ڈاکٹر خیال امروہوی: شخصیت اور شاعری از ریاض راہی
(تجزیاتی مطالعہ )
گل به شبنم گفت ما اینجا نیستم
صحبتش را درک کردم مغز آن برداشتم
(ڈاکٹر خیال امروہوی )
پھول نے شبنم سے کہا ہم یہاں ہمیشہ کے لیے نہیں ہیں۔ میں اس محفل میں موجود تھا، اس کا لب لباب لے لیا پروفیسر ریاض راہی میرے ہم دم دیرینہ ہیں۔ میرے ہم مکتب و ہم مشرب رہے ہیں۔ بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں ۔ مرنجاں مرنج ، خوش اخلاق، کشادہ ظرف ، نیک طینت، اور خوش اطوار ہیں۔ وہ نہ صرف اچھے شاعر ہیں بلکہ نثر میں بھی ان کو کمال حاصل ہے ان کی تحقیقی و تنقیدی تصنیف ڈاکٹر خیال امروہوی: شخصیت اور شاعری ایک عمدہ نثری شہ پارہ ہے۔ الفاظ کا خوب صورت استعمال، برمحل تراکیب ، کہیں منفی و مجمع عبارات، جملوں کا اختصار، رواں اسلوب، جدت ادام منطقی ربط اور روزمره ومحاورہ پر گرفت ان کی نثر کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ شاعری کی طرح نثر میں بھی آورد سے زیادہ آمد کا گماں محسوس ہوتا ہے۔ قاری کو اپنے الفاظ و بیان کے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔ اگر یوں کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ مصنف نے اپنے استاد محترم ڈاکٹر خیال امروہوی کے اشعار میں موجود فکر کو صرف پڑھنے کی حد تک محدود نہیں رکھا بلکہ ان کی فکری تفہیم کر کے اپنے فن میں جگہ دی ہے۔ مصنف نے ڈاکٹر خیال امروہوی کی غزل گوئی نظم گوئی، نعتیہ کلام اور فارسی شاعری پر مبسوط اور جامع تبصرہ کیا ہے۔ جملوں کی ساخت میں لفظ معنی کا ارتباط اور شکوہ موجود ہے۔ ڈاکٹر خیال کی غزل میں موضوعات کا تنوع اور انفرادیت کی شان جا بہ جا نظر آتی ہے مثلاً یہ شعر ملاحظہ ہو:۔
حیف اس زن پر جو شاعر کا مقدر ٹھہری
مجبور کو آیا نہیں شوہر کرنا
مصنف نے غزل کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے قلم کی جولانیاں دکھائی ہیں۔ ایک مقام پر لکھتے ہیں:۔
ان کی شاعری انسان کے اجتماعی مسائل سے بھر پور ہے۔ ان کی شاعری اپنے سماج کی عکاس اور تر جمان بھی ہے اور نقاد د جراح بھی۔ اس میں انقلاب آفرینی بھی ہے اور خوئے انقلاب وارتقاء بھی ہے۔ اس میں یاسیت کی عارضی فضا بھی ہے لیکن رجائیت اس پر غالب ہے۔ اس میں عزم اور اثبات ذات کا درس بھی ملتا ہے۔ ان کی شاعری میں لطافت کی بجائے للکار و احتجاج اور روایت کی بجائے درایت اور بغاوت ملتی ہے جس کا اظہار انھوں نے یوں کیا ہے”
کس قرینے کا ہنر اے جان جاں مجھ میں نہیں
چونچلے والا مگر حسن بیاں مجھ میں نہیں
ڈاکٹر خیال امروہوی کی نظم گوئی پر اظہار خیال کرتے ہوئے بھی قافیہ بندی اور شوکت تراکیب کا التزام مصنف نے برقرار رکھا ہے چند جملے
ملاحظہ ہوں:
اس کے بعد ڈاکٹر خیال اپنے سماج کی پسماندگی کا ذکر اور آویزش طبقات کی تاثیر، سلطان جمہور کی شمشیر، خودساختہ اوطان کی زنجیر اور تزویر میں ڈوبی ہوئی تدبیر کو ملک بتاتے ہیں۔ پھر عصر حاضر کے تقاضوں سے آگہی کا درس دیتے ہوئے اپنے فکری مشن کی تبلیغ شروع کر دیتے ہیں۔
