لیہ کا ادب

ضلع لیہ: کبھی تم سوچنا میں کرب فرقت کی حقیقت

حمید الفت ملغانی

 

کبھی تم سوچنا میں کرب فرقت کی حقیقت :

ادب کیا ہے؟ کہا جاتا ہے جب کوئی جذبہ یا تاثر الفاظ کا لبادہ اوڑھ کر اس طور بر آمد ہو کہ لفظ و معنی کے بط با ہم سے خلق اور قاری دونوں کو جمالیاتی حس مہیا کر سکے تو تحریر کے اس ٹکڑے کو ادب کا نام دیا جائے گا۔“ادب ا پنےاندر محفوظ رکے کی ہمہ گیر تو رکھا ہے اسے مال کا مجسمہ بھی کہ سکتےہیں اور مسرت شادمانی کا دیوتا بھی۔ فرقت کے گیت گائے یا وصال کے نے الا پے اس کی کشش قاری کو بے اختیار اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔ جہاں تک ادب تخلیق کرنے والوں کا تعلق ہے تو ہر تخلیق کار اپنی افتاد کے مطابق وسیلہ اظہار کا متلاشی رہتا ہے۔ لیہ میں شعر و اد اور علم وفن کی تخلیقی رفتار کے پیمانے کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق پر لکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرطاس قلم کی نی نسل مروجہ اسلوب کی پاسداری کے ساتھ ساتھ لمحہ موجود پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ اسی تناظر میں دھیے مزاج سے ہم آہنگ قلم کار افتخار بیگ کی علم دوستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کتابوں سے محبت اُن کا اولین عشق ہے جس نے انھیں اس دشت کی سیاحی میں اس قدر سر گرداں رکھا کہ علمی سلسلہ کے اعلیٰ ترین اعزاز یعنی پی ایچ ڈی کی ڈگری تک رسائی اُن کا مقدر ٹھہری۔ کبھی تم سوچنا“ کے عنوان سے سامنے آنے والی شعری تخلیق میں ڈاکٹر افتخار بیگ نے نظم و غزل کے اعتدال و توازن کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ جن موضوعات کو زیر نوک قلم کیا ہے اُن میں کرب فرقت کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

رات بھر میں نے ترے نام کے لفظوں کو چنا
ضد تھی میری کہ تیرا نام لکھوں سجدے کروں

یوں تری یاد نے پھر مجھ کو تسلی دی تھی
ہجر کا زہر پہیوں اور ترے شعر لکھوں

ہجر کا زہر پینا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ اس آگ کی تپش تو وہی محسوس کر سکتے ہیں جو برسات کے موسم میں بھی سلگتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اشکباری کا سیل رواں اس قدر ٹھاٹھیں ماررہا ہوتا ہے کہ رکنے کا نام نہیں لیتا۔

میرے اشکوں کو ابھی اور بھی کچھ بہنے دو
رات بھر جلنا سکنا تو میرا کام ہوا

جہان تک جگراتے کا تعلق ہے تو کرب فرقت میں آنکھوں میں راتیں کا تناغم عشق کی چاشنی سے کم نہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ شعوری طور پر دوری کا احساس نہ ہونے کے باوجود لاشعور میں پوشیدہ احساس جاگنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

نہ دل میں تیری یاد تھی نہ تیرا خواب تھا کوئی
یہ رات بھر کا جاگنا عجیب سا لگا مجھے

تصور اور تصویر کو فرقت کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ تصور اور تصویر کے حوالہ کی تصویر کشی بھی تم سوچنا میں کچھ یوں نظر آتی ہے:

چند لمحوں کا تعلق تھا ترے ساتھ مگر
ہم تصور میں تری یاد بسا کر روئے

میں سوچ کی صحراؤں میں تصویر بنا لوں
آنکھوں میں چھپالوں کے تجھے دل میں بسالوں

تصور اور تصویر کے ساتھ ساتھ جاناں اور جانِ جاناں کے الفاظ کو بھی ڈاکٹر افتخار بیگ کی شاعری میں منفرد انداز میں دیکھا جا سکتا ہے:

پھر تری تصویر نے جاناں صدائیں دیں مجھے
سوچ کے صحراؤں کا ہر رنگ ہے نکھرا ہوا

کبھی تو فرقت کے زہر کاٹنے تم اپنی پلکوں سے چن کے دیکھو
کہ سرد راتوں کے زخم کتنے عجیب ہوتے ہیں جانِ جاناں

اس کتاب میں نظموں کے عنوانات بھی کرب فرقت کے غماز نظر آتے ہیں ۔ مثال کے طور پر بچھڑنے کے بعد، کرب، جاگتی آنکھوں کے پینے ، فرقت نامہ فرقوں کا عہد نامہ یا فاصلوں کا عذاب صدا بہ صحرا، ہے لیکن اس میں بھی کرپ فرقت کی روح کچھ ہوں
حلول کر گئ ہے ـ

غم فرقت میں
میری آنکھ سے مو تی بر سے

میں

بہت خوش ہو ں
مجھے آج تری یاد آئ

 

 

 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com