لیہ کا ادب

ضلع لیہ: افتخار بیگ کی شاعری ایک مطالعہ

نسرین حمید

 

افتخار بیگ کی شاعری ایک مطالعہ

اپنا منشور ہے ہر سمت کھلیں سروسمن
یہ بھی نعرہ ہے کہ تابندہ رہے اپنا وطن

اپنا منشور ہے انصاف کا روشن دن بھی
اور نعرہ ہے چلوسوئے چمن سوئے چمن

جناب افتخار بیگ جو پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ میں بحیثیت استاد اپنے فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔ اُن کا اولین مجموعہ کلام ” کبھی تم سوچنا کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے اور کتاب کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ وہ نہ صرف خود سوچنے کے عمل سے گزرے بلکہ دوسروں کے لیے بھی دعوت عام ہے کہ وہ حالات و واقعات پر گہری نظر رکھیں ۔ آپ کا شمار حساس اور باشعور لوگوں میں ہوتا ہے جن کو دنیا میں ہونے والے تجربات اور مشاہدات سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے لیکن وہ ان تجربات اور
مشاہدات کو اپنے تک محدود نہیں رکھتے بلکہ اسے دوسروں تک پہنچانا ہی اُن کا مقصود نظر ہوتا ہے۔ آپ کے شعری احساس اور فکر میں جہاں ایک طرف زبر دست قسم کی آورد کا احساس ہوتا ہے وہیں دوسری طرف لاشعوری آمد ، نایاب سوچ اور غیر معمولی بصیرت کے حامل موضوعات کا ایک تسلسل ہے جن میں کہیں خواہش ہے تو کہیں اُمید، کہیں انقلاب کے آرزو مند ہیں تو کہیں انسان کی فطری بے بسی پر نوحہ کناں۔ ٹائٹل شعر میں جہاں وہ اپنے وطن میں انصاف کے روشن دن کے متمنی ہیں وہیں وہ اپنی حساسیت اور عزم کا اظہار کچھ اس طرح سے بھی کرتے ہیں:

لہو لہو ہو بدن پاؤں میں پھپھولے ہوں
لبوں پہ پیاس کے جلتے ہوئے بگولے ہوں
میں پھر بھی پیار کے بادل تلاش لاؤں گا
میں اپنے خون سے بجھتے دیے جلاؤں گا

آپ کی شاعری کی فضا عشق و محبت کے جذباتی دھندلکوں کو جنم نہیں دیتی بلکہ اس میں فکر و نظر کی ایک دنیا آباد ہے جس کا مرکزی نکتہ زندگی اور زندگی کی تلخ حقیقتیں ہیں۔ آپ کی شاعری میں جہاں ایک طرف عمیق نظری اور خیال کی صداقت کا احساس جاگزیں ہے وہیں زندگی کے تلخ مگر حقیقی تجربات کا ایک منفر داظہار بھی موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ن کو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ہونا چاہیے۔ اعلیٰ اقدار کی پاسبانی و تر جمانی فنکار کی معراج ہے۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ کی شاعری کے بارے میں یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ آپ اعلیٰ جذبوں کے شاعر ہی نہیں اچھے انسان بھی ہیں کیونکہ آپ نے انہیں اعلیٰ جذبوں کو اپنی شاعری میں سمویا ہے۔ چند اشعار میں اُن کی حساسیت عروج پر نظر آتی ہے:

اسپتالوں میں یہ مجبور مریضوں کا ہجوم
میرے احساس کو مجرم سا بنا دیتا ہے
کیا کروں گرمری آنکھوں سے بھی شبنم نیکی
جبر انسان کو حساس بنا دیتا ہے

اور پھر وہ ایک جبر جو ایک مخصوص گروہ نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے انسانیت پر طاری کر رکھا ہے۔ ہم لامحدود وسائل کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں۔

