لیہ کا ادب

لیہ کی ادبی تاریخ کا ایک خاکہ

مہر اختر وہاب

پروفیسر جعفر بلوچ نے ”آیات ادب“لکھ کر اضلاع لیہ و مظفر گڑھ کے شعراء کا احوال قلم بند کیا۔لیہ میں ادبی تاریخ نویسی کی بنیادی رکھی۔مگر ڈاکٹر افتخار بیگ نے اسی خاکے میں نئے رنگ بھرے ہیں اور اس طرح کم و بیش ایک سو پندرہ برس پر محیط شعری تاریخ رقم کی ہے۔زیر نظر کتاب پر گفتگو سے پہلے اس بات کا تعین کر لینا ضروری ہے کہ یہ کتاب اپنے موضوع اور ساخت کے حوالے سے تنقیدی ہے یا تحقیقی۔دراصل یہ تحقیقی و تنقیدی بھی ہے مگر اس کو ہم تاریخ و ادب سے زیادہ قریب پاتے ہیں۔وجہ یہ ہے کہ اس کتاب میں بیسویں صدی مکمل اور اکیسویں صدی کے پہلے پندرہ برس زیر بحث آتے ہیں۔ڈاکٹر تبسیم کاشمیری نے تحقیق،تنقید اور تاریخ ادب کی درجہ بندی کرتے ہوئے لکھا ہے:۔
”ادب کی تاریخ اور ادب کی تحقیق میں فرق برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔۔۔۔ہمارے ہاں بیشتر کام کرنے والے ان شعبوں کے تصورات کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔۔۔۔ادبی مؤرخ کو اپنے کام میں ایک متوازن رویہ اختیار کرنا چاہیے۔اس رویے اور حسن انتخاب سے اس کے ہاں حسن نظر پیدا ہوتا ہے۔یہ حسن نظرہی ہے جو ادبی تاریخ جیسی خشک شے کو مطالعہ کے قابل بناتا ہے“
(اردو ادب کی تاریخ،سنگ میل لاہور،2009۔ص۔13)
ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب نے لیہ کے ادبی پس منظر و پیش منظر کو سامنے رکھتے ہوئے لیہ کے اردو شعراء پر اور ان کی تخلیقات کو موضوع بنایا ہے اورانھوں نے کتاب کے آغاز میں مضافاتی ادبی کی اصطلاح کو موضوع بحث بنایا ہے۔ان کے نزدیک یہ اصطلاح ایک فکری مغالطہ ہے۔”اس ساری بحث اور سارے منظرنامے کو پیش نظر رکھیں تو یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ اردو میں مضافاتی ادب کی اصطلاح یا اصطلاحی معنوں میں ایسے ادب کی کوئی صورت موجود نہیں۔“اس کتاب میں مضافات یا دیہات کے حوالے سے تین نکات زیر بحث لائے گئے ہیں۔
1۔ وہ تخلیقات جو دیہات یا مضافات کے رہنے والے ادیب و شاعر تخلیق کر رہے ہیں۔
2۔ وہ تخلیقات جو دیہات سے ہجرت کر کے شہروں میں آنے والے تخلیق کاروں نے پیش کی ہیں۔
3۔ وہ تخلیقات جن میں دیہات کی زندگی،ماحول اور تہذیب و ثقافت کو موضوع بنایا گیا ہے۔
ڈاکٹر افتخار بیگ کی رائے ہے کہ ماضی میں دہلی اور لکھنو جیسے ادبی مراکز بھی شہروں میں قائم ہوئے ہیں۔دیہات سے شہروں کی طرف ہجرت میں تیزی سائنسی ایجادات نے پیدا کی مثلاً ریلوے کی آمداور انگریزی حکومت کی طرف سے قائم کردہ اداروں میں ملازمت کے مواقع۔ہجرت کا یہ عمل انیسویں صدی میں سے شروع ہو چکا تھا۔ڈاکٹر افتخار بیگ نے لکھا ہے کہ اردو شعرو ادب کی تخلیق کے حوالے سے اہم ترین لوگوں کا تعلق اردو کے روایتی مراکز سے نہیں ہے بلکہ ان کا تعلق مضافات اور دیہات سے ہے۔