عہد تک فلاسفہ، دانشوروں اور شعراء نے خدا کو کس زاویہ نگاہ سے دیکھا ہے اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا البتہ ماہ نو کے اقبال نمبر میں خلیفہ عبدالحکیم نے اقبال کے تصور الہ کو یوں واضح کیا ہے کہ یہودی ، مسیحی اور اسلامی صحائف میں ذات باری کو جوٹو ر سے تشبیہہ دی گئی ہے اُس کی اب نئے سرے سے تشریح کرنی چاہیئے کیونکہ اقبال کے نزدیک خدا ایک سکونی اصلیت نہیں بلکہ حرکی سیلان ہے اور یہی قرآنی تصورالہ ہے۔

بقول راقم:

لہو میں بھی رواں قلب و نظر میں بھی سمایا ہے
میرے ایقاں نے اس کو اب دیا ہے نام یزداں کا

سعید اختر سیال کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کا تجزیہ حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ وہ سرائیکی صوبہ اور اپنی شناخت چاہتے ہیں جو کہ اُن کی وسیب سے محبت ہے ۔ جہانگیر مخلص سرائیکی کے ترقی پسند شاعر ہیں۔ ان کی شاعری نہ صرف زندگی کے سلگتے مسائل کی آئینہ داری کرتی ہے بلکہ بغاوت اور مزاحمت کی عکاس بھی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کا کمال ہنر ہے کہ وہ ہر موضوع سے انصاف کرتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ارشاد تو نسوی جیسے بیدار مغز شاعر کی نظموں کو بصیرت نگاہی سے دیکھ کر قارئین کی علمی وادبی تشنگی کا ساماں کیا ہے ۔ موصوف نے حوالے سے خاکسار کی کتاب تذکرہ شعراء تونسہ شریف کے مطالعہ میں کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے دو ہے کا سفر بھی کامیابی سے کیا ہے۔ احمد خاں طارق سرائیکی دوہے کے منفر داور بے مثل شاعر تھے۔ اُن کے دوہوں میں سرائیکی ثقافت کی خوشبو آتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اُن کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کر کے نئی نسل کے شعراء کو اساتذہ کے احترام کا پیغام دیا ہے، جو عبادت سے کم نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے امان اللہ ارشد کے دوہوں کو بھی یہ نظر تحسین دیکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے سرائیکی کے معروف شعراء شاکر شجاع آبادی اور شاکر مہروی کے دو ہوں کو فکری روشنی میں دیکھا ہے ۔ شاکر شجاع آبادی عوامی شاعر اور شاکر مہروی غم روزگار اور غم جاناں میں گھرے نظر آتے ہیں ۔ سرائیکی دوہوں کی روشنی میں مختلف شعراء کے دو ہے شامل کئے ہیں۔ جن میں آصف ارشاد ناصر ،عبدالرزاق سالک ، عبدالرشید اشتر ، دلنور نور پوری ، اشفاق سحر بلوانی ، ڈاکٹر گل، عباس اعوان اور احمد خاں طارق خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ خاکسار کے نزدیک سرائیکی کافی فلسفہ وحدت الوجود کے زیر اثر پروان چڑھی ہے لیکن ڈاکٹر صاحب کے بقول کہ جدید عہد کی کافی میں انقلابی رنگ دیکھے جا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے سرائیکی غزل ونظم کا تجزیاتی مطالعہ بھی غیر جانبداری سے کیا ہے۔ اگر چہ اختصار سے کام لیا گیا ہے پھر بھی ڈاکٹر صاحب نے غزل نظم کے نقوش اُبھارنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔

2۔ سرائیکی شاعری میں انسان دوستی:

