اُردو اصناف ادب میں غزل کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ غزل نے غم جاناں سے غم دوراں کا سفر نہایت کامیابی سے طے کیا ہے۔ آج غزل کے موضوعات متعین اور محدود نہیں ہیں۔ زندگی کی متنوع کیفیات اور جذبات و احساسات کا عکس آئینہ غزل میں واضح نظر آتا ہے۔ دور حاضر کی غزل میں فرد کی ذات کے جملہ پر اسرار حوالے اور لاشعوری محرکات کا ذکر موجود ہے۔
افتخار بیگ کی غزل میں مذکورہ بالا موضوعات کی جھلک پائی جاتی ہے۔ وہ بنیادی طور پر جدید نظم کے شاعر ہیں۔ ان کی شاعرانہ طبیعت کے لیے نظم زیادہ موزوں ہے۔ اسی لیے انھوں نے نظم نگاری کی طرف بھر پور توجہ بھی دی ہے۔ اُن کے دو شعری مجموعے منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ اُن کا پہلا شعری مجموعہ ” بھی تم سوچنا “ جنوری ۱۹۹۹ء میں اور دوسرا شعری مجموعہ در ولفظوں میں سانس لیتا ہے ۲۰۱۶ ء میں شائع ہوا۔ یہ آزاد نظموں کا مجموعہ ہے۔ کبھی تم سوچنا میں غزلیں اور نظمیں شامل ہیں ۔ غزلوں کی تعداد صرف اٹھائیس ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے غزل گوئی کی طرف بہت کم توجہ دی ہے۔ اُن کا زیادہ تر رجحان نظم گوئی کی طرف ہے۔ اس امکانی خدشہ کے پیش نظر کہ کہیں ان کی نظم گوئی کے بالمقابل ان کی غزل گوئی نظر انداز نہ ہو جائے ، اس لیے ان کی غزل کا تنقیدی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
کوئی بھی غزل گو شاعر ہو وہ اپنی مشق سخن کا آغاز کلاسیکی اور رومانوی موضوعات سے کرتا ہے۔ افتخار بیگ کی غزل میں بھی کلاسیکی اور رومانوی موضوعات پائے جاتے ہیں۔ ان کی ابتدائی غزل میں غزل کی روایت کے اثرات واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
ہونٹوں پہ ترے عہد وفا ڈھونڈ رہا ہوں پاگل ہوں کہ صحرا میں صبا ڈھونڈ رہا ہوں
وحشت کا یہ انداز بھی کیا خوب ہے جاناں پھولوں میں ترا رنگ ادا ڈھونڈ رہا ہوں
یہ میرا جنوں ہے کہ تری یاد ہے جاناں
ہر رات ڈھلی ایک نیا دیپ جلا لوں
رومانوی شاعر عہد حاضر کے سلگتے ہوئے مسائل سے آنکھیں نہیں ملاتا۔ وہ یا تو ماضی کے جھروکوں میں پناہ گزیں ہو جاتا ہے یا پھر مستقبل کے دھندلے نقوش اس کے لیے زیادہ دیدہ زیب ہوتے ہیں۔ وہ نا موافق ماحول کو بدلنے کی بجائے محبوب کی آنکھوں میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ وہ چاندنی راتوں میں تنہائی کی خواہش کرتا ہے اور منزل کے صرف دھندلے نشان ہی اس کی تسکین کے لیے کافی ہوتے ہیں کیونکہ وہ پیار کی راہوں میں بھٹکنے کو مقصد حیات سمجھتا ہے۔ یہ رومانوی انداز افتخار بیگ کی غزل میں موجود ہے۔
ملاحظہ کیجیے:
میں اپنے ہی ماحول کی نظروں میں ہوں مجرم
آنکھوں میں تری کوئی پناہ ڈھونڈ رہا ہوں
