لیہ کا ادب

لیہ کا ادبی منظر نامہ

ریاض احمد

ادب دراصل معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے۔تخلیق کار جو ادب تخلیق کر رہا ہوتا ہے وہ دراصل معاشرے کے وہ پہلو ہوتے ہیں جسے معاشرہ عام طور پر نظر انداز کرچکا ہوتا ہے۔ادب دراصل زندگی کی وہ علامت ہے جس کے دم سے زندگی چل رہی ہوتی ہے۔کسی بھی معاشرے کی سوچ کا انداز وہاں کے تخلیق کردہ ادب سے لگایا جا سکتا ہے۔
  سوچ اور اظہار کا عمل ہی تخلیق کا عمل ہوتا ہے۔مگر ایک ایسے علاقہ میں جہاں زندگی ابھی پوری طرح انگڑائی بھی نہ لے سکی ہو وہاں کیسے سوچ اور اظہار کا عمل پیدا ہو سکتا ہے۔اس بارے ڈاکٹر افتخار بیگ لکھتے ہیں کہ
”ایک دور میں لیہ محض ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ذرائع آمدو رفت اور مواصلات کا فقدان تھا۔یہاں کے لوگوں کا دور دراز کے شہروں سے رابطہ ایک مشکل عمل تھا۔مگر اس دور کے تخلیق کاروں کے ہاں عصری تقاضوں کے حوالے سے ایک شعور موجود ہے۔پاکستانی معاشرے میں جو فکری و نظری مباحث موجود رہے ہیں،ان کے اثرات اس دور دراز  خطے کے تخلیق کاروں کے ہاں بھی پوری شدت اور گہرائی کے ساتھ موجود رہے ہیں اور یہاں کے شعرا نے بھی ہر اس بات اور صورت حال کو محسوس کیا ہے جو ہمارے معروض کا حصہ رہی ہے۔“
ٍٍ لیہ بڑے ادبی مراکزسے دوراور”مضافاتی شعرو ادب“کے بہت قریب تھا۔مضافاتی ادب سے مراد عام طور پر شہروں سے دور تخلیق ہونے والے ادب کو کہا جاتا ہے۔مضافاتی ادب میں جو ادب تخلیق ہوتا ہے وہ یقینا فطرت میں گندھا ہوا ہوتا ہے۔اور یہاں کے ادبا کسی بھی ظاہری نمائش کے طالب نہیں ہونے ہوتے مگر یہاں کے ادبا بڑے ادبی مراکز کے خلاف بڑی شدو مد سے پُر احتجاج دیکھائی دیتے ہیں اور اپنے بارے کہتے ہیں بقول شاعر
نور سے دور سیہ رات میں زندہ رہنا
کتنا مشکل ہے مضافات میں زندہ رہنا
”مضافاتی شعرو ادب“میں ایک شاعر ایسا بھی ہے جسے اپنے علاقہ،وطن سے بے پناہ محبت ہے وہ ہے افضل صفی۔ افضل صفی اس معاملے میں عجیب ہے وہ مضافات میں رہنا پسند کرتا ہے کیوں کہ وہ اپنے خمیر سے بے پناہ محبت کرتا دکھائی دیتا ہے۔افضل صفی نے کھل کر اپنے علاقہ سے محبت کا اظہار کیا ہے۔ایک قطعہ دیکھئے کہ
مبارک ہو تمہیں لاہور کی رنگین گل کاری
ہمیں ”لیہ“ ہی جچتا ہے، ہمیں اس سے محبت ہے
مبار ک ہو تمہیں اس شہر کی ہر ایک رعنائی
رفیق اپنا تو صحرا ہے،ہمیں اس سے محبت ہے
اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں کہ مضافاتی ادب نے ادب کو بے پناہ سرمایہ دیا ہے اور حقیقتاً یہ ہی سرمایہ ادب کے ماتھے کا جھومر ہے۔ڈاکٹر افتخار بیگ لکھتے ہیں کہ
