لیہ کا ادب

لیہ کا سرائیکی ادبی منظر نامہ

حمید اُلفت ملغانی

ادبی مراکز سے پرے ہونے کے باوجود ادبی دنیا میں لیہ کی منفرد پہچان ہے ۔ سرائیکی ادب کے حوالہ سے لیہ کے لیے یہ اعزاز بھی کم نہیں ہے کہ حکومت پاکستان کے اعلیٰ اعزاز تمغہ حسن کارکردگی حاصل کرنے والے سرائیکی زبان کے معروف محقق اور ماہر لسانیات ڈاکٹر مہر عبد الحق نے اس شہر میں آنکھ کھولی۔ اُردو اور سرائیکی زبان کے معروف شاعر نیم لیہ نے اپنے نام کے ساتھ اپنے شہر کا نام بھی روشن کیا ہے ۔ حکیم الہی بخش سرائی، پروفیسر نو از صدیقی، پروفیسر اکرم میرانی اشولال: پروفیسر فیبر اختر وہاب’ برکت اعوان’ ڈاکٹر مزمل حسین، مظہر نواز لاشاری، ملک مشتاق احمد سامیہ ڈاکٹر جاوید اقبال کنجال، ڈاکٹر گل عباس اعوان اور منور اقبال بلوچ جیسے احباب کے نام سرائیکی ادب کی سر پرستی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ریڈیو پاکستان کے حوالہ سے سرائیکی زبان و ادب کی آبیاری کرنے والوں میں ملک عزیز الرحمان اولکھ (موجودہ اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان ڈیرہ اسماعیل خان) خورشید احمد ملک (موجودہ اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان ملتان اور آصف خان کھتران (موجودہ پروگرام منیجر ریڈیو پاکستان لورالائی) کا تعلق بھی یہ ہی سے ہے ۔ علاوہ ازیں ڈھیروں اہل قلم سرائیکی ادب کے فروغ میں اہم کردار کے حامل ہیں۔ تفصیل کے لیے الگ الگ موضوعات زیر بحث لائے جاتے ہیں۔
دینی ادب ڈاکٹر میر عبدالحق نے قرآن حکیم کا سرائیکی ترجمہ شائع کرانے کے علاوہ سورۃ الفاتحہ کی تفسیر بعنوان "الحمد للہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے نیز ” کونین داوائی’ کے عنوان سے ڈاکٹرشعری مجموعہ ”سک سو جھل میں سرائیکی غزل اور آزاد نظم کو موضوع بنایا گیا ہے۔ سرائیکی کے اہم شعراء نسیم لیہ نادر قیصرانی اور کیف شکوری کے مسودہ جات اُن کی وفات کے باعث اشاعت کے مراحل طے نہ کر سکے۔
شعیب جاذب منظور بھٹہ مظہر حسین ا سٹر موسیٰ کلیم اظہر زیدی، شاکر حسین کا شف سلیم اختر ندیم شوکت علی شائق، منشی منظور جمعه خان عاصی امام بخش منصور ساجد سواگی، شمشاد سرائی عبدالقدوس ساجد اقبال نسیم صحرائی اور صابر عطاء جیسے شعراء کے شعری مجموعے چھپ جانے
چاہئیں۔ بہر حال ان میں سے کچھ مجموعہ جات جلد شائع ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر افتخار بیگ، کاشف مجید ڈاکٹر مزمل حسین رفیق خاور تھلوچی جسارت خیالی، سلیم گورمانی، طاہر مسعود مہارا محمد عثمان خان شہباز نقوی اور ریاض حسین راہی جیسے متعدد شعراء اُردو شاعری کے ساتھ ساتھ سرائیکی شاعری میں بھی طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں۔مشتاق شمر امام بخش اسیر نذیر عبر محمد حسین قنبر، محمد بخش را تم، عارف دستی امین سہیل ملغانی صادق حسنی، ثقلین نجمی، انجم بلوچ، منظور حسین شاکر سجاد حسین شاہ صابر غلام عباس واصفی، سونا خان بلوچ راول بلوچ یونس به دار مبین سمل، امجد کلاچی عظیم تائب اور دیگر کئی شعراء سرائیکی شاعری میں اپنا حصہ شامل کر رہے ہیں ۔ سرائیکی شاعرات میں سے فرح تحسین بخاری اور بانو بلوچ کے نام سرائیکی شاعری کی نمائندگی کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں۔ فرح تحسین بخاری کی غزل اور بانو بلوچ کی مزاحیہ نظمیں خاص طور پر معروف ہیں۔ بانو بلوچ کی مرتبہ کتاب لوکھ ہتھاں دا پورھیا ترتیب کے مراحل میں ہے جس میں سرائیکی شاعرات کا منتخب کلام شامل ہے۔لسانیات ماہر لسانیات ڈاکٹر مہر عبدالحق کی کتابیں سرائیکی زبان کے لیے سند کا درجہ رکھتی ہیں ۔ اُن کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ ملتانی زبان اور اس کا اُردو سے تعلق ۱۹۶۷ء میں اُردو اکادمی بہاولپور سے شائع ہوا۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر مہر عبدالحق کی کتب میں سرائیکی اور اس کی ہمسایہ علاقائی زبانیں” سرائیکی دے قاعدے قانون“ اور ”سرائیکی دیاں مزید لسانی تحقیقاں سرائیکی لسانیات کی بنیادی کتابیں شمار کی جاتی ہیں ۔ امان اللہ کاظم کی کتاب کن بر میں سرائیکی ضرب الامثال اوراُن کی اُردو شرح پیش کی گئی ہے نیز وہ سرائیکی لغت“ کے سلسلہ میں بھی کام کر رہے ہیں۔ منظور بھٹہ کے مرتب کردہ سرائیکی اکھان” منور اقبال بلوچ کی تحریر ” کچھ سرائیکی اصطلاحات اور پروفیسر نواز صدیقی کی تحریر شاعری وچ ماں بولی دی اہمیت“ لیہ سے شائع ہونے والے کتابی سلسلہ سرت میں شامل اشاعت رہی ہیں۔
