سمندر مجھے بلاتا ہے۔ ایک تنقیدی جائزہ:
سمندر مجھے بلاتا ہے رشید امجد کا ایک نمائندہ افسانہ ہے۔ یہ افسانہ تجریدی علامتی افسانہ ہے۔ اس افسانے کی علامتیں کہیں بہت واضح اور کہیں مبہم ہیں۔ سب سے بڑی علامت سمند ر بیک وقت دو مفاہیم کی حامل ہے۔ ایک اپنی ذات کا سمندر ہے اور دُنیا اور وقت کا سمندر ہے۔ فردا نہی دو سمندروں کے گرداب میں اپنی بقا کی جنگ لڑتا رہتا ہے۔ سماجی سطح پر فرد کا وجودیاتی المیہ یہی ہوتا ہے کہ وہ
اپنی آزادی اور اپنی انفرادیت پر اصرار کرتا ہے مگر ۔۔۔ دُنیا اس کی انفرادیت ، آزادی اور اثبات ذات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتی ہے۔ فرد اپنی حیثیت، کیفیت اور مرتبے کا تعین چاہتا ہے۔ یہ اس کے وجودیاتی اضطراب و کرب کا بنیادی تقاضا ہے۔ مگر یہ عمل دنیا میں رہ کر ممکن ہوتا ہے۔ دوسری طرف فرد اپنی ذات کے حوالے سے دُنیا سے ورا رہنا چاہتا ہے۔ دُنیا سے ورا ر ہنے کے لیے بھی اُسے دُنیا کی مسابقت کا سامنا رہتا ہے۔ ایسے میں اس کا من جذبوں کی حدت و شدت کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔
رشید امجد کے مطابق فرد کے من کی دُنیا میں بیک وقت دو کیفیات موجود رہتی ہیں۔ ایک authentic Existent کی حیثیت سے وہ دُنیا اور دُنیاداری سے دُور ہنا چاہتا ہے۔ اندر کا وجود مصدقہ فرد کو سچ کی تلاش پر اُکساتا ہے، یہی وجو د مصدقہ رشید امجد کے ہاں مرشد ہے۔ دوسری طرف فرد کے اندر ایک دُنیا دار فرد سانس لیتا ہے۔ یہ غیر مصدقہ وجود ہے۔ یہی فرد کی وابستگی دنیا اور معاملات دُنیا سے قائم کرتا ہے۔ اس وجود غیر مصدقہ کا تعلق گھر گھر کے اخراجات ، بیوی کے رویے اور دفتر میں کام کرنے والی سٹینو کے ساتھ ہے۔ گھریلو اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کئی طریقوں پر غور کرتا ہے۔ بیوی جب اسے طعنہ دیتی ہے کہ تم بہت کچھ کما سکتے تھے مگر تم نے وہ طریقے اختیار نہیں کیے جن سے پیسہ کمایا تھا تو وجو د مصدقہ غالب آجاتا ہے اور افسانے کا واحد متکلم کردار دنیا داری میں پڑنے اور غلط طریقے اختیار کرنے سے باز رہتا ہے۔ یہ بات مرشد یعنی وجود مصدقہ اسے باور کراتا ہے کہ زندگی کے صحیح اطوار کیا معنی رکھتے ہیں۔ ان جملوں اور کیفیات
پر غور کیجیے:
“مرشد نا، پھراس نےاپنا دایاں ہاتھ پانی میں ڈال کر ایک زندہ مچھلی نکالی، پھر بایاں ہاتھ جلتے ہوئے تنور میں ڈال کر اس میں سے بھی زندہ مچھلی نکالی اور کہنے لگا۔۔۔ پانی میں سے تو ہر کوئی زندہ پچھلی نکال سکتا ہے۔ آگ میں سے زندہ مچھلی نکا لنا اصل کام ہے۔“
