جس زبان و ادب کے ماہرین لسانیات محققین اور نقاد اپنے فرائض سے غافل ہو جا ئیں تو وہ زبان کبھی بھی ارتقائی منازل طے نہیں کر سکتی۔ یہی رویہ سرائیکی زبان کے ساتھ برسوں سے چلا آ رہا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ سب سے پہلے مستشرقین کا سرائیکی لغت اور گرائمر پر بنیادی کام سامنے آیا۔ جن میں ڈاکٹر کرسٹوفر شیکل ، جے ولن اور پنڈت ہرکشن خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس کے بعد سرائیکی ماہرین لسانیات اور محققین ڈاکٹر مہر عبدالحق ، دلشاد کلانچوی، عتیق فکری، بشیر احمد ظامی، بشیر احمد بھائیہ، پروفیسر سجاد حیدر پرویز ، اسلم رسولپوری اور جمشید کمتر کی طرف سے سرائیکی زبان اور اُس کی گرائمر پر نہ صرف خاصا کام سامنے آیا ہے بلکہ اُن کی خواہش رہی کہ سرائیکی بولی کے حصار سے نکل کر زبان کا درجہ حاصل کرے، اور اس کا ادب عالمی ادب کے مقابل رکھا جا سکے۔ امان اللہ کاظم قادر الکلام شاعر ہی نہیں بلکہ ماہر لسانیات بھی ہیں ۔ موصوف عربی، فارسی، انگریزی اور اُردوزبانوں پر ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ اُن کا فرض شناس، دیانت دار اور انتہائی قابل اساتذہ میں شمار ہوتا ہے۔ وہ عمر بھر اپنے طلبہ کو گرائمر از بر کراتے رہے ہیں۔ اُن کی جامع سرائیکی قواعد کی جلد اول ( علم الحرف عثمان پبلی کیشنز لاہور نے 2015ء میں شائع کی ۔ اس کی جلد دوئم حصہ نحوی اور جلد سوم زبان دانی اور علم بیان پر مشتمل ہے، جو بوجہ مالی دشواری سے زیور طباعت کے مراحل سے نہ گزر سکیں۔ ایسے وقیع پراجیکٹ پر تو ادارے کام کرتے ہیں لیکن ہمارے ادارے نام کے ہیں کام کے نہیں ۔ موصوف کو سرائیکی ادب کی خدمت کے جذبے نے چین سے یٹھے نہ دیا اور اتنا بھاری بھرکم بوجھ اپنے نا تو اب کندھوں پر خود اُٹھا لیا اور وہ کئی سال عرق ریزی سے کام کرتے رہے ۔ ڈاکٹر گل عباس کا ابتدائیہ جامع سرائیکی قواعد کے تناظر میں انتہائی جامع ہے ۔ امان اللہ کاظم نے اپنے پیش لفظ میں سرائیکی زبان اور اُس کی گرائمر کا تاریخی تناظر میں جائزہ لیا ہے جو کر انگیز اور بصیرت افروز نہیں بلکہ موصوف کے وسعت مطالعہ کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ امان اللہ کاظم نے اپنے موقف کی تائید میں ڈاکٹر مہر عبدالحق ، ڈاکٹر غلام مصطفی، اسلم ،رسولپوری عقیق ،فکری، سید نور علی ضامن، دلشاد کلانچوی ، سید حسان الحیدری اور حفیظ الرحمن سیوہاروی کی کتاب کے اقباسات بھی دیئے ہیں ۔ حروف تہجی کی ایجاد کا مسئلہ اور قدیم سومیری، ارامی ، عبرانی ، آریائی ، عربی ، فارسی زبانوں کے حروف تہجی اور رسم الخط کی بحث بھی حاصلِ مطالعہ ہے ۔ موصوف کے بقول سرائیکی ماہرین لسانیات نے صوتی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے حرف دھ، بھ کا اضافہ کر کے حروف تہجی کی تعداد باسٹھ تک پہنچا دی لیکن دو حروف تہجی الف خفی الصوت اور یائے خفی الصوت کو حروف تہجی میں شامل کرنے کا فیصلہ اب تک نہیں ہوسکا۔ جامع سرائیکی قواعد گیارہ ابواب پر مشتمل ہے ۔ پہلا باب اصطلاحات پر ہے ۔ موصوف نے اصطلاحات کے لغوی معنی ، حروف تہجی کی اہمیت مفرد اور مرکب حروف تو جہی کے ساتھ ساتھ حرکات، جزم، تشدید تنوین ، الف ممدوده، الف مقصوره الف خفی الصوت، ہائے خفی الصوت ، ہائے جلی الصوت، واؤ معروف ، واؤ مجہول، واد معدولہ، تزبید اور اشباع کی تعریفیں کر کے نمونہ کے اشعار بھی دیئے ہیں۔ اس کے علاوہ متحرک اور ساکن الفاظ کی نشاندہی بھی کی ہے۔ مثال خواجہ فرید کے شعر کی دی ہے۔ سخت سفروج ظلم قہر وچ اس مصرع میں مرد کو ہر د باندھا گیا ہے، دوسرا مصرعہ دیکھئے؟ لطف کرم گیا ، نیک رحم گیا
اس میں رحم کو زخم باندھا گیا ہے۔ اس طرح علم صرف کی اصطلاح کی روشنی میں امالہ کی تعریف یوں کی ہے۔ کسی لفظ کے الف یا یائے ہوز (0) کو پائے مجہول (ے) سے تبدیل کیا جائے تو امالہ کہلاتا ہے۔ مثلاً حساب سے حسیب، بندہ سے بندے وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ روزمرہ محاورے اور سرائیکی اکھاں ( کہاوت) پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ دوسرے باب میں سرائیکی حروف تہجی کی تعداد چھ بیان کی گئی ہے۔ جن میں پ ، پچ ، ڈ، گ، دھ، بھ ، ان میں چار مفرد اور دو مرکب حروف ہوں ۔ اس کے علاوہ یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ سرائیکی حروف تہجی کو لکھنے کے لئے خط نسخ کی بجائے خط نستعلیق اپنایا گیا ہے ۔ امان اللہ کاظم نے ہائے ملفوظی کے ساتھ لکھے گئے الفاظ کی درست اور غلط املا بھی دی ہے تا کہ آئندہ الفاظ صحیح طور پر لکھے جائیں ۔ مثال کے طور پر پہن مصدر سے بہہ ، رہن، مصدر سے رہ وغیرہ وغیرہ۔ پھر ایسے الفاظ کی فہرست بھی دی ہے جنہیں سرائیکی اہل قلم لکھتے آرہے ہیں ۔ مثلاً دانہہ ( آہ) کو دانھ ، ڈینہہ ( دن ) کو ڈیٹھ ، نونہہ ( بہو ) کو نو نھ لکھا جاتا ہے ۔ پھر مخارج کے لحاظ سے حروف کی آٹھ اقسام بھی بتائی گئی ہیں ۔ مصدری صفاتی اسمائے کیفیت اور صحت کے حوالے سے حروف کی اقسام کا ذکر بھی شامل کتاب ہے۔ تیسرے باب میں لفظ کی چھ اقسام بتائی گئی ہیں جن میں اہم ، صفت ہمیر فعل، تمیز اور ظرف شامل ہیں۔ چوتھے باب میں بناوٹ کے لحاظ سے اسم کی اقسام، جس میں جامد مشتق اور مصدر کی تعریفیں مثالوں سے واضح کی گئی ہیں ۔ اس کے علاوہ اسم معرفہ کی اقسام کا ذکر بھی شامل ہے۔ جس میں اسم علم، لقب ، خطاب، کنیت اور تخلص شامل ہیں۔ پانچویں باب میں اسم ذات کا ذکر ہے۔ جس میں اسم مصفر ، اسم مکبر ، اسم طرف ، اسم آلہ، اسم صوت ، اسم جنس اور اہم عدد ر صراحت کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔ اہم مصفر کی مثال دیکھئے : ٹھڈھا صفت سے اسم مصغر نذار مھد ھڑا سی صفت سے اہم مصفر مونث تسردی وغیرہ اسم مکبر کی مثال دیکھئے ! تھالی سے تھال ، اُچ سے اُچاڑ ، سوار سے شہ سوار وغیرہ۔ اس کے علاوہ ظرف مکاں ، ظرف زماں ، ظرف تسیز ، ظرف مقداری ، ظرف سہتی ظرف سمتی ،ظرف اقراری اور ظرف انکاری کی اقسام کو مثالوں سے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