ڈاکٹر گل عباس اپنی اس کتاب میں مجھے با عمل صوفی کے روپ میں نظر آئے ہیں ۔ انہوں نے انساں دوستی کی نہ صرف تعریف کی ہے بلکہ تاریخی تناظر میں عیسائیت کے کردار پر روشنی بھی ڈالی ہے۔ جس سے انساں دوستی کو سمجھنے میں مد داتی ہے ۔ پھر یورپ میں انسان دوستی کی تحریک کے سیاسی اور سماجی پس منظر میں ڈاکٹر صاحب نے یورپی نظام پاپائیت کے عروج و زوال کی خوبصورت تصویر کشی کی ہے کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ یہ نظام پیراسائٹ کی طرح ہے جس نے صدیوں انسانی خون چوسا ہے، اس لئے پیٹر والڈو اور جان ٹولر جیسے باغی پیدا ہوئے ۔ جنہوں نے کلیسا کے درو دیوار ہلا دیئے ۔ ڈاکٹر صاحب نے مارٹن موتھر ، والٹیر، روسو جیسے فلاسفہ کا کلیسا کے خلاف کردار کو بھی سراہا ہے۔ اور اپنی تنقیدی بصیرت سے کلیسا کے چہرے سے نقاب ہٹا کر چے اہلِ قلم ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ تیسرے باب میں ڈاکٹر صاحب نے انساں دوستی کی اقسام گنوا کر قارئین کو معلومات بہم پہنچائی ہیں ۔ چوتھے باب میں ڈاکٹر صاحب نے اسلام میں انساں دوستی کے تصور کو قرآن عظیم کی روشنی میں اُجا گر کر کے بچے مسلمان ہونے کا نہ صرف ثبوت دیا ہے بلکہ ہم سب کے لئے ایمان افروزی اور روح کی تازگی کے ساماں بھی کئے ہیں۔
جہاں تک تصوف کی تعریف اور تاریخ کا تعلق ہے، ڈاکٹر صاحب نے اس کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن میرے خیال میں اس کی ابتداء فلاطینوس اور فلو یہودی ( میں قدم) سے ہوئی ہے ۔ فلو یہودی نے کہا تھا کہ خدا تک پہنچنے کا ایک ہی راستہ ہے وہ صوفیانہ واردات یا وجدان، پھر یہی نظریہ عرب سے ہوتا ہوا برصغیر پہنچا۔ اس میں بڑے بڑے صوفیاء پیدا ہوئے جن کا ذکر ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں بھی کیا ہے جن کا مقصد امن و محبت اور رواداری رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس تناظر میں بڑے پتے کی بات کی ہے کہ انساں دوستی کا بنیادی مقصد استحصالی رات کا خاتمہ ہے تا کہ مثبت اقدار کی روشنی سے دنیا جگمگا اُٹھے ” پانچویں باب میں سرائیکی وسیب میں انساں دوستی کے پس منظر کو نہ صرف تاریخی تناظر میں دیکھا گیا ہے بلکہ گوتم بدھ کے انساں دوستی پر مبنی تعلیمات کا بطورِ خاص ذکر کیا گیا ہے۔ چھٹے باب میں ڈاکٹر صاحب کے بقول بابا فرید گنج شکر، حضرت سلطان ہا ہو، روحل فقیر اور سچل سرمست علی حیدر ملتانی ، حافظ محمد جمال ملتائی ، خواجہ غلام فرید خیر شاہ اور خرم بہاول پوری کی شاعری انسان دوستی کی آئینہ دار ہے۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ انسانی زندگی کو مادہ پرستی کے بھیانک عذاب سے بچانے کیلئے صوفیا کرام کی تعلیمات کو عام کرنا چاہیئے تاکہ آنے والی نسلوں کے لئے روحانی تازگی کے ساماں ہو سکیں۔ اس کے علاوہ رفعت عباس، اقبال سوکڑی ، ڈاکٹر گل عباس ، سعید اختر سیال، احمد خاں طارق ، ڈاکٹر نصر اللہ خاں ناصر، ارشاد تو نسوی، خالد اقبال، اشو لال اور شمیم عارف قریشی کے اشعار کے حوالے بھی دیئے گئے ہیں جو انساں دوستی کو اُجا گر کرتے ہیں۔

3۔سرائیکی ثقافت کے رنگ :