مذکورہ بالا جملوں میں زندہ پھلی، پانی اور جلتا نور تینوں علامتیں ہیں اور یہ تینوں علامتیں مصنف کی ذاتی یا نجی علامتیں ہیں۔ قاری یہاں پہنچ کر مجھے کا شکار ہوتا جاتا ہے۔ زندہ چھلی۔۔۔ تڑپی پھڑکتی ہوئی پھلی زندہ جذبوں کی علامت بھی ہے اور خود زندگی کی علامت بھی۔ پانی ایک آسودہ صورتِ حال کی علامت ہے، جب کہ تنور معاشرے کے جلتے بھڑکتے ماحول کی علامت ہے۔ ان علامتوں کے ان منظر میں فرد کی بے چارگی جھلکتی ہے کہ فرد کو اسے جلتے ماحول ، تنور میں رہ کر اپنے جذبوں کی صداقت معصومیت اور جذبوں کی تڑپ کو زندہ رکھنا ہوتا ہے۔ مگر سارے راستے فنا کی طرف جاتے ہیں کہ زندگی کی ترب ہونے کے باوجود موت انسان کا مقدر ہے۔ جانتا۔۔ عرفان ہے۔ یہ عرفان ذات بھی ہے اور عرفان زندگی بھی ۔ ۔ ۔ مصدقہ وجود مرشد ) فرد کو باور کرواتا ہے کہ اس جاننے کے عمل کی راہ میں بیسیوں رکاوٹیں ہیں۔
اسی وقت پہلی رکاوٹ بیوی گھر ، بچے اس کے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ آخری تاریخوں میں ایک فردکس مجبوری اور بے بسی کا سامنا کرتا ہے۔ یہ دُنیا ہے اور دُنیا کے مقابلے میں انسان کی بے بسی۔۔۔ ایسے میں غیر مصدقہ وجود غالب آجاتا ہے اور افسانے کا کردار کہ ایک انسان ہے دفتر کے صاحب کو مدعو کر کے پی آر (Public Relationing) کے دُنیا داری کے تقاضے پورے کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجود غیر مصدقہ ہے جو دفتر میں کام کرنے والی سٹینو سے عشق کرتا ہے۔ یہ عشق ایک پاکیزہ جذبہ ہے مگر منافقت یہ ہے کہ گھر میں بیوی بچوں کے ہوتے ہوئے جذباتی وابستگی سینو کے ساتھ ہے۔ اس عشق میں وہ یعنی ہمارا کردار اور سٹینو دونوں اندر ہی اندر سلگتے ہیں اور یوں اندر ہی اندر سلگنا۔۔۔ ایک کرب محسوس کرنا فرد کے ہونے کا ایک لازمی جزو ہے۔ اس سے وجود مصدقہ (مرشد ) کھلکھلا کر ہنستا ہے اور کہتا ہے اندر ہی اندر سلگنے کا اپناہی مزہ ہے ۔ “ وجود مصدقہ باور کرواتا ہے کہ اس کرب ناک زندگی میں امید ایک سہارا ہے ۔ یہ اندھیرے میں کھویا ہوا راستہ ہے شاید فرد کے ہاں یہ یقین موجود رہتا ہے کہ خواہشوں اور تمناؤں کی تکمیل کا کوئی نہ کوئی راستہ موجود ہے۔ اس راستے کی تلاش اور امید کا ہ یقین بھی رد کے ہا بے چینی اور بے قراری کوجنم دیتا ہے۔ وجود مصدقہ یقین دلاتا ہے کہ ” بے چینی روح کی طلب ہے "۔ زندگی اپنی کیفیت میں بے قراری، بے چینی ، اضطراب اور حدت کی حامل ہوتی ہے۔ اس میں شانتی اور خوشی کے لیے صرف اس وقت آتے ہیں جب فرد کسی کو پا لیتا ہے۔