چھٹا باب اسم جمع کا ہے ۔ جس میں اسم جمع کی تعریف کو ماہرین لسانیات کے تناظر میں دلکش انداز میں سمجھایا گیا ہے۔ مثلاً آنڈ (ڈھیر ) تر نڈا چوپائیوں کا گروہ تمن (قبیلہ کے افراد کا مجموعہ وغیرہ) ساتواں باب ، اسم صفت کا ہے جس میں موصوف نے صفتِ ذاتی صفت نسبتی ، صفت ظرفی ، صفت عددی ، صفت ضمیری اور صفت مرکب کے ساتھ ساتھ بنانے کے اُصول بتائے گئے ہیں۔ مثلاً الف کے اضافے کے ساتھ اُجاڑ سے اُجاڑا، اُچ سا اُچا ، اس طرح یائے محروف کے ساتھ آہر سے آہری ، اولگ سے اولگی ، آلس سے آلسی وغیرہ۔ صفت نسبتی میں پائے محروف کے اضافے سے شیرازے، شیرازی، تونسہ سے تو نسوی، کربلا سے کر بلائی وغیرہ آٹھویں باب ! مصدر کے بیان پر ہے۔ جس میں مصدر کی پہچان ، مصدر اور اسم مصدر کا فرق سرائیکی مصادر کی خصوصیات کے قواعد پری رحاصل بحث کی گئی ہے۔ نواں باب ! اسم مشتق پر ہے۔ جس میں اسم فاعل ، اسم مفعول ، اسم حاصل مصدر، اسم کیفیت ، اسم حالیہ ، اسم معاوضہ، اسم آله ، اسم صفت ، اسم صوت ، اسم مصفر اور سم متبرک والوں سے واضح کیا گیا ہے۔
دسواں باب ! اسم ضمیر کے حوالے سے ہے، جس میں ضمیر متکلم ضمیر حاضر، غیر غائب کے علاوہ ضمیر شخصی کی فاعلی، مفعولی اور اضافی حالتوں کو مثالوں سے ذہن شین کرایا گیا ہے۔ ضمیر متصل ، ضمیر اشارہ ضمیر موصول ضمیر استفہام ضمیر مہم ضمیر مشترک، ضمیر تاکیدی ضمیر صفتی ضمیر تعظیمی اور ضمیر معکوسی کو مثالوں سے سمجھانے کی کا میاب کوشش کی گئی ہے۔ گیارہواں باب فعل پر مشتمل ہے ۔ جس میں مصادر کے لحاظ سے فعل کی اقسام ، مصدر اور کیفیت کے لحاظ سے فعل کی اقسام ، افعال بنانے کے قواعد اور گردانیں ، فعل ماضی کی اقسام، مفعل حال کی تعریف اور اقسام فعل امر کی تعریف اور معنی کے لحاظ سے فعل امر کی اقسام فعل نہی کی تعریف بنانے کے قواعد اور گردانیں، فعل حال مطلق فعل حال استمراری محفل، حال احتمالی محفل حال امکانی مجہول بنانے کے قاعدے اور گردانیں فعل مستقبل ، فعل مستقبل مطلق مجہول بنانے کے قاعدے اور گردانیں، فعل مستقبل استمراری، فعل مستقبل امکانی اور فعل مستقبل التزامی بنانے کے قاعدے اور گردانیں وغیرہ شامل ہیں۔ مختصر یہ کہ امان اللہ کاظم کی جامع سرائیکی قواعد” سرائیکی ادب کے لئے گراں بہار ارمغاں سے کم نہیں ہے ۔ سرائیکی اہل قلم کو اس سے بھر پور استفادہ کرنا چاہئے ۔ کیونکہ ان کے کلام میں زبان و بیان کی اغلاط بہت زیادہ نظر آتی ہیں۔ خاکسار نے جب تذکرہ شعرائے تونسہ شریف لکھا، تو سرائیکی شعراء میں عروضی اور زبان و بیان کے مسائل دیکھ کر خاصی پریشائی ہوئی ۔ امان اللہ کاظم کا جامع سرائیکی قواعد لکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ سرائیکی شعراء کا کلام خامیوں سے پاک اور فصیح و بلیغ ہو ، ایسا لمانی ادب تخلیق ہو، جسے عالمی ادب کے مقابلے میں رکھا جا سکے۔
یہ مضمون جسارت خیالی کی کتاب ” تحقیقی ننقیدی اور شعری خدمات "سے لیا گیا ہے