لیہ کی معلومہ تاریخ کا آغاز 16 ویں صدی سے ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ 1550ء میں میرانی قبیلہ کے ایک مقامی سردار کمال خان نے لیہ کی بنیاد رکھی۔ اس سے پہلے کی تاریخ کے بارے میں ابھی تک مربوط ہسٹریو گرافی کے اصولوں کی روشنی میں کوئی نیا نظریہ سامنے نہیں آیا۔ انفرادی کوششوں سے بعض لوگوں نے یہاں سے کچھ آثار قدیمہ اور نوادرات دریافت کیے ہیں لیکن کوئی حتمی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا۔ اس ضلع کے لوگوں کا بنیادی ذریعہ معاش زراعت سے منسلک ہے، اس کے علاوہ اس کی جغرافیائی حیثیت بھی کوئی آئیڈیل نہیں۔ علمی و ادبی اور تہذیبی مراکز سے بہت پرے بسا یہ دور افتادہ شہر ہے۔ یہاں صرف ایک شوگر انڈسٹری اور چند فلور ملز ہیں ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہاں معاشی خوشحالی کے مواقع نا پید ہیں اور تعلیمی ادارے بھی کسی بڑے معیار یا مقام پر فائز نہیں۔ علمی، ادبی اور تہذیبی مراکز کے لئے جو چیزیں ناگزیر ہوا کرتی ہیں ان میں خوشحالی، ریاستی سرپرستی اور اشرافیہ کا تعاون نمایاں ہوتا ہے لیکن لیہ اس حوالے سے محروم ضلع ہے کہ یہاں ریاست کی توجہ کسی بھی اعتبار سے حوصلہ افزا نہیں رہی لیکن ان تمام محرومیوں کے با وجود یہ شہر سرائیکی وسیب میں علم و ادب اور تعلیمی حوالے سے ایک معتبر مقام پر فائز ہے۔ سرائیکی وسیب کے دو بڑے شہر ملتان اور بہاول پور تاریخی تناظر میں علمی و ادبی ہر اعتبار سے درخشاں روایات رکھتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ صرف ریاستی سرپرستی اور سرکاری اداروں کا کردار ہی نہیں بلکہ یہاں کی اشرافیہ کی سر پرستی ، تعاون اور حوصلہ افزائی نے ان شہروں کو ہمیشہ علم و ادب اور تعلیم کے میدان میں مثالی رکھا۔ اس سلسلے میں بہاولپور کے عباسی اور ملتان کے گیلانی ، قریشی اورگردیزی خاندان بطور خاص تحسین کے مستحق ہیں پھر ان شہروں میں موجود جامعات ، تعلیمی ادارے اور اخبارات ، جرائد و رسائل کی اشاعت نے یہاں پر ایک خاص علمی ماحول کو قائم رکھا، لیکن لیہ کے بڑے زمیندار گھرانوں اور اشرافیہ میں ایسی حوصلہ افزائی کرنے کا تصور کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے زمیندار گھرانے یا تو ” نو دولتیے ہیں یا پھر ان کی کئی نسلیں تعلیم سے محروم چلی آرہی ہیں اس لئے انہیں فنون لطیفہ علم و ادب، تعلیم اور تہذیب ایسے نفیس اور روح پرور ثمرات کا ادراک ہی نہیں اور نہ ہی لیہ میں بڑے تعلیمی اور اشاعتی ادارے ہیں ۔
اہل لیہ مزاجاً علم دوست اور جمہوریت پرست ہیں، ویسے بھی "Indus Sagar” کے مطابق وادی سندھ کے لوگ جمہوریت پسند اور تعصبات سے پاک تصور ہوتے ہیں، اس لئے اہل لیہ کو وادی سندھ کی تہذیب کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ قیام پاکستان سے قبل راجہ عبد اللہ نیاز (1971-1895) فتح محمد کلاچی (م 1901ء) ایسے شعراء نے یہاں شعری و ادبی روایت کا آغاز کیا۔ اس کے علاوہ قیام پاکستان سے قبل تعلیمی حوالے سے ڈھینگڑا خاندان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اندر بھان دھینگڑا وغیرہ نے یہاں بھر اتری ہائی سکول کی بنیاد رکھی اور ایک تعلیمی ٹرسٹ قائم کیا اور قیام پاکستان کے بعد اس ٹرسٹ کی بنیاد پر پانی پت (انڈیا) میں تعلیم کے فروغ کے حوالے سے اپنا کام جاری کیے ہوئے ہیں۔ دوسرے خاندان نارحیم“ اور گا ہا“ تھے، علم وادب اور تعلیم کے فروغ کے حوالے سے ان خاندانوں کا نام بھی تاریخ میں موجود ہے، نارنگ خاندان کے عظیم سپوت گوپی چند نارنگ کسی تعارف کے محتاج نہیں ان کا شمار اس وقت اردو تحقیق و تنقید میں نمایاں ترین ہے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم لیہ سے حاصل کی ، وہ آج بھی اپنی تحریر و تقریر میں اپنے عظیم استاد جناب مرید حسین ڈوگر کا نام لینا نہیں بھولتے ۔ مرید حسین ڈوگر کا تعلق موضع "سہو والا ضلع لیہ سے تھا۔
قیام پاکستان کے بعد ہجرت کر کے آباد ہونے والے شعراء میں ذاکر جگرانوی (1970-1994)، فرمان پالوی (م 1970ء ) ، شارق انبالوی (م1986ء)، ارمان عثمانی (م 1981ء)، پروفیسر ساقی احسینی (م1974ء)، غافل کرنالی ( پ 1933ء) ،عبدالغفار عابد (م1993ء)، شیدا گوڑیانوی (1904-1974ء)، قیصر عباس قیصر رضوی (م 1978ء)،فضل حق رضوی، خان عثمان خان اور ڈاکٹر خیال امروہوی (پ 1930ء) نے یہاں پر اردو شاعری کے ارتقاء میں مہمیز کا کام کیا اور ایک ایسا سازگار شعری ماحول پیدا کیا جس میں نیم لیہ ایسے خوبصورت شعراء سامنے آئے جن کی شاعری کی مہک سے پورا وسیب معطر ہے۔ نیم لیہ کے علاوہ جعفر بلوچ (1947ء-2008ء)، شکتہ مشہدی، سنبل قریشی (م 1986ء)، عدیم صراطی ( 1942ء)، شعیب جاذب (پ1942ء)، پروفیسر شہباز نقوی (پ1950ء) ، عقیل رشید عاربی، ڈاکٹر فیاض قادری، پروفیسر نواز صدیقی، امان اللہ کاظم ، سلیم گورمانی، احسن بٹ، لطیف فتح پوری، ناصر ملک، جمشید، ساحل، ذکی تنہا، افضل صفی، پروفیسر ریاض راہی ، طاہر مسعود مہار، وقار بخاری، فرح حسین بخاری ، موسیٰ کلیم، پروفیسر کاشف مجید، جنید سکندر، شاہد رضوان ،چاند، عمران عاشر ، ڈاکٹر افتخار بیگ، اشرف در پن، یوسف حسنین نقوی، منور بلوچ ، عبد الرحمن مانی، احسان اللہ محسن خلجی ، نعمان اشتیاق، رابعه نیازی ، سلیم اختر ندیم، جسارت خیالی اور میاں شمشاد سرائی نے جدید اردو شاعری میں دلکش اضافے کیے ہیں۔سرائیکی اور پنجابی شاعری میں نذیر چودھری (م 1987ء) نیم لیہ، ڈاکٹر میر عبدالحق ، خاور تعلو چی ، امان اللہ کاظم ، ڈاکٹر اشولال، سلیمان سہو، پروفیسر شفقت بزدار، واصف قریشی، نادر قیصرانی، طارق گجر، ناصر ملک، حمید الفت ملغانی، ڈاکٹر گل عباس اعوان، مجید اعوان، اقبال نسیم صحرائی ، منظور بھٹہ، فضل روکڑی، رفیق ہمراز، ریاض قیصر، ندیم سوہایا، منشی منظور، عباس واصفی ، ساجد سواگی، امین سبیل ملغانی، بانو بلوچ ، ڈاکٹر مزمل حسین ، عبد القدوس ،ساجد، جمعه خان عاصی، صادق حسنی اور شفقت عابد وغیرہ
اہم نام ہیں ۔ لیہ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں شاعری کے ساتھ ساتھ تحقیق و تنقید میں بھی نمایاں کام ہوا ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر مہر عبد الحق ایک بڑا نام ہے۔ ان کا خاص حوالہ لسانیات اور فرید یات ہے۔ انہوں نے اردو زبان کے بارے میں نظریہ پیش کرتے ہوئے اردو اور سرائیکی زبان کے باہمی روابط پر بات کی۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر خیال امروہوی، ڈاکٹر ظفر عالم ظفری، پروفیسر اکرم میرانی، جعفر بلوچ، پروفیسر اختر وہاب، ڈاکٹر افتخار بیگ، ڈاکٹر نذیر علوی، ڈاکٹر گل عباس اعوان، ڈاکٹر مزمل حسین (راقم)، پروفیسر ریاض راہی ، جسارت خیالی، پروفیسر مظہر حسین شاہ، قاضی راشد، عاشق حسین بھٹی، پروفیسر شاہین مزمل، پروفیسر کاشف مجید، زبیدہ افضل ، بانو بلوچ ، عطیہ یاسمین، پروفیسر مختار بلوچ، طارق گجر، نور محمد تھند ، ناصر ملک، طاہر مسعود مہار اور افضل صفی نےبنیادی نوعیت کا کام کیا۔