فریدیات لسانیات کی طرح فرید یات بھی ڈاکٹر مہر عبدالحق کا خاص موضوع رہا ہے ۔ اُنہوں نے ” پیام فرید میں خواجہ غلام فرید کی کافیوں کو موضوع کی مناسبت سے ترتیب دے کر پیش کیا۔ اس طرح کا کام فریدیات میں پہلی بار ہوا ہے کیونکہ اس سے قبل شائع ہونے والے مجموعہ جات کو ردیف کی ترتیب سے سامنے لایا گیا ۔ لغات فریدی“ کے عنوان سے خواجہ غلام فرید کی کافیوں میں شامل الفاظ کے معنی پیش کیے ۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر مہر عبدالحق کی معروف کتاب ” فرد فرید میں فریدیات کے حوالہ سے مختلف مضامین شامل کیے گئے ہیں ۔ اسی طرح انگریزی زبان میں پیش کی جانے والی کتاب The Vision of Khawja Farid میں بھی ڈاکٹر مہر عبدالحق نے خواجہ فرید کے فکر وفن کے متعلق مضامین پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ فریدیات کے موضوع پر حمید الفت ملغانی (راقم ) کتاب ” سلک سلوک فریدی میں اہم لکھاریوں کے مضامین ترتیب دیئےگئے ہیں۔ تحقیق و تنقیدحضرت حافظ جمال ملتانی کے متعلق سرائیکی میں لکھی گئی ڈاکٹر مہر عبدالحق کی تحقیقی کتاب نور جمال میں حافظ جمال کے حالات زندگی کے علاوہ اُن کی شعری تصنیف ” چرخہ نامہ کو بھی تلاش و جستجو کے بعد شامل کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر مزمل حسین کی کتاب ”فن بلاغت تے سرائیکی شاعری کی طباعت سرائیکی ریسرچ سنٹر بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان نے کی ہے جو اپنے موضوع کے حوالہ سے انفرادیت کی حامل ہے۔ قبل ازیں اُن کی دو کتب ”نئے زاویے اور لطافت اسلوب میں اُردو ادب کے ساتھ ساتھ سرائیکی ادب کے حوالہ سے تنقیدی و تحقیقی تحریریں بھی شامل کی گئی ہیں ۔جعفر بلوچ کی کتاب ” آیات ادب میں لیہ اور مظفر گڑھ کے شعراء کے تذکرہ میں سرائیکی شعراء کے احوال بھی شامل ہیں۔
حمید اُلفت ملغانی (راقم ) کی کتابوں میں لکھت تے لکھاری اور پاکستانی زبانوں کا ادب تحقیق و تنقید کی نمائندگی کرتی ہیں۔ سرائیکی ادبی بورڈ ملتان کی جانب سے شائع ہونے والی لکھت تے لکھاری میں سرائیکی ادب اور ادباء کے حوالہ سے اور جانباز جنید اناں ہے“ میں جانباز جتوئی کی شخصیت اور فن کے متعلق تحقیقی و تنقیدی مواد پایا جاتا ہے جبکہ اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے شائع ہونے والی کتاب جانباز جتوئی : شخصیت اور فن، پاکستانی ادب کے معمار کے حوالہ سے شروع کیے گئے سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔ بیکن بکس لاہور نے ” پاکستانی زبانوں کا ادب کو خوبصورتی سے شائع کیا ہے جس میں پاکستانی زبانوں میں سے براہوی، بلوچی، پشتو، پنجابی سرائیکی، سندھی اور شمالی علاقہ جات کی زبانوں کے ادب کے بارے میں تجزیہ شامل ہے۔ علاوہ ازیں سرائیکی ادب کے سالانہ جائزہ کے سلسلہ میں حمید اُلفت ملغانی کی تحریر میں ۱۹۹۳ء سے اب تک مسلسل شائع ہوتی رہی ہیں ۔ یہ جائزہ اخبارات میں شائع ہونے کے ساتھ ساتھ کتابی شکل میں بھی ہر سال سرائیکی ادبی بورڈ ملتان کی اشاعت کے طور پر سامنے آتا رہا۔ کتابی شکل میں شائع ہونے والے جائزوں کے عنوانات کچھ اس طرح ہیں۔ سرائیکی ادبی ٹور ۱۹۹۳ء سرائیکی ادبی پندھ ۱۹۹۴ء سرائیکی ادبی رُت ۱۹۹۵ ء سرائیکی ادبی سمل ۱۹۹۶ ء سرائیکی ادبی رگ ۱۹۹۷ء سرائیکی ادبی چنگ ۱۹۹۸ء سرائیکی ادبی اُڈار ۱۹۹۹ء سرائیکی ادبی جھات ۲۰۰۰ ء سرائیکی ادبی سونہ ۲۰۰۱ء سرائیکی ادبی نجوک ۲۰۰۲ء سرائیکی ادبی پورھیا ۲۰۰۳ء سرائیکی ادبی رونت ۲۰۰۴ء سرائیکی ادبی راند ۲۰۰۵ ء سرائیکی ادبی بار ۲۰۰۶ء ، سرائیکی ادبی سرت