”مضافاتی ادب پر نظر دوڑائیں تو ایک لمبی فہرست موجود ہے۔ ان میں منیر نیازی کا تعلق ہوشیار پور سے تھا، ظفر علی خان کا تعلق کرم آباد(وزیرآباد) سے، مختار صدیقی کا تعلق گوجرانوالہ سے، مجید امجد کا تعلق جھنگ سے، عبداللہ نیاز کا تعلق لیہ سے، ن، م، راشد کا تعلق گوجرانوالہ سے، احمد ندیم قاسمی کا تعلق خوشاب سے، سید ضمیر جعفری کا تعلق چک عبدالحق ضلع جہلم سے، شیرافضل جعفری کا تعلق جھنگ سے،محسن نقوی کا تعلق ڈیرہ غازیخان سے، فتح محمد ملک کا تعلق جہلم کے دیہات سے، منشایاد کا تعلق شیخوپورہ کے دیہات سے، ظفر اقبال کا تعلق اوکاڑہ سے، شکیب جلالی کا تعلق بھکر سے، فرازؔ کا تعلق خیبر پختونخواہ کے دیہات سے، اشفاق احمد کا تعلق ریاست پٹیالہ کے دیہات سے، آفتاب اقبال شمیم کا تعلق جہلم سے، نسیم لیہ کا تعلق لیہ سے، خیال امروہوہی کا قصہ سب سے نرالا ہے، پیدائش اورلڑکپن امروہہ میں گزرا، بعدازاں کراچی میں رہے،جوانی لاہور میں گزاری، کچھ عرصہ شکر گڑھ میں گزرا، کچھ عرصہ ملتان میں،جوانی میں ہی لیہ میں آکر رہے اور لیہ کے ہی ہورہے۔“
لیہ میں اردو ادب کا آغاز بیسویں صدی کے ربع اول میں ہو تا ہے جب مقصدیت پسندی کی تحریک اپنے بام عروج پر پہنچ چکی ہوتی ہے۔مگر یہاں جو ادب تخلیق ہو رہا تھا وہ گل ورخسار اور حسن و عشق کی زنجیر پہنے ہوئے تھا اس لیے اس وقت ادب سے وہ کام نہ لیا جا سکا جو اس وقت لینا چاہیے تھا۔اس لیے سرسید احمد خان کی مقصدیت کی تحریک اس قدر بارآور ثابت نہ ہوسکی جس طرح ہونا چاہیے تھا ڈاکٹر افتخار بیگ لکھتے ہیں کہ
”بیسویں صدی کے آغاز سے ہی برصغیر کے تقریباًسبھی علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں کے ہاں فکری و نظری سطح پر آزادی کا شعور اجاگر ہونا شروع ہوا۔اس فکری تحریک کے پس منظر میں سر سید احمد خان اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کو نظر انداز کیا جانا ممکن نہیں۔سر سید احمد خان کے ”تہذیب الاخلاق“نے فکر و نظر کی نئی جوت جگائی۔ادھر حالی کی شاعری خصوصاً ”مسدس“ نے مسلمانوں کو ایک نئی راہ سجھائی۔پھر ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے اندر فکری طور پر ہلچل پیدا کی تو ادھر عبدالحلیم شرر کے تاریخی ناولوں نے مسلمانوں کو جھنجھوڑا۔یوں فکر و نظر کا ایک ایسا ہیولا تیار ہوا جس نے برصغیر کے مسلمانوں کے سامنے مستقبل کا ایک موہوم سے نقش اجاگر کردیا۔علامہ اقبال کی شاعری نے اسلامیان ہند کو ایک نئی روح سے آشنا کرایا، تو ساتھ ہی لاہور سے چھپنے والے اخبار”زمیندار“ اور زمیندار کے ایڈیٹر ظفر علی خان نے مسلمانانِ ہند کو فکری حوالے سے بیدار کیا۔لیہ اس دور میں ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ادھر شمال میں کروڑ لعل عیسن قدیم تاریخی حوالے کے ساتھ موجود تھا اور جنوب میں کوٹ سلطان قدیم تہذیبی آثار کے ساتھ موجود تھا۔