ان میں سے بیشتر تخلیق کاروں کے ہاں وہ محاوراتی اور روایتی زبان بھی مستعمل نہیں سمجھی جاتی ہے۔مگر اس کے باوجود ان کی تخلیقات کو اردو کے ادب عالیہ میں شمار کیا جاتا ہے۔اس کتاب میں ان اہم لکھنے والوں کی طویل فہرست میں سے چند ایک کے اسمائے گرامی درج کیے گئے ہیں۔مولانا ظفر علی خان(وزیر آباد)مجید امجد(جھنگ)راجہ عبداللہ نیاز(لیہ)،ن۔م راشد(گوجرانوالہ)احمد ندیم قاسمی(خوشاب)اشفاق احمد کا تعلق ریاست پٹیالہ کے دیہات سے ہے۔۔۔۔احمد فراز کا تعلق خیبر پختوانخواہ کے دیہات سے ہے۔منشا یاد(شیخوپورہ) ظفر اقبال(اوکاڑہ)اس بحث کے حوالے سے انھوں نے ڈاکٹر خیال امروہوی کے متعلق لکھا ہے:”خیال امروہوی کا قصہ سب سے نرالا ہے۔پیدائش اور بچپن امروہہ میں گزرا۔بعد ازاں کراچی رہے،جوانی میں لاہور میں رہے۔کچھ عرصہ شکر گڑھ میں گزارا، کچھ عرصہ ملتان میں، جوانی میں ہی لیہ آکر رہے اور لیہ کے ہی ہورہے۔“
مذکورہ بالا دلائل کے بعد انھوں نے یہ رائے قائم کی ہے کہ ”اردو شعر و ادب کو شہری اور مضافاتی زمروں میں تقسیم کرنا ایک سعی لاحاصل کے سوا کچھ نہیں“۔ڈاکٹر افتخار بیگ مانتے ہیں کہ لیہ قدیم تھلوچی تہذیب کا مرکز ہے۔محل وقوع کے اعتبار سے مغرب میں دریائے سندھ بہتا ہے۔مشرق میں واقع تھل کے ٹیلوں نے نیم قوسی صورت میں اس ضلع کو اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے۔شمال جنوب اور مشرق میں تھل ہی تھل ہے۔تھل کا ایک بڑا حصہ نہر ی نظام کی بدولت گل و گلزار بن چکا ہے۔
ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب کی رائے ہے کہ ”اس خطے میں قدیم تھلوچی زبان بولی جاتی تھی جو بعد میں ملتانی کہلائی اور آج کل سرائیکی کہلاتی ہے۔سرائیکی زبان کا بنیادی ڈھانچہ ہندی اور اردو کے بہت قریب ہے اور اس زبان میں مستعمل کئی افعال اور بہت سے اسماء ایسے ہیں جو اردو میں بھی مستعمل ہیں“۔بیسویں صدی کے آغاز ہی سے برصغیر کے تقریباً سبھی علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں کے ہاں فکری و نظری سطح پر آزادی کا شعور اجاگر ہونا شروع ہوا۔اس فکری تحریک کے پس منظر میں سر سید احمد خان اور ان کے رفقا کی کوششیں اولین اور اہم ترین ہیں۔سر سید کے تہذیب الاخلاق،حالی کی مسدس،ڈپٹی نذیر احمد اور عبدالحلیم شرر کے ناول،علامہ اقبال اور مولانا ظفر علی خان کی شاعری اور اخبار  ”زمیندار“ نے مسلمانان ہند کو فکری حوالے سے بیدا رکیا۔