سرائیکی نثر کے حوالے سے حمید الفت ملغانی کا نام وسیب کے لکھاریوں میں نہایت محترم ہے۔ ان کی تحقیقی و تنقیدی کتب اب جامعات کی سطح پر اپنا مقام بنا چکی ہیں۔ انہوں نے پاکستانی زبانوں کے ادب کے حوالے سے ایم فل کیا ہے۔ وہ سرائیکی میں سب سے پہلے ایم فل کی ڈگری حاصل کرنے والے قرار پائے ہیں، گزشتہ کئی برسوں سے سرائیکی شعر و ادب کا تجزیہ پیش کرتے ہیں، کئی کتابوں کے مصنف ہیں، ڈاکٹر مہر عبد الحق جنہیں بابائے سرائیکی کے لقب سے جانا پہچانا جاتا ہے پر انہوں نے سرائیکی لسانیات، قواعد اور تاریخ پر گراں قدر کام کیا ہے۔ اسی طرح سرائیکی کی تخلیقی نثر میں ڈاکٹر اشو لال اور سلیمان سہو وغیرہ بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ پروفیسرا کریم میرانی، نیم لیہ، مظہر نواز، برکت اعوان، طاہر مسعود مہار اور ڈاکٹر مزمل حسین (راقم ) نے بھی سرائیکی نثر
میں کام کیا ہے۔ لیہ میں صحافت کا حوالہ بھی قابل توجہ ہے۔ ایم اے روحانی، امتیاز روحانی، ملک محمد حسین جھکڑ نسیم لیہ، غافل کرنالی، ریاض روحانی، برکت اعوان، شمار عادل مرحوم، گزار محبوب، خورشید ملک ( مرحوم ) ، عبد الحکیم شوق، عبدالحمید سلیمی، انجم صحرائی ، عابد فاروقی، طارق پہاڑ ، طارق ملک، پروفیسر کریم درانی، ناصر ملک، فرید اللہ چودھری، سعید باروی، ملک مقبول الہی ،منیر عاطف، نذیر بھٹی، جمشید ساحل، یا مین مغل، مرزا یعقوب، ظفر نار، راجہ اعجاز (مرحوم)، راشد سمرا، عائشه بخش، شمن جاوید، خضر کلاسره، یوسف حسین نقوی محسن، عدیل ، یاسین ملک، خالد شوق، عثمان خان، اکرم میرانی سلیم اختر ندیم، کلثوم خالق اور رانا اعجاز محمود نامور صحافی ہیں۔ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر شہرت رکھنے والے صحافیوں میں واحد بخش بھٹی اور رؤف کلاسرہ لیہ کا مان ہیں۔
تراجم کے حوالے سے ڈاکٹر مہر عبدالحق نے قرآن مجید اور قصیدہ بردہ شریف کے کامیاب تراجم کئے۔ حمید الفت ملغانی نے سرائیکی میں 8 ناول اور دیگر تحریروں کے تراجم کئے ۔ احسن بٹ نے پچاس سے زائد کتب کو اردو کا جامہ پہنایا اور اقبال نسیم صحرائی نے شیکسپیئر کے اہم ڈراموں کا سرائیکی زبان میں ترجمہ کیا۔ شعر و ادب تحقیق و تنقید ، سماجی علوم اور صحافت کے میدان میں لیہ کے دانش و بینش کی خدمات کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
یہاں کے شعراء کے کئی اشعار ضرب
الامتثال کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں ۔ مثلاً
میں اسی خیال سے آج تک کبھی دل کی بات نہ کہہ سکا
کہ وہ درد و غم سے ہے بے خبر کہیں مسکرا کے نہ ٹال دے
(ارمان عثمانی)
اس تجس میں رہا کرتا ہے نقاش خیال
رنگ مل جائے کہیں تو تری تصویر بنے
(پروفیسر ساقی الحسینی)
دیار مصر میں دیکھا ہے ہم نے دولت کو
ستم ظریف پیمبر خرید لیتی ہے
(نسیم لیہ)
ہم ہیں اس دور سے انسان کی صداقت کے نقیب
جب کسی حلقہ زنجیر میں جھنکار نہ تھی !!!
(خیال امروہوئی)
انساں سے محبت کی سزا کتنی کڑی تھی
نفرت کے طمانچے میرے رخسار تک آئے
(خیال امروہوی)
میرا اسراف ترے شہر کو افلاس نہ دے
آ مرے گھر سے یہ مٹی کا دیا بھی لے جا
(عدیم صراطی)
کشاد لب کے تذبذب میں کھو دیئے ہم نے
وہ چند لمحے جو ان سے ترس ترس کے لیے
(جعفر بلوچ)
اس سے پیمان ملاقات اگر لینا تھا
کوئی اندازہ ہجراں بھی تو کر لینا تھا
(شهباز نقوی)
کون مجھ کو سمجھائے، کس طرح سمجھ پاؤں
چاندنی سے ڈرتا ہوں، چاند سے ارادت ہے
(نواز صدیقی)
لجھے کچرا کے گفتگو کرتے ہیں لوگ سب
اپنی زبان سے تو کوئی بولتا نہیں
(شعیب جاذب)
ساری رات ملوکھ ہتھاں دے نال نہ سانول سی بوچھن
مل دے بوچھن پھلدے کا مینی بوچھن نال نہ تھی بوچھن
(شفقت بزدار)
اسے کہاں عظمت کے تفاخر سے فرصت ہے
کون افلاک سے افلاس کو جھک کے دیکھے
(ڈاکٹر افتخار بیگ)
اردو کی تخلیقی نثر میں ڈاکٹر افتخار بیگ، ناصر ملک، احمد اعجاز، کاشف مجید، جمشید ساحل اور احسان اللہ خلجی نے خوبصورت افسانے تخلیق کئے ۔ احمد اعجاز کے اب تک دو افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان کے افسانے جدید لب و لہجے سے مملو ہوتے ہیں۔ انہوں نے علامتی اور بیانیہ، دونوں انداز کے افسانے تخلیق کیے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے افسانوی تنقید پر بھی اہم کام کیا ہے۔ اسی طرح ناصر ملک نے کئی شاہکار افسانے تخلیق کئے ۔ ان کے بعض افسانوں کے دیگر زبانوں میں تراجم بھی ہو چکے ہیں۔ شاعری کے ساتھ ساتھ تحقیق ، تنقید تخلیقی نثر اور دیگر سماجی علوم میں یہاں کے اہل قلم نے کئی رجحان ساز کام کیے ہیں مثلاً ڈاکٹر مہر عبدالحق نے اردو زبان کے حوالے سے اپنا مستند نظریہ پیش کر کے اردو لسانیات کے مباحث میں نئے اضافے کئے ۔ اسی طرح سرائیکی زبان کی تاریخ تحقیق اور قواعد پر بنیادی نوعیت کا کام کیا۔ فریدیات، دینیات اور فلسفہ اس کے سوا ہیں۔ ادبی تحقیق میں جعفر بلوچ اور دیگر ریسرچ سکالرز نے اچھوتے موضوعات پر کام کر کے اس نظریہ کو باطل ثابت کر دیا کہ بڑا کام صرف مراکز میں بیٹھ کر ہو سکتا ہے۔ سماجی علوم میں پروفیسر اکرم میرانی نے بڑی بے کسی سے بعض مباحث کا آغاز کیا۔ پروفیسر نواز صدیقی بیک وقت شاعر، کالم نگار، دانشور اور تجزیہ نگار ہیں۔ مسلم سوسائٹی کا مخمصہ ان کا ایک ایسا کارنامہ ہے جسے ہر اعتبار سے امتیاز حاصل ہے۔ انہوں نے پہلی بار اقبالیات اور اسلامی معاشرے کے اندرونی خدو خال کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ خیال امروہوی اور ڈاکٹر افتخار بیگ نے اپنی اپنی تحقیق کی بنیاد فلسفہ اور منطق پر رکھی اور ادب اور فلسفے کے امتزاج سے اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ ڈاکٹر ظفر عالم ظفری نے صحافت اور ادب کے باہمی روابط کو سمجھا۔ ڈاکٹر گل عباس اعوان نے شاعری میں انسان دوستی کے رویوں پر ناقدانہ نگاہ ڈالی ۔ حمیدالفت ملغانی نے سرائیکی کتابیات، سرائیکی ادبی جائزے، تراجم اور سرائیکی تحقیق و تنقید کو نئے انداز سے دیکھا۔ ڈاکٹر اشو لال اور پروفیسر شفقت بزدار نے سرائیکی نظم کو جدید اسالیب سے فروغ دیا۔ پروفیسر رامش خیالی نے اردو، براہوی، انگریزی اور سرائیکی ادبیات پر محققانہ نگاہ ڈالی۔ حمید الفت ملغانی، اشولال، احسن بٹ اور اقبال نسیم صحرائی نے تراجم کے ذریعے سرائیکی اور اردو زبان و ادب کو Rich کیا۔ نسیم یہ جعفر بلوچ، پروفیسر شہباز نقوی ، سلیم کرمانی اور پروفیسر کاشف مجید نے جدید اردو غزل میں اپنا منفرد مقام بنایا۔ عبدالرحمن مانی ، ڈاکٹر افتخار بیگ، ناصر ملک، جمشید ساحل اور منور بلوچ نے جدید اردو نظم میں تخلیقات کیں۔ سلیمان سہو نے سرائیکی کافی کو نئے رنگ دیئے اور مظہر نواز (مزار خان) نے سرائیکی زبان میں سفر نامہ لکھا۔
اس تفصیل کی روشنی میں دیکھا جائے تو اہل لیہ اس حوالے سے خوش قسمت رہے ہیں کہ یہاں جس علمی وادبی روایت کا آغاز قیام پاکستان سے قبل ہوا تھاوہ آہستہ آہستہ اپنے سفر کی جانب رواں دواں ہے اور اسی تو انا روایت کے یہ ثمرات ہیں کہ ضلع لیہ میں سیاسی اور سماجی شعور کا گراف بلند سے بلند تر ہو رہا ہے۔ شاید سرائیکی وسیب کا یہ واحد ضلع ہے جہاں خالصتاً جمہوری کلچر موجود ہے اور لوگ اپنے سیاسی نظریات کو کھلے بندوں استعمال کر کے ہی ووٹ دیتے ہیں اور یہ بات کہنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ اس سیاسی شعور کے عقب میں یہاں کے تخلیق کاروں، شعراء، ادباء اور دانش وروں کا نمایاں کردار ہے۔ تاہم علمی، ادبی اور تہذیبی مرکز بننے کے لئے جن عوامل کا ہونا ناگزیر ہوتا ہے وہ لیہ میں نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ لیہ کے اہل قلم نے اپنی انفرادی مساعی سے اس شہر کو سرائیکی وسیب میں جس مقام پر پہنچایا ہے اگر یہاں پر ریاستی سطح پر سر پرستی کی جاتی یا معاشی خوشحالی کے مواقعے پیدا کیے جاتے تو اس شہر کی اتنی تہذیبی اور تخلیقی توانائی موجود ہے کہ یہ سرائیکی وسیب میں ایک اہم علمی، ادبی اور تہذیبی مرکز بن جائے گا۔
نوٹ:یہ مضمون ڈاکٹر لیاقت علی خان کی کتاب "لیہ تاریخ و ثقافت ” سے لیا گیا ہے