پالینے کا لحہ ہمارے کردار کے لیے سٹینو کے قرب کا لمحہ ہے لیکن یہ قرب اور یہ طمانیت بہت ادھوری اور جھوٹ ہے کیونکہ خود زندگی ایک جھوٹ ہے۔ شینونوکری چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ زندگی کے جبر کو ھو گے کا جواز جسے ختم ہوتا ہے۔ وہ واضح روشن راستہ ۔۔۔ محبت یا وابستگی کا رستہ کھو جاتا ہے۔ ہمارے کردار کے سامنےمیں زندگی دُھند میں گم ہو جاتی ہے۔
فرد وابستگیوں کے سہارے زندگی کے راستوں کو روشن رکھتا ہے۔ یہ وابستگی ختم ہو جائے تو زندگی ڈھند میں لپٹ جاتی ہے۔ ایسے میں فرد خود اپنے آپ سے اور زندگی سے کٹ جاتا ہے۔ اجنبی ہو جاتا ہے۔ اس افسانے میں یہ اجنبیت قدم قدم پر محسوس ہوتی ہے۔ فرد کے لیے خود اپنی ذات کی پہچان اور اپنے نصب العین کے حصول کی کامرانی لازم ہوا کرتی ہے۔ زندگی ایک ایسا سمندر ہے جس میں فرد بھی سا نہیں سکتا وہ قدم قدم پر اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے۔ اس لیے تو ہمارا کردار کہتا ہے ۔ ” میں تو سمندر میں بھی اُترا تھا لیکن اس نے مجھے کنارے پر اچھال دیا۔“
وجود مصدقہ باور کرواتا ہے سمندر غیر کو اپنے اندر نہیں سموتا تم غیر بن کر گئے تھے ۔“
گویا انسان کا المیہ یہ ہے اسے تین چار سطحوں پر زندگی کو بھوگنا ہے۔ سمندر زندگی ہے۔ زندگی کو اپنانے اور اس کا حصہ بننے کے لیے اس کے ساتھ وابستگی اور اپنائیت کا ہونا ضروری ہے۔ شاید اس صورت میں فردا اپنی ذات کا عرفان حاصل کرتا ہے۔ مگر یہ کہ اس کے لیے حوصلہ شرط ہے۔ یہ حوصلہ ہو تو زندگی کا سفر ممکن ہے وگر نہ نہیں ۔ یہ حوصلہ جٹ نہیں پاتا کہ وجود غیر مصدقہ کے اپنے تقاضے ہیں۔ سنیارٹی پروموشن چار پانچ سوروپے کا فائدہ۔ یہ دنیا داری ہے اور ہمارا کردار اس دُنیا داری میں سانس لیتا ہے، لیکن کیا یہ دنیا داری فرد کو شانتی دے سکتی ہے؟ جواب نفی میں ہے۔ وجو دمصدقہ (مرشد ) باور کرواتا ہے کہ زندگی ایک پھسلتی ڈھلوان کی مانند ہے جس کے نیچے گہری کھائی ہے۔
یہ قبر کا استعارہ بھی ہے اور فرد کی زندگی کی انتہا یہی کھائی ہے۔ انتہا موت اور قبر ہے مگر دُنیا اور دُنیا کے ساتھ انسان کا بندھن پیسے ، دولت ، کار، کوٹھی کے توسط سے قائم ہے۔ اس مرحلے پر بیوی ہمارے کردار کو باور کرواتی ہے۔ تمہارے پوسٹ والوں نے دو دو کو ٹھیاں بنالی ہیں اور تم ابھی تک کرائے کے مکان میں پڑے ہو“ اس لمحے ہمارا کردار واضح کرتا ہے کہ میں آدھا ایک طرف ہوں اور آدھا دوسری طرف، یعنی وجود مصدقہ اور وجود غیر مصدقہ کے درمیان ایک کشاکش ہے جو ہرلمحہ اس کردار کو بے کل اور بے چین رکھتی ہے۔ بیوی۔۔۔ سٹینو ۔۔۔ اندر کی دُنیا ۔۔۔ باہر کی دنیا۔۔۔ دُنیا میں امکانات کی موجودگی اور فرد کی انتخاب کی مجبوری۔ یہ تذبذب اور کرب اس افسانے کے بین السطور میں کسی رو کی طرح موجود ہے۔ شاید آج ہمارے عہد کے ہر انسان کو اس اضطراب اور تذبذب کا سامنا ہے۔ یہ وجود یاتی طرز فکر ہے جسے رشید امجد سے اس افسانے میں سمو کر رکھ دیا ہے۔