آبادی کے لحاظ سے لیہ بیسویں صدی کے اوا ئل میں ایک بڑا چھوٹا سا قصبہ تھا۔تاریخی حوالے سے شمال میں کروڑ لعل عیسن اور جنوب میں کوٹ سلطان قدیم تہذیبی آثار کے ساتھ موجود تھے۔لیہ کے باسیوں نے اس دور میں اپنا علمی و ادبی قومی فریضہ سر انجام دیا۔جدید فکری رویوں اور سیاسی رجحانات کو سمجھنے میں لیہ کے تخلیق کاروں نے زیادہ دیر نہیں لگائی۔نتیجتاً یہاں بھی اردو شعر و ادب میں قومی و ملی روایات کا عکس جھلکنے لگا۔لیہ میں پہلا ہائی سکول اندربھان ٹرسٹ کے زیر انتظام1920ء کے لگ بھگ قائم ہوا۔اس بھراتری ہائی سکول نے تعلیم وتربیت کی ضرورتیں بھی پوری کیں اور علمی و فکری ارتقاء کو بھی مہمیز کیا۔
ڈاکٹر افتخار بیگ کے نزدیک راجہ عبداللہ نیاز لیہ کے سب سے پہلے اور اہم شاعر ہیں۔جن کا ذکر کتاب کے آغاز ہی میں کیا گیا ہے۔علمی اور فکری حوالے سے راجہ عبداللہ نیاز کی شاعری اتنی معتبر تھی کہ”زمیندار“ اخبار کی زینت بنتی رہی۔راجہ عبداللہ نیازلیہ میں 1895میں پیدا ہوئے۔آپ کے رشحات قلم 1913ء سے زمیندار کے دور آخر تک وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے۔انھوں نے لکھا ہے: ”تاریخی اعتبار سے نیاز صاحب ایسے شاعر ہیں جنھوں نے قیام پاکستان سے پہلے اس علاقے میں نہ صرف اردو زبان کی آبیاری کی بلکہ فکر و نظر کے حوالے سے بھی اس دور کے سیاسی،سماجی اور علمی موضوعات کو شاعری میں برتا،پیش کیا۔
مضافاتی ادب کو اردو کے مستقبل کے حوالے سے بھی زیر بحث لایاگیا ہے۔اردو پاکستان کی قومی زبان ضرور ہے۔مگر اس خطے میں تہذیبی و ثقافتی حوالے سے اس زبان کی جڑیں موجود نہیں۔قیام پاکستان کے بعد جو علاقے پاکستان کے حصے میں آئے ان میں علاقائی یا عوامی زبان اردو نہیں تھی۔ہجرت کے ساتھ ہی ہندوستان میں اردو کے تہذیبی مراکز سے بہت سے لوگ/تخلیق کار پاکستان میں وارد ہوئے۔”ان میں سے کچھ لوگ تو مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے آئے۔کچھ لوگ ریاست پٹیالہ،ہریانہ اور راجھستان سے ہجرت کر کے آئے۔کرنال،روہتک،حصار،پانی پت اور سمانہ جیسے شہروں سے مخصوص لہجے اور زبان کے ساتھ پاکستان کے بیشتر شہروں میں وارد ہوئے۔دہلی سے ہجرت کرنے والوں کی تعداد یا تو بکھر گئی یا پھر انھوں نے کراچی کا رخ کیا۔اسی طرح لکھنواور اس کے گردو نواح سے آنے والے لوگ کراچی یا حیدر آباد میں آباد ہوئے۔

اس طرح کراچی اور حیدر آباد میں اردو زبان ایک حد تک عوامی زبان بننے میں کامیاب ہو گئی۔ملک کے باقی تمام شہروں میں ہجرت کر کے آنے والوں کی زبان کا یہاں کی مقامی زبان و ثقافت کے ساتھ اختلاط کا عمل شروع ہوا۔ہریانوی بولنے والے ثقافتی گروہ کے لوگوں کے ہاں یہ شعور مفقودتھا کہ ان کی زبان کوئی علاحدہ لسانی تشخص رکھتی ہے۔سو انھوں نے اسے اردو گردانا اور یوں اپنی زبان بھولنے لگے۔قیام پاکستان کے بعد پہلے کراچی اور لاہور بڑے ادبی مراکز کے طور پر سامنے آئے اور بعد میں جب دارالحکومت اسلام آبادمیں منتقل ہوا تو ایک نئے تہذیبی اور ادبی مرکز کا اضافہ ہوا۔