یہاں کے باسیوں نے اس دور میں اپنا ملی اورفکری فریضہ نبھانے اور جدید فکری رجحانات کو سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔ نتیجتاً اردو شعر و ادب کی ایک روایت یہاں بھی پنپنی شروع ہوئی۔لیہ میں پہلا ہائی سکول1920ء کے لگ بھگ قائم ہوا۔جس نے تعلیم وتربیت کی ضرورتیں بھی پوری کیں اور علمی اور فکری ارتقاء کو بھی مہمیز کیا۔اس سارے پس منظر کو ملحوظ رکھتے ہوئے ضلع لیہ کے ان شعرا کا اجمالی تذکرہ کیا جا رہا ہے۔جنھوں نے اپنے خون ِ جگر سے اردو شاعری کی آبیاری کی۔“
یہاں زیادہ تر آباد کار سرائیکی بولتے تھے جسے ابتدا ء میں ملتانی زبان بھی کہا جاتا رہا۔یہاں کے زیادہ تر ادبا سرائیکی کو ہی اظہار کا ذریعہ بناتے تھے مگر یہاں آباد ہندو جو تھوڑی بہت ہندی اور اردو جانتے تھے وہ کبھی کبھار ایک آدھ شعر اردو میں کہہ لیا کرتے تھے۔اس بارے میں پروفیسر کرامت کاظمی لکھتے ہیں کہ
”بیسویں صدی کے آغاز ہی سے سرائیکی شعروادب کا شانہ بشانہ اردو شاعری بھی نظرآتی ہے اگر چہ اس سے پہلے بھی اردو کلام ملتا ہے لیکن شعرائے سرائیکی محض زبان کا چسکا بدلنے کے لیے کبھی کبھار اردو میں عباعی،مسدس یا نظم وغیرہ لکھ لیتے تھے۔زیادہ توجہ سرائیکی پرمرکوز رہی مگر بیسویں صدی کے آغاز ہی سے اردو شاعری پرخصوصی توجہ دی گئی۔اس حوالے سے ہمیں مسلم شعراء کے ساتھ ساتھ چند ہندو شعراء کے نام بھی ملتے ہیں جن میں لالہ تیح بھان اثر،سندر ناتھ جیت اور اشور ناتھ پنڈت خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔لالہ تیح بھان اثر ڈھینگڑاں قوم کے چشم و چراغ تھے وکالت کا امتحان پاس کیا مگر باقاعدہ وکالت پیشہ اختیار نہ کیا۔بلکہ زمیندارنہ شغل اختیار کیا۔
شندرناتھ جیت ایک بہت بڑے سیٹھ موہن داس کے منچلے فرزند تھے۔جو اینٹوں کے بھٹے میں اپنے پتا (والد)جی کے ساتھ شریک رہے۔“اشور داس پنڈت چھوٹے موٹے بک سیلر تھے۔“
ان سب کا مختصر نمونہ کلام حسب ذیل ہے تیح بھان اثر کا رنگ دیکھئے
بنظر غور جو دیکھیں تو یہ بھی ہے تہوار
حیات میں نجی دسہرے کا رنگ شامل ہے
بندر ناتھ جیت کا شعر ملاحظہ ہو
سندر بن میں جوت جگا بیٹھا ہوں
آشاؤں کا دیپ جلاکر بیٹھا ہوں
ایشور داس پنڈت کا رنگ یہ ہے
اداس رات کی بپتا ہے اور میں تنہا
طویل کرب کا صحرا ہے اور میں تنہا
1947ء میں جب پاکستان معرض وجود میں آیا توایک بڑی کھیپ شعرا اور ادبا کی لیہ میں آئے اور یہاں کے بیشتر شعراو ادبا یہاں سے انڈیا گئے۔جو شعرا انڈیا سے لیہ آ آباد ہوئے ان کااظہار اردو تھا انھوں نے یہاں آکر اردو کو ایک نئی جہت دی اور اردو کو اظہاریہ بناتے ہوئے اردو کو پروان چڑھایا۔اس کا اثر اتنا ہوا کہ یہاں کے مقامی شعرا جن میں نسیم لیہ جیسے بڑے نام شامل ہیں ان کی شاعری کی اصل پہچان سرائیکی کی بجائے اردو بنی۔ڈاکٹر افتخار بیگ لکھتے ہیں:
”قیام پاکستان کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہجرت کرکے آنے والے لوگوں میں  ایک قابلِ ذکر تعداد شعرا کی بھی تھی۔یا شاید وقت اور حالات کے حادثات نے ان میں سے کئی کوشاعر بنا دیا۔قیام پاکستان کے بعد یہاں پر وارد ہونے والے لوگ مختلف علاقوں سے آئے تھے۔ ان میں روہتک حصار(ہریانہ)کے لوگ بھی تھے اور کرنال کے بھی،پٹیالہ ریاست کے لوگ بھی تھے اور انبالے اور جالندھرسے ہجرت کرنے والے بھی۔ان لوگوں کی آمد کے ساتھ ہی تھل کے علاقے میں فکری، نظریاتی، تہذیبی،تمدنی اور لسانی سطح پر اختلاط کا عمل شروع ہوا۔نوواردان اپنے ساتھ کچھ نئے رویے اور زندگی کے نئے تجربات لے کر آئے تھے، کیوں کہ اس دور میں یہ لوگ اپنی اپنی جگہ پر علمی اور فکری مراکز کے بھی قریب تھے اور ساتھ ہی شعری روایت سے جڑے ہوئے تھے۔ ادھر تھلوچی عشق و محبت کی روایات کے امین تھے۔سو مخلوط سماجی رویے پنپنے میں دیر نہیں لگی۔ ادھر ملی سطح پر اردو زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا۔ساتھ ہی سکولوں میں پڑھائے جانے والے سلیبس نے بھی اپنے اثرات قائم کئے اور لیہ میں ایک نیا فکری رویہ پیدا ہوچلا۔ہجرت کر کے آنے والے شاعر اپنے علاقوں میں یا مجموعی اردو شعر وادب میں کوئی مرتبہ یا مقام حاصل کرتے یا نہ کرتے مگر یہاں جہاں صاف اور شستہ لہجے میں اردو بولنا بھی ایک رومانس تھا،بے حد اہمیت کے حامل ٹھہرے۔ان لوگوں کی معیت میں مقامی صاحبان ِ فکر و نظر نے زندگی کو نئے انداز میں سمجھنے کی کاوش کی اور اردو شعرو ادب کی ترقی اور فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔خصوصاً یہاں کے نوجوانوں نے اردو شعر وادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور نو آمدہ لوگوں سے استفادہ کیا۔“۶۲؎
یہاں لوگ احتجاج نہیں کرتے تھے یہ نہیں کہ انہیں احتجاج کرنا نہیں آتا تھا یا وہ کر نہیں سکتے۔وہ کرسکتے تھے مگر ان کے اندر محبت،چاہت اس قدر رچ بس چکی تھی کہ ہر وہ بات درگزر کر دیتے جس پر احتجاج لازم ہوتا۔وہ پیار بانٹتے،پیار کی گفت گو کرتے اور بس پیار ہی پیار۔۔۔کبھی مذہب کے رنگ میں۔۔۔کبھی روایت کے روپ میں۔۔۔،کبھی لوک کہانیوں کی صورت میں۔۔۔ڈاکٹر افتخار بیگ لکھتے ہیں کہ
”1947ء سے 1970ء تک پاکستان کی سیاسی و سماجی زندگی میں جتنے بھی گرداب اٹھے ان کے اثرات لیہ میں کم کم ہی دیکھنے میں آئے۔یہاں کی زندگی تھل کی چاندنی میں نہاتی تھی چوپالوں میں جلتے الاؤکے گرد مستانہ وار رقص کرتی اور قدیم قصوں پر سر دھنتی تھی۔زندگی کے مجموعی رویوں نے یہاں کے شاعروں کے رویوں کو بھی ایک خاص نہج دی۔مٹی سے پیار،وطن سے محبت،مذہب سے لگاؤ،نبی آخرالزمان سے محبت،حسین ابن علی ؑ سے محبت اور محبت ہی محبت۔عمومی طور پرشعرا کے ہاں یہی رویہ بہت نمایاں تھا۔“