بے زار آدم کے بیٹے:
رشید امجد کے افسانوں میں سے ایک اہم تجریدی، علامتی افسانہ ” بے زار آدم کے بیٹے بھی ہے۔ یہ افسانہ عہد حاضر کے انسان کی جذبی کیفیات اور الجھاؤ کو نمایاں کرتا ہے۔ افسانے کے آغاز میں ہی ہمیں پتا چلتا ہے کہ جو کردار صیغہ واحد متکلم میں ہمارے سامنے اپنی کہانی کہہ رہا ہے وہ ظاہر میں تو الف ہے مگر حقیقت میں اس نے الف کا جسم اوڑھے ہوئے ہے۔ دراصل اس افسانے کا آدمی ۔ ۔ ۔ آج کے عبد کا آدمی ہے اور آج کے عہد کا آدمی خود اپنی زندگی بسر نہیں کر رہا۔ یہ آدمی نہ صرف عدم شناخت کا شکار ہے بلکہ زندگی کی مسابقت اور دوڑ میں قدم قدم پر شکست کا سامنا کرتا ہے۔ یہ الف۔ ب۔ ج کی کہانی ۔۔۔ آج کے بے نام اور بے وقعت آدمی کی کہانی ہے۔ ہمارا کردار۔۔۔ الف کے جسم کی زندگی بسر کرتا ہے۔ الف جانے کہاں ہے۔ ۔ ۔ مگر ہمارے کردار کو الف سے پوچھنایا د ہی نہیں رہا تھا کہ وہ دوڑ میں ہمیشہ کیوں ہار جایا کرتا تھا۔“ یہ دیس خود زندگی کی ریس اور مقابلہ ہے۔ آدمی شاید ہر قدم پر زندگی اور معاملات زندگی میں ہار جاتا ہے۔ الف اس ہار کا سامنا کرتا ہے۔ الف کے رُوپ میں ہمارا کردار واحد متکلم ہے۔ اب الف کی ہارر شکست ہمارے کردار کے حصے میں آئے گی اور یوں گویا آج کا انسان دوسروں کے دُکھ اور دوسروں کے عذاب سہتا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ وہ زندگی کی اس دوڑ سے دست بردار نہیں ہو سکتا۔
انسانی زندگی کا ایک المیہ معاشیات ہے۔ پیسہ ایسی چیز ہے جس نے انسانی اخلاقیات، انسانی سماجی رشتوں اور خون کے بے ریا رشتوں میں بھی خلا پیدا کر دیا ہے۔ ” ماں کی طرف سے بجلی کے بل کی ادائیگی کے دس روپے سگریٹ خرید نے پر صرف کرتا ہے ۔ الف پوچھتا ہے مال کہاں سے آیا۔ کہتا ہے اگر بجلی کٹ گئی تو ؟ ”ب“ کا جواب کہ اللہ سب کرنے والا ہے۔“ یہ تین روپے ہیں۔۔۔ ”ب“ کے جواب میں بظاہر ایک یقین ہے۔ مگر اس یقین میں سماجی منافقت کا عکس ہے۔ ہمارے معاشرے میں فرد اپنے انتخاب کی ذمہ داری خود نہیں لینا چاہتا۔ وہ یہ ذمہ داری اللہ پر ڈال کر خود بری الذمہ ہونا چاہتا ہے۔ یہی بات اس کے ہاں غیر مصدقہ رویوں کو جنم دیتی ہے۔ الف‘ اس وجہ سے "ب” کو کہتا ہے کہ تمہاری نیلامی ہو گی۔۔۔ اور اس پر سلامی میں ”الف“ ”ب“ کی مونچھیں اور ہونٹ خریدنا چاہتا ہے۔ مونچھیں یہاں طمطراق اور وقار کی علامت ہیں اور ہونٹ گفتار کی ۔
