لیہ کا ادب

شعیب جاذب کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ

ریاض راہی

شعیب جاذب اُردو شاعری میں ممتاز حیثیت کے مالک ہیں۔ اُن کا شمار ان شعرائے متقدمین میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے چراغ فکر میں فنی محاسن کا فتیلہ ایسا روشن کیا کہ اُس کی منفرد اور ہمہ جہت روشنی نے نگاہوں کو خیرہ کر دیا۔ ان کے معاصر ڈاکٹر خیال امروہوی تھل کے ریگزاروں میں نظریاتی شاعری کر رہے تھے اور اپنے ترقی پسندانہ افکار سے ہر ایک کو متاثر کر رہے تھے ، جس کے سبب تخلیق کا رحسن و عشق کے سطحی موضوعات سے نکلے اور انھوں نے اپنی تخلیقی ایچ کو سیاسی، سماجی اور معاشی تناظرات سے ایسا جوڑا کہ شعر وخن میں سماجی و اقتصادی تضادات اور انسانی سماج پر اس کے منفی اور تخریبی اثرات واضح تر ہوتے چلے گئے۔ سرائیکی اور اردو شعرا نے جزوی اور کلی طور پر طبقاتی شعور کو اجاگر کیا۔ اس سیاق وسباق کے باوجود شعیب جاذب کی یہ استقامت فکر ہے کہ انھوں نے اپنے عہد کے سلگتے ہوئے ہنگامی موضوعات سے اپنے دامن سخن کو حیرت انگیز طور پر بچائے رکھا اور شعر کی فنی لطافتوں کو نظریات کے شمشان گھاٹ پر قربان نہ ہونے دیا۔

شعیب جاذب کی شاعری میں کوئی تحریکی رجحان دکھائی نہیں دے گا۔ انھوں نے بازمانہ بساز شاعری نہیں کی بلکہ انھوں نے ان انسانی جذبات و احساسات کو موضوع سخن بنایا جن کی تصوراتی ہیئت متنوع ہے اور انفرادی رجحانات کی مظہر ہے۔ شعیب جاذب نے رفعت تخیل اور لطافت فکر پر کسی حال میں بھی سمجھوتا نہیں کیا۔ اُن کی لطافت فکر اور رفعت تخیل فنی نزاکتوں اور شعری محاسن سے عبارت ہے۔ انھوں نے صنعتی دور میں رہتے ہوئے صنعتی شاعری بھی کی ہے۔ صنعت مہملہ یا صنعت غیر منقوط پر ایک شعری مجموعہ لے آئے۔ اسی طرح صنعت تحت النقاط اور فوق النقاط و تخلیقی سطح پر فنکارانہ طور پر استعمال کیا ہے۔ صنائع بدائع اور شعری محاسن پر مضبوط گرفت ان کے استادانہ صلاحیتوں پر دلالت کرتی ہے۔ مجھے یہ بات کہتے ہوئے کوئی امر مانع نہیں ہے کہ نقطے زبان کا حسن ہیں۔

یہ محبوب کے رُخسار پر اس تل کی مانند ہیں جس نے حسن و جمال کی اثر آفرینی سے دل عشاق میں قیامتیں برپا کر رکھی ہیں ۔ اسی لیے تو حافظ شیرازی خال رخ محبوب پر سمرقند و بخارا قربان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نقطے زبان و بیان میں زور ، قوت اور اثر پیدا کرتے ہیں اور قوت سامعہ و حافظہ ر خوشگوار اثر ڈالتے ہیں۔ اس تناظر میں جب شعیب جاذب کی شاعر کا تجزیہ کیا جائے تو واضح طور پر یہ فرق دکھائی دیتا ہے۔ اُن کی غیر منقوط شاعری میں خیال کی رفعت کچھ کم پڑتی ہوئی نظر آتی ہے حالانکہ تخلیقی رفعت ہی ان کی شاعری کی عمومی پہچان ے۔ اگر ردیف و قافیہ کی بنش نے جدید شعر کو آزاد اورنی نظم کنے پر مجبور کیاتو یہ بات بھی طے ہے کہ صنعت غیر ضوا تحت النقاط اور فوق النقاط کے فنی تقاضوں کے پیش نظر شاعر کو فکر اور خیال کی متاع گراں بہا کو ثانوی حیثیت دینی پڑتی ہے۔

بعض اوقات صنائع اور بدائع کے تحت کی گئی شاعری ذہنی ریاضت اور قافیہ پیمائی بن کر رہ جاتی ہے۔ شعیب جاذب ایک قادر الکلام شاعر ہیں اس لیے ان کی شاعری محض ذہنی ریاضت نہیں ہے بلکہ انھوں نے تخلیقی ایچ سے کام لیتے ہوئے بہت عمدہ شعر بھی کہے ہیں۔ اک خالی کشکول شعیب جاذب کی فنی ریاضت کا منہ بولتا ہوا ثبوت ہے۔ اس میں انھوں نے یہ التزام رکھا ہے کہ کوئی نقطہ زیریں نہ آئے ۔ یہ اعجاز کلام کی بہترین مثال ہے۔ اُن کی شاعری متنوع انسانی موضوعات سے تشکیل پذیر ہوئی ہے۔ ان کی شاعری میں کہیں آنسوؤں کی برسات ہے تو کہیں شبستان غم کا ماتم ہے۔ انھیں کتاب ہستی کے صفحات سے معدوم ہونے کا شدید احساس ہے۔ حاتم دوراں کی سخاوت اور فیاضی کا دُکھ الگ ہے۔ ان داخلی آلام و مصائب میں وہ سماج کی استحصالی قوتوں سے ٹکرانے سے گریز کرتے ہیں۔ زمانہ حال کی بدحالی اور مستقبل کی ہولناکی سے بے خبر ہست اور ناکارہ لوگوں کو وہ طنز سونے کی تلقین کرتے ہیں۔

رات سقراط کی زہر افراط کی                   خوگر تشنگی سو رہو ، سو رہو

رات خوددار ہے ، سوز فنکار ہے                مختصر زندگی ، سو رہو ، سو رہو

شعیب جاذب کی شاعری محض آلام و مصائب اور پاس سے عبارت نہیں ہے۔ یہ تو معاشرے میں پائے جانے والے دردو غم کا بیان ہے جس کا اظہار انھوں نے ذاتی حوالے سے کیا ہے گویا اُن کی شاعری آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی۔ یہ ان کی شاعری کا تو انا پہلو ہے۔ جب وہ محض ذاتی اور داخلی اظہار سے باہر آتے ہیں اور انسانی معاملات کو موضوع سخن بناتے ہیں ۔ وہ رنگ وخون کے رشتوں پر انسانیت کو ترجیح دیتے ہیں۔انسانوں کا باہمی کشت و خون اُن کے لیے سوہان روح بن جاتا ہے۔ وہ خواہش لعل وزر اور استحصالی رویوں پر کڑھتے ہیں اور مہنگائی کے منفی اور تباہ کن اثرات کو دیکھتے ہوئے اسےخانہ جنگی کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں۔ یہ بات غور طلب ہے کہ ان کے ہاں احساس و آگہی کا اظہار عاشقانہ انداز میں ہوا ہے۔ ظلمت شب کے بعد طلوع سحر کی تمنا نہ صرف انھیں اپنی داخلی محرومیوں میں جینے پرا کساتی ہے، بلکہ وہ سماج کے ہمہ جہت اندھیروں کو چراغ اُمید کی روشنی سے دُور کرنے کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔ میں آخر میں یہی کہوں گا کہ شعیب جاذب سرزمین لیہ کے ایسے سر بر آوردہ شاعر ہیں جنھوں نے فنی لوازمات کو تخلیقی عمل سے گزار کر آرائش حرف وصوت کا خصوصی طور پر اہتمام کیا ہے۔ انھوں نے صنائع بدائع اور شعری محاسن کے علاوہ حسن آفرین الفاظ ومحاورات تمثال آفرینی اور ادب کی جمالیاتی قدروں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے شعری اسلوب کو انفرادیت بخشی ہے۔

 

نوٹ:یہ مضمون گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے (تھل کالج میگزین) سے لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com