ڈاکٹرافتخار بیگ صاحب نے لکھا ہے:”ملک کے طول وعرض میں موجود تخلیق کاروں نے جب اپنی شعری اور ادبی تخلیقات کا سفر شروع کیا تو ہر علاقائی ثقافت اور تہذیب نے اردو زبان وادب میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا۔اردو کا دہلوی اور لکھنوی لب ولہجہ (جس کی بنا پر حالیؔ اور اقبالؔ  پر بھی اعتراضات ہوئے)اب قصۂ پارینہ بن گیا، صوبہ سرحد میں پشتو اور ہند کو لب ولہجے میں اردو بولی جانے لگی، تو بلوچستان میں بلوچی لہجے نے اردو کو اپنے حصار میں لیا، سندھ میں سندھی اور پنجاب میں پنجابی لب ولہجے نے اردو کو پروان چڑھانے کی کوشش کی۔ دوسری سطح پر علاقائی ثقافتوں، رسوم ورواج اور ماحول نے اردو شعر وادب کو خام مواد مہیا کیا“
مضافات /دیہات سے شہروں میں آبسنے والے سبھی شاعروں اور ادیبوں نے اپنی تہذیبی اور ثقافتی شناخت کو اردو میں سمونے کی بھرپورکوشش کی ہے۔ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو بڑے مراکز میں پلے بڑھے ہیں مگر موضوعات علاقائی تہذیب و ثقافت سے اخذ کرتے ہیں۔مثلاً شوکت صدیقی جانگلوس،مجید امجد کی نظمیں،پریم چند اور احمد ندیم قاسمی کے افسانوں میں دیہات کی پیش کش نمایاں ہے۔اشفاق احمد کا گڈریا دیہی کلچر کے مظاہر سے مملو ہے۔اس کتاب کے جملہ مباحث کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ کتاب اردو زبان و ادب کے حوالے سے کئی نئے سوالات اُٹھانے کا باعث بنے گی۔
ڈاکٹر افتخار بیگ خود بھی شاعر ہیں۔جدید نظم کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔رواداری اور کسرِنفسی ان کے مزاج کا حصہ ہے۔سو انھوں نے خود اپنے قلم سے اپنے بارے میں کچھ لکھنا ٹھیک نہیں جانا۔میں سمجھتا ہوں کہ ان کا تعارف شامل کئے بغیر اس کتاب کا مقصد حاصل نہیں ہو گا۔
ڈاکٹر افتخار بیگنے مرزا محمد دلشاد بیگ کے گھرمیں یکم جون 1958ء کوآنکھ کھولی۔مرزا محمد دلشاد بیگ اور ان کے والد یعنی ڈاکٹر افتخار بیگ کے دادا قیامِ پاکستان کے بعد لیہ آئے اور یہیں کے ہو رہے۔  ان کا کہنا ہے:  ”لیہ کی مٹی میں ہماری چوتھی نسل دفن ہو رہی ہے۔ایسے میں ہجرت کا حوالہ ختم ہو چکا ہے۔اب یہ مٹی ہمارے خمیر کا حصہ ہے۔جو لوگ لسانی یا تہذیبی حوالے سے نفرتوں اور تعصبات کی بات کرتے ہیں،ان کے پیشِ نظر ذاتی مفادات اور ذاتی پروجیکشن ہوتی ہے۔ ایسے لوگ خام تاریخی شعور کے حامل ہونے کی وجہ سے فکری مغالطوں کا شکار ہوتے ہیں اور سماجی سطح پر پراگندہ خیالی کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔“ ڈاکٹر افتخار بیگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ زمانی ارتقا تہذیبی، لسانی اور فکری ارتباط سے جنم لیتا ہے اور اسی ارتباط کی وجہ سے ارتقا کا عمل مکمل ہوتا ہے۔ یعنی یہ دونوں باہم مربوط و متصل ہیں۔