میں نے مانگے تھے اُجالے کہ مجھے ملے
حاکم شہر تو جینے کی سزا دیتا ہے

شہر کے حاکم نے کیوں پہرے بٹھائے سوچ پر
ہر طرف دیوانگی کا نور ہے بکھرا ہے

اور پھر ان مسائل کے حل کے لیے اُن کا لہجہ کچھ دعائیہ اور حسرت زدہ ہو جاتا ہے۔

کاش میرا لہو اس دور کو رفعت بخشے
کاش بکتے ہوئے انساں نہ بکتے ہوتے
میں نے چاہا تو بہت کچھ تھا میری جان ! مگر
کاش یزداں نے یہ الفاظ بھی لکھے ہوتے

مرزا مبشر بیگ اُن کی شاعری کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ” اُن کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک نیا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اُن کی شاعری میں ادب برائے زندگی اور ادب برائے ذات باہم آمیز ہو کر ایک نیا ذائقہ قاری کے ذہن کو فراہم کرتے ہیں۔ اُن کی شاعری میں پاکستانی سماج میں انسان کی بے وقعتی اور انسانی اقدار کی ناقدری کا شدید احساس موجود ہے۔“ اگر چہ حقیقوں کی تلخیاں، زندگی کے عذاب، لٹتے ہوئے خواب اور احساس کی شکستگی جیسے عناصر ہمیں افتخار بیگ کی شاعری میں نظر آتے ہیں لیکن اُن کا جذبہ احساس اُمید اور رجائیت پسندی کے اثاثے سے دستبر دار نہیں ہوتا۔

کوئی نشان رہ نہ تھا کہیں کوئی دیا نہ تھا
شعور ذات باتمنا عجیب سا لگا مجھے

وہ صداقتوں کے شاعر ہیں اور کسی بھی طرح حالات سے بے خبر نہیں لیکن انہیں اپنے عہد کے لوگوں سے بھی شکایت ہے جو لاعلمی کے دلدل میں ہیں اور یہیں اُن کا لہجہ المیاتی ہو جاتا ہے۔

میں ایسے شہر کے لوگوں کے دکھ نہ بانٹ سکا
جہاں شعور ذات ابھی بے لباس رہتا تھا

پروفیسر امیر محمد اُن کی شاعری کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
افتخار بیگ کی شاعری عشق ، ایثار اور عدل پر استوار کچے انسان دوست معاشرے کی تخلیق و تعمیر کے خوابوں پر مشتمل ہے۔ ہر بڑے شاعر کی طرح افتخار بیگ نے بھی ذاتی تجربے اور واردات کو شاعرانہ میٹا فورس کے عمل سے آفاقی کا ئناتی اور ہمہ گیر بنا دیا ہے۔“ افتخار بیگ کے ہاں زندگی ، زندگی کے مصائب و مسائل کے حوالے سے اس کی جدو جہد، اس کی بلند نظری ہم نظری اور تیز روی مستقل موضوعات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُنھوں نے شاعری کے روایتی مضامین اور موضوعات سے انحراف کر کے نئے موضوعات اور مضامین کا انتخاب کیا ہے۔ اسی حوالے سے مرزا بشیر بیگ لکھتے ہیں کہ: افتخار بیگ کے ہاں شعری، علاماتی استعاراتی نظام بھی اپنا اضع گروہ ہے۔ وہ بہت کم علامتیں مستعار لیتے ہیں اور اگر ایسا ہوا بھی تو وہ اُن کے ذاتی تجربے کے الاؤ سے ہو کر نئے معنوی روپ میں ڈھل گئی ہیں۔“ افتخار بیگ کو کرب کا شاعر کہا جاتا ہے مگر یہ بات صرف ایک حد تک درست ہے کیونکہ زندگی کی ہولناک سنجیدگی اور مقدر کی ستم آرائی کے دردناک تصورات کے باوجود اُن کی شاعری کا مجموعی تاثر مسرت میں ڈوب کر باہر آتا ہے۔ اسی حوالے
سے احسن بٹ لکھتے ہیں کہ:
اکیسویں صدی کلونگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی ، گلوبل اکانومی، خلاؤں میں سپیس سٹیشنوں کے قیام اور نئے سیاروں کی تسخیر کی صدی ہوگی۔ علمی اور تخلیقی حلقوں میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ اس نئے انسانی منظر نامے میں تخلیقی اظہاری ڈسپلنز خصوصاً شاعری کا کیا جواز ہے؟ ۔ ۔ ۔ میں اس پیچیدہ اور ایک حد
تک ایسر ڈسوال کا بڑا سادہ سا جواب پیش کرتا ہوں ۔۔۔ اور وہ ہے افتخار بیگ کی شاعری کا یہ مجموعہ ! جہاں دنیا جدید سائنس اور ٹیکنا لوجی کے میدان میں محو سفر ہے۔ افتخار بیگ نے اس علم کو ادب سے الگ نہیں سمجھا۔ وہ اپنی شاعری کے موضوعات میں سائنسی حقائق کے پردے میں نئے نئے اور انوکھے انکشافات کرتے نظر آتے ہیں۔ افتخار بیگ کی شاعری کا ایک اہم عنصر ان کا ذومعنی انداز ہے۔ مثلاً:

کیوں زمانے میں زہر بکھرا ہے
ہر طرف جسم کیوں تڑپتے ہیں
وہ خدا جانے ہم کو بھول گیا

کہا جاتا ہے کہ لاعلمی بھی ایک نعمت ہے۔ یہ ضرب المثل جب افتخار بیگ کے علم کا نشانہ بنتی ہے تو مجموعی تاثر کچھ اس طرح سے اُبھرتا ہے۔

۔۔۔ باخبر میں تو نہ تھا
خون کس کس کا بہا۔۔۔ کیسے بہا
ظلمتوں اوٹ پرے
جو ہوا سب اچھا
میری یہ بے خبری اور یہ جہل طویل
جو کہ اک لعنت ہے ۔۔۔ یوں لگا نعمت ہے

افتخار بیگ انسان دوست شاعر ہیں۔ اُن کی شاعری کا بنیادی موضوع انسان اور انسانی زندگی کے مسائل و مصائب ہیں۔ انسانی زندگی پر ایک جر جوفرسودہ روایات کے حوالے سے ہے جسے ایک مخصوص گروہ نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے انسانیت پر طاری کر رکھا ہے اسے موضوع بناتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
یہ۔۔۔ میرے شہر کے لوگ منم
اپنی سڑتی ہوئی رسموں کے
قحبہ خانوں میں بیٹھے ہیں
پر سال بکے تھے پھول مگر
امسال گلاب چنبیلی کی
آنکھوں سے ڈھلکتے آنسو بھی
نیلام کریں گے یہ جاناں !
افتخار بیگ جدید طرز احساس نئی لفظیات اور نئے طرز ادا کے شاعر ہیں۔ جرات وحوصلہ اُن کی شاعری کے بنیادی اجزاء ہیں ۔ اپنے چاروں طرف پھیلی ناہمواریاں اُن کے لیے دکھ کا سامان پیدا کرتی ہیں ۔ وہ اپنے عہد کی نسلوں کو بے سہارا پاتے ہیں۔ اسی حوالے سے اُن کی ایک نظم ” بھوک ملاحظہ ہو:
پھر بانجھ گھٹائیں اُتری ہیں
امسال ہماری بستی میں
کہ لب دھرتی کے نیلے ہیں
لوگوں کے چہرے پہلے ہیں
اک موت کا سایہ ہے ہر سُو
اور ریت کے جلتے ٹیلے ہیں انبوہ پھرے ہے لوگوں کا
جو دھرتی سے
بس بھوک کی فصلیں کاٹے ہے
دیوار کے پتھر چائے ہے یہ قحط کے مارے لوگ ہیں جی!
ان سب کے تن بھی نیلے ہیں
اور سب آنکھوں میں ایک سوال کیا موت کے ہونٹ رسیلے ہیں؟
جہاں اپنے چاروں طرف پھیلی ناہمواریاں ، نا انصافی کا دور دورہ اور جبر کی مختلف اقسام اُن کے لیے دکھ کا سامان پیدا کرتی ہیں۔ وہیں وہ اس مسئلے کا حل کچھ اس طرح سے نکالتے ہیں:

آؤ زنجیر ای در کی ہلائیں یارو
حال دل اپنے مسیحا کو سنائیں یارو
آؤ انسان کی بکتی ہوئی نسلوں کے لیے
کچھ نئے رنگ نئے پھول اُگائیں یارو
بستیاں سرخ گلابوں سے مہک جائیں سبھی
شہر افلاس کو کرنوں سے سجائیں یارو
پھر سے گلشن میں کریں ذکر بہار و نغمہ
پھر کھنڈر سوچ کے ہم آؤ بسائیں یارو

افتخار بیگ کی شاعری اپنے پڑھنے والوں کو فکر ونظر کی ایک نئی دنیا سے متعارف کراتی ہے اور یہی تخلیق کا سب سے بڑا اعزاز ہے اُن کی شاعری میں جرات و حوصلہ کا عصر سب سے اہم ہے۔ اُنھوں نے اُن موضوعات پر قلم اٹھایا ہے جنھیں ہم سمجھنے کے باوجود نہیں سمجھنا چاہتے اور یہی سب سے بڑا المیہ ہے۔ مرزا مبشر بیگ اُن کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
افتخار بیگ کی شاعری میں وصل کی سرخوشیاں بہت کمیاب بلکہ نایاب ہیں۔ اُن کی ساری شعری کائنات ( کسی نہ کسی حوالے سے ) ہجرت سے عبارت ہے۔ یہی ہجر جو انھیں تخلیقی خود کلامی پر مجبور کرتا ہے اور یوں یہ خود کلامی اس کی نظموں ، غزلوں کا بنیادی مزاج بن جاتی ہے۔ اُس کی نظموں میں لفظ جاں اتنی کثرت سے (اور کچھ اس طرح سے ) استعمال ہوتا ہے کہ جاں جانے لگتی ہے لیکن اس خطا بی انداز کے باوجود اُن کی شاعری، شاعری ہی رہتی ہے تقریر نہیں بن جاتی ۔“ مختصر یہ کہ افتخار بیگ کی شاعری میں ایک بڑی شاعری کی تمام خصوصیات موجود ہیں ۔ اُن کے پاس ایک واضح نظریۂ حیات ہے جس سے نظریں چراناممکن نہیں ۔ تشبیہات و استعارات کا استعمال بہت منفرد ہے۔ اُن کے اشعار میں جذبوں کا ایک تلاطم ہے جو انسان کو جھنجھوڑ کر یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ انسان کو زندہ رہنے اور اپنا حق وصول کرنے کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے اور یہ اس کا بنیادی حق ہے۔ ان کا فکری میلان سوئے ہوئے جذبوں کو بیدار کرنے کا سبب بنتا ہے اور  جن کا ہم سامنانہیں کرنا چاہتے مجسم سامنے آتی ہیں۔

جہاں تاریکیاں قسمت کا چکر
وہاں کوئی دیا کیسے جلے گا
جہاں فاقے ملے تحفے میں ہم کو
وہاں پر بچپنا کیسے رہے گا

وہ استحصال زدہ معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں اور نہ صرف خامی یا برائی کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ اُس کاحل بھی بتاتے ہیں۔

ہم نے برسوں تلک نفرتیں ہوئی تھیں
وقت کا جبر پھر ناگہانی ہے کیا؟

اور یوں ایک شاعر ہونے کی حیثیت سے نہ صرف اُنھوں نے اپنا فرض پورا کیا بلکہ بدلتے وقت کے تقاضوں کو سمجھتےہوئے اپنا مناسب حصہ ڈالا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اس استحصال زدہ معاشرے کے معالج ہونے کا احساس اُن کے اندرموجود ہے اور وہ اسی طرحاس فرض کو نبھاتے رہیں ۔ (آمین)

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com