ڈاکٹر گل عباس اعوان کی یہ کتاب سرائیکی ثقافت کے تناظر میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ دس ابواب پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ذمہ دار محقق ہونے کے ناطے دیانت داری اور عرق ریزی سے ثقافت جو کلچر کا مترادف ہے ۔ اس کا نہ صرف ماخذ بتایا ہے بلکہ مختلف حوالوں سے ثقافت کو جامع انداز میں پیش کیا ہے اور اپنی گراں قدر رائے بھی دی ہے ی انسانی عقائد، رویے ، قوانین ، زبان ، رسوم فن تکنیک ،لباس کا انداز ،خوراک پیدا کرنے اور پکانے کے طریقے ، مذہب اور سیاسی ، معاشی نظام شامل ہیں ۔“ موصوف نے یہ ساری بحث قارئین ادب کو مغالطے سے بچانے کے لئے کی ہے جن کو اب تک ثقافت ، تمدن اور تہذیب میں فرق معلوم نہ ہو سکا ۔ دوسرے باب میں ڈاکٹر صاحب نے ثقافت کی چند خصوصیات کا ذکر کیا ہے۔

(1) ایندیاں مجھ بنیادی علامات ہوندین ۔
(2) ثقافت مشترک شئے داناں اے۔
(3) ثقافت کوں پڑھیا تے لکھیا ویندے۔
(4) ثقافت اختیار وی کیتی ویندی اے ۔

ڈاکٹر صاحب کے بقول زبان، ہنرمندی ، سائنسی علم اس کے علاوہ مذہب سیاست، معاشرت اور فنونِ لطیفہ میں جو جو علامات استعمال ہوتی ہیں وہ بنیادی طور پر انسان کی رہنمائی کرتی ہیں۔ موصوف نے اس حوالے سے خوبصورت مثال بھی دی ہے کہ ایک جھنڈے میں سبز ، نکالا اور لال رنگ سیاسی پارٹی کے منشور کی علامات ہیں۔ انجینئر ہوں یا معمار یہ سب علامات کے ذریعے اپنی سوچ کو آگے بڑھا کر سماج میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔ یہاں ڈاکٹر صاحب نے منطقی بات کی ہے کہ اقوام عالم کا کوئی بچہ ثقافت لے کر پیدا نہیں ہوتا، بلکہ وہ والدین تعلیمی ادارے اور اردگر کے ماحول سے باخبر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بیچ کہا ہے کہ دنیا کی کوئی قوم بھی اپنی زبان لباس اور تہذیب و ثقافت سے پہچانی جاتی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ سرائیکی وسیب میں پہچان کی یہ وحدت کہیں نظر نہیں لاتی ، کیونکہ ہم سب بات تو سرائیکی ثقافت کی کرتے ہیں لیکن عملی طور پر تہذیب مغرب کے امیر نظر آتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ بات بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ اپنی ثقافت کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنا کر نئی نسل تک منتقل کرنا چاہیئے ۔ ڈاکٹر صاحب بچے ، کھرے اہلِ قلم ہیں جو اُن کے بقول سرائیکی زبان دوسری زبانوں سے متاثر رہی ہے کیونکہ اس میں عربی ، فارسی ، ہندی اور مسکرت کے الفاظ پائے جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر خمیس عربی اور قمیض فارسی کا لفظ ہے ۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ یہ دنیا ایک بستی میں بدل گئی ہے اور سب اقوام کی ثقافتیں مدغم ہوگئی ہیں ۔ اس تناظر میں فوائد اور نقصانات کا ذکر بھی کیا ہے ۔ مثال یہ دی ہے کہ ایک زمانے میں مشرقی روایات کے مطابق کھانا بیٹھ کر کھایا جاتا تھا لیکن اب حیوانوں کی طرح کھانا چل پھر کر کھایا جاتا ہے۔ جب انسان فطرت کے خلاف چلے گا تو رد عمل میں طوفان ، سیلاب ، زلزلے، بارشیں اور مہلک وبائی امراض کی زد پر تو ر ہے گا۔ میرے نزدیک انسان اپنی تباہی کا خود سبب ہے۔ تیسرے باب میں ڈاکٹر صاحب نے ثقافت کی اقسام کا تفصیل سے ذکر کیا ہے اور سار ئیکی ماہر عالم الانسان چارج پی مردک کی چھ سوسینتیس اقسام بھی گنوائی ہیں، جن سے ثقافت کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے ثقافت کو ہر زاویہ سے دیکھ کر جو ثقافتی پیکر تراشا ہے وہ حقیقت کا آئینہ دار نظر آتا ہے اور اپنے لطافتی اسلوب سے قارئین ادب کی دلچسپی کا باعث بھی ہے۔ چوتھے باب میں تاریخ ثقافت کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ نسلی، لسانی بنیادوں پر ثقافت پروان چڑھتی رہی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے ثقافت کے ارتقائی نظریات کے حوالے سے چارلس لائل ، کیاک ڈارون ، ہر برٹ سپنسر اور مارگن کے حوالے دے کر اپنی بات کو خوبصورتی سے آگے بڑھاتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی ماہر علم الانسان فرانز بو آس نے تاریخی تا قویت اور فرانسیسی ایمائل درخیم نے ثقافت کا تجدیدی نظریہ پیش کیا ۔ ان دو نظریات کو بے حد وسعت ملی ۔ جیولین اسٹوورڈ کی مشترکہ ماحول اور ثقافت لیسلی وائٹ کی توانائی اور ثقافت اور مارون ہیرس کی ثقافتی مادہ پرستی کو ڈاکٹر صاحب نے اپنے تنقیدی شعور سے صرف پر کھا ، بلکہ اُن کے افکار و نظریات کی روشنی میں ثقافت کے رنگوں کو واضح بھی کیا ہے۔ پانچویں باب میں تہذیب کیا ہے اس کا آغاز کہاں سے ہوا ، کیسے ہوا ، سرائیکی تہذیب و ثقافت کسی تہذیب سے وابستہ ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے دلچسپ اور نتیجہ خیز بحث کی ہے۔ چھٹے باب میں سرائیکی ثقافت کے پس منظر میں جو سوالات جنم لیتے ہیں اُن کے نہ صرف جوابات دیئے گئے ہیں بلکہ سرائیکی کے مختلف ناموں کا ذکر بھی شامل ہے مثلا اتھلوچی، کچھی دی بولی ، ملتانی، اوکلی چنانہ کی بولی وغیرہ کے ساتھ حروف تہجی کے نمونے بھی دیئے ہیں ،لیکن حروف آج تک متنازعہ ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب نے ان سب پر ایسی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مغالطے کی صورت باقی نہیں رہتی۔ ساتویں باب میں ڈاکٹر صاحب نے سرائیکی وسیب کی معاشی ابتری کا نقشہ بھی کھینچا ہے ۔ جس پر علاقائی وڈیروں ، تمنداروں کا صدیوں سے تسلط ہے اگر ہمارے دانشور سقراط کی طرح موت کی پروا کئے بغیر روشن فکری عام کرتے ، افلاطون کی طرح شہر شہرا کیڈمی بنا کر اپنے وسیب کے بچوں کا فکری ، سیاسی ، سماجی اور مذہبی شعور اُجاگر کرتے اور ہمارے شعراء انقلاب آفرین شاعری کے ذریعے عوام کے جذبوں اور ولولوں کو گرماتے تو وسیب دشمن قوتوں کا خاتمہ ہو جاتا ، اور گودا سائیں کی روایت بھی ہمیشہ کے لئے دفن ہو جاتی ۔ ڈاکٹر گل عباس نے سرائیکی بجھارتوں اور علاقائی کھیلوں کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔ آٹھویں اور باب نہم میں منگنی اور شادی کے طور طریقوں کا تفصیلی احوال ہے جس کا بنیادی مقصد مل جل کر نئی زندگی کا آغاز اور پیار و محبت سے جینے کا عزم ہے۔ دسویں باب میں سفر آخرت کا ذکر ہے یعنی مرنے سے لیکر قبر میں اُتار نے تک کا احوال شامل ہے۔