70کی دہائی کے بعد جب لوگوں کو اپنے حقوق کے بارے پتہ چلا،انہیں بتایا گیا کہ وہ ایک خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت ہیں ایک ایسی حقیقت جس کو کھلی آنکھوں سے نہ صرف دیکھا جا سکتا ہے بلکہ انہیں چھوا اور اس سے گفت گو بھی کی جاسکتی ہے۔پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک مخصوص طبقہ جو صرف اور صرف عوام کے خون پسینے کی کمائی سے اپنی تجوریاں بھر رہا تھا ان کے خلاف عوام سے آواز اٹھنا شروع ہوئی۔ڈاکٹر افتخار بیگ لکھتے ہیں کہ
”1970ء کے بعد ذوالفقارعلی بھٹو کی سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے سیاسی منشور نے جہاں پاکستان بھر کے غریبوں کے ہاں فکر ونظر کا انقلاب برپا کیا،وہیں لیہ میں بھی ایک نئی سوچ اور فکر نے جنم لیا۔سماجی سطح پراس سوچ کی آؓبیاری کرنے والوں میں لاہورفوٹوگرافرز سٹوڈیو کے مالک ظفر زیدی کی خدمات شامل تھیں اور فکری سطح پر شعرو ادب کو ایک خاص رنگ دینے میں نسیم لیہ اور ڈاکٹر خیال امروہوی جیسے لوگ  شامل تھے۔دوسری طرف ذرائع آمدورفت میں تبدیلی وارد ہوئی تو لیہ کا رابطہ دوسرے شہروں سے زیادہ مؤثر طور پر قائم ہوا۔لیہ کے شعراء کے ہاں فکری بلوغت نے جنم لیا۔ اب یہاں صرف حسن و عشق کے موضوع پر بات نہیں ہوتی تھی بلکہ بات ذرا آگے بڑھی،سماج اورسماجی رشتوں کی تطہیرپر بات شروع ہوئی۔سیاسی و سماجی بے انصافیوں پر احتجاج اور انسان کی بے توقیری پر بڑی شد و مد سے قلم اٹھایا گیا۔یوں سمجھ لیجئے کہ 70ء کی دہائی میں جہاں پاکستان بھر میں خواب دیکھنے کا عمل شروع ہوا، وہیں لیہ کے شعراء بھی مستقبل کے حوالے سے خوابناکیوں میں ڈوب گئے۔اس دور میں شعراء کے اندازِفکر میں ایک واضح تبدیلی دیکھنے میں آتی ہے۔“

مارشل لائی دور نے انسان سے سوال اٹھانے اور آواز بلند کرنے پرپابندی لگا دی۔لوگ جو اپنی شاعری،افسانہ،ناول،انشائیہ الغرض ہرصنف ادب میں لوگ علامت کے طور پر بات کرنے لگے کیوں کہ اس عہد کے لوگوں نے حبیب جالب کو سڑکوں پر مار کھاتے دیکھا تھا۔مگر اس کے بعد کھل کے بات کرنا جرم ٹھہرا اور نتیجتاً معاشرے میں منافقانہ رواداری پنپتی نظر آئی۔ڈاکٹر افتخار بیگ کہتے ہیں کہ

”1960ء کی دہائی میں جنم لینے والے لوگ تقریباً 20سال کی عمر میں فکرونظر سے آشنا ہوئے۔1980کے مارشل لائی جبر نے ان لوگوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز کیا۔انسانی مجبوریوں،محرومیوں اور بے بسیوں کو نئے انداز سے دیکھنے کی ضرورت کو محسوس کیا جانے لگا۔لیہ جیسے دور دراز قصبے میں اب زندگی کے نئے تیوروں کی حدت اور شدت بہت واضح طور پر محسوس کی جارہی تھی۔نتیجتاً اس دور میں ایک نیا لہجہ پیدا ہوا جس میں احتجاج بھی ہے اور جھنجھلاہٹ بھی۔جذبے کی شدت اور فروانی خاص طرح کاا کھڑپن،احتجاج،عشق و محبت کا ایک اجلاساتصور اور معاشی محرومیوں کو مقدر کی بجائے حکمرانوں کی غلطیوں کا شاخسانہ سمجھنے کا رواج عام ہوا،اپنے عہد کی سرسیمگی اور کہیں کہیں خوف کا گہرا تاثر لیے یہ شاعری از حد رچاؤ کی حامل بھی ہے“
ادب چوں کہ جمود کا نام نہیں بلکہ ادب ایک تسلسل کا نام ہے۔9/11کے بعد اردو ادب میں ایک نئی صورت پیدا ہوگئی۔انسانیت کہیں گم ہوگئی اور درندگی نے سراٹھا کر چلنا سیکھ لیا۔انسانوں کے لاشے سڑکوں پر نیم برہنہ پڑے ملے،ہر جگہ خون کی ہولی ہوئی اور اس کا اثر ادب پر بھی پڑا۔عصر حاضرکے شعراء،ادبا اور ادنشوروں نے اپنی تخلیق میں اس فعل کی بھرپورانداز میں نہ صرف مذمت کی بلکہ انھوں نے امن کے فروغ کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور اردو ادب میں امن پسندی کے موضوعات در آئے۔رانا عبدالرب لکھتے ہیں کہ
”کہنے کو تو ماضی کے ادب نے امن کے فروغ کے لیے بے پناہ کام کیا اس لیے حضرت فیض کو لینن پیس پرائز دیا گیا یہ ہی نہیں ساحر لدھیانوی کی نظموں میں بھی امن پسندی کی مہک ملتی ہے مگر نائن الیون کے بعد امن پسندی کے موضوعات جس طرح اردو ادب میں درآئے ہیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں ایک ایسی تحریک اردو ادب میں دکھائی دے رہی ہے جسے ہم ”امن پسندی“کی تحریک کا نام دیں گے“
9/11کے بعد جس طرح اردو ادب میں نئے موضوع درآئے وہ دیگر ادبی مراکز کی طرح لیہ میں بھی اس کے اثرات بے پناہ نمایاں ہیں یہاں بھی لوگ امن کے گیت گاتے اور دہشت گردی کی اور ہر اس چیز کی پرزورالفاظ میں مذمت کرتے ہیں جس سے انسانی خون بہنے اور نفرت پھیلنے کے خدشات ہوں۔9/11کا واقعہ بلاشبہ عالم انسانی کا ایک بڑا واقعہ ہے۔اس سے بالواسطہ یا بلاواسطہ لیہ متاثر تو نہیں ہوا اور آج تک نہ ہی یہاں کوئی ایسی مذہبی منافرت کا مسئلہ پیش آیا جس سے یہ گمان ہو کہ لیہ کے شعرا،ادبا نے امن پر ضرورت کے پیش نظر قلم اٹھا بلکہ انھوں نے عالم انسانیت کے حق میں صدا بلند کی۔انہی شعرا اور ادبا میں جہاں برصغیر پاک و ہند کا ایک معتبر حوالہ”ڈاکٹر افتخار بیگ“لیہ میں بیٹھ کر اپنی نظموں میں ”آشتی نہ ملی“؎پربات کرتے ہیں تو وہیں وہ ”میں کس زمانے میں آگیا ہوں“میں بہت سے سوال اٹھتاتے ہوئے امن و آشتی اور پیار کوڈھونڈتے نظرآتے ہیں۔ان کی نظم دیکھئے
کسی تقدیر پر میرا یقیں ہرگرز نہیں
چلو میں مان لیتا ہوں
زمانے کے چلن کے سامنے مجبور ہیں ہم سب۔۔۔
کہاں پرآنکھ کھلنی ہے ہمیں معلوم کیسے ہو۔۔۔
مرا بس دوش اتنا ہے
اور۔۔۔اتنا ہی تمہارا ہے
کہ ہم اس دور میں پیدا ہوئے ہیں
جب زمانے نے محبت کے صحیفے میں
بہت تحریف کرڈالی۔۔۔۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com