کاش میں چاندنی راتوں میں اکیلا ہوتا کاش تم چاند کی آغوش میں بیٹھے ہوتے
کاش میں پیار کی راہوں میں بھٹکتا رہتا کاش منزل کے نشاں اور بھی دُھندلے ہوتے
اُن کی غزل میں رومانوی کیفیات کا اظہار ان کے ابتدائی ذہنی رجحانات کا پتا دیتے ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ ان کی غزل میں سماجی اور معاشی مسائل کے اظہار کے برعکس روایتی موضوعات بیان کم ہے۔ افتخار بیگ کی غزل میں تہذیبی و سماجی ابتری اور معاشی محرومیوں کا ذکر تو انا لہجے میں ملتا ہے۔ انھوں نے ایک دردمند اور حساس شاعر کی طرح لوگوں کے دردو غم کو شدت سے محسوس کیا ہے۔ انھیں ہسپتالوں میں مجبور مریضوں کا ہجوم اور فاقوں سے بلکتے ہوئے لوگ اُداس کر دیتے ہیں۔ مجبورو بے نو لوگوں سے ہمدردی اور مفلوک الحال عوام سے دلی وابستگی اُن کے شعری لیجے کوئز نہ بنادیتی ہے۔
ہسپتالوں میں یہ مجبور مریضوں کا ہجوم
میرے احساس کو مجرم سا بنا دیتا ہے
زندگی کے اُجالے سمٹتے رہے لوگ فاقوں کی زد میں بلکتے رہے
کرب بڑھتا رہا جسم کٹتے رہے، ذہن جلتے رہے، خون بکتا رہا
وہ سمجھتے ہیں کہ سماجی محرومی اور معاشی بدحالی کا سبب طبقاتی نظام ہے جس کی وجہ سے معاشرہ میں مستقل طور پر دو طبقات موجود ہیں۔ استحصالی طبقہ کسانوں، مزدوروں اور غریبوں کی خوشیوں کا غاصب ہے۔ وہ ان کی محنت کا استحصال کرتا ہے اور وسائل حیات پر قابض ہونے کے سبب احساس تفاخر کا شکار ہے۔ مجبور محروم لوگوں کے ہمہ جہت مسائل عظمت انسانی اور وقار آدمیت کے تصور کو بُری طرح مجروح کرتے ہیں۔ اشعار ملاحظہ کیجیے:
اُس کو عظمت کے تفاخر سے کہاں فرصت ہے کون افلاک سے افلاس کو جھک کر دیکھے
رستے میں تو افلاس کی دیوار کھڑی ہے پھر کیسے تجھے جان میں فاقوں سے بچالوں
افتخار بیگ کی یہ دلی تمنا ہے کہ کسی طرح ایک ایسا معاشرہ متشکل ہو جائے جہاں فرد آزادی اور مساوات کے اصولوں کے تحت زندگی گزار سکے۔ سماج سے غربت، بھوک اور احساس محرومی کا خاتمہ ہو جائے اور ہر طرف راحت و خوش حالی کے گلاب مہک اٹھیں۔ اس ضمن میں اگر شاعر کے لہو سے رفعت و عظمت حاصل ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
بستیاں سرخ گلابوں سے مہک جائیں سبھی
شہر افلاس کو کرنوں سے سجائیں یارو
کاش میرا لہو اس دور کو رفعت بخشے
کاش بکتے ہوئے انسان نہ سکتے ہوتے
افتخار بیگ کی شاعری میں ایک اضطرابی کیفیت پائی جاتی ہے کہ آخر حاکم وقت نے لوگوں کی سوچ پر پہرے کیوں بٹھائے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے دل میں اُجالے کی تمنار کھے تو اسے موت کے گھاٹ کیوں اُتار دیا جاتا ہے۔ حاکم شہر آخر جینے کی سزا کیوں دیتا ہے۔ اگر کوئی چاند ستارا ظلمت شب میں عقل و خرد اور طبقاتی شعور کی روشنی پھیلاتا ہے تو اسے دارورسن کی سزا کیوں دی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک ایسا استحصالی نظام ہے جو جبر و تشدد کے ذریعے اپنی حاکمیت قائم رکھتا ہے۔ شاعر نے استعاراتی زبان میں اس صورت حال کو یوں بیان کیا ہے:
جاؤ پھر دارورسن کا جشن تم برپا کرو ظلمتوں کے دیس میں اک چاند ہے اُترا ہوا
پھر کوئی روشن ستارا دار پر اُترا ہے آج وقت کی دہلیز پر پھر خون ہے بکھرا ہوا
افتخار بیگ کی غزل میں سماجی محرومی اور معاشی بدحالی کا حوالہ ملتا ہے۔ انھوں نے عوام کی خوش حالی اور آزادی کے خواب ایک حساس شاعر کے طور پر دیکھتے ہیں جیسا کہ ایک دردمند دل رکھنے والا کوئی بھی شخص عوامی بھلائی کی بات کرتا ہے۔ سیاسی ، سماجی اور معاشی حوالوں کے باوجود ان کی شاعری میں ایک واضح نظام فکر کا کوئی تصور نمایاں نہیں ہوتا۔ وہ انسانی مسائل کا ادراک تو رکھتے ہیں لیکن طبقاتی شعور کی بنیاد پر نہیں ، جیسا کہ ترقی پسند شعرا سیاسی غلامی ، سماجی محرومی اور معاشی بدحالی کے خاتمے کے لیے ایک واضح انقلابی فکر رکھتے ہیں۔ اُن کے ہاں ترقی پسند شعرا کے برعکس بے بسی اور لاچارگی کا احساس ہوتا ہے۔
اشعار ملاحظہ کیجیے:
ہر گلی مدفن ہے گر ہم کیا کریں بھوک ٹھہری معتبر ہم کیا کریں
اک طرف ساری صباحت آبسی اک طرف اُجڑے نگر ہم کیا کریں
ہم تو اپنا خون دل بھی دے چکے گل نہیں گلشن میں گر ہم کیا کریں
کیوں شہر میں خوشیاں ہوئی کم بات کرو جی
ہر سمت ہیں کیوں درد و الم بات کرو جی
زندگی میں تھک چکا اب رات بھر آنسوؤں کا یہ چراغاں کس لیے
مرا شعور شب بھر پھرا تھا گلیوں میں فصیل شہر میں کوئی بھی در نہ دیکھ سکا
وہ نظام جبر کے خلاف سینہ سپر ہو کر خو لا نے کی بجائے زمانے کے کسی پیمبر کی نا موجودگی کی شکایت کرتے ہیں۔ مرا شعور تو شب بھر پھرا تھا گلیوں میں اُن کے نزدیک زمانے کا کوئی پیمبر ہی استحصالی نظام کو تہ و بالا کر سکتا ہے اور معاشرے میں عدل، مساوات اور آزادی کی قدروں کو فروغ دے سکتا ہے۔ یہ خالصتا ایک رومانوی نظریہ ہے جو انقلابی جذبہ و احساس کی واضح طور پر نفی کرتا ہے۔ شعر دیکھیے:
آج سوچو کہ زمانے کا پیمبر ہے کہاں
سب دیے ڈوب گئے ظلم یہاں عام ہوا
اُن کی غزل میں وجودی طرز فکر کا اظہار ملتا ہے۔ عالمی جنگوں کے اختتام پر صنعتی تہذیب کی شکست وریخت اور مذہب کے انہدام کے نتیجے میں وجودیت کا تصور ابھرا۔ وجود کو جو ہر پر تقدم حاصل ہوا۔ اس تصور کی رو سے آزادی اور انتخاب کا حق کرب کا احساس پیدا کرتا ہے اور انسانی وجود کے اظہار کی مختلف حالتیں خوف ،تشویش، بیگانگی اور بوریت کی صورت میں نمایاں ہوتی ہیں۔ افتخار بیگ کی غزل میں انسانی وجود کا کرب ہمیشہ جلتا اور سکتا ہے۔ اس سلسلے میں منزل کا تعین یا کسی الوہی پیغام کی پیروی نا قابل تسلیم ہے۔ انسان کے جیون کا کرب ملاحظہ کیجیے:
رے اشکوں کو ابھی اور بھی کچھ بہنے دو