4 – سوجھلا (روشنی)

خاکسار نے ڈاکٹر وزیر آغا ، ڈاکٹر انور سدید، ڈاکٹر غلام جیلانی اصغر ، ڈاکٹر بشیر سیفی ، اکبر حمیدی ، نظیر صدیقی اور قمر مشتاق جیسے اُردو کے انشائیہ نگاروں کا بغور مطالعہ کیا ہے ، البتہ ڈاکٹر سلیم ملک، دلشاد کلانچوی، حفیظ الرحمن، انجم لاشاری ، جاوید احسن اور اسلم میلا جیسے سرائیکی کے انشائیہ نگاروں کے مطالعہ سے مرحوم رہا ہے، اُمید ہے اُن کے انشائیے بھی فکری اور معنوی طور پر سر سبز ہوں گے۔ ڈاکٹر گل عباس صاحب علم ہیں، اس لئے خود شناس بھی ہیں اور ایسا انسان ہی زندگی کو حسنِ دوام عطا کرتا ہے۔ سوجھلا موصوف کے انشائیوں کا مجموعہ ہے جس میں ستائیس انشائیے شامل ہیں ۔ جو اُن کے گہرے مشاہدے کے آئینہ دار ہی نہیں بلکہ موضوع کے نہاں گوشوں کو شگفتہ برجستہ انداز سے عیاں کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کے انشائیوں میں فلسفہ آرائی کی بجائے اصلاحی پہلو نمایاں نظر آتے ہیں کیونکہ موصوف وسیب کے ہر انسان کو تزکیۂ نفس کی بھٹی سے گزار کر مثالی انسان دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسے آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ موصوف نے زمین ادب پر ایسا شجر سوجھلا اُگایا ہے جس پر تلخ وشیریں پھل ہی نہیں لگے بلکہ ان کے کھانے کے باطن تمام غلاظتوں سے صاف ہوکر منور بھی ہو جاتا ہے۔ موصوف اپنے انشائیہ سوجھلا میں یوں پیغام دیتے ہیں کہ اس کائنات میں سب سے طاقتور اور حقیقی اپنے من کا سوجھلا (روشنی) ہے۔ اس لئے اس کو روشن کرنے کے لئے علم وگل کا دامن نہ چھوڑو۔ پھر سب اندھیرے ختم ہو جائیں گے اور ہر طرف روشنی ہی روشنی ہوگی۔ اپنے ایک اور انشائیہ انصاف میں ہم سب کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانے کا احساس یوں دلاتے ہیں آخری بات یہ ہے کہ بچ نہیں بولتے اُن کے فیصلے بولتے ہیں ، آؤ ہم بھی مل جل کر اپنی زندگیوں میں ایسا انصاف لے کر آئیں کہ ہم ر ہیں یا نہ ر ہیں ہمارے فیصلے بولتے رہیں۔“ یہ حقیقت ہے کہ مادہ پرستوں نے اپنے کرتوتوں سے دنیا کو جہنم بنا دیا ہے اور ارفع اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے ، گل عباس جیسے انسانیت سے پیار کرنے والے ابھی باقی ہیں۔ موصوف نے اپنے انشائیہ انسانیت میں کیا خوبصورت پیغام دیا ہے۔ ایک لمحے کے لئے تصور کرو کہ کائنات کا نقشہ کس قدر خوبصورت ہوگا اگر ایک انسان دوسرے انسان سے پیار کرے گا اور ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا احترام کرے گا۔ دوسرے کے راستے سے کانٹے ہٹائے گا۔ خوش اخلاقی سے پیش آئے گا۔ مصیبت میں کام آئے گا ، غصہ، نفرت اور تعصب سے دور رہے گا، کیا پر امن معاشرہ وجود میں آئے گا۔“ مختصر یہ کہ ڈاکٹر صاحب کا ہر انشائیہ بصیرت افروز اور سبق آموز ہے جس سے سماجی اخلاقیات کا درس ملتا ہے۔ اس پر عمل کر کے انسان خود بھی خوش اور دوسرے بھی شاداں و فرحاں رہ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا اسلوب سادہ مگر پُر تاثیر اور انداز ناصحانہ ہے۔

5 ٹوں ٹوں جا گہری تش :