دولت کو مساوات کی میزان میں تولیں
جو راہ بھی مسدود ہو اس راہ کو کھولیں
باب سوم پر ان کی توجہ خاصی رہی۔ صنف نظم میں عمرانی نظریات کا عکس جھلکتا ہے۔ ان خیالات کی گہرائی اور گیرائی کو یک جا کرنے میں مصنف نے کافی لگن سے کام کیا ہے بلکہ یوں کہیے کہ فطرت عالی جاہ کی متلاشیوں کے ذہنوں میں جو ابدی سچائیاں اور خبریں ہوا کرتی ہیں جو انھیں مضطرب اور آتش زیر پا رکھتی ہیں ، نت نئے انکشافات اور تخلیقات کا باعث بنتی ہیں، ان سچائیوں کی ابلاغ کی رمق زیر نظر کتاب کی پس منظر، تہہ منظر اور پیش منظر میں دکھائی دیتی ہے ایک چھت نار شخصیت کی بعض تحت الشعوری کیفیات کے تناظر میں اس کا دقیق اور پر از معنی تجزیہ کیا گیا ہے جس سے کتاب دو آتشہ تنقیدی شاہکار بن گئی ہے۔ ریاض راہی کی تصنیف کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ لینے سے یہ امر محقق ہوتا ہے کہ انھوں نے تحقیق کے جدید تر اور سائنٹفک اصولوں کو پیش نظر رکھا ہے بطور حق انھوں نے موجودہ مواد کے حسن و قبح صحت و سقم کو مسلمات کی روشنی میں پرکھا ہے۔ تحقیق کے سارے مراحل کو مد نظر رکھ کر تکمیل کی ہے۔ تنقید تحقیق سے آگے کی منزل ہے اپنی کتاب میں ریاض راہی نے اپنی ناقدانہ صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ہیں۔ انتقاد ادب میں ذاتی پسند و نا پسند کو لوظ خاطر نہیں رکھا۔ جہاں ڈاکٹر خیال امروہوی کے نظریات کا ذکر ہوا، چاہے وہ مذہبی تھے یا کسی اور نوعیت کے تھے ، مصنف نے لگی لپٹی رکھے بغیر بے لاگ تنقید کی ہے ایسے معروضی معیار وضع کیے جو ادب کو جانچنے کے کام آسکیں ۔ تصنیف میں تنقید ادب کے مقاصد کو بخوبی برتا گیا ہے
مثلاً :
ا۔ ادب پارے کی تشریح و توضیح
۲ ۔ ادب پارے کی تحسین یا قاری کے لیے استحسان میں معاونت
۳۔ قارئین کے ذوق کی تربیت
۴۔ ادب پارے کے محاسن کا تجزیہ
۔ اس کی خوبیوں کو روشنی میں لانا اور ان کی اہمیت کا اندازہ کرنا فکری ارتقاء کا سراغ لگانا
ے۔ ادب پارے کی خامیوں کو جانچنا اور ان کے اسباب کا سراغ لگانا
فن پارے کے پائیدار حصوں کی نشاندہی اور ان کی قدر و قیمت کا تعین کرنا
ریاض راہی نے ڈاکٹر خیال امروہوی کی غزل اور نظم کا تجزیہ تحقیق وتنقید کے معیاری اصولوں پر کیا ہے حوالہ جات اور کتابیات کا التزام بھی رکھا گیا ہے آخر میں محاکمہ مصنف کی اعلیٰ تنقید کا منہ بولتا شاہکار ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے فکر وفن کا تجزیہ مصنف کو بطور محقق اور نقاد متحقق ہے۔ انھوں نے ڈاکٹر خیال کی شاعری کی تمام جہات کا مطالعہ قارئین تک ہم پہنچایا ہے۔ جس سے متحقق ہوتا ہے کہ موصوف نہ صرف الفاظ کا درو بست خوب جانتے ہیں بلکہ ان کا کلام پیامی کیفیت کا حامل ہے۔ جس میں غنائیت ہے، فطری بہاؤ ہے اور اسے دہرانے اور گنگنانے کومن چاہتا ہے۔ خیالات نہایت بلند سطح پر ہیں۔ آخر میں استاذی ڈاکٹر خیال امروہوی اور پروفیسر ریاض راہی کے لیے اتنا کہوں گا:۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را