تاریخ و ثقافت

سرائیکی ادبی سلسلہ میں ڈاکٹر مہر عبدالحق کی پہلی کتاب ”سرائیکی لوک گیت“ ہے ۔ بزم ثقافت ملتان سے شائع ہونے والی اس کتاب کو لوک ادب کے موضوع پر ابتدائی کاوش کہا جا سکتا ہے ۔ ڈاکٹر مہر عبد الحق نے ملتان کے عنوان سے ملتان کی تاریخ و ثقافت اور تھل“ کے عنوان سے نقل کے تہذیبی خدوخال واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ دیکن بکس ملتان سے شائع ہونےوالی ڈاکٹر مہر عبدالحق کی کتب The Soomras، اور ملتان کے بادشاہ گورنر اورحملہ آور بھی ، سرائیکی وسیب کی تاریخی و تہذیبی روایات کی علمبر دار ہیں۔
پرو فیسر اکرم میرانی نے تاریخ و ثقافت کے موضوع پر خاصا کام کیا ہے۔ اس حوالہ سے اُن کی کتب ”سرائیکی ڈیں اتھل آج تے کل اگر میر تقفل ملتان کے بالمیکی ” اور "یہ کی ہندو برادری ہاتھوں ہاتھ لی گئیں ۔ مزمل حسین اور اکرم میرانی کے اشتراک سے مرتب ہونے والی فداحسین گاڑی کی کتاب ”سرائیکی کلچر میں سرائیکی ثقافت کو اجاگر کرنے والی تحریریں شامل ہیں۔ سرائیکی تاریخ و ثقافت کے سلسلہ میں برکت اعوان کے مضامین مختلف اخبارات در سائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ لیہ کی ادبی دنیا میں برکت اعوان کی اس موضوع کی کتاب کا شدت سے انتظار ہے۔ لیہ کی تاریخ کے سلسلہ میں میر نور محمد محھند کی کتاب ” تاریخ لیہ اور خدا بخش ناصر کی کتب انسائیکلو پیڈیا آف لیہ اور لیہ دی تاریخ میں جہاں لیہ کی تاریخ بیان کی گئی ہے وہاں لیہ میں سرائیکی ادب کے فروغ کے سلسلہ میں بھی معلومات پائی جاتی ہیں ۔ مہر نور محمد تھند نے ” اولیائے لیہ اور اولیائے بھکر” کے عنوانات سے بھی کتابیں چھپوائی ہیں ۔ جن سے تھل کی مذہبی روایات اجاگر ہوئی ہیں ۔ سرائیکی تہذیب و ثقافت کے متعلق لکھی جانے والی ڈاکٹر گل عباس اعوان کی کتاب سرائیکی ثقافت دے رنگ” چھپ کر سامنے آچکی ہے۔ حمید اُلفت ملغانی کی کتاب ” دھرتی قائد میابیوں تاریخ پاکستان اور قائد اعظم کے حوالہ سے ہے۔ جبکہ سرائیکی لوک ریت سرائیکی و سیب میں پائی جانے والی رسومات کی ترجمانی کرتی ہے۔