ڈاکٹر گل عباس اعوان محقق ، نقاد، انشائیہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے شاعر بھی ہیں ، اُن کے اب تک دو شعری مجموعے لوں لوں جا گہری نتس اور سوجھل خواب شائع ہو کر ادبی اور عوامی حلقوں میں پذیرائی پاچکے ہیں۔ یوں موصوف نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔
لوں لوں جا گری تس“ میں کافیاں، غزلیں نظمیں ، قطعات ، دو ہے اور سرائیکو شامل ہیں ۔ موصوف کا سماجی اور سیاسی شعور پختہ ہے، اِس لئے اُن کا مطالعہ، ذات وسیع اور مشاہدہ کا ئنات عمیق ہے۔ وہ عالمی استعماری قوتوں اور علاقائی وڈیروں کی سازشوں سے باخبر ہیں۔ جنہوں نے قدرتی اور پیداواری وسائل کو اپنے قبضے میں لے کر سرائیکی وسیب کے عوام سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ اس لئے موصوف کو اپنے کوڑھ زدہ وسیب کی فکر دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے ۔ چونکہ شاعر دھرتی یا وسیب کا نباض اور مسیحا ہوتا ہے ۔ اب شاعر کی بھی یہی تمنا ہے کہ میرے وسیب کا ہر ایک جواں علم کی دولت سے مالا مال ہو ظلم کو ظلم اور سچ کو سچ کہے، اس کو نئے عزم سے جینے کا حوصلہ آئے اور اپنے حقوق کے حصول کے لئے وقت کے غاصبوں سے ٹکرا سکے اور تیغ عمل سے وسیب کو مسائل کی آگ سے نکال سکے۔ ایک سچا تخلیق کار جذبوں اور ولولوں کو گر ما اور خواب غفلت سے جگا سکتا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب موجودہ خوں چکاں حالات سے مایوس نہیں بلکہ پر امید ہو کر اپنی نظم نویاں نسلاں میں اپنے بے ساختہ احساسات کا ذکر یوں کرتے ہیں:
ہٹن نو یاں نسلاں پڑتے ہن
جیڑھے ہلدی کول وی ڈردے نئیں
جیڑھے جاندے ہن جو ایں رات تے
جیرہ ھے قتل تھیندن اوسر دے نیں
جیڑ ھے اپنی بھاو کوں ہال کرائیں
ہر پتھر موم بٹاڈ لیسن
جیڑھے سنتی قوم دے ہر ہک کوں
کئی نواں سبق پڑھاڈ لین
جیڑ ھے آہدن ایں دی تھیندا اے
گئی ڈیوا علم دابالے تاں
ہر بند دروازہ کھل پوندے
ہے جن جناب دے کول ہے تاں
اے ماء دھرتی دا فرض ہیوے
ایکوں ایس وی زک لاویندن
مک و یندن رات مکیندے ہوئے
ہر بال کو سمجھ بٹا و بندن
تخلیق کار کہیں کا بھی ہو احترام انسانیت کا امیں ہوتا ہے ۔ اُس کا ذہن نسلی ، لسانی اور جغرافیائی سرحدوں کو قبول نہیں کرتا ۔ وہ عالمگیر انسانی معاشرہ چاہتا ہے ۔ دیکھئے! ایک ہندو شاعر پروین کمارا شک خدا سے کس طرح گویا ہوتا ہے:

زمیں کو یا خدا وہ زلزلہ دے
نشاں تک سرحدوں کے جو مٹا دے

ڈاکٹر صاحب کی نظم ” دھرتی جایا دیکھئے جو دراصل تقسیم ہند سے بچھڑنے والوں کا نوحہ ہے۔ آخری دو شعر ملاحظہ کریں۔

میں یار عباس ہاں تیڈڑا
میکوں اپنے گل ناں لا
ایے پائی یت دے واسٹریا
میکو ں اپنے نال مڑا

تاریخ شاہد ہے کہ یونانی ، مصری ، رومی ، ہندی اور عربی معاشروں میں عورتوں کی حیثیت غلاموں سے بھی بدتر تھی۔ آج بھی مردوں کے اس سفاک معاشرے میں عورتیں مظلوم ہی نہیں بلکہ بنیادی حقوق سے محروم بھی ہیں ۔ اُن سے جینے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب حقوق نسواں کے بھی علمبردار ہیں ۔ وہ اپنی وسیب کی عورت کا دُکھڑا اپنی نظم امری لیڈا دور چابھیجی ” میں یوں بیان کرتے ہیں۔ آخری حصہ دیکھئے:

اچے مار دی لال کہانی
پجھ نہ میڈڑے کول
زیور کیڑھے کم وائے جیکر
گئی نہ آکھے پول
امری ایڈا دور چا بھیجی
بنگلے نال یرنتی

یہ حقیقت ہے کہ جو معاشرہ بیدار ہوتا ہے تو اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی ایک نظم ” قصے بدلو میں وسیب کے عوام کو یہ پیغام دیا ہے کہ اپنے بچوں کو اساطیری کہانیاں سنانے کی بجائے اُن کے دلوں میں علم کی شمعیں جلاؤ ، تا کہ ذلت اور غلامی کی جائے عزت اور وقار سے جیا جا سکے کیونکہ ہر طرف (پانچوں) استحصالی قوتوں نے اپنے سفارشی جال بچھار کھے ہیں یعظم دیکھئے:

آکھیں ٹوٹ کے تم پوہال آ
جا گیٹ سخت گناہ ہے
آمدن پارتوں باغوں آندن
جا گن آلے بندے کھاندن
جاء گش ریت پھلا
اپنا آپ بچا
پالیں کوں ہمنی ایں چا آکھو
جا کن آلے جیندے راہندن
علم کوں اپنی رت اچ گھولو
ول اوزار بتاؤ
جیون محض سہا نواں داناں نئیں
جیون و سر ، چاکے جیون
علم دی گھٹی پی
سر چاکے وت جی

مختصر یہ کہ لوں لوں جاگہری تشی کی یا سو جھل خواب کی نظمیں ہوں ۔ اُن میں اساں تاں تھل دے واسی ، کون ایسی سچ، جمہوریت ،جسٹیس ، شہر آباد کریسوں اور بیچ دے شہر وسیعسوں میں وسیب کے سلگتے مسائل ، کے ساتھ ساتھ نئے عزم سے جینے کا حوصلہ اور ایسے شہر آباد کرنے کا عزم ملتا ہے جہاں ارفع اخلاقی اقدار ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر گل عباس جدید نثری نظم کے عمدہ شاعر ہیں لیکن انہوں نے غزل بھی کہی ہے جس میں حسن وعشق ، مونجھ کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کی وسیب کے ابتر معاشی سیاسی اور معاشرتی مسائل پر کڑی نگاہ بھی ہے ۔ انہوں نے استعارات ، علامات اور تشبیہات اپنے وسیب سے لئے ہیں۔ اُن کی غزل میں مشاہدے کی شدت اور جذبے کی حدت نمایاں ہے۔ ڈاکٹر صاحب جہاں عورتوں کے حقوق کے علمبردار ہیں تو وہاں عورتوں کی تہذیب مغرب میں نہیں ۔ شعر دیکھئے: بے جا آزادی پر طنز بھی کرتے ہیں ۔ حالانکہ جتنا تحفظ مشرقی تہذیب میں ہے وہ تہزیب مغرب میں نہیں – شعر دےکھئے :

آزادی ناں ہے جے بابے دی پگ لہاون دا
اعتبار کل کہیں ابھی بھی تے کیا کرتے

مادہ پرستی کے اس بھیا تک دور میں انسان حرص و ہوس اور خود غرضی میں ایسا کھویا ہے کہ سب ارفع اخلاقی اقدار خاک میں ملا دی ہیں ۔ اب انسان محبتوں کی بجائے نفرتوں کی فصلیں اگا رہا ہے اور دولت کے نشے میں خود کو خدا سمجھنے لگا ہے۔ اس تناظر میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے بے ساختہ احساسات کا اظہار یوں کیا ہے۔

جیں محبت دے بُوٹے لاوٹے بہن
أو هو دھوئی کھڑا دکھیندا ہا

بندہ بندے دے دکھ وڈیندا ہا
بندے ایڈے کڈاں خدا ہن بیٹے

یہ حقیقت ہے کہ تاریخی تناظر میں ابلیس کو بُرائی کے معنوں میں لیا گیا۔ پھر خدا ساختہ مذاہب میں بھی ابلیس بُرائی کی علامت ٹھہرا۔ یونانی عہد سے لیکر موجودہ عہد تک فلاسفہ، دانشوروں، ادباء، شعراء اور صوفیا نے اہلیس کو کن معنوں میں لیا یہ انتہائی دلچسپ بحث ہے۔ خاکسار اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا ۔ البتہ علامہ اقبال نے اپنی نظموں ابلیس کی مجلس شعوری ، ابلیس ویزداں اور تسخیر فطرت میں متحرک کردار کے طور پر لیا ہے ۔ مگر ڈاکٹر گل عباس نے
اسے مذہب کی عینک سے دیکھا ہے ۔ شعر دیکھئے:

ولا شاطر او ہے چالیس اُو ہے ہن
ولا ابلیس دیاں گاکھیں او ہے ہن

محبوب سے بچھڑنے کی جو دل سوز کیفیت ہوتی ہے ، اُسے شاعر نے یوں الفاظ کا جامہ پہنایا ہے۔

