طاہر مسعودمہارکا جہانِ صد رنگ
طاہر مسودومہار سے استوار ہونے والے عہد کا آغاز میں برس قبل ہوا جب میں علاقہ پھل بالخصوص ضلع لیہ کے ادب وفن ، ثقافت اور تاریخ پر تحقیق کرتا ہوا اس کے شہر طرح دار کوٹ سلطان تک پہنچا۔ وہ ان دنوں اپنی تلاش میں، اپنے مستقبل کی کھوج میں اور ادبی راہ داریوں میں کسی متجس نو وارد کی طرح سرگرداں تھا۔ تب کیا تھا؟ ایک سادہ، دلدار اور ہمدردانسان ۔۔ مگر یہ خوبیاں تو آج بھی اس کی ذات کا خاص حصہ ہیں ۔ تب کیا تھا؟ محرومیوں، ناکامیوں اور نا انصافیوں کے محاذ پر سینہ سپر مرد کن۔۔۔ مگر وہ تو آج بھی اسی جذبے، ہمت اور استقامت سے معاشرتی کمزوریوں سے نبرد آزما ہے۔ تب کیا تھا؟ امید، یقین کے ساتھ ان دیکھی منزلوں کی طرف گامزن معلم ۔۔۔ مگر وہ تو آج بھی قندیلیں اٹھائے منزلوں کی تلاش میں ذہن ذہن میں اترتا ہوا روشن استاد ہے۔ تب کیا تھا؟ دوستوں کا دوست، جان محفل اور دلداریوں کا دلدادہ۔۔۔ مگر ان اوصاف سے وہ تو آج بھی متصف ہے۔ تو بدلا کیا ؟ زمانے نے اس کی شخصیت پر کون سے اثرات مثبت کر دیے؟ کیا وہ گہنا گیا ؟ کیا وہ تھک گیا ؟ نہیں۔ ۔ ۔ ہر گز نہیں۔ وہ اس سپر کا سپاہی ہے جو اپنے آخری سپاہی کے مرنے تک شکست تسلیم نہیں کرتی ۔ وہ انسانوں سے محبت کرنے والے ادب قبیلے کا ایک بہادر، سرخیل اور جی دار فرد ہے جس کے لفظ لفظ میں انسان کی محبت موجزن ہے۔ یکم اپریل ۱۹۷۱ء کو ہر غلام حسین باروی کے گھر، کوٹ سلطان ضلع لیہ میں پیدا ہونے والے محمد طاہر مسعود نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر اور آبائی شہر کے اسکولوں میں حاصل کی ۔ ہونہار اور مفتی طالب علم ثابت ہوا۔ دل جمعی سے پڑھا۔ اُردو، تاریخ تعلیم اور سرائیکی جیسے تحقیق طلب مضامین میں ماسٹرز کیے تحقیقی مقالہ مستشرقین کی سرائیکی زبان پر تحقیق پیش کر کے ایم فل (لسانیات) کی ڈگری حاصل کی ۔ مابعد تحقیقی مقالہ سرائیکی، پنجابی اور اردو لسانی وادبی اشتراکات پیش کر کے پاکستانی زبان وادب پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ وہ ان دنوں سرائیکی وسیب کی تاریخ پر سویر اس“ کے عنوان سے اپنے تحقیقی معروضات یکجا کر رہا ہے۔ تعلیم کے شعبہ سے منسلک ہوا۔ اوائل میں بطور معلم اسکول میں بچوں کو پڑھاتا رہا پھر کچھ سرائیکی تعینات ہو۔ ان دنوں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ میں اپنے تدریسی فرائض منصبی سرانجام دے رہا ہے۔ کالج کے ادبی، لی تحقیق جل تھل کا د پر ملی ہے۔ سہ ماہی "غزل” کی اشاعت کی ذمہ داریاں بھی بطور اعزازی مدیر اعلیٰ اس پر عائد ہیں جن کو جانفشانی اور مہارت کے ساتھ نبھاتا چلا آرہا ہے۔ ایوانِ ادب پاکستان کا چیئر مین ہونے کے سبب اس کی ادبی مصروفیات بھی خاصی وقت طلب ثابت ہوئی ہیں-