” جوگ خریدنے کی بات کرتا ہے۔ لگ ظاہری حسن کی علامت ہے۔ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں یہاں فرد ایک جھوٹے طمطراق اور جھوٹے وقار کے سہارے جیتا ہے اور اس عمل میں لچھے دار گفتگو معاون ہوا کرتی ہے۔ رشید امجد نے اس رویے کو گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے۔ رشید امجد کھتے ہیں کہ ان جھوٹے رویوں کی بدولت فرد کی شناخت قائم نہیں ہوتی ۔ اس لیے کر دار الف اور کردارب کے درمیان گفتگو کہ ہم کون ہیں ، میں کہتا ہوں ”ہم ہم ہیں ۔ ۔ ۔ تم ب اور میں الف ہوں۔“
وہ کچھ دیر سوچتا رہتا ہے پھر کہتا ہے ۔ ۔ ۔ یار اگر تم الف اور میں سب نہ ہوتے کیا فرق پڑتا ؟ یہاں رشید امجد واضح کرتے ہیں کہ آج کا انسان عدم شناخت اور بے وقعتی کا شکار ہے اور اس کی یہ بے وقعتی معاشی اور سماجی صورت حال کی وجہ سے ہے۔ معاشی دباؤ نے فرد سے اس کا یقین ذات چھین لیا ہے۔ رشتوں پر سے اس کا اعتماد اُٹھ گیا ہے۔ اسی وجہ سے اس افسانے کے کر دار گھر میں آسودگی اور طمانیت محسوس نہیں کرتے کیونکہ گھر میں مائیں پیسے کا تقاضا کرتی ہیں۔ مشترکہ خاندانی نظام کی جہاں خوبیاں ہیں وہیں اس کی وجہ سے فرد شدید جذباتی دباؤ کا شکار بھی ہوتا ہے۔ ماں مقدس محترم رشتہ ہے مگر یہی ماں اپنے نکھٹو بیٹوں کو تحفظ دیتی ہے اور کسی ایک بیٹے پر سارا بوجھ لاد دیتی ہے۔ اس لیے "ب” کہتا
ہے کہ میں ابھی گھر نہیں جاتا ا بھی میری ماں گدھ کی طرح میرے کمرے میں منڈلا رہی ہوگی ۔“ کردار واحد متکلم جواب ”الف“ کے بدن میں ہے۔
اسے یاد آتا ہے کہ ”الف“ کے گھر میں بھی کئی گدھ ہیں اور جب وہ گھر جاتا ہے تو کئی گدھ دیواروں کے ساتھ اُونگھ رہے ہوتے ہیں۔ وہ جب الف کمرے میں پہنچتا ہے تو وہ گدھالف پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اسے نوچتے ہیں۔ یہ گدھ کرب انگیز خیالات میں فرد کی بے بسی ، مجبوری، بدحالی ، عدم شناخت کے گدھ جو سونے سے پہلے فرد کو نوچتے ہیں یہ گھر ہے۔ ماں باپ، بہن بھائی ، بچے اور رشتے اس گھر کی پہچان ہیں مگر ان تمام لوگوں کے مسائل فرد کے اپنے مسائل بن جاتے ہیں اور بے زاری اور بے کلی فرد کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اگلی صبح وہ پھر ہوٹل میں آتے ہیں۔ ہوٹل کا بیر اٹپ لینے سے انکار کرتا ہے تو ب کہتا ہے ” میری ماں سے تو یہ بیرا ہی اچھا ہے۔“ الف اور بے بیرے سے وابستگی محسوس کرتے ہیں۔ الف کہتا ہے:
”بے شک یہ ہمارا باپ ہے ۔ ہماری ماں ہے۔ ہمارا بھائی ہے اور یہ ہوٹل ہمارا گھر ہے ۔“ یعنی ہوٹل میں ایک خاص آسودگی ، طمانیت ، اپنائیت کا ماحول میسر ہے جب کہ گھر میں معاشی حالات اور خانگی مسائل کی پریشانیاں بہت زیادہ ہیں۔ ان مسائل اور معاملات کی وجہ سے رشتوں کا تقدس بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔ آج کا آدمی اپنی اصلیت اور اپنی پہچان کھو رہا ہے۔ نظریاتی اساس ختم ہو چکی ہے۔ کل تک لوگ دائیں بازو یا بائیں بازو کے ہوتے تھے ۔ مراد ہے سرمایہ درانہ نظام کے حامی یا کمیونزم کے حامی یا مذہبی نظریات کے علمبر دار ۔ اب کچھ گڈ مڈ ہو چکا۔ گھر میں بیوی مارتی ہے، باہر دنیا اور دوسرے جینے نہیں دیتے۔ دوسری طرف فرد کے ہاں جنسی میلان کہیں نہ کہیں موجود ہوتا ہے۔ یہ میلان ایک پاکیزہ اور پوتر احساس کا نتیجہ ہے اور حسن اور جمال سے مشروط بھی ہے۔
مگر آج کے انسان کے ہاں احساسِ جمال اور ذوق جمال مر چکا ہے، محض ہوسنا کی باقی بچ گئی ہے۔ نیلے سوٹ والی لڑکی اور ”الف“ کا مکالمہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں حسن و جمال کا قتل عام جاری ہے۔ الف کہتا ہے:
تمھیں معلوم ہے میں تمھیں کیوں لایا ہوں۔“
باتیں کرنے ۔۔۔ وہ ہنس کر کہتی ہے۔
میں تمھیں قتل کرنے کے لیے یہاں لایا ہوں۔“
جی ۔ ۔ ۔ ۔ وہ چونکتی ہے۔
میں تمھیں یہاں قتل کرنے کے لیے لایا ہوں کیونکہ میں قصائی ہوں۔“
جی ۔ حیرت اس کے لبوں سے لٹکنے لگتی ہے۔
میں سچ کہ رہا ہوں ۔ میں قصائی ہوں۔ ب بھی قصائی ہے۔ ج اور دبھی ۔۔۔ الف سے ہی تک ہم
سب قصائی ہیں۔“
رشید امجد نے بڑی خوبصورت علامتوں کے سہارے یہ بات کہنے کی کوشش کی ہے کہ آج کے عہد میں ہر طرف اور ہر جگہ حسن کا قتل عام ہورہا ہے۔ ایک قصائی پن ہر فرد کے اندر موجود ہے۔ اس معاشرے کا ہر فردغلط سمجھاؤ کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے۔ بظاہر رشتوں کے تقدس کی بات کرتا ہے ، ایمان داری کی بات کرتا ہے۔ اخلاق ، حب الوطنی کی باتیں کرتا ہے ،مگر ان کے لفظ کھو کھلے اور من کالے ہیں۔ اس معاشرے کے لوگوں کے جسم ان کی رُوحوں کی قبریں بن چکے ہیں۔ ہر طرف انسان نہیں چلتے پھرتے، قبریں پھرتی ہیں۔ یہ جسم جامد ٹھوس مادہ ہے اور روح پاکیزہ اور پوتر ہے۔ جسم رُوح کے تابع ہونا چاہیے مگر یہاں روحیں جسم کے تابع ہیں اور اسی لیے، جسم قبر ہیں۔ اور اندر ۔۔۔ رُوحیں ۔۔۔ رُوحیں سانپ بن چکی ہیں ۔ گھر اجنبی ہو
چکا۔ ہوٹل گھر بن گئے ۔ ۔ ۔ جسم ۔۔۔ قبر بن گئے۔۔۔ رُوحیں سانپ تو پھر آدمی ہے کیا۔۔۔؟ صورت حال اور واقعیت میں آدمی خود اپنی شناخت سے محروم ہوتا جاتا ہے اور اس وجہ سے آدم کے بیٹے بیزار ہیں یا آدم بیزار تھا اور آج اس کے بیٹے اسی بیزاری سے مملو ہیں۔
نوٹ:یہ مضمون گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے (تھل کالج میگزین) سے لیا گیا ہے۔