دیندی داری بھال دتی گئے
اکھیاں کوں پٹیال دتی گئے

اس خود غرض اور بے حس معاشرے میں غم زدوں میں خوشیاں بانٹنا ، دوسروں کے دُکھ کو اپنا دکھ سمجھنا، مصیبت زدوں کی بے لوث خدمت کرنا عبادت سے کم نہیں ہے ۔ یہی ڈاکٹر صاحب کا مقصد حیات ہے ۔ اس کے علاوہ باطل اور انسان دشمن قوتوں سے ٹکرانے کا عزم بھی ملتا ہے۔ شعر دیکھئے:

جتھاں باطل دا گئی طوفان آسی
مقابل میں جھیاں انسان آسی

ڈاکٹر صاحب کی غزل میں شگفتگی نغمگی اور موسیقیت نہ سہی مگر مقصدیت اور رجائیت تو موجود ہے، موجودہ عہد میں بلکہ ہر عہد میں ایسی شاعری کی ضرورت رہی نے ہے اور رہے گی۔ ڈاکٹر گل عباس نے دیگر سرائیکی شعراء کی طرح دو ہے بھی کہے ہیں جو سرائیکی شعری ادب کی پہچان ہیں ۔ موصوف کے دوہوں مکیں روایتی انداز بھی ہے اور سیاسی ، سماجی ، معاشی اور معاشرتی رنگ بھی نمایاں ہیں ۔ اُن کا دو ہا دیکھیں جو تاریخی حقیقت کا آئینہ دارہی نہیں بلکہ موجودہ عہد میں بھی یہی منافقانہ عمل کارفرما ہے۔

تیڈا شہر منافق وسدا رہے تیڈے شہر عجیب کمال تھئے
ہر غاصب تیڈا سنگتی ہے ہر جُرم تیڈا بھٹوال تھئے

گئی سچ آکوا کے راضی نہیں ، اخلاق ایجھاں پائمال تھئے
من نام عباس حسینی ، پر کئی لوگ مزید دے نال تھئے
( سو جھل خواب ص 145)

اس کثافت بھرے موجودہ عہد نے ہر ایک سے حقیقی خوشیاں چھین لی ہیں۔ نہ ہی تہواروں میں بھی ریا کاری کے سوا کچھ نہیں ۔ انساں سے انساں ملتا تو ہے مگر دلوں میں نفرتیں ، کدورتیں بھری ہیں ۔ اس پریشان کن اور نفسانفسی کے عالم میں شمی شاعر اپنی ویبی روایت کا پھر سے دلوں میں احساس اُجاگر کرتا ہے۔ جس میں روح کی تازگی کے ساماں ہیں ۔

آئل میل پیار دے شہر وساؤں ،آ حال ونڈاؤں ، آج عید آئی ہے
اونو میں ہک ہے دے پچھوں دُر کھدے ہوئیں ترل شور مچاؤں آج عید آئی ہے
ہتھیں مہندی لاؤں آکھ سُرمہ پاؤں متھے ٹکے لاؤں آج عید آئی ہے
عباس سب نفرتاں دفن کروں ، زل عید مناؤں آج عید آئی ہے
(ئوں لوں جاگیدی تس_ص110)

ڈاکٹر گل عباس نے سرائیکو بھی کہی ہے جو جاپانی صنف ہے ۔ اُردو شعراء نے بھی ہائیکو میں اپنی صلاحیتوں کے جو ہر دکھائے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اس سرائیکیو میں خودشناسی کا احساس اُجاگر کیا ہے۔

بھوئیں آسمان دا ، توں ہیں راجہ کپچھیں راہ تے آ گئیں
وستی وستی دھکڑے کھانویں حرص دا چا کشکول
اپنا آپ پھرول

مختصر یہ کہ ڈاکٹر گل عباس کی تحقیق ، تنقید اور شاعرانہ کاوشیں قابل صد تحسین عا نہیں بلکہ ان کے پیچھے سماجی فکری شعور کار فرما ہے، جس نے ڈاکٹر صاحب کے کام کو دوام بخشا ہے۔

 

یہ مضمون جسارت خیالی کی کتاب ” تحقیقی ننقیدی اور شعری خدمات "سے لیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com