رات بھر جلنا ، سکنا تو مرا کام ہوا
میرا جیون تو یہی ہے کہ سلگتے رہنا
یاد صحراؤں میں راتوں کو بھٹکتے رہنا
صنعتی سماج میں فرد نہ صرف اپنی پہچان کھودیتا ہے بلکہ وہ سماجی رشتوں سے بھی بیگا نہ محض ہو جاتا ہے۔ وہ کسی فرد کی ذات میں موجود در دوام کی تفہیم نہیں کرسکتا۔ محض مشین کا پرزہ بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ جدید عہد کا المیہ ہے کہ آنکھوں میں محبت اور اپنائیت مفقود ہو چکی ہے، جن احباب کو ہم اپنے دل کے قریب سمجھتے ہیں وہ بھی اپنے رویوں سے لاتعلقی اور بے گانگی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس صورت حال کی بھر پور عکاسی اُن کی غزلوں میں موجود ہے۔
کیوں آج نگاہوں میں اُتر آئی ہے دُوری
آئے ہیں بڑی دُور سے ہم بات کرو جی
مکیں تھا دل میں مرے پر کھنڈر نہ دیکھ سکا
وہ میری ذات کا اُجڑا نگر نہ دیکھ سکا
جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ وجودی فلسفے میں فروکسی الوہی ہدایت یا آسمانی صحائف کا مقلد نہیں ہوتا اور نہ اس کی ذات سے ہٹ کر کوئی ضابطہ اخلاق مسلط کیا جا سکتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا فرد الہی ہدایت سے محروم ہو کر ایک عظیم روحانی قوت اور یقین و اعتماد سے تہی ہو گیا۔ اثبات ذات کی کوشش میں کرب اور کسک سے چھٹکارا ممکن نہیں ۔ اس لیے نیلگوں افلاک کے نیچے خوشی کے لیے ترسنا اور اُجالوں کی تمنا میں سکنا اس کا مقدر ٹھہرا۔
پہلے افلاک کے پرنور سمندر سے کبھی
کوئی آواز سماعت کی خوشی پا نہ سکی
رات کا سلسلہ درد نہ ٹوٹے گا کبھی
تم اُجالوں کی تمنا میں سلگتے رہنا
یہ بات خوش آئند ہے کہ ان کی غزلوں میں عالم گیر اداسی نہیں ہے۔ وہ زندگی سے پیار کرتے ہیں اور پیار ہی سے زندگی کو خوب صورت بنانا چاہتے ہیں۔ وہ دل کے ویرانوں میں پیار کے خوشبودار پھول کھلانے کی بات کرتے ہیں تا کہ بکنے والی نسلوں اور آنے والے لمحوں کے لیے لازوال محبت کا بے لوث جذبہ عام ہو ۔ گلاب لفظوں سے اداس لمحوں کی رت کو بہار میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
پیار سوچوں میں نئے دیپ جلا دیتا ہے
دل کے ویرانے میں کچھ پھول کھلا دیتا ہے
اُداس لفظوں میں لفظ سارے گلاب لکھنا
سلگتی آنکھوں کے سرخ ڈوروں میں خواب لکھنا
آؤ انسان کی بکتی ہوئی نسلوں کے لیے
کچھ نئے رنگ نئے پھول اگائیں یارو
افتخار بیگ کی غزل کا اسلوب سادہ اور دل کش ہے۔ ان کی غزل میں تشبیہات اور استعارات بہت کم ملتے ہیں۔ انھوں نے بوجھل اور بھاری بھر کم تراکیب سے گریز کیا ہے۔ فطری سادگی اورفنی خلوص نے ان کی غزل کو صوری و معنوی حسن عطا کیا ہے۔
نوٹ:یہ مضمون گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے (تھل کالج میگزین) سے لیا گیا ہے۔