سفرنامہ

مزار خان (مظہر نواز لاشاری) نے بھارت کا سفر نامہ ” لکھ دی کہانی“ کے عنوان سے پیش کیا ہے جس میں دلی میں گزارے گئے دودنوں کے احوال کو سیاق و سباق سے پیش کیا گیا ہے حمید اُلفت ملغانی کا سفر نامہ "پاندھی پیچھاں دائیں نکال” کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے جس میں سرائیکی وسیب کے سفر کی کہانی بیان کی گئی ہے۔

تراجم

ڈاکٹر مہر عبدالحق نے قصیدہ بردہ کا ترجمہ سرائیکی کے علاوہ اُردو انگریزی اور فارسی میں کیا۔رباعیات عمر خیام کا منظوم ترجمہ مئے گلفام اور علامہ اقبال کی کتاب ”جاوید نامہ“ کا اُسی بحر میں کیا گیا منظوم سرائیکی ترجمہ ڈاکٹر مہر عبدالحق کی زبردست کاوش ہے۔
نسیم لیہ نے علامہ اقبال کی کتاب بال جبریل سے غزلیات کے انتخاب کا منظوم سرائیکی
ترجمہ بعنوان ” بال جبریل” کتابی شکل میں پیش کیا جسے وسیب میں خوب سراہا گیا۔ حمید اُلفت ملغانی کی ترجمہ کے سلسلہ کی دو کتب شائع ہو چکی ہیں ۔ ایک کتاب "گل گلانواں ریت دا ممتاز مفتی کے اُردو ڈرامہ کا سرائیکی ترجمہ ہے جبکہ دوسری کتاب” ناز و ظفر لاشاری کے تحریر کردہ اولین سرائیکی ناول کا اُردو ترجمہ ہے جسے اکادمی ادبیات پاکستان کی اشاعت کے طور پر پیش کیا گیا۔

بچوں کا ادب

بانو بلوچ نے سرائیکی میں بچوں کے ادب کے متعلق کتابچے مرتب کیے ہیں۔ جن میں پہیلیوں پر مشتمل کتا بچہ سمجھ میڈی بجھارت اور لطائف کے چار مجموعے بعنوان میٹھری مسکار گھوٹ کنوار دے لطیفے ارساں دے لطیفے اور ڈاکٹراں دے لطیفے شامل ہیں۔ یہ کتا بچے سلیمان برادر زملتان کی اشاعت کے طور پر وقتا فوقتا شائع ہوتے رہے ہیں ۔

کتابی سلسلے

لیہ میں متعدد کتابی سلسلے شروع ہوئے جن میں سے اُردو اور سرائیکی ادب پر مشتمل جسارت خیالی کا مرتبہ نیا قدم ” پہاڑ پور سے تسلسل سے جاری ہے۔ تھل دمان سرائیکی سنگت لیہ کا سرائیکی کتابی سلسلہ مسرت کا طنز و مزاح نمبر اور تین دیگر شمارے ابن ملغ بلوچ (امین سہیل ملغانی) نے ترتیب دیئے تھے ۔ طاہر مسعود مہار نے "غزل” کے عنوان سے خوبصورت شمارہ کوٹ سلطان سے شائع کیا جس میں اُردو کے علاوہ سرائیکی مواد بھی شامل تھا ۔ کروڑ سے اشو لال نے ” بیٹری” کے عنوان سے کتابی سلسلے کا کہانی نمبر شائع کیا۔ "کتاب ” بصارتیں“ اور ” پیام ادب کے
عنوانات سے شائع ہونے والے کتابی سلسلے بھی سرائیکی ادب کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔

 

نوٹ:یہ مضمون  ڈاکٹر لیاقت علی خان کی کتاب "لیہ تاریخ و ثقافت ” سے لیا گیا ہے 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com