ڈاکٹر افتخار بیگ نے ایل ایل۔ بی کے علاوہ سیا سیات اور اردو میں ماسٹرکی ڈگری حاصل کی۔ایم۔فل (اردو) کے لئے ”مجید امجد کی شاعری اور فلسفہ وجودیت“ کے عنوان پرمقالہ لکھا جبکہ پی ایچ۔ڈی(اردو)کے لیے جو مقالہ لکھا اس کا عنوان تھا”بیسویں صدی کی اردو شاعری پر وجودیت کے اثرات“۔ان کا ایک شعری مجموعہ”کبھی تم سوچنا“1999ء میں شائع ہوا۔غزل اور نظم دونوں میں قلم فرسائی کی ہے۔
یہ آنکھیں ہر سمے کیوں سوچتی ہیں
خلاؤں میں کہیں کیا گھورتی ہیں
کسی تتلی نے پوچھا تھا یہ مجھ سے
کہ اب برکھائیں کس جانا چتی ہیں
زمانہ مجھ سے یوں روٹھا ہے اب کے
مری آشائیں مجھ سے بھاگتی ہیں
درِ امکاں پہ پہنچا ہوں میں جب سے
مرے اندر چڑیلیں ناچتی ہیں
زمانے بھر کی جونکیں میرے تن سے
لہو کو چوستی ہیں ہانپتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکو عظمت کے تفاخر سے کہاں فرصت ہے کون افلاک سے افلاس کو جھک کر دیکھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں جو بکھروں تو مرے سنگ نہ رکنا ورنہ
انگلیاں درد کریں گی مجھے چنتے چنتے
کرچیوں سے نئی تعمیر بڑی مشکل ہے
یونہی تھک جاؤ گے تصویر کو بُنتے بُنتے
نظم بعنوان”مرا کاسہ تو خالی ہے“سے ایک اقتباس دیکھئے:
خدایا! تو نے کب اس زندگی کے درد،سسکن اور جلن کو سہہ کے دیکھا ہے
یہ میں ہوں۔۔۔۔۔۔۔
جس نے پل پل۔۔۔۔زندگی کا بوجھ ڈھویا ہے
کہ جو۔۔۔۔تاریک راتوں کے صحن میں بیٹھ رویا ہے
کہ جس نے عمر میں اپنی۔۔۔۔۔۔
کئی سانسوں کو کھویا ہے،کئی پیاروں کو رویا ہے
مگر۔۔۔۔نہ درد تھمتے ہیں،نہ ہی یہ روگ کٹتے ہیں
چتائیں کن زمانوں سے مرامقسوم ٹھہری ہیں
سمے بھی اک چتا ہے، اس میں جلتی اک چتا جیون
چتا اندر چتا،اندر کہیں پہ میرا دل بھی ہے
چتا بجھنے نہیں پاتی۔۔۔۔چتا،جلتی ہی رہتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور نظم”لفظوں کا احتجاج“ سے اقتباس دیکھئے:
۔۔۔۔۔
عجب بستی ہے کہ اس جا
منافق دھوپ کے ہاتھوں پیمبر قتل ہوتے ہیں
میں اس بستی کے مقتل میں اکیلا بیٹھ روتا ہوں
میرے اندر کی دنیا میں کہیں کہرام مچتا ہے
یہ کیسا ظلم جاری ہے
یہ بھولے لفظ بستی میں بڑے بے بس،بڑے بے کس،بڑے مجبور رہتے ہیں
یہ میرے منہ کو تکتے ہیں
یہ کیسی بے بسی سے آن کے روتے مچلتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ڈاکٹر افتخار بیگ کی زندگی کا ایک اجمالی سا خاکہ ہے۔ ان کی مرتب کردہ یہ کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے،سوچنا،سمجھنا اور فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے۔بظاہر یہ کتاب محض شعری دنیا کا ایک ریکارڈ ہے مگر کیا یہ محض ریکارڈ ہے،ایک نئی جگہ اور نئی تہذیب میں اردو کی پرداخت کی کہانی نہیں ہے۔سوچئے گا۔
نوٹ: یہ مضمون ڈاکٹر افتخار بیگ کی کتاب لیہ کا شعری افق کل اور آج سے لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com