اس کا نام ادبی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس کی صدر نگ تخلیقات کا سلسلہ طویل عرصہ سے جاری ہے۔ میں اس کی تخلیقات، جو گا ہے گا ہے مجھ تک پہنچتی رہتی ہیں اور اس کے گہر تخلیق کی تابانیاں جو مرے سامنے ضو باد رہتی ہیں کو دیکھ کر میں دو طبی حیرت میں گم ہو جاتا ہوں کہ اس عظیم تخلیق کار نے الفاظ کی غیر معمولی نشست و برخاست سے کیا کیا مفاہیم کشید کر کے اپنے قارئین کے سامنے رکھے ہیں۔ اپنی کسی تخلیق کے ذریعے اس نے ماہرانہ انداز میں بدن اور سانس کے باہمی ربط کو سنبھالا ہے تو کہیں اپنے پیکر کو صد رنگ آئینے میں ڈھال کر قر طاس عالم پر جاودانی نقش کر دیا ہے۔ اُس نے تہذیبوں کے تصادم اور ارتقا کی ہنگامہ خیزی سے بدصورت ہونے والی زندگی کے اضطراب، جاں گسل درد اور بد بودار زخموں سے کہیں دور ایک رومان پر در فضا تشکیل دے رکھی ہے جو اوج آدمیت، فیوضات قدرت اور جستجو کی حقیقی مظہر ہے۔ کئی ادبی اصناف میں اس کے ہاں محبت سے گندھی ہوئی ایسی عبارتیں موجود ہیں جن کا لفظ لفظ وقار، احترام اور اعتبار کی آئینہ دار ہے ۔ باوصف کہ اس نے بہت لکھا، جرائد ورسائل اور اخبارات میں شائع ہوا، مگر کتابی شکل میں اس کے چاہنے والوں کے سامنے نہ آسکا۔ میری دانست میں یہ تجاہل محض اس وجہ سے رو پذیر ہوا کہ اس کی توجہ صحت اور ریاضت کا مکمل ارتکاز تعلیمی و تدریسی محاذ پر مرکوز تھا۔ اس نے اپنی طے کردہ منازل تک پہنچنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں محفوظ کھی تھیں۔ البتہ کار تخلیق نو شوق کے ہاتھوں ایک تسلسل کے ساتھ شہکار بناتا اور محفوظ کرتا چلا گیا۔ روزن شب اور ز لال‘ اس کے دو غیر مطبوعہ اردو شعری مجموعے ہیں جن میں غزل اور نظم کے خوبصورت اور ذوق پرور رنگ طشت از بام ہونے کے لیے اس کی توجہ کے طلبگار ہیں۔ اس نے سرائیکی زبان میں شعر گوئی کی اور سنجوگ” کے عنوان کا حامل شعری مجموعہ طباعت و اشاعت کی منتظر الماری میں محفوظ کر دیا۔ غیر مطبوعہ اُردو ڈراموں ساربان (ٹی وی سیریل ) اور ”سنگ تراش (ٹی وی سیریل) کے ساتھ ساتھ غیر مطبوعہ سرائیکی ریڈیائی ڈرامے بکل ہ” چھن پندھ موہانہ پھل شورا وغیرہ بھی کافی عرصہ سے اس کی نظیر التفات کے انتظار میں ہیں۔ اسے ہر نمایاں ادبی پلیٹ فورم پر سراہا گیا اور اسکی تخلیقات وتحقیقات کی پذیرائی کی گئی۔ مختلف اوقات میں اسے اس کے فن کے اعتراف میں خواجہ غلام فریڈ ایوارڈ نسیم لیہ ایوارڈ، ڈاکٹر مہر عبدالحق ایوارڈ ، میاں الہی بخش ایوارڈ ، غزل ایوارڈ اور تھل ایوارڈ سے نوازا گیا۔
کھے ، دوکار تحقیق میں وہ زمانوں کی دبیز گرد میں چھپے ہوئے حقائق کو نہایت سرعت اور مہارت سے کھوج نکالتا ہے اور ادب کی مروجہ اور رھی پہیوں اور رعنائیوں کے ساتھ پیش کر دیتا ہے۔ وہ ائل نظریات کا حال نہیں بلکہ اس کی سوچ جتجو اور نتیجہ رسائی سائنسی بنیادوں پراستوار ہے اور مائل بہ تلاش حق رہتے ہوئے لچک دار ہے۔ کار تخلیق سے نبرد آزمائی میں وہ ادبی روایات کو پس انداز نہیں کرتا اور جدیدیت کو شجر ممنوعہ نہیں سمجھتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ہاں قدامت اور جدت کی حسین آمیزش خوش گوار تاثر چھوڑنے والی شاعری کی بنیا د رکھتی ہے۔ ملاحظہ ہو:
ہم خاک نشینوں کا نشیمن ترا زنداں
باغی ترے احکام سے کب نوحہ کناں ہیں
طاہر ہے عجب چیز یہ لمحوں کی اسیری
ہم اہل جنوں دار پہ زندہ ہیں جہاں میں
دہ انسانوں کے باہمی ربط میں سے جہاں کہیں عقیدت اور معراج کی حسیں کیفیات تلاش کرتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے اس نے اس کا ئنات کی تخلیق کا حقیقی بھید پالیا ہے جسے سخنے در سے حسن لف و نشر سے پیش کرتا ہے۔ اُس کی شاعری جدید خطوط پر استوار ہے مگر کہیں بھی اُردو شعر کی روایت سے ٹکراتی نہیں ہے بلکہ حسن ادب کے نئے زاویوں سے کلام کرتی ہے۔ حسنِ دل آویز اور دست تیشہ ور کے قلبی و خارجی کیفیات کا بیان ملاحظہ ہو:
میں نقش کر نہ سکا تیرے حسن کے جلوے
ترا جمال میری قوتِ ہنر میں نہ تھا
جنوں نے خود ہی تراشے تھے پتھروں سے خدا
کوئی کمال کسی دست تیشہ ور میں نہ تھا
اگر کارزار ادب وفن دشت امتحاں ہے تو طاہر مسعود بار کامیاب وکامران مسافر ثابت ہوا، اگر تیمی شعر حار مقتل جاں ہے تو طاہر مسعود مہار سرخرو ہوا اور اگر پیرا یہی اظہارحرف ومعنی سے برسر پیکار بھی جاں شکن ہے تو طاہر مسعود مہار ایک فیض یاب بیاں کار تسلیم کیا گیا۔ اس نے زندگی کو سہارا دینے ، اپنے لہو انسانیت کی آبیاری کرنے اور اپنے آپ کو قربان گاہ تک، دار بقا تک لے جانے میں بزدلی کی روش نہیں اپنائی اور یہی اس کے ہنر کا مان ہے۔ اپنے اس حقیقی مزاحمتی رویے کا اظہار وہ اپنے جہان تخلیق میں بارہا کرتا ہے۔ وہ انسانی رویوں کی شکست وریخت پر بڑی ماہرانہ نظر رکھتا ہے۔ ملاحظہ ہو:
لپٹا ہوا مریم کی ردا میں کوئی سایہ
فٹ پاتھ پہ لیٹا ہے وہ گھر کیوں نہیں جاتا
اوروں کو جو دیتا ہے اُجالوں کا تیقن
اس شخص کی کٹیا میں قمر کیوں نہیں جاتا
اس کے ادبی رخت سفر میں نایاب گوہر، بچے اور بچے افکار، دل پذیر احساسات اور امید افزا خوابوں کا نہ ختم ہونے والا خزینہ موجود ہے جس تک رسائی اس کے دوستوں اور چاہنے والوں کا حق ہے اور یقینایہ حق جلد حقداروں تک پہنچ جائے گا۔ اس کے مختلف ادبی اور فکری رویوں کو آشکار کرتے ہوئے اشعار کا مختصر سا انتخاب پیش خدمت ہے۔ ان نھے نے ضو بار آئنوں میں میرا دوست ، طاہر مسعود مہار پوری سچائی اور روشنی کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔ ملاحظہ کیجئے:
وہ جو اک بات بہت تلخ کہی تھی اس نے
بات تو یاد نہیں ، یاد ہے لہجہ اُس کا
افلاس کی بیٹی کے دوپٹے پہ یہ دھبہ
دراصل غلامی سے بغاوت کا صلہ ہے
ماه کامل تجھے خبر ہی نہیں
ہم ستاره شمار ہوتے ہیں
لوگ کہتے ہیں تجھے توبہ شکن وعدہ شکن
جب کہ طاہر ترے وعدوں پہ جیا کرتا ہے
پگھل رہی تھی شکل بھی ، اکھڑ گئی تھی سانس بھی
اداس اتنی رات میرے خواب میں کبھی نہ تھی
مجھے معلوم ہے کہ اس کی مسافتیں طویل تر ہیں ، حو صلے مضبوط تر ، اس لیے مجھ میں زاد کو آج دکھائی دینے والا طاہر مسعود مہار تا دیر میری حد گا اور دسترس میں نہیں رہے گا اور اوج کمال پر متمکن ہو کر دور دور تک روشنیاں پھیلائے گا۔ وہ خوبصورت ہے اور دنیا کو خوبصورتیوں سے آراستہ رکھنا چاہتا ہے اور بلاشبہ ہی وصف یہی اعجاز ا سے معاصر سے ممتاز و منفرد کرنے کا سبب ہو سکتا ہے۔ رخصت کی طلب کے ساتھ اس کے لیے ایک شعر:
تمہارا حسن پر دیا گیا ہے شعروں میں
تمہارے حسن کو اندیشہ زوال نہیں
☆☆☆