ادبلیہ کا ادب

لیہ کا ادب : قیام پاکستان کے آ س پاس

ڈاکٹر افتخار بیگ

لیہ کا ادب : قیام پاکستان کے آ س پاس

قدیم تھلوچی تہذیب کا مرکز لیہ،جو ماضی میں ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل کے طور پر جانا جاتا تھا،اب ضلعی ہیڈ کوارٹر ہے۔اپنے محل وقوع کے اعتبار سے یہ شہر قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔مغرب میں دریائے سندھ بہتا ہے۔دریائے سندھ کے کنارے آباد ہونے کی وجہ سے پورے ضلع کا مغربی حصہ ہریالی میں ڈھکا ہوا ہے۔ مشرق میں واقع تھل کے ٹیلوں کی صورت کچھ یوں ہے کہ انہوں نے نیم قوسی صورت میں اس ضلع کو اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے۔شمال جنوب اور مشر ق میں تھل ہی تھل ہے جو نہروں کے آجانے کے باوجود اپنی حدود ثالثہ قائم رکھے ہوئے ہے۔ تاہم تھل کا ایک بڑا حصہ نہری نظام کی بدولت گل و گلزار بن چکا ہے اور اب یہاں زندگی ہمکتی نظر آتی ہے۔
قیام پاکستان سے پہلے اس شہر کا رابطہ ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ صرف ریل کے توسط سے تھا۔ریل کی پٹری اس شہر میں 1884ء کے لگ بھگ بچھنی شروع ہوئی اور 1986ء میں ملتان تا بھکر ریل کی سروس شروع ہوئی۔اس دور میں بھکر ریل کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔بعد میں کندیاں تک،پھر جنڈ اور پھر پشاور کی طرف یہ ریلوے ٹریک بڑھتا چلا گیا۔گرمیوں کی لو سے جھلسے اور آندھیوں کی دھول سے اٹے،اس شہر اور اس کے باسیوں نے باقی ماندہ برصغیر سے رابطہ کرنے اور فکری اور نظری حوالے سے بھرپور انداز میں ترقی کی راہ پر گامزن ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔اس خطے میں قدیم تھلوچی زبان بولی جاتی تھی جو بعد میں ملتانی کہلوائی اور آج کل سرائیکی کہلواتی ہے۔سرائیکی زبان کا بنیادی ڈھانچہ ہندی اور اردو کے بہت قریب ہے اور اس زبان میں مستعمل کئی افعال اور بہت سے اسماء ایسے ہیں جو اردو میں بھی مستعمل ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس خطے کے لوگوں نے قیام پاکستان سے بہت پہلے ہی اردو زبان و ادب کی نہ صرف تفہیم و تشریح کی بلکہ اردو زبان میں بھرپورتخلیقی اظہار بھی کیا۔
بیسویں صدی کے آغاز سے ہی برصغیر کے تقریباًسبھی علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں کے ہاں فکری و نظری سطح پر آزادی کا شعور اجاگر ہونا شروع ہوا۔اس فکری تحریک کے پس منظر میں سر سید احمد خان اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کو نظر انداز کیا جانا ممکن نہیں۔سر سید احمد خان کے ”تہذیب الاخلاق“نے فکر و نظر کی نئی جوت جگائی۔ادھر حالی کی شاعری خصوصاً ”مسدس“ نے مسلمانوں کو ایک نئی راہ سجھائی۔پھر ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے اندر فکری طور پر ہلچل پیدا کی تو ادھر عبدالحلیم شرر کے تاریخی ناولوں نے مسلمانوں کو جھنجھوڑا۔یوں فکر و نظر کا ایک ایسا ہیولا تیار ہوا جس نے برصغیر کے مسلمانوں کے سامنے مستقبل کا ایک موہوم سے نقش اجاگر کردیا۔علامہ اقبال کی شاعری نے اسلامیان ہند کو ایک نئی روح سے آشنا کرایا، تو ساتھ ہی لاہور سے چھپنے والے اخبار”زمیندار“ اور زمیندار کے ایڈیٹر ظفر علی خان نے مسلمانانِ ہند کو فکری حوالے سے بیدار کیا۔لیہ اس دور میں ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ادھر شمال میں کروڑ لعل عیسن قدیم تاریخی حوالے کے ساتھ موجود تھا اور جنوب میں کوٹ سلطان قدیم تہذیبی آثار کے ساتھ موجود تھا۔یہاں کے باسیوں نے اس دور میں اپنا ملی اورفکری فریضہ نبھانے اور جدید فکری رجحانات کو سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔ نتیجتاً اردو شعر و ادب کی ایک روایت یہاں بھی پنپنی شروع ہوئی۔لیہ میں پہلا ہائی سکول1920ء کے لگ بھگ قائم ہوا۔جس نے تعلیم وتربیت کی ضرورتیں بھی پوری کیں اور علمی اور فکری ارتقاء کو بھی مہمیز کیا۔اس سارے پس منظر کو ملحوظ رکھتے ہوئے ضلع لیہ کے ان شعرا کا اجمالی تذکرہ کیا جا رہا ہے۔جنھوں نے اپنے خون ِ جگر سے اردو شاعری کی آبیاری کی۔
سید امام علی شاہ شفیق:
حضرت قادر شیر کاظمی کی اولادمیں سے ہیں۔25دسمبر 1876ء کو قصبہ شاہ پور تحصیل کروڑ ضلع لیہ میں پیدا ہوئے۔غلام حیدر فدا سے اصلاح سخن لیتے رہے۔ذاکر اہلبیت ہونے کا شرف حاصل تھا۔سرائیکی،پنجابی اور اردو میں شعر کہا کرتے تھے۔مرثیہ نگاری میں بڑ مقام حاصل تھا۔مجالس و محافل میں انھیں ”انیس پنجاب“ کے نام سے جانا جاتا تھا۔کلام میں سوزو گداز اور وارفتگی موجود ہے۔8اگست 1963ء کو وفات پائی۔ان کا زیادہ کلام سرائیکی زبان میں ہے۔ حسینی دوہڑے اور مراثی لکھتے رہے ہیں۔
وہ تلوار جوہر دکھانے لگی
تو گھوڑا بھی تیزی دکھانے لگا
وہ بجلی سی طاقت بڑھانے لگی
یہ بادل سی گرجیں سنانے لگا
وہ جو چال چلتی تو یہ بھی چلے
مجھے یاد ہیں دونوں کے مشغلے
راجہ عبداللہ نیاز:
راجہ عبداللہ نیاز نے لیہ میں نہ صرف اردو شاعری کی روایت کو پروان چڑھایا بلکہ علمی اور فکری حوالے سے ان کی شاعری اتنی معتبر تھی کہ ”زمیندار“ اخبار کے صفحات کہ زینت بنی۔1895ء میں پیدا ہوئے(بحوالہ:۔ جعفر بلوچ۔آیاتِ ادب مکتبہ لاہور1988ص۔58)پیشے کے اعتبار سے مدرس تھے اور ہائی سکول میں درس وتدریس کا فریضہ سر انجام دیتے تھے۔بقول جعفر بلوچ”آپ کے رشحاتِ قلم 1913ء سے ”زمیندار“ کے دورِ آخر تک وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے۔آپ کی سیاسی اور تحریک آزادی کے سلسلے کی نظمیں آپ کے اصل نام کی بجائے حضرتِ مصور کے نام سے چھپتی تھیں“(بحوالہ: جعفر بلوچ۔نیاز صاحب اور ان کا کلام مشمولہ صبح سخن،مصنفہ راجہ عبداللہ نیاز پاکستان بکس اینڈ لٹریری ساؤنڈز لاہور1993 ص۔13)نیاز صاحب کا نعتیہ کلام ”یہ ہیں کارنامے رسول خدا کے“ان کی زندگی میں ہی اشاعت پذیر ہوا۔جبکہ دوسرا مجموعہ کلام ”صبح سخن“ کے نام سے پروفیسر جعفر بلوچ صاحب نے 1993میں شائع کرادیا۔پروفیسر جعفر بلوچ(مرحوم) نیاز صاحب کے ساتھ ازحد عقیدت و محبت رکھتے تھے اور اپنے آپ کو ان کا معنوی شاگرد گردانتے تھے۔نیاز کے کلام میں فکری اور نظری عمق بھی موجود ہے۔فلسفیانہ مباحث بھی ہیں اور سیاسی مسائل بھی۔مثلاً نظم”شمع و شاعر“ جس کے صرف چار مصرعے ہیں دیکھئے:۔
جہاں میں انفرادیت اک آئینِ مسلم ہے
جدا ہے رنگ ہر ذرہ کا زیرِ چرخِ مینائی
مگر شاعر بہت اے شمع! تجھ سے ملتا جلتا ہے
یہاں بھی جاں گدازی، اشکباری، محفل آرائی
جناب مظہر حسن نے ”راجہ عبداللہ نیاز۔حیات و فن“ کے موضوع پر ایم۔فل(اردو) کے لیے جو مقالہ تحریر کیا، وہ نیاز صاحب کی علمی اور شعری فضیلت کا اعتراف ہے۔ لکھتے ہیں:”ان کی شاعری علویت فکر،حقائق و معارف،ابلتے جذبوں کی طاقت و طباعت حسین لفظوں کی بولتی تصویروں اور تخیل کی نادرہ کاری کی ہم آہنگی سے تیار ہوتی ہے۔۔۔۔۔ان کے نغمہ ء شعر میں دل اور دماغ کو مسحور اور متفکر کرنے کی صلاحیت موجود ہے“(بحوالہ: مظہر حسن۔راجہ عبداللہ نیاز۔حیات و فن،تحقیقی مقالہ برائے ایم۔فل(اردو)علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد ص 247)تاریخی اعتبار سے نیاز ایسے شاعر ہیں جنھوں نے قیام پاکستان سے پہلے اس علاقے میں نہ صرف اردو زبان کی آبیاری کی بلکہ فکر و نظر کے حوالے سے بھی اس دور کے سیاسی،سماجی اور علمی موضوعات کو شاعری میں برتا۔ایک اور نام جو قیام پاکستان سے پہلے اس علاقے میں اردو شعرو ادب کی شمع روشن کئے رہا محمد رب نواز شکستہ کا ہے۔

محمد رب نواز شکستہ
  1896 میں لیہ میں پیدا ہوئے۔ روایات کے مطابق ان کے آبا و اجداد مشہد (ایران) سے ہجرت کر کے لیہ میں آن آباد ہوئے تھے۔ان کا مجموعہء کلام ”جواہراتِ شکستہ“ کے نام ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔یاد رہے کہ رب نواز شکستہ  ۶۶۹۱ء میں فوت ہوئے تھے۔شکستہ مشہدی ”جواہرات شکستہ“ میں کہتے ہیں:۔”قبل ازیں میری تصانیف کے متعدد دیوان فریادِ شکستہ (حصہ اول)فریاد شکستہ (حصہ دوئم)،آہِ شکستہ،آئین پاکستان،آئینہ اسلام،ہادی اسلام،نگینہ اسلام،گنجینہ اسلام،جلوہ مہر نو کتابیں خون ِ جگر کی سیاہی سے خار دل کا قلم بنا کر لکھیں۔۔۔۔۔اور وہ چودہ ہزارکی تعداد میں چھپ کرمقبول عام ہوئیں“(جواہرات شکستہ۔ص۔3)مگر بدقسمتی سے یہ کتابیں دستیاب نہ ہیں۔کچھ عرصہ پہلے جواہرات شکستہ کا جو ایڈیشن ان کے بیٹے عبدالحفیظ نے شائع کیا تھا صرف وہی دستیاب ہے۔موصوف کے ہاں اصلاح معاشرہ کا رجحان نمایاں ہے۔طنزومزاح سے خاص شغف تھا۔مگر جواہرات شکستہ کا نمایاں حصہ سنجیدہ نظموں پر مشتمل ہے۔ ان کی ایک نظم”دعا“جس کا سن تصنیف1915ء بتلایا ہے(جواہراتِ شکستہ۔ص۔8)بقول ان کے اپنے ضلع مظفر گڑھ کے اکثر سکولوں میں گائی جاتی تھی۔ نظم درج ذیل ہے
اے حاکموں کے حاکم، حاکم ہے نام تیرا
چلتا ہے حکم سب پر ہر صبح شام تیرا
گلشن میں بیل بوٹے کرتے ثنا ہیں تیری
ہرشاخِ گل پہ بلبل لیتا ہے نام تیرا
مسجد میں کہہ رہا ہے ربِ رحیم کوئی
مندر میں لے رہا ہے وہ رام نام تیرا
لاکھوں کروڑوں دن میں کرتے ہیں گو گنہ ہم
چلتا مگر ہے ویسے بخشش کا جام تیرا
مسجد میں بتکدہ میں مندر میں مے کدہ میں
جلوہ جہاں یہ دیکھیں ہیں لاکلام تیرا
اے بادشاہ عالی! کون و مکاں کے والی
ہر دم رہے سوالی شاہ و غلام تیرا
آباد تا ابد ہوں یہ حاضرینِ مکتب
مانگے دعا شکستہ یارب غلام تیرا
برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی زندگی کا سب سے اہم واقعہ قیام پاکستان ہے جس نے ہر صاحبِ دل کو متاثر کیا۔شکستہ مرحوم کے ہاں بھی اس حوالے سے کئی نظمیں موجود ہیں، جو تاثر سے بھرپور ہیں۔جواہرات شکستہ میں موجود نظموں میں سے یہ نظمیں اہم ہیں ”انقلابِ عظیم“جو 1947میں رونما ہوا(ص۔38)”اپیل اہلیانِ ملک پاکستان سے“(ص۔39)”نعرہ جہاد“(ص۔41)”مسدس“(ص۔42)۔وطن سے محبت،دنیاکی بے ثباتی حالاتِ زمانہ کی ابتری اور نئے دنوں کی امید ان کی شاعری کے اہم موضوعات ہیں۔
جعفر بلوچ کے مطابق شکستہ مرحوم”تلوک چند محروم“ کے شاگرد تھے۔غزل گوئی اور ہجو طرازی میں شہرت پائی۔(آیاتِ ادب۔ص۔229)مگر جواہرات شکستہ میں شامل نظمیں اور غزلیں اپنے موضوعات کے اعتبار سے قدرے مختلف ہیں۔ یہ نظمیں اور غزلیں لیہ جیسے دور افتادہ علاقے میں رہنے والے تخلیق کار کی مہارت اور متانتِ فکرکی غماز ہیں۔تاہم زبان و بیان کے کچھ اسقام اپنی جگہ موجود ہیں۔ غزلوں میں معاملہ بندی کا ساانداز جھلکتا ہے۔مثلاً۔
شبنم کی طرح یاد ہے بابتدائے عشق
آنکھوں سے تارِ اشک کا ڈھلنا سنبھل سنبھل
روزنِ سے جب تو دیکھ لے اس شمع رو کا نور
اے دل گلی میں یار کی چلنا سنبھل سنبھل
بقول عبدالحفیظ خان مشہدی(جوکہ رب نواز شکستہ مرحوم کے فرزند اور کتاب جواہرات شکستہ کے ناشر بھی ہیں)”وفات کے وقت موصوف کی عمر تقریباً74سال تھی۔شکستہ مرحوم محکمہ محال میں بطور مالی پٹواری کام کرتے رہے۔ بیشتر وقت چوبارہ اور نواں کوٹ میں تعینات رہے۔سترہ سال تک ملازمت کرنے کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا“۔ایک مرتبہ پروفیسر شہباز حسین نقوی نے اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا:”میں ایم سی ہائی سکول میں نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ان دنوں میں رب نواز شکستہ کے ہمراہ ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ چہل قدمی کرتے ہوئے ان کے محلے چانڈیہ تک جاتا تھا۔اور ان سے اکثر و بیشتر ان کی نظمیں سنا کرتا تھا۔ان کا کلام مجھے بہت اپیل کرتا تھا۔ ان کا کلام محبت اور ہمدردی سے معمور ہوتا تھا“۔
قیام پاکستان کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہجرت کرکے آنے والے لوگوں میں  ایک قابلِ ذکر تعداد شعرا کی بھی تھی۔یا شاید وقت اور حالات کے حادثات نے ان میں سے کئی کوشاعر بنا دیا۔قیام پاکستان کے بعد یہاں پر وارد ہونے والے لوگ مختلف علاقوں سے آئے تھے۔ ان میں روہتک حصار(ہریانہ)کے لوگ بھی تھے اور کرنال کے بھی،پٹیالہ ریاست کے لوگ بھی تھے اور انبالے اور جالندھرسے ہجرت کرنے والے بھی۔ان لوگوں کی آمد کے ساتھ ہی تھل کے علاقے میں فکری، نظریاتی، تہذیبی،تمدنی اور لسانی سطح پر اختلاط کا عمل شروع ہوا۔نوواردان اپنے ساتھ کچھ نئے رویے اور زندگی کے نئے تجربات لے کر آئے تھے، کیوں کہ اس دور میں یہ لوگ اپنی اپنی جگہ پر علمی اور فکری مراکز کے بھی قریب تھے اور ساتھ ہی شعری روایت سے جڑے ہوئے تھے۔ ادھر تھلوچی عشق و محبت کی روایات کے امین تھے۔سو مخلوط سماجی رویے پنپنے میں دیر نہیں لگی۔ ادھر ملی سطح پر اردو زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا۔ساتھ ہی سکولوں میں پڑھائے جانے والے سلیبس نے بھی اپنے اثرات قائم کئے اور لیہ میں ایک نیا فکری رویہ پیدا ہوچلا۔ہجرت کر کے آنے والے شاعر اپنے علاقوں میں یا مجموعی اردو شعر وادب میں کوئی مرتبہ یا مقام حاصل کرتے یا نہ کرتے مگر یہاں جہاں صاف اور شستہ لہجے میں اردو بولنا بھی ایک رومانس تھا،بے حد اہمیت کے حامل ٹھہرے۔ان لوگوں کی معیت میں مقامی صاحبان ِ فکر و نظر نے زندگی کو نئے انداز میں سمجھنے کی کاوش کی اور اردو شعرو ادب کی ترقی اور فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔خصوصاً یہاں کے نوجوانوں نے اردو شعر وادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور نو آمدہ لوگوں سے استفادہ کیا۔ان لوگوں کا ذکر اگلے صفحات میں موجود ہے۔
حکیم غلام جیلانی پٹیالوی: 
فرمان تخلص کرتے تھے۔ حکیم غلام جیلانی پٹیالوی قیام پاکستان کے بعد لیہ میں آکر آباد ہوئے۔ بقول پروفیسر جعفر بلوچ”لیہ کے متعدد اہل قلم نے آپ سے فیض پایا۔جن میں جناب نسیم لیہ،جناب غافل کرنالی اور جناب عبدالغفار عابد خصوصاً قابل ذکر ہیں۔۔۔۔۔”24جون 1970کو تقریباً87برس کی عمر میں فوت ہوئے۔۔۔۔۔حضرت بدرسنامی کے شاگرد تھے۔۔۔۔۔ غالب کے اردو دیوان کی اسی (80)غزلوں کی شرح لکھی۔۔۔۔۔ لیکن افسوس ان کی کوئی مستقل علمی و ادبی یادگار اشاعت پذیر نہ ہوسکی۔مرحوم کی اس محرومی کا سہرا بڑی حد تک ان کے ورثا کے سر ہے“(بحوالہ آیات ادب۔ص۔53)موصوف اردو غزل کی روایت کے امین تھے اور حسن و عشق اور تصوف کے موضوعات کو نبھانا جانتے تھے مثلاً!
جب پھیلتی ہے آہِ شرر ناک ہوا میں
بنتا ہے نیا چرخ تہِ چرخ فضا میں
کہہ دو ملک الموت سے تکلیف نہ فرمائیں
اک عمر سے ہم کھیلتے ہیں دستِ قضا میں
پیغام کا بھی چھوڑا نہ ظالم نے سہارا
سنتے ہیں لگا دی ہے حنا پائے صبا میں
آخری شعر میں بے حد نازک خیالی موجود ہے جو اساتذہ کوہی زیبا ہے۔مگر افسوس کہ یہ شخص اس دور میں لیہ جیسے دور افتادہ قصبے میں آن بسا جہاں اخبار بھی تیسرے دن آیا کرتا تھا۔ مراکز سے دوری نے ان لوگوں کے فکر و فن کو بر وقت دنیا کے سامنے نہ آنے دیا اورپھر وقت کی دھول کی تہیں ان کے فکر و فن کو نگل گئیں۔
ناخدا کا یہ کرشمہ ہی تو ہے
ورنہ کشتی ڈوبنے والی نہ تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکندر کاٹتا ہے لب،لب ِ جاں بخش کے تل پر
یہ ہندو خوب پہنچا چشمہء حیواں کے ساحل پر
سید ذاکر حسین جگرانوی:
  1894ء کو قصبہ پھاگلہ تحصیل و ضلع لدھیانہ میں جنم لینے والے سید ذاکر حسین،ذاکر جگرانوی کے نام سے مشہورتھے۔ ڈاکخانہ جات میں ملازمت کرتے رہے۔1948ء میں نوکری چھوڑنے کے بعد لیہ میں آباد ہوئے۔1970 کو وفات پائی۔ان کا مجموعہ کلام”زادِ راہ“ کے نام سے شائع ہوا۔مدحت و منقبت اہل بیت مرغوب موضوع تھا۔ تاہم غزل میں بھی خوب رنگ جماتے ہیں۔
لطف و راحت عیش و عشرت کے نظاروں کی طرف
گنج قاروں کی طرف،دولت کے دھاروں کی طرف
بے ضمیروں،زرپرستوں،مالداروں کی طرف
کس حقارت کی نظر سے تاجداروں کی طرف
دیکھتے ہیں کفش برادرانِ مسکین ِحسین
۔۔۔۔۔۔۔۔
مسکرا کر جو مجھے دیکھ لیا خوب کیا
جان ہی ڈال دی گویا مرے ارمانوں میں
قیس کے دم سے تھی آباد جنوں کی دنیا
اب اداسی سی نظر آتی ہے ویرانوں میں
(آیات ِ ادب ص۔56۔57)
سید مہر علی شاہ وارث: 1900ء میں سید امام بخش شاہ کے ہاں پیدا ہوئے۔سید امام بخش شاہ شفیق سے اصلاح سخن لیتے رہے۔غزل،کافی اور نظم میں قلم فرسائی کرتے رہے۔1968ء کو دارِ فانی سے کو چ کیا۔
ساقیا تو محفلِ اغیار کی زینت نہ بن
بے قدر ہوگا بہت،جب راز عیاں ہوجائے گا
قیصر عباس رضوی:
سامانہ (ریاست پٹیالہ) میں پیدا ہوئے ایل۔ایس۔ ایم۔ ایف ڈاکٹر تھے۔اپنا کلینک چلاتے تھے۔ادبی محافل کی جان تھے ”ہجومِ آرزو“ اور ”زندگی ہی زندگی“ دو مجموعے شائع ہوئے۔ 28فروری1978ء کو تقریباً ساٹھ سال کی عمر میں وفات پائی۔
میں بھٹک کے آگیا ہوں اسے کارواں سمجھ کر
یہ تو گردِ کارواں ہے یہاں کارواں نہیں ہے
شیدا گوڑیانوی:
1904 میں قصبہ گوڑیانہ میں پیدا ہوئے۔ایس۔وی ٹیچر تھے۔تقسیم کے بعد لیہ میں آباد ہوئے۔ 1974ء میں وفات پائی۔روایتی کلاسیکی لہجے میں غزل کہتے تھے۔
حد سے کیا زلف ِ رسا بڑھتی ہے منہ لگائی ہوئی سر چڑھتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شبنم و گل سے ہے نیرنگی ء فطرت کی نمود کوئی ہنستا ہے کوئی اشک فشاں ہوتا ہے
فضل حق رضوی:
پیدائش 1906،سامانہ ریاست پٹیالہ سے ہجرت کرکے لیہ میں آن آباد ہوئے۔ محکمہ محال میں نائب تحصیلدار تھے 20اکتوبر1990ء کو لگ بھگ ستاسی سال کی عمر میں وفات پائی۔ لیہ میں ادبی سرگرمیوں کی ترویج میں ان کا بڑا حصہ تھا۔”دھوپ چھاؤں“ان کا مجموعہ کلام شائع ہو چکا ہے۔
خوشبو کی طرح روح میں بستا چلا گیا
دل میں ترا خیال اترتا چلا گیا
مجھ کو یقین نہیں ہے کہ تو بے وفا بھی ہے
وعدوں سے اپنے گرچہ مکرتا چلا گیا
”عظمت اسلام“نامی ایک قطعات کا مجموعہ ترتیب دیا مگر اشاعت پذیر نہ ہو سکا۔بزم غلام بھیک نیرنگ کے زیر اہتمام مشاعروں کا انعقاد کیا کرتے تھے۔ لیہ میں ا دبی ذوق پیدا کرنے میں اس بزم نے اہم کردار ادا کیا۔
مرید راز: اصل نام مرید حسین تھا۔1910ء پہاڑپور میں پیدا ہوئے۔حمد و نعت لکھتے اور ترنم کے ساتھ پڑھتے تھے۔صفدر حسین صفدر سے اصلاح لیتے تھے۔1942ء کو وفات پائی۔
شایاں ہے شکر نعمت پروردگار کا
ہے بحر موجزن کرمِ کردگار کا
مہمان ہیں جن و انس سرِ خون کبریا
کیا حق کوئی ادا کرے عالی وقار کا
شریف منتظر:
اصل نام محمد شریف ہے۔منتظر تخلص کرتے تھے۔1911ء میں انبالہ(ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔فارسی میں منشی فاضل،عربی میں مولوی فاضل تھے۔ہجرت کے بعد کروڑ لعل عیسن آن آباد  ہوئے۔نعت لکھتے تھے۔
جو دیکھے یوسف کنعاں رخ انور کی تابانی
پکار اٹھے محمد کا نہیں ثانی نہیں ثانی
وہ کیا شان نبوت تھی وہ کیا شان شجاعت تھی
کہ جس کے سامنے جبرائیل بھی بھرتے رہے پانی
شارق انبالوی:
26جنوری 1916ء کو ساڈھورہ ضلع انبالہ میں پیدا ہوئے۔ موصوف قیام پاکستان کے بعد کروڑ لعل عیسن ضلع لیہ میں مقیم ہوئے۔9دسمبر1986ء کو کروڑ ہی میں وفات پائی۔ بقول جعفر بلوچ”حضرت شارق کی جودتِ طبع کا اظہار ان کے بیان کے جداگانہ اسلوب سے ہوتا ہے۔۔۔۔مجموعی لحاظ سے ان کا کلام ایک سلیم الطبع قاری کے لئے مسرت و انبساط کا وافر سر مایہ رکھتا ہے“(آیات ِ ادب:ص۔117)ان کے شعری مجموعے اشاعت پذیر نہ ہوسکے۔زیادہ تر غزل میں جو دتِ طبع کا اظہار کیا ہے۔ ایک غزل دیکھئے:۔
مخزنِ حسن مرا دیدہ تر ہو جیسے
یوں ضیاء بار ہے ہر اشک گہر ہو جیسے
دل میں یوں رہتا ہے اندیشہء مرگِ حسرت
مقصدِ زیست بہ اندازِ دگر ہو جیسے
رک گیا جذبہئ تعمیر یہیں پر آکر
تری تخلیق کی معراج بشر ہو جیسے
محو پرواز ہے یوں طائرِ ہستی شب وروز
منزلِ اہل خرد چاند نگر ہو جیسے
دھندلا دھندلا نظر آتا ہے ستاروں کا جمال
اول شب بھی انہیں خوفِ سحر ہو جیسے
کنج خلوت میں ابھی سوچ رہا ہے کوئی
قیدِ احساس سے امکان مفر ہو جیسے
تیری زلفوں کی مہک آتی ہے ہر سانس کیساتھ
میرا سینہ بھی تری راہگزر ہو جیسے
جلوہ آرا ہے کوئی خانہئ دل میں شارق
آنکھ کی پتلی میں تنویرِ نظر ہو جیسے
محمد شفیع خان عاصی:
محمد شفیع خان عاصی 1920ء میں لیہ میں پیدا ہوئے۔چانڈیہ بلوچ تھے۔محکمہ محال میں ملازمت کرتے تھے۔ 1980ء میں تحصیل داری سے ریٹائر ہوئے۔نسیم لیہ کے استاد تھے۔
سہمے ہوئے ستاروں کا خوں پی گئی شفق
ہم تھے کہ محوِ مطلع انوار ہی رہے
سنبل قریشی:
ایس۔وی ٹیچر تھے۔گورنمنٹ ہائی سکول لیہ میں تعینات رہے۔غالباً 1970ء میں ریٹائر ہوئے۔ بہت زندہ دل شخصیت کے مالک تھے۔1986ء میں انتقال ہوا۔
قسمت کی طرح مجھ سے ہیں برگشتہ آجکل
احباب یونہی رنجشِ بے جا لیے ہوئے
نذیر چوہدری:
پنجابی کے مشہور و معروف شاعر تھے۔ کبھی کبھی اردو میں بھی طبع آزمائی کرتے تھے۔ 1987ء میں وفات پائی۔
یہ تجربہ ہے نورِ بصارت کے باوجود
دیکھی ہیں میں نے دوستو آنکھیں ہزار بند
ڈاکٹر مہر عبدالحق:
یکم جولائی 1915ء کو لیہ میں پیدا ہوئے۔1950ء میں ایم۔اے (اردو) کیا اور 1957 میں پی ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔1979ء میں ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز ریٹائر ہوئے۔عمر کے آخری حصے میں ملتان جا آباد ہوئے۔وہیں 1995 میں وفات پائی عربی،فارسی اردو،انگریزی زبانوں میں مہارت رکھتے تھے۔شعری تراجم کئے ہیں۔خصوصاً قصیدا”بردہ شریف“(جو عربی میں ہے) کو فارسی، اردو اور سرائیکی زبان میں ترجمہ کرنے کی سعادت انہی کے حصے میں آئی۔ قصیدہ کے چند اشعار درج ہیں۔
آپ ہیں حضرت محمد سرور ہر دوسرا
آپ ہیں عرب و عجم جن وبشر کے پیشوا
آپ جیسا امروناہی نہیں آیا کوئی
سچے ہیں ہر قول میں ایجاب ہو چاہے نفی
آپ ہیں محبوب حق اور شافع روزِ جزا
ناگہانی آفتوں میں آپ کا ہے آسرا
مہر عبدالحق آتش تخلص کرتے تھے اور اوائل عمری میں غزل بھی کہتے رہے۔اردو شاعری ان کا اولین حوالہ ہے۔
عبدالرحمن مونس: ان کے بارے میں جعفر بلوچ صاحب نے صرف اتنا ہی ذکر کیا ہے ”اصلاً لیہ کے سکونتی تھے۔بعد میں کروڑ جا آباد ہوئے۔قریباً 63سال کی عمر میں وفات پائی
دنیا سے اٹھی رسم ِوفا دیکھئے کیا ہو
بدلی ہے زمانے کی ہوا دیکھئے کیا ہو
دیگر معلومات ناپید ہیں۔
ارمان عثمانی:
یوپی کے مشہور قصبہ خواجہ ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے۔ادیب عالم اور فاضل ادیب کی اسناد حاصل کیں۔تقسیم ہند سے پہلے فیروز پور چھاؤنی میں محکمہ فوج میں کلرک تھے۔قیام پاکستان کے بعد پہلے پہل ملتان آئے،یہاں سے 1949ء بہاول پور جا مقیم ہوئے اور 1957ء تک وہیں رہے۔یہاں جن اخبار و رسائل کی ادارت کا فریضہ سر انجام دیا ان میں ”رہبر،روزنامہ مغربی پاکستان،ہفت روزہ ستلج،ہفت روزہ بے باک،ہفت روزہ رفیق اور سہ روزہ جمہور کے نام قابل ذکر ہیں“(جہانِ غزل۔ارباب فکرو شعور جمال۔ ملتان۔ ص۔8)
ان کا مجموعہ ء کلام ”جہانِ غزل“ ان کی زندگی میں ہی شائع ہو گیا تھا۔علامہ عیش فیروز پوری سے اصلاح سخن لیتے رہے۔1957ء میں لیہ وارد ہوئے اور ناز سینما لیہ سے ملحق ایک کمرے میں مقیم رہے۔1980ء میں بقول پروفیسر مہر اختر وہاب اپنا مجموعہ کلام ”سوچتے سوچتے“چھپوانے کے سلسلے میں رحیم یار خان منتقل ہو گئے۔شاید وہاں ان کے کچھ پرستار موجود تھے۔1981ء میں سیال کلینک ملتان میں ان کے ہرنیے کا آپریشن ہوا۔ہسپتال میں پروفیسر مہر اختر وہاب کی ان سے ملاقات بھی ہوئی تھی۔بعد ازاں 1981ء کے آخر میں اخبار کے توسط سے اطلاع ملی کہ ارمان عثمانی فوت ہو گئے ہیں۔ان کی غزل میں ایک طرح داری موجود ہے رندانہ مشرب کے مالک تھے۔سورندانہ مضامین کی آڑ میں بات کرتے ہیں۔
رند پیتے رہے،رند جیتے رہے،دور چلتا رہا جام اچھلتے رہے
میکدہ اپنی حالت پہ قائم رہا گو زمانے کے تیور بدلتے رہے
آپ کی بے رخی کا نہیں کچھ گلہ، راہِ الفت میں اتنا کرم تو ہوا
اجنبی کی طرح بات کرتے رہے،اجنبی کی طرح ساتھ چلتے رہے
۔۔۔۔۔۔۔
میں اسی خیال سے آج تک کبھی دل کی بات نہ کہہ سکا
کہ وہ دردو غم سے ہے بے خبر کہیں مسکرا کے نہ ٹال دے
ضیائی مارشل لا ء میں بہاولپور سے ایک ہفت روز ہ اخبار”انصاف“ نکلتا تھا جس میں ارمان عثمانی ادارت کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔حکومت کے خلاف لکھنے پر ”ہفت روزہ انصاف“ کو بند کر دیا گیا جس پر ارمان عثمانی نے لکھا تھا کہ:۔
انصاف تو یہ ہے کہ زباں اس کی کٹے گی
انصاف کی جو بھی یہاں بات کرے گا
انصاف کو یہ کہ کے ریاست نے کیا بند
انصاف ریاست میں رہا ہے نہ رہے